0
Sunday 12 Apr 2015 06:11
علمائے اسلام کانفرنس رپورٹ اول

مسالک سے بالاتر ہو کر مشترکات اور دین کو ترجیح دینا ہو گی، علمائے اسلام کانفرنس میں اتفاق

مسالک سے بالاتر ہو کر مشترکات اور دین کو ترجیح دینا ہو گی، علمائے اسلام کانفرنس میں اتفاق
رپورٹ: این ایچ نقوی

جامعۃ الکوثر اسلام آباد میں علمائے اسلام کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، جس میں ملک بھر کی دینی جماعتوں کے نمائندہ وفود نے شرکت کی۔ کانفرنس میں روضہ امام حسین علیہ السلام عراق سے آئے وفد نے بھی شرکت کی۔ مہمان وفد کی سربراہی شیخ علی الافتلاوی نے کی۔ تلاوت کلام پاک کی سعادت موذن و قاری روضہ امام حسین علیہ السلام قاری رسول العامری نے حاصل کی۔ نظامت کے فرائض تحریک فیضان اولیاء کے سربراہ، البصیرہ کے صدر نشیں اور ملی یکجہتی کونسل کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل ثاقب اکبر نے ادا کئے۔ کانفرنس سے حافظ ریاض حسین نقوی، علامہ شیخ محسن نجفی، علامہ محمد امین شہیدی، پیر محفوظ مشہدی، اسد اللہ بھٹو، علامہ افتخار نقوی، ڈاکٹر عابد روف اورکزئی، مفتی گلزار احمد نعیمی، علامہ عبدالجلیل نقشبندی، مولانا جاوید اکبر ساقی اور دیگر اہم مذہبی و سیاسی قائدین نے بھی خطاب کیا۔ علمائے اسلام کانفرنس میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان شرکت نہ کر سکے، جن کی نمائندگی کے فرائض سینیٹر و سابق وفاقی وزیر، جے یو آئی (ف) کے مرکزی رہنما اور مولانا فضل الرحمان کے بھائی مولانا عطاالرحمان نے ادا کئے۔ سردار محمد خان لغاری، علامہ اعجاز حسین، خالد سیال مرکزی اہل حدیث، وفد جامعہ سلفیہ، آقا مرتضی پویا، حاجی ابو شریف، عبدالجلیل نقشبندی، ڈاکٹر عامر تحسین اور دیگر نے بھی شرکت کی۔

علامہ شیخ محسن علی نجفی نے مہمانان کانفرنس کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ شکر گزار ہوں کہ آپ نے عزت بخشی اور اس درسگاہ میں تشریف لائے، انہوں نے کہا کہ عراق کے مقدس مقام سے تشریف لائے وفد کے بھی شکر گزار ہیں، انہوں نے واضح کیا کہ نجف اشرف کی تقریبات میں کوئی سیاسی آدمی موجود نہیں ہوتا، اتحاد و اتفاق کے حوالہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دین شریعت اسلامی دو اہم ستونوں پر قائم ہے، ستون سے مراد راویان سنت نبوی (ص) ہیں۔ سنت کی ذمہ داری قرآن کی تشریح ہے۔ شیعہ راوی اور سنی راوی دو ستون ہیں جن کے ذریعہ یہ احادیث ہم تک پہنچتی ہیں۔ ابن کثیر احادیث کے میدان میں مقام رکھتے ہیں۔ شیعوں میں فاسد المذہب سے حدیث نہیں لی جاتی۔ شیعہ سنی کوئی ان دو ستونوں میں سے کسی ایک کو گرانا نہیں چاہے گا۔ کسی فرقہ کے راویان حدیث کو ہٹانے سے علم کا بڑا ذخیرہ ہمارے ہاتھ سے چلا جائے گا۔

