1
0
Wednesday 1 Apr 2015 12:46

پراکسی وار ایک زاویہ نگاہ

پراکسی وار ایک زاویہ نگاہ
تحریر: سید اسد عباس تقوی

قارئین کرام!
اسرائیل نے فلسطین کی سرزمین پر قبضہ ایران کے کہنے پر کیا تھا، تاکہ وہاں حماس اور جہاد فلسطین کے نام سے پراکسیز کو وجود میں لایا جاسکے! اسی طرح لبنان پر بھی اسرائیل نے ایران کے کہنے پر قبضہ کیا تھا، تاکہ لبنان میں ایرانی پراکسی حزب اللہ تشکیل پاسکے۔ افغانستان پر حملے کے لئے سوویت یونین کو بھی ایران نے ہی ابھارا تھا، تاکہ وہاں پر ایران اپنی پراکسی کو وجود میں لاسکے۔ بحرین کے حکمرانوں نے اپنے عوام کو ایران کے کہنے پر ہی بنیادی انسانی حقوق سے دور رکھا، تاکہ وہاں بھی ایران سے ہمدردی کے جذبات کو فروغ دیا جاسکے۔ سعودی عرب کے مشرقی صوبے کے عوام کو بھی ایرانی حکومت کے کہنے پر ہی حقوق نہیں دیئے جاتے، تاکہ کل کو وہاں بھی ایک ایرانی پراکسی بنے۔ عراق میں داعش کا حملہ بھی ایران کے کہنے پر ہوا، تاکہ عراق میں ایران کی پراکسی وار لڑی جاسکے۔ عالمی میڈیا کے بقول تازہ ترین ایرانی پراکسی جو یمن میں حوثی کے نام سے سامنے آئی ہے، کی تشکیل کا سہرا بھی ایران کے ہی سر ہے۔ علی عبداللہ صالح ایران کے کہنے پر ہی نوے کی دہائی سے حوثیوں پر حملے کر رہا ہے۔ اسی طرح ایران کی آشیرباد سے ہی سعودی حکومت اکثر و بیشتر حوثیوں کے ٹھکانوں پر حملے کرتی تھی، تاکہ 2015ء میں یمن میں حوثیوں کے نام سے ایرانی پراکسی یمن پر قبضہ کرے۔ جس طرح مقبوضہ کشمیر پر بھارت نے پاکستان کے کہنے پر قبضہ کیا تھا، تاکہ اس خطے کے بسنے والے پاکستان کی پراکسی بن سکیں۔ یہ پراکسی وار کو دیکھنے کا ایک زاویہ نگاہ ہے۔

اب اگر آپ میں سے کوئی شخص یہ کہے کہ مذکورہ بالا تمام تر واقعات میں ایران یا پاکستان کا کوئی کردار نہ تھا بلکہ ان دونوں ممالک نے تو اپنی اخلاقی، نظریاتی اور اسلامی ذمہ داریوں کے تحت پسے ہوئے طبقات کی مدد کی، تو کون اسے سمجھدار کہے گا۔ دنیا جو کہتی ہے کہ نہیں یہ پراکسی وار ہے تو ماننے میں کیا حرج ہے۔؟  اچھا چلیں ان معاملات کو ایک اور زاویہ نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ایران نے اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کو اس لئے مدد دی، تاکہ وہ عرب دنیا پر اپنا تسلط قائم کرسکے، اسی طرح لبنان میں بھی اسرائیلی جارحیت کے لئے لبنانی عوام کو اس لئے مدد دی گئی، تاکہ ایران کو عرب دنیا میں اثر و رسوخ حاصل ہو۔ شام میں بھی ایران اسی سبب سے لڑ رہا ہے کہ عربوں کو شکست ہو۔ عراق میں داعش کے خلاف عراقیوں کو مدد دینے کا مقصد بھی عراق پر ایران کا قبضہ ہے۔ بحرین، احصاء، قطیف کے پسے ہوئے عوام کی بھی اخلاقی اور سیاسی حمایت اسی لئے کی جاتی ہے، تاکہ وہ عرب دنیا کو چھوڑ کر عجم کا حصہ بن جائیں۔ یمن کو بھی اسی نیت اور ارادے سے مدد فراہم کی جا رہی ہے۔ یوں میں نے اس لئے سوچا کہ آج کل میڈیا پر اس کا بہت شور و غوغا ہے۔ لہذا اس زاویہ نگاہ سے سوچنے میں بھلا کیا قباحت ہے۔

