0
Saturday 4 Apr 2015 18:22

تکریت کی آزادی اور اسکے اثرات

تکریت کی آزادی اور اسکے اثرات
تحریر: روح اللہ پورطالب

تکریت کی آزادی کیلئے انجام پانے والا آپریشن، گذشتہ ایک سال کے دوران تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے خلاف عراق میں انجام پانے والا سب سے بڑا آپریشن تھا۔ صوبہ صلاح الدین، جس کا دارالحکومت تکریت ہے، عراق کی مسلح افواج کیلئے خاص اہمیت کا حامل صوبہ ہے اور اسی طرح یہ صوبہ داعش کیلئے بھی بہت زیادہ اہمیت کا حامل علاقہ تھا۔ تکریت شہر کی اسٹریٹجک، اقتصادی اور تاریخی اہمیت اس قدر زیادہ تھی کہ یہ شہر دہشت گردانہ گروہوں کی سرگرمیوں کے مرکز میں تبدیل ہو چکا تھا۔ اس شہر میں انجام پانے والا گرینڈ آپریشن، بغداد کی ہمسائیگی میں واقع صوبہ صلاح الدین کو تکفیری دہشت گرد عناصر سے پاک کرنے کیلئے انجام پایا۔ اس آپریشن کے بارے میں جو اہم ترین نکتہ سیاسی تجزیہ نگاران اور مبصرین کی توجہ کا مرکز بنا وہ امریکہ کی سربراہی میں بننے والے داعش مخالف اتحاد کی کسی مدد کے بغیر اس آپریشن کا انجام پانا تھا۔ اس آپریشن کے دوران جھڑپوں کا مرکز بننے والے علاقوں میں تکریت شہر کے مضافاتی علاقے جو بغداد کے شمال مغرب میں 160 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، الدور (سامرا سے شمال کی جانب 30 کلومیٹر یا تکریت سے جنوب کی جانب 25 کلومیٹر)، العلم (تکریت سے شمال مشرق کی جانب 16 کلومیٹر)، تکریت یونیورسٹی اور العوجہ شامل ہیں۔ اس آپریشن میں عراق کی مسلح افواج نے عوامی رضاکار فورسز کے دستوں کے تعاون سے تکریت پر تین جانب (شمال میں اسپائکر ہوائی اڈے، مشرق میں تکریت کے مشرقی ہوائی اڈے اور العلم کی جانب سے جبکہ جنوب میں تکریت کے فوجی ہوائی اڈے اور العوجہ کی جانب) سے حملہ کیا۔ 
 
  اس تحریر میں تکریت شہر کی تکفیری دہشت گرد عناصر سے آزادی کے اثرات اور نتائج کا جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے۔ ہم اپنی بحث کا آغاز عراق کے صوبہ صلاح الدین کی جیوپولیٹیکل پوزیشن سے کریں گے اور اس کے بعد اس صوبے سے تکفیری دہشت گرد عناصر کے خاتمے سے عراق کی مسلح افواج اور حکومت پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لیں گے اور آخر میں صوبہ صلاح الدین کی آزادی سے خود داعش اور اس کے بین الاقوامی حامیوں پر پڑنے والے اثرات پر نظر ڈالیں گے۔ 
 
1)۔ صوبہ صلاح الدین اور تکریت شہر کا سیاسی جغرافیا:
صوبہ صلاح الدین کا شمار عراق کے بڑے صوبوں میں ہوتا ہے جو دارالحکومت بغداد کے شمال میں واقع ہے۔ صوبہ صلاح الدین کا کل رقبہ 24 ہزار 751 مربع کلومیٹر ہے۔ یہ صوبہ اپنے مخصوص جغرافیائی محل وقوع کے باعث انتہائی اسٹریٹجک اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ یہ صوبہ عراق کے صوبے نینوا اور شہر موصل کو صوبہ الانبار اور شہر کرکوک سے ملاتا ہے۔ صوبہ صلاح الدین کا دارالحکومت تکریت ہے جو خود بہت زیادہ اسٹریٹجک اہمیت کا حامل شہر سمجھا جاتا ہے۔ تکریت کا شہر، بغداد کے شمال مغرب میں 160 کلومیٹر کے فاصلے پر دریائے دجلہ کے کنارے واقع ہے۔ اس کی کل آبادی 4 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ تکریت، عراق کے سابق ڈکٹیٹر صدام حسین کی جائے پیدائش ہونے کے ناطے اور شمال میں واقع صوبہ نینوا کو مغرب میں واقع صوبہ الانبار اور مشرق میں واقع کرکوک سے ملانے کی خاطر بہت زیادہ اہمیت کا حامل شہر ہے۔ جون 2014ء میں تکفیری دہشت گروہ داعش نے اس شہر پر قبضہ کر لیا تھا جو یکم مارچ 2015ء کو عراقی مسلح افواج اور عوامی رضاکار فورسز کی جانب سے شروع ہونے والے گرینڈ آپریشن کے ایک ماہ بعد آزاد کروا لیا گیا۔ 
 