تنظیم اسلامی کے رہنما ڈاکٹر غلام مرتضٰی، نے عاکف سعید کی نمائندگی کرتے ہوئے کہا کہ نبی اکرم (ص) نے اپنی آخری خطبہ میں سب سے بڑی بات یہ کی کہ انہوں نے ہر طرح کے تعصب کی نفی کردی، عربی کو عجمی اور عجمی کو عربی پر فضیلت نفی کر دی، فضلیت صرف تقویٰ کو دی۔ قبیلے و برادریاں صرف تعارف کا ذریعہ ہیں۔ اسلام فساد نہیں بلکہ دنیا میں امن چاہتا ہے۔ اسلام فساد کے خلاف ہے، ہاں کچھ ہٹ دھرم جو باز نہ آئیں ان کے خلاف رسول اللہ نے بھی جہاد کیا۔ گنتی کے چند لوگوں پر تلوار اٹھائی گئی۔ سورۃ حجرات میں ہے کہ تمام آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ اہل کتاب کو بھی دعوت دی گئی کہ آو مشترکات پر اکٹھے ہو جاو، توحید سے آگے جاکر اہل کتاب کو بھی دعوت دی گئی۔ ہم مسلمان کے مابین تو ایمانیات ثلاثہ موجود ہیں جن پر ہم متفق ہو سکتے ہیں۔ بھائیوں میں اگر تنازعہ ہو بھی جائے تو صلح کرا دیا کرو۔ جاہلیت اولیٰ پھر سر اٹھا رہی ہے رنگ نسل کے ساتھ ساتھ مذہبی تعصب بھی پھیل رہا ہے۔ اسطرح کی مجالس جاری رہیں، تاکہ مسلمانوں کے مابین اتحاد پیدا کیا جائے۔ اختلاف کو بڑھ کر افتراق کی صورت اختیار نہیں کرنی چاہیے۔ ہمیں دشمن کی مکر و فریب کی چالوں کو انہی پر لوٹانا ہو گا اور امت واحد اور ملت واحدہ کے تصور پر کام کرنا ہو گا، نظریہ پاکستان کے وقت امت واحد کا تصور ملحوظ خاطر تھا۔ آزاد میڈیا پر پیش کی جانے والی بحثیں افتراق کا باعث بن رہی ہیں۔ من دیگرم گو دیگری کا ماحول پیدا کیا جا رہا ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف فتویٰ دیئے جا رہے ہیں۔ اس طرح کے فورم میں مل بیٹھنے کے اصول طے ہوں اور پھر امت واحدہ کا پیغام لیکر عوام تک پہنچایا جائے۔

مولانا عبدالجلیل نقشبندی، علمائے اسلام کانفرنس ایک خواب تھا، علمائے اسلام کے پرچم تلے شیعہ، بریلوی، اہل حدیث، دیوبندی اور دیگر موجود ہیں، ملی یکجہتی کے عنوان سے اکٹھے ہوتے ہیں، لیکن یکجہتی کو نعرہ تب موثر ہوگا جب یہ پیغام عوام تک پہنچایا جائے۔ علمائے کرام کا ایسا گلدستہ دیکھ کر عوام میں تعصب ختم ہو سکتا ہے۔ جامعہ الکوثر میں تمام مکاتب فکر کی قیادت اکٹھی ہوئی اس پر علامہ ساجد نقوی کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ ایسے پروگرام دیگر مقامات پر بھی منعقد کئے جائیں۔ اختلاف کو دور کرنے کے لئے اصلاحی روئیے پروان چڑھائے جائیں۔ قاضی حسین احمد فرماتے تھے کہ قدر مشترک اور درد مشترک پر تمام مسلمان اکٹھے ہوں۔ قتل سے مسئلہ حل نہیں ہوگا، سوائے عداوت بڑھنے کے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ ہمیں ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرکے آگے بڑھنا چاہیے۔ کئی ملوک اپنا اسلحہ بیچ کر کاروبار چلارہے ہیں، یمن کا مسئلہ سنی شیعہ مسئلہ نہیں ہے، امریکہ و اسرائیل مسلمانوں کو لڑا رہے ہیں۔ سعودیہ اور ایران کو مذاکرات کی میز پر لانے میں پاکستان اپنا کردار ادا کرے۔

رہنما جمعیت علماء اسلام (ف) اور ملی یکجہتی کونسل کے سرگرم رہنما ڈاکٹر عابد روف اورکزئی نے اپنی فکر انگیز تقریر کے دوران کہا کہ آپ سب ڈیڑھ ارب آبادی کے رہنما ہیں، ڈیڑھ ارب آبادی کے مسلمان آج ذلیل خوار کیوں ہیں۔ ہم تقسیم در تقسیم ہیں، جغرافیائی، مسلکی، قومیت، زبان، عرب و عجم۔ جن کی نبی علیہ صلوۃ سلام نے نفی کی تھی انہیں ہم نے انہیں الہ بنا رکھا ہے۔ ان الہ کی نفی کر دی جائے تو اس ڈیڑھ ارب کی آبادی کی تذلیل نہیں کر سکتا۔ کیا مسلمان ان صفات کے حامل ہیں جن کی بدولت انہیں عالم کی رہنما سونپی جائے، ہمیں چاہیے کہ آج کی اس علمائے اسلام کانفرنس کے ذریعہ شوریٰ غم خواری امت، شوریٰ خلافت کا قیام عمل میں لائیں تاکہ اسلام کو تمام بنی نوع انسان تک پہنچایا جاسکے۔ انسان کیا بے جان بھی اسلامی نظام کے منتظر ہیں۔ ہم نے مل جل کر دنیا کو اسلام سے محروم کر رکھا ہے، ہم نے اپنے اپنے مسالک کے بت بنا لئے ہیں۔ ڈیڑھ ارب کی امت کو ہزاروں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ فتویٰ کو اداروں کے حوالہ کر دیا جائے۔ حرب قتل قتال، نظام اسلامی، کون کافر کون مسلمان کو ادارے انجام دیں۔ نماز و طلاق کے مسائل بیشک اپنے اپنے مسلک کے علما فتوی دیں۔