قارئین کرام! کیا آپ کو یوں سوچنے میں کوئی قباحت نظر آئی؟
میں نے اس امر پر بھی غور کیا کہ وہ گروہ جن کو ایران کی پراکسی کہا جاتا ہے، میں قدر مشترک کیا ہے؟  بہت غور و خوض کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ ان تمام گروہوں میں قدر مشترک ان کا مسلمان ہونا، نیز دنیا میں تنہا رہ جانا اور عالمی و علاقائی سطح پر ان کی کوئی شنوائی نہ ہونا ہے۔ شاید اکثر اہل فکر و نظر اس نظریئے سے متفق نہ ہوں، ان کا خیال ہو کہ نہیں بھائی ایسا نہیں، ایران کی پراکسیز میں قدر مشترک تو ان کا شیعہ ہونا ہے۔ چلیں اسی مفروضے کو ہی لے لیتے ہیں۔ کیا فلسطینی شیعہ ہیں؟ کیا بوسنیا کے مسلمان شیعہ تھے؟ کیا برما والے شیعہ تھے؟ کیا مصر کے عوام جن کے انقلاب پر ایران نے ان کی سیاسی و اخلاقی حمایت کی شیعہ تھے؟ کیا یمن کے زیدی معروف معنی میں شیعہ ہیں؟ کیا کشمیری مسلمان شیعہ ہیں؟ کیا الجزائر کی اسلامی تحریک شیعہ تھی؟ ایران تو ان سب کی اخلاقی، سیاسی، سفارتی اور مالی مدد کرتا رہا ہے اور کرتا ہے۔ پس قدر مشترک وہی ہے جو میں نے قبل ازیں بیان کی۔

آئیں اب ان گروہوں کی طرف جن کو ایران مدد دیتا ہے اور جن کا تعلق شیعہ مسلک سے ہے۔
لبنان! یہ وہ ملک ہے جہاں ستر کی دہائی سے قبل شیعہ کو بدبودار جانور کے نام سے جانا جاتا تھا۔ شیعہ نوجوان کو فوج، سرکاری اداروں میں ملازمت نہیں ملتی تھی، نہ ہی انہیں سکولوں میں داخلے ملتے تھے، اگر ملتے بھی تھے تو بچہ معاشی حالات کے ہاتھوں مجبور ہوکر میٹرک سے آگے نہ جاسکتا تھا۔ اس اثناء میں اسرائیل نے لبنان پر حملہ کر دیا۔ یہ حملہ ایران نے نہیں کروایا تھا، نہ ہی ایران نے اسرائیل سے کہا تھا کہ لبنان کے ان علاقوں پر قبضہ کرنا جہاں شیعہ اکثریت میں ہیں۔ مسائل تو پہلے ہی کافی تھے، اسرائیلی حملے نے ان کو دو آتشہ کر دیا۔ لبنان کے اہل سنت کو الفتح اور دیگر عرب ممالک کے طفیل کہیں نہ کہیں سے مدد مل جاتی تھی، تاہم لبنان کا شیعہ نوجوان جائے تو کہاں جائے۔ ان نوجوانوں کے پاس واحد راستہ سوویت امداد کی جانب لپکنا تھا، جو بہرحال انہیں کسی نہ کسی صورت مل ہی جاتی تھی۔ اشتراکی گروہوں کا حصہ بن کر یہ نوجوان نہ دین کے رہتے تھے اور نہ دنیا کے۔ ان حالات میں لبنان کے چند علماء نے ملت کی حالت کو بدلنے کی ٹھانی اور اس مقصد کے لئے دنیا کی واحد اسلامی طاقت جو ان کی ہم مسلک بھی تھی، سے مدد کا تقاضا کیا۔

ایران نے اپنے بھائیوں کی مدد کی۔ ساتھ ساتھ ایران نے الفتح اور دیگر فلسطینی گروہوں کو بھی مدد دینا شروع کی، چونکہ ایران سمجھتا تھا کہ فقط لبنان کے شیعوں کو طاقت ور کرنے سے اسرائیل کا مقابلہ ممکن نہیں ہے، بلکہ اس کے لئے امت مسلمہ کے ہر گروہ کو جو مزاحمت پر یقین رکھتا ہے، قوی کرنا اور ان کے مابین ہم آہنگی ضروری ہے۔ ایران کا مزاحمتی تحریکوں کو مدد کرنے کا مقصد سعودیہ یا کسی اور عرب ملک پر تسلط نہ تھا بلکہ اس مدد کی واحد وجہ اسرائیل کا ناپاک وجود تھا، جو مسلمانوں کے قلب میں ایک خنجر کی مانند پیوست کیا گیا تھا۔ ایران آج بھی اسی ہدف کو مدنظر رکھ کر فلسطین کے مزاحمتی گروپوں کی مدد کرتا ہے، جس میں حماس، حزب اللہ، جہاد فلسطین اور ان تمام گروہوں کا مرکز شام شامل ہیں۔

ایران نے افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف ہزارہ برادری اور شمالی اتحاد کی مدد کی، ہزارہ برادری کی صورتحال بھی تقریباً لبنان جیسی ہی تھی۔ پشتونوں اور دیگر گروہوں کو سعودیہ، قطر، کویت، عرب امارات نیز امریکہ و پاکستان کی مدد حاصل تھی۔ یہاں بھی ایران نے ہزارہ کی خواہش پر ان کی مدد کی، تاکہ وہ سوویت یونین کے خلاف جہاد میں شریک ہوسکیں اور اپنے علاقوں کا دفاع کرسکیں۔ لبنان کی طرح افغانستان میں بھی ایران نے فقط ہزارہ کی مدد نہیں کی، کیونکہ اسے احساس تھا کہ فقط ہزارہ کی مدد کرنے سے سوویت یونین کے خلاف افغان جنگ نہیں جیتی جاسکتی۔ اس کے ثبوت کے لئے ایک بات کافی ہے کہ کئی برس تک گلبدین حکمت یار ایران میں مقیم رہے اور افغانستان کے مقتول صدر برہان الدین ربانی کے علاوہ کئی دیگر افغان گروہوں کی ایران کھل کر مدد کرتا رہا۔

جیسا کہ میں نے قبل ازیں ذکر کیا کہ ایران نے داعش سے نہیں کہا تھا کہ وہ عراق پر حملہ آور ہوں اور موصل، نینوا اور تکریت کو اپنے زیر تسلط لانے کے بعد کربلا اور نجف پر حملوں کی بات کریں۔ نہ ہی ایران نے عراقی افواج سے کہا تھا کہ وہ اپنے دفاع کو ترک کرتے ہوئے اپنے شہروں کو بے آسراء چھوڑ دیں۔ ایران عراق میں بھی وہاں کے مقامی لوگوں کے کہنے پر ان کی مدد کے لیے وارد ہوا۔ لبنان اور افغانستان کی مانند عراق میں بھی ایران کی مدد فقط شیعہ مسلک کے لئے نہیں ہے بلکہ ایران اس امر سے بخوبی آگاہ ہے کہ شیعہ اور سنی عراقی معاشرے کے دو بازو ہیں، ان دونوں بازؤں کی قوت و طاقت کے بغیر عراق میں دیرپا امن ممکن نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ عراق میں کرد صدر، اہل سنت اسپیکر اور شیعہ وزیراعظم کے انتخاب میں عراقی عوام کی سیاسی سطح پر مدد کی گئی، تاکہ ملک میں سیاسی عمل کو تقویت حاصل ہو۔

ایران ہر ملک میں ایک ہی انداز سے مدد نہیں کرتا، بحرین کے مسلمان جو ایک پرامن تحریک چلا رہے ہیں، کو سفارتی اور اخلاقی سطح پر حمایت کے ذریعے مدد مہیا کی جاتی ہے۔ اسی طرح سعودیہ میں احصاء اور قطیف کے باسیوں کو بھی سفارتی اور اخلاقی مدد و حمایت حاصل ہے، جیسے پاکستان جموں کشمیر کے باسیوں کو اب اخلاقی اور سفارتی سطح پر مدد مہیا کر رہا ہے۔ اخلاقی، سفارتی، سیاسی، عسکری مدد کا سلسلہ دنیا میں عموماً چلتا رہتا ہے۔ دنیا کے اکثر ممالک اپنی اپنی پالیسیوں کے تحت دنیا کے خطوں میں آباد دیگر اقوام کی حمایت کرتے ہیں۔ امریکہ بہادر جو دنیا میں جمہوریت کا چمپئین بنا پھرتا ہے، چائنہ اور جنوبی کوریا سمیت عرب ممالک کے عوام کو جمہوریت کے درس دیتا ہے اور ان ممالک میں اٹھنے والی کسی بھی تحریک کی اپنے مفادات کے مطابق سیاسی نیز سفارتی حمایت کرتا ہے۔

کوئی بھی ملک ایران کے مدد دینے کے انداز سے اختلاف کرسکتا ہے، اسرائیل اگر یہ کہے کہ ایران فلسطینیوں یا حزب اللہ کو مدد نہ دے اور دنیا کے سامنے واویلا کرے کہ اس کی مملکت کو ایران سے خطرات ہیں تو کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ دوسرے بھی اعتراض کرنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں، مثلا داعش والے کہ سکتے ہیں کہ ایران کیوں عراقیوں کو مدد کر رہا ہے، جیسا کہ آج کل خلیج کے عرب ممالک کا کہنا ہے کہ ایران یمن میں مداخلت بند کرے، لیکن کوئی بھی ملک اپنا ہو یا پرایا اس بات سے انکار نہیں کرسکتا کہ ایران نے جہاں جہاں مدد کی ہے، وہاں مدد کی ضرورت نہ تھی۔ فلسطینیوں کو اگر ایران مدد نہ دیتا تو آج وہ بیچارے غلیلوں سے ٹینکوں پر حملے کر رہے ہوتے، اگر لبنانیوں کو مدد نہ ملتی تو آج اسرائیلی لبنان سے باہر نہیں بلکہ شام کی سرحد پر بیٹھا ہوتا، اسی طرح اگر داعش کے خلاف ایران عراق کو مدد نہ دیتا تو یہ گروہ کب کا اپنے عقائد کے مطابق نجف و کربلا میں امام علی ؑ اور امام حسین ؑ کے مزارات کو پامال کرکے پورے عراق میں ’’اسلامی خلافت‘‘ کا قیام عمل میں لا چکا ہوتا۔

مدد لینے اور مدد دینے کا سلسلہ تو دنیا میں یونہی چلتا ہی رہے گا۔ اہم سوال یہ ہے کہ ہم کسی بھی معاملے کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ ہمارا معیار حق کیا ہے؟ کیونکہ ہم سے ہمارے فہم، آگہی اور بصیرت کی بنیاد پر سوال کیا جانا ہے۔ ممکن ہے میرا تجزیہ خود ایرانیوں کے نزدیک بھی قابل قبول نہ ہو اور وہ اس میں بیان کی گئی کئی باتوں کو قبول نہ کرتے ہوں۔ میں ایران سے باہر بیٹھے ہوئے ایک شخص جو حالات پر نظر رکھنے کی کوشش کرتا ہے، کی حیثیت سے مسائل کو دیکھتا ہوں، اسی حیثیت سے میں نے انہیں بیان کر دیا ہے۔ میں ایران کا ترجمان نہیں ہوں۔ ایران کا سرکاری نقطہ نظر ان کا ترجمان ہی بیان کرسکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 451383
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ریحان بھائی
Pakistan
ماشاءاللہ، خوبصورت سوالات اور عمدہ تجزیہ۔
ہماری پیشکش