2)۔ تکریت کی آزادی کے عراق اور اس کی مسلح افواج پر اثرات:
تکریت کی آزادی کیلئے انجام پانے والی فوجی کاروائی، تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے خلاف عراق کی مسلح افواج اور عوامی رضاکار فورسز کی اہم ترین فوجی کاروائی جانی جاتی ہے۔ اگرچہ اس سے پہلے بھی عراق کی مسلح افواج اور عوامی رضاکار فورسز داعش کے خلاف کئی فوجی کاروائیاں انجام دے چکی ہیں جن میں سے آمرلی آپریشن، جرف الصخر آپریشن اور مقدادیہ آپریشن جیسی اہم کاروائیاں شامل ہیں، لیکن تکریت آپریشن اس لئے اہم ترین آپریشن جانا جاتا ہے کہ یہ شہر تکفیری دہشت گرد عناصر کے علاوہ سابق بعث پارٹی کے بچے کھچے عناصر کا بھی گڑھ اور مرکز تصور کیا جاتا ہے۔ لہذا اس آپریشن میں عراقی فورسز داعش کے علاوہ سابق بعث پارٹی سے وابستہ عناصر سے بھی روبرو تھیں۔ تکریت کی آزادی کے عراق اور اس کی مسلح افواج پر اثرات درج ذیل ہیں:
 
الف)۔ صوبہ صلاح الدین اور تکریت شہر کی آزادی کیلئے انجام پانے والا آپریشن اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ تکریت شہر کی مکمل آزادی بعثی اور داعش سے وابستہ دہشت گرد عناصر کیلئے ایک سنگین شکست ثابت ہو گی، کیونکہ وہ تکریت اور صوبہ صلاح الدین کو اپنا مرکز قرار دیتے ہیں اور اسٹریٹجک اہمیت کے حامل اس شہر کو ہاتھ سے دھو بیٹھنے کے بعد شکست کے دروازے ان پر کھل جائیں گے۔ اسی وجہ سے تکفیری دہشت گرد عناصر اور بعثی عناصر نے تکریت شہر کے دفاع کیلئے اپنی پوری توانائیاں صرف کر دیں۔ 
 
ب)۔ عراق کی مسلح افواج اور فورسز کیلئے تکریت اور صوبہ صلاح الدین کی آزادی کا دوسرا بڑا اثر یہ ہے کہ ان کے مدمقابل کے حوصلے پست ہو گئے ہیں۔ داعش اور بعثی دہشت گرد عناصر کا مورال تکریت شہر کھو دینے کے بعد شدید مشکلات کا شکار ہو چکا ہے۔ اسی وجہ سے یہ کہنا درست ہو گا کہ تکریت کی آزادی کا سب سے زیادہ فائدہ عراق کی مسلح افواج اور عوامی رضاکار فورسز کو پہنچا ہے۔ 
 
ج)۔ تکریت اور صوبہ صلاح الدین میں عراقی فورسز کو ہونے والی کامیابی کا تیسرا بڑا اثر جیوپولیٹیکل مسائل سے متعلق ہے۔ جیسا کہ بیان ہو چکا ہے کہ صوبہ صلاح الدین نینوا، موصل، الانبار اور کرکوک کے درمیان واقع ہونے کے ناطے ان کے درمیان ایک پل کی حیثیت رکھتا ہے اور اس لحاظ سے بہت زیادہ اسٹریٹجک اہمیت کا حامل صوبہ ہے۔ اب جبکہ صوبہ صلاح الدین مکمل طور پر عراقی فورسز کے قبضے میں آ چکا ہے تو عراق کے دوسرے صوبوں میں سرگرم تکفیری دہشت گرد عناصر کا آپس میں رابطہ ختم ہو چکا ہے، اور یہ امر عراقی فورسز کیلئے بہت بڑی کامیابی تصور کی جا رہی ہے۔ 
 
د)۔ تکریت شہر کی آزادی درحقیقت صوبہ صلاح الدین میں داعش اور بعثی عناصر کے قبضے میں موجود آخری ٹھکانے کی آزادی اور ان کا مکمل صفایا ہے۔ عراقی فورسز اس سے پہلے تکریت کے شمال میں الشرقاط اور بیجی، مغرب میں توزخورمات اور الدور اور جنوب میں الفریس اور بلد کو پہلے ہی تکفیری دہشت گرد عناصر سے آزاد کروا چکے ہیں اور صوبہ صلاح الدین کا دوسرا بڑا شہر سامرا بھی ابتدا سے عراقی فورسز کے قبضے میں ہے۔ صوبہ الانبار کا انتہائی وسیع شمالی اور مشرقی حصہ صوبہ صلاح الدین سے متصل ہے جبکہ دوسری طرف سے نینوا، کرکوک، بغداد اور دیالا کے صوبے اس سے ملتے ہیں۔ لہذا صوبہ صلاح الدین کی آزادی عراق کے مرکزی اور مشرقی صوبوں کی سیکورٹی صورتحال بہتر بنانے میں بنیادی کردار کی حامل ہو گی۔ اسی طرح یہ کامیابی دارالحکومت بغداد کی سیکورٹی صورتحال مضبوط ہونے کا باعث بھی بنے گی۔ 
 
ہ)۔ تکریت اور صوبہ صلاح الدین کی آزادی کا اثر عراق کی معیشت پر بھی ظاہر ہو گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عراق میں خام تیل کے ذخائر کا نصف حصہ تکریت شہر کے اردگرد پایا جاتا ہے، لہذا جب تک اس علاقے پر داعش اور بعثی عناصر کا قبضہ تھا وہ ان ذخائر سے حاصل ہونے والے خام تیل کو اپنے حامی ممالک کے ہاتھوں سستے داموں فروخت کر کے حاصل شدہ درآمد کو دہشت گردانہ مقاصد کیلئے استعمال کر رہے تھے۔ اس کی وجہ سے عالمی منڈی میں تیل کی قیمت بھی گر گئی تھی اور داعش کے حامی ممالک بھی نفع کما رہے تھے۔ لیکن اب جب یہ علاقہ عراقی فورسز کے ہاتھ لگ چکا ہے تو خام تیل سے حاصل ہونے والی درآمد میں اضافہ ہو گا اور اس سے ملکی معیشت مزید مضبوط ہو گی۔ 
 
و)۔ صوبہ صلاح الدین کی تکفیری دہشت گرد اور بعثی عناصر سے آزادی کا اہم ترین نتیجہ اور اثر اس صوبے میں رہنے والے افراد کے مذہبی تشخص پر ظاہر ہو گا۔ صوبہ صلاح الدین میں شیعہ، اہلسنت اور مسیحی برادری کے لوگ زندگی بسر کر رہے ہیں۔ چونکہ اس علاقے کی آزادی کیلئے جاری آپریشن میں سنی، شیعہ اور عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والے جنگجو شامل تھے، لہذا اس مشترکہ جدوجہد کے نتیجے میں حاصل ہونے والی کامیابی علاقے کے سنی، شیعہ اور عیسائی مکینوں میں موجود اتحاد اور وحدت کی فضا کو مزید فروغ بخش دے گی۔ اس کامیابی کے نتیجے میں سنی اور شیعہ قبائل میں یہ احساس پیدا ہو گا کہ وہ اکٹھے ہو کر زیادہ بہتر انداز میں اپنی حفاظت کر سکتے ہیں۔ 
 