ثاقب اکبرنے ڈاکٹر عابد روف کی تجاویز کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ تجاویز دیگر عالمی پلیٹ فارمز پر بھی آئی ہیں، کاش اسلامی نظریاتی کونسل کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ ان ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہو سکے۔ جامعہ نعیمیہ کے سربراہ مفتی گلزار نعیمی کا کہنا تھا کہ فورمز پر خوبصورت باتیں کی جاتی ہیں، لیکن یہ ہی باتیں اپنے مدارس میں طلبا کو نہیں کہی جاتیں، ہم جب درس دے رہے ہوں، بخاری پڑھا رہے ہوں، تو بتائیں کہ اس حدیث کے رجال میں ایک شیعہ ہے۔ اگر میرے مآخذ جہاں سے اہل سنت لیتے ہیں ان کے لئے اگر شیعہ قابل قبول ہے تو میرے لئے بھی تمام مکاتب فکر کے لوگ قابل قبول ہونے چاہییں۔ شرح تہذیب تو پڑھاتا ہوں لیکن شیعہ کے لئے فرقہ واریت کا درس دیتا ہوں۔ ناظم اسٹیج ثاقب اکبر نے مفتی گلزار نعیمی کے خیالات کو سراہتے ہو ئے کہا کہ ایسے علما پر امت اسلامیہ کو ناز ہے۔

علامہ افتخار حسین نقوی، ممبر نظریاتی کونسل کا کہنا تھا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کا قیام کسی نعمت سے کم نہیں، قراردادمقاصد کے موقع پر سب علما نے مل کر کام کیا۔ اسلامی نظریاتی کونسل قوانین کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالنے کے لئے سفارشات مرتب کرتی ہے۔ اختلافی نقطہ نظر اس فورم پر بغیر کسی جھگڑے کے بیان کیا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ ہمارے مدارس میں بھی ہونا چاہیے، اسٹیجوں پر ایک دوسرے کے خلاف تقاریر کرنے کی آئین بھی اجازت نہیں دیتا۔

اسد اللہ بھٹو، نائب امیر جماعت اسلامی کا علمائے اسلام کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اتحاد امت وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، طاغوت کی کوشش ہے کہ مسلمانوں کو آپس میں لڑایا جائے، تکفیری طبقہ اور دیگر سازشیں جاری ہے، عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر حملہ کے بعد ڈھیٹائی کے ساتھ جھوٹ بولا گیا، کراچی میں عاشور کے جلوس پر حملے کے بعد بھی حکومتی جھوٹ بے نقاب ہوا اور اس موقع پر علامہ ساجد نقوی نے پریس کانفرنس کرکے اعلان کیا کہ حکومتی ایجنسیاں جس شخص کو خود کش بمبار قرار دے رہی ہیں، یہ تو ایک عزادار تھا خودکش بمبار نہیں۔ اس طرح کی عالمی استعماری سازشیں جاری ہیں۔ یمن میں بھی آج یہ ہو رہا ہے۔ ملی یکجہتی کونسل نے مل بیٹھ کر اس معاملہ کو حل کرنے کا اعلان کیا اور پارلیمنٹ بھی اسی راستہ پر چلی۔ کشمیر و فلسطین میں شہید کرنے سے قبل دشمن ِدین یہ نہیں پوچھا جاتا کہ حنبلی کون اور مالکی کون ہے۔ نبی اکرم (ص) کی گستاخی کے بعد چالیس ملکوں کے حکمران فرانس میں اکٹھے ہوئے۔ آج کا یہ اجتماع ہمارے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک کا ذریعہ ہے۔ ہم جب تک زندہ ہیں اس جدوجہد کو جاری رکھٰیں گے۔

علامہ جاوید اکبر ساقی نے کہا کہ عالمی حالات کے تناظر میں علمائے اسلام کانفرنس کے انعقاد پر علامہ ساجد نقوی کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، پاکستان کو تکفیر، دہشت گردی، انتہا پسندی جیسے اقدامات کا سامنا ہے۔ آج دینی جماعتوں کا فرض بنتا ہے، فرقہ واریت کے خاتمہ کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھائیں، جیسے قائد ملت اسلامیہ شاہ احمد نورانی نے امت کا درد محسوس کیا اسی انداز میں امت کا درد محسوس کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے حکمران بتائیں کہ اس ملک میں مرنے والے مزارات پر حاضری دینے والا، امام حسین کا عزادار ہے، چرچ میں عبادت کرنے والا ہے، حکومت کی ایجنسیاں کس غفلت کا شکار ہیں، ہماری لاکھوں جانیں قربان حرمین شریفین پر، نام نہاد مولوی نے آقائے حسن نصراللہ کے خلاف کہا کہ وہ مکہ و مدینہ پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں، ایسے لوگوں پر جب تک پابندی نہیں لگائی جاتی، قاتل کو قاتل اور مقتول کو مقتول جب کہا جائے گا تو تب پاکستان میں امن قائم ہو سکے گا۔

جاری ہے ۔ ۔
خبر کا کوڈ : 453489
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش