1
0
Monday 6 Apr 2015 12:45

یمن کا حالیہ بحران اور اِسکا پس منظر (2)

یمن کا حالیہ بحران اور اِسکا پس منظر (2)
تحریر: سلمان رضا
salmanrazapk@gmail.com

سعودی سالمیت کو خطرہ یا سعودی عرب سے یمن کو خطرہ:
جس دن سے سعودی جارحیت شروع ہوئی ہے اس دن سے میڈیا میں یہ خبریں جاری ہیں کہ یمن میں حوثی شیعہ مسلمانوں نے حکومت پر قبضہ کر لیا ہے۔ اور یہ جنگ سنی سعودی عرب اور شیعہ یمن کے درمیان ہونے لگی ہے۔ جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے اور یمن کی عوامی تحریک میں حوثی شیعہ مسلمانوں کے شانہ بشانہ شافعی سنی مسلمان بھی شامل ہیں۔ سعودی عرب کی یمن کے داخلی معاملات میں مداخلت والی پالیسی کی وجہ سے اہلسنت عوام بھی یمن میں سعودی عرب کو اتنا ہی ناپسند کرتے ہیں، جتنا یمن کے شیعہ مسلمان۔ دوسرا یہ کہ اس جنگ کو ایران سعودی عرب کی جنگ قرار دیا جا رہا ہے۔ جبکہ ایران کا ایک بھی فوجی یمن میں موجود نہیں البتہ ایران کی اخلاقی و انسانی ہمدردی والی امداد یمن کے عوام کو حاصل ہے۔ اس کے برعکس سعودی عرب کی طرف سے یمن میں باقاعدہ جنگ مسلط کی جارہی ہے۔ باعث حیرت یہ ہے کہ حملہ سعودی عرب نے یمن پر کیا ہے لیکن ہمارے ہاں یہ بات گردش کر رہی ہے کہ سعودی عرب کو خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ دیگر یہ کہ یمن میں حکومتی تبدیلی سرحد کے اِس پار ہوئی ہے، لیکن بے چینی سرحد کے اُس پار سعودی عرب میں ہونے لگی ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ سعودی سرحد کے جنوب میں واقع ملک یمن میں اگر امریکہ و اسرائیل مخالف حکومت قائم ہو جائے تو اس سے سعودی عرب کو کیا خطرہ ہو سکتا ہے۔ جبکہ سعودی عرب کے شمال میں ناجائز اسرائیلی صیہونی ریاست قائم ہو جاتی ہے لیکن سعودی عرب کو اس سے کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوتا۔

سعودی عرب کے شمال میں عراق اور شام میں داعش کے درندے کشت خون کا بازار گرم کردیتے ہیں لیکن سعودی سلامتی کو کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوتا، شائد اس لئے کہ وہ اپنے بھیجے ہوئے لوگ تھے۔ اسی طرح یمن میں سعودی سرحد کے متوازی پچھلی ایک دہائی سے القاعدہ پروان چڑھ رہی ہے لیکن سعودی عرب کی سلامتی کو کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اس خطے میں امریکہ، اسرائیل، آل سعود، القاعدہ اور داعش کے درندے ایک برتن کے چٹے بٹے ہیں۔ جبکہ انصار اللہ کا شعار یہ ہے ’’اللہ اکبر، مردہ باد امریکہ مردہ باد اسرائیل اور اسلام زندہ باد‘‘ اس سے پتہ چلتا ہے کہ انصاراللہ کی تحریک مسلمانوں کے اصل دشمن امریکہ واسرائیل کے خلاف بھی اتنی ہی غضبناک ہے جتنی یمن کی امریکہ نواز حکومت کے خلاف ۔ ہمیں یاد رہے کہ یہ جنگ شیعہ سنی کے درمیان نہیں اور نہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان ہے بلکہ یہ امریکی حلیف حکومتوں اور یمن کے غیور اور شجاع عوام کے درمیان ہے۔ اور ایران سمیت پوری دنیا کے غیرت مند عوام کی اخلاقی حمایت یمنی عوام کو حاصل ہے۔

سعودی حکومت اور حرمین شریفین:
پاکستان میں سعودی عرب کی پناہ یافتہ حکومت اور سعودی مسلک کی بعض تنظیمیں ہمیشہ سے مسلمانوں میں حرمین شریفین کے نام پر مذہبی استحصال کرتی رہی ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سعودی فوج یمن پر حملہ کرتی ہے اور پاکستان میں یہ بات مشہور کی جاتی ہے کہ یمنی عوام سے حرمین شریفین کو خطرہ ہے۔ کیا یمنی عوامی تحریک غیر مسلموں کی تحریک ہے، جو اس سے حرمین کو خطرہ ہو۔ یا یہ کہ یمنی انصار اللہ اور سنی مسلمانوں نے سعودی عرب پر حملہ کیا ہے، جو خطرہ ہے کہ حرمین کو کہیں نقصان نہ پہنچ جائے۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ یمنی مسلمانوں کے علاوہ پوری دنیا کے مسلمان اپنی جان و مال فدا کرکے بھی حرمین کا دفاع کریں گے، جبکہ سعودی حکومت تو خود ایک جارح قوت کے طور پر یمن پر چڑھائی کئے ہوئے ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ آل سعود اپنی ڈوبتی ہوئی حکومت کو اپنے ہی عوام سے خطرہ ہونے کے باعث حرمین شریفین کا مقدس نام استعمال کرکے پاکستانی مسلمانوں کا مذہبی استحصال کرنا چاہتی ہے۔ درحقیقت پوری دنیا کے مسلمان جانتے ہیں کہ جنت البقیع کے حرم میں امہات المؤمنین، اہلبیت علیہم السلام اور اصحاب رسول (ص) کے مرقدوں کو خود آل سعود نے مسمار کیا تھا اور اگر مرقد رسول کو بھی کسی سے خطرہ ہے تو وہ بھی خود آل سعودہے۔

آل سعود کا اصل خوف:
یمن میں آنے والی تبدیلی سے سعودی عرب کی سرحدوں کو کوئی خطرہ نہیں بلکہ آل سعود کو اصل خطرہ اس بات سے ہے کہ عبدالعزیز کی اولاد میں سے شاہ سلمان آخری چشم و چراغ ہیں اور ان کی عمر 80 سال سے زیادہ ہو چکی ہے اور وہ کئی بیماریوں میں مبتلا ہیں اور ان کے بعد سعودی عرب میں شہنشاہیت کا بحران آنے والا ہے۔ درحقیقت جب سعودی عوام اپنی بغل میں یمنی عوام کے ہاتھوں یمنی حکومت کا بستر گول ہوتا ہوا دیکھیں گے تو سعودی عوام جو پہلے سے آل سعود کی امریکہ نواز پالیسیوں کی وجہ سے حکومت سے نفرت کر تے ہیں، ان کے حوصلے بھی بلند ہوں گے۔ اسی طرح سعودی عرب کے مشرقی صوبوں میں جہاں کی آبادی شیعہ ہے اور تمام تیل کے ذخائر بھی وہیں ہیں، میں گذشتہ چار سال سے جاری حکومت مخالف تحریک اپنے جوبن پر آ سکتی ہے اور جنوبی سرحد جہاں زیدیہ شیعوں کی آبادی ہے وہ بھی اپنی ملحقہ سرحد پر یمنی عوام کی مزاحمت سے سبق سیکھ سکتے ہیں اور ان دونوں کناروں سے چلنے والی تحریک ممکنہ طور پر ریاض تک پہنچ سکتی ہے اور نتیجتاً آل سعود کو عوامی مزاحمت کے نتیجے میں اپنا بستر گول کرنا پڑ سکتا ہے اور یہی وہ خوف ہے جس نے آل سعود کی نیندیں اُچاٹ کر دی ہیں۔ اسی لئے سعودی عرب یمنی عوامی تحریک کو قوت کے ساتھ دبانا چاہتا ہے تاکہ سعودی عوام پر خوف کے سائے منڈلانے لگیں اور وہ بیداری سے کنارہ کشی اختیار کئے رکھیں۔ شائد اسی لئے سعودی عرب نے مصر کی بیداری کے نتیجے میں جنم لینے والی جمہوری حکومت کا بستر گول کرکے وہاں پھر فوجی آمر کی حکومت قائم کرنے میں پوری مدد کی اور پھر اس حکومت کو 12ارب ڈالر کی امدا د بھی فراہم کی۔

نواز شریف حکومت اور پاکستان سے فوج کا مطالبہ:
اگرچہ اس حملے میں سعودی عرب کے ساتھ 9 دیگر ممالک بھی شامل ہیں لیکن جس دن سعودی عرب نے یمن پر حملہ کیا۔ اگلے ہی دن شاہ سلمان نے نواز شریف صاحب کو فون کیا اور پاکستان سے فوج طلب کرلی۔ اور میاں صاحب نے عوامی امنگوں کے برخلاف اپنے مکمل تعاون کا اعلان کر دیا۔ خواجہ آصف صاحب فرماتے ہیں کہ ابھی تو فوج نہیں بھیج رہے لیکن اگر سعودی سالمیت کو خطرہ ہوا تو فوج بھی بھیجیں گے اور پورا دفاع کریں گے۔ ہمارا ان سے سوال ہے کہ حملہ سعودی عرب کرتا ہے اور یمن کی سالمیت کو خطرہ پہنچتا ہے، تو سعودی عرب کو کیا خطرہ ہے اور حرمین شریفین اس قضیئے میں کہاں سے آ جاتے ہیں۔ ہمارا حکومت وقت سے سوال یہ ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج کا خرچ عوام کے ادا شدہ ٹیکسوں سے پورا کیا جاتا ہے اور ہماری فوج کی ذمہ داری پاکستان کی سرحدوں کا دفاع کرنا ہے تو پھر اِس فوج سے آل سعود کا دفاع کیوں کروایا جارہا ہے۔ یہ فوج کوئی کرائے کی قاتل نہیں کہ کبھی اردن پر بمباری کرنے بھیجی جائے تو کبھی بحرین میں عوام کو قتل کرنے پہنچ جائے۔ اس فوج میں پاکستان کے شیعہ سنی عوام کے سپوت شامل ہیں۔ اس فوج میں شامل ماؤں کے جگر گوشے ملکی سالمیت کے لئے اپنی جان دینے کو آمادہ ہیں اور وہ بھی ایسے موقع پر جب پاکستان میں فاٹا سے لے کر بلوچستان اور شہری علاقوں میں کراچی تک پاکستان کی شجاع افواج دہشت گردوں کے ساتھ نبرد آزما ہیں۔ وہ پاکستان کی سالمیت کی جنگ لڑ رہی ہیں۔

گذشتہ دس سالوں میں اس جنگ میں اس بہادر فوج نے اپنے ہزاروں جوانوں کی شہادت دی ہے۔ ایسے حالات میں ان کو کسی دوسرے ملک کی بادشاہت کو بچانے کے لئے بھیجنا کہاں کی عقلمندی ہے۔ ماضی میں ہم نے افغانستان کی جنگ میں مداخلت کرکے دیکھ لیا کہ آج تک ملک اس جنگ کے تباہ کن اثرات سے پاک نہیں ہو سکا اور آج ہماری فوج جو جنگ ملک کے طو ل و عرض میں لڑ رہی ہے وہ اسی جنگ کا نتیجہ ہے۔ لہٰذا ہم اس وطن کی بہادر فوج کو کرائے کی آرمی نہیں بنانے دیں گے۔ سعودی عرب کی آنکھیں کھلنے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ افغانستان و عراق میں دنیا کی سب سے مضبوط کہلائی جانے والی فوج یعنی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا انجام دیکھ لے۔ سعودی عرب اور اس کی اتحادی افواج کا انجام بھی اس سے مختلف نہ ہوگا ۔ افغانستان اور عراق کی جنگوں سے ہمارے حکمرانوں کو بھی سبق لینا چائیے اور اس دلدل میں اپنی فوج کو دھکیلنا کسی بھی طرح دانشمندی نہیں۔ اگر میاں صاحب پر آل سعود کے احسانات ہیں تووہ اپنے بچوں کو سعودی فوج میں بھرتی کروا کر اس مقدس فریضہ کی بجا آوری کرسکتے ہیں۔ اگر سعودی عرب نے میاں نواز شریف کی حکومت کو ڈیڑھ بلین ڈالر دئیے ہیں تو امریکہ نے گزشتہ 10سالوں میں 20 بلین ڈالر دئیے ہیں۔ اب کیا امریکی جنگوں میں اپنی فوج دھکیلنا بھی ہماری ذمہ داری ہو جائے گی۔

پاکستان کا کردار:
پاکستانی حکومت کو چائیے کہ اس جنگ میں فریق بننے کی بجائے ثالث کا کردار ادا کرے اور سعودی عرب کی طرح یمن بھی ہمارا برادر اسلامی ملک ہے۔ پاکستان اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی قوت ہونے کے ناطے اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے فوری جنگ بندی کروائے اور کشت خون کے اس بازار کو ٹھنڈا کروائے، پھر یمن کے تمام طبقات کو شامل ڈائیلاگ کرکے ایک عبوری حکومت جو یمنی عوام کی نمائندہ ہو قائم کی جائے اور پھر اقوام متحدہ کی مدد سے وہاں شفاف انتخابی عمل کے ذریعے انتقال اقدار کا عمل مکمل کیا جائے۔ اگر میاں صاحب آل سعود کے ساتھ اس قدر ہم آہنگ ہیں تو انہیں چائیے کہ آل سعود کو سمجھائیں کہ خود ان کے حق میں بھی یہی بہتر ہے کہ وہ یمن کی عوامی امنگوں کی ترجمان حقیقی نمائندہ حکومت کی راہ میں روڑے نہ اٹکائے ورنہ اگر یمن میں آگ سلگتی رہی تو خود سعودی عرب کا دامن بھی اس سے نہیں بچ سکے گا۔
خبر کا کوڈ : 451814
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Ahsan Shah
United Kingdom
Nice one
ہماری پیشکش