3)۔ تکریت کی آزادی کے داعش اور اس کے بین الاقوامی حامیوں پر اثرات:
اب تکریت شہر اور صوبہ صلاح الدین کی آزادی کے تکفیری دہشت گرد گروہ داعش اور اس کے حامی ممالک پر اثرات کا مختصر جائزہ لیتے ہیں:
الف)۔ صوبہ صلاح الدین سے دہشت گرد عناصر کی پسپائی کا پہلا اور اہم نتیجہ یہ ہے کہ داعش کی شکست صرف ایک دہشت گرد گروہ کی شکست نہیں، بلکہ ایک طے شدہ چند جہتی منصوبے اور اسٹریٹجک سوچ کی شکست ہے جس کے پیچھے مغربی اور خطے کے بعض عربی ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیز کارفرما تھیں۔ تقریبا تین سال پہلے سے یہ کہا جا رہا تھا کہ امریکہ، برطانیہ، فرانس، ترکی اور سعودی عرب ایک ایسا منصوبہ تیار کرنے میں مصروف ہیں جس کے ذریعے وہ ایران سے مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں آ سکیں گے۔ درحقیقت یہ ممالک، امریکہ کی سربراہی میں ایک ایسا حکومتی ماڈل پا چکے تھے جو گوریلا جنگ جیسے ہتھکنڈے سے لیس تھا۔ انہوں نے ایران سے مقابلہ کرنے کیلئے داعش جیسا گروہ تشکیل دیا جس کا اصل مقصد عراق میں ایران کے اثرورسوخ کو ختم کرنا تھا۔ 
 
ب)۔ تکریت اور صوبہ صلاح الدین میں تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کی شکست کا دوسرا اہم اثر امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات پر ظاہر ہو گا۔ 2003ء میں عراق پر امریکہ کی فوجی جارحیت کے بعد اس ملک میں دہشت گرد گروہوں کی بنیاد ڈالی گئی۔ اس وقت سے لے کر اب تک ان دہشت گرد عناصر کو امریکہ نے فوجی تربیت دی جبکہ سعودی عرب نے ان کی مالی اور نظریاتی مدد فراہم کی۔ لہذا سعودی عرب اور امریکہ کی حمایت اور سنی اکثریت صوبے صلاح الدین پر قبضہ، تکفیری دہشت گرد عناصر کیلئے نہایت اہم تصور کیا جاتا تھا۔ لیکن اب جب صوبہ صلاح الدین تکفیری دہشت گردوں کے قبضے سے آزاد ہو چکا ہے تو اس دہشت گرد گروہ کے بین الاقوامی حامی بھی اپنا ایک اہم ہتھکنڈہ کھو چکے ہیں اور عراق میں فتنہ انگیزیوں سے بے بس نظر آتے ہیں۔ 
 
ج)۔ تکریت شہر کی آزادی کا تیسرا نتیجہ داعش کی اسٹریٹجک شکست اور اس کے بعثی پالیسی میکرز کی ناکامی ہے۔ تکریت میں داعش کی شکست درحقیقت بعثی – تکفیری اتحاد کی شکست ہے۔ بعث پارٹی، جو سابق عراقی ڈکٹیٹر صدام حسین کے دور میں ملک کی اہم ترین سیاسی جماعت جانی جاتی تھی، نے صدام حسین کی سرنگونی کے بعد مخفیانہ طور پر اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں اور تکفیری اور دوسرے دہشت گرد گروہوں کےساتھ رابطے بڑھائے۔ جب تکفیری دہشت گرد گروہ داعش نے عراق میں اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا تو بعث پارٹی سے وابستہ عناصر کے ساتھ اس کا گٹھ جوڑ ہو گیا۔ اسی وقت سے صوبہ صلاح الدین اور تکریت شہر بعثی – تکفیری عناصر کا مرکزی گڑھ بن گیا۔ صوبہ صلاح الدین بعث پارٹی کا بھی مرکز تصور کیا جاتا تھا۔ ایسی پارٹی جس نے صدام حسین اور حسن البکر جیسے رہنماوں کو جنم دیا۔ لہذا تکریت اور صوبہ صلاح الدین پر عراقی فورسز کا قبضہ، تکفیری دہشت گرد عناصر اور بعث پارٹی سے وابستہ عناصر کے درمیان گہرے اختلافات کا باعث بنے گا اور ساتھ ہی عراق کی سیکورٹی فورسز کے حوصلے بلند ہونے میں بھی اہم کردار ادا کرے گا۔ 
 
د)۔ صوبہ صلاح الدین اور تکریت شہر کی حالیہ فوجی آپریشن میں کامیابی کا ایک اور اہم نتیجہ اس صوبے کے سنی قبائل اور عوامی رضاکار فورسز کا مسلح افواج کے ساتھ تعاون اور اتحاد ہے۔ صوبہ صلاح الدین میں داعش مخالف سنی قبائل صرف "الجبور" قبیلے تک ہی محدود نہیں بلکہ اس صوبے کے تمام سنی قبائل نے حالیہ فوجی کاروائی میں عراقی فورسز کی مدد کی ہے۔ الجبور قبیلے نے تو صوبہ صلاح الدین میں داعش کے داخلے کے آغاز سے ہی اس کی مخالفت کر دی تھی۔ اس وقت عراقی حکومت، فوج اور پولیس کی نظارت میں سرگرم عمل عوامی رضاکار فورس یا پبلک کمیٹیز میں ہزاروں کی تعداد میں سنی قبائل سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں۔ یہ امر بذات خود تکریت شہر کی آزادی کے نتیجے میں حاصل ہونے والی بڑی کامیابی تصور کیا جاتا ہے۔ 
 
ہ)۔ داعش کو حاصل ہونے والی اس عظیم شکست کا ایک اور اہم اثر یہ ظاہر ہوا ہے کہ بغداد اور سامرا جیسے اہم شہروں کی سیکورٹی بیلٹ مزید وسیع ہو گئی ہے۔ مزید اہم نکتہ یہ ہے کہ موصل کی جانب عراق کی مسلح افواج اور عوامی رضاکار فورسز کی پش قدمی اور اسے آزاد کروانے کا راستہ مزید ہموار ہو گیا ہے۔ موصل اور صوبہ نینوا کی داعش سے آزادی کا مطلب عراق سے داعش کا مکمل خاتمہ ہو گا۔ 
 
نتیجہ گیری:
مختصر طور پر یہ کہنا درست ہو گا کہ امریکہ کی سربراہی میں بننے والے نام نھاد داعش مخالف بین الاقوامی اتحاد کی جانب سے کسی قسم کی کوئی مدد اور تعاون کے بغیر عراق کی مسلح افواج اور رضاکار فورسز کی جانب سے تکریت شہر اور صوبہ صلاح الدین کو تکفیری اور بعثی دہشت گرد عناصر سے آزاد کروانا ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ اس آپریشن نے اس حقیقت کو واضح کر دیا ہے کہ خطے سے متعلق عالمی استکباری قوتوں کے بنائے گئے شیطانی منصوبے کو صرف مسلح جدوجہد سے ہی ناکام بنایا جا سکتا ہے۔ امریکہ کی جانب سے عراق پر فوجی قبضے کے آغاز سے ہی تکریت کا شہر اور دوسرے کئی عراقی شہر تکفیری دہشت گرد عناصر کا گڑھ بن چکے تھے۔ ان دہشت گردوں نے اب تک اپنے دہشت گردانہ بم حملوں اور غیرانسانی کاروائیوں میں ہزاروں بے گناہ افراد کو موت کی نیند سلا دیا۔ اسی طرح گذشتہ چند ماہ کے دوران تکریت شہر ہزاروں تکفیری دہشت گردوں کا سامرا کی طرف حملہ ور ہونے کا دروازہ بن چکا تھا۔ ان حملوں میں سینکڑوں ایسے افراد شہید ہو گئے جو حرمین امامین عسکریین علیھم السلام کا دفاع کرنے میں مصروف تھے۔ لہذا صوبہ صلاح الدین کی آزادی کیلئے انجام پانے والے فوجی آپریشن کو نہ فقط داعش کے خلاف ایک اہم اور اسٹریٹجک فتح قرار دیا جا سکتا ہے بلکہ یہ آپریشن عراق میں شیعہ سنی اتحاد کی علامت بن چکا ہے۔ یوں تکریت شہر اور صوبہ صلاح الدین کی آزادی نہ فقط صدام حسین کی سرنگونی کے بعد عراق کی سیاسی تاریخ میں ایک اہم موڑ ثابت ہو گی بلکہ اس ملک میں اتحاد اور وحدت کی فضا کو فروغ دینے میں بھی بہت زیادہ مددگار ثابت ہو گی۔ 
خبر کا کوڈ : 451947
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش