1
0
Saturday 11 Apr 2015 16:09

یمن اور حُوثیوں کی تاریخ پر اجمالی نظر

یمن اور حُوثیوں کی تاریخ پر اجمالی نظر
تحریر: محمد علی جوہری

یمن کے دارالحکومت صنعاء پر قبضے اور پھر سعودیہ کی جانب سے فضائی حملوں کے آغاز کے بعد یمن کا حوثی قبیلہ دنیا بھر میں موضوع بحث بنا ہوا ہے، لیکن عوام  کے ساتھ بہت سے صاحب علم افراد بھی حوثی قبیلے کی تاریخ اور مذہب کے بارے میں مستند معلومات نہیں رکھتے۔  حوثی شیعہ مذہب کے زیدی فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ زیدی شیعہ عقائد کے اعتبار سے اثناء عشری (بارہ امامی) شیعہ سے مختلف ہیں۔ اثناء عشری شیعہ امامت پر نص کے اصول کے قائل ہیں۔ جس کے مطابق امام کے انتخاب کا حق اُمت کی بجائے خدا کو حاصل ہے، جبکہ زیدی شیعوں کا ماننا ہے کہ امامت اگرچہ اہل بیت (ع) کا حق ہے، تاہم اُمت اہل بیت میں سے کسی بھی ایسے راہنماء کو امام مان سکتی ہے جس کا عدل مشہور ہو اور جو ظلم کے خاتمے کے لئے اقدامات کرے۔  معاملات کو سمجھنے کے لئے ہم یمن کی پچھلی ایک دو صدیوں کی تاریخ پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں۔ تاریخی اعتبار سے شمالی یمن زیدی شیعہ اکثریتی علاقہ رہا ہے۔ زیدی شیعوں کے سیاسی تسلط کی تاریخ شمالی یمن میں کوئی ہزار سال تک پھیلی ہوئی ہے۔ اس میں ایسے ادوار بھی ہیں جن میں یہ تسلط شمالی یمن سے بڑھ کے تقریباً پورے یمن میں موجود رہا ہے۔  اس کے برعکس جنوبی یمن جس کا سیاسی دارالحکومت بالعموم عدن کی بندرگاہ ہے، تاریخی اعتبار سے سنیوں کے شافعی مکتبہ فکر کی اکثریت کا گہوارا رہا ہے۔ عدن کی بندرگاہ اور جنوبی یمن کے اکثر حصے اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں پہلے سلطنت عثمانیہ اور بعد میں براہ راست برطانوی سلطنت کے زیر اختیار چلے گئے تھے۔ تاہم شمالی یمن میں دو صدیوں سے قائم شیعہ زیدی امامت نے کسی نہ کسی طرح 1962ء تک اپنی سلطنت کو برقرار رکھا، اگرچہ اُس کی حیثیت کئی ادوار میں علامتی ہی تھی۔

1962ء میں مشرقِ وسطٰی میں جاری عرب سوشلسٹ نیشنلسٹ تحریک کے نتیجے میں مصر کے جمال عبدالناصر کے حامی فوجی افسران نے شمالی یمن میں شیعہ زیدی امامت کے خلاف بغاوت کر دی تھی۔ اس موقعہ پر سعودی عرب کی حکومت نے زیدی امام کا ساتھ دیا تھا جبکہ باغیوں کی امداد کے لئے مصر کے صدر جمال عبدالناصر نے مصری فوج اور بڑی مقدار میں اسلحہ یمن بھیجا تھا۔ یمن کی یہ خانہ جنگی 5 سال تک جاری رہی۔ 1967ء میں اسرائیل جنگ میں بدترین شکست کے نتیجے میں جمال عبدالناصر شمالی یمن سے مصری افواج کے انخلا پر مجبور ہوگیا تھا۔ یوں سعودی عرب اور مصر کے درمیان ایک مفاہمت کے نتیجے میں یمن دو حصوں میں تقسیم ہوگیا تھا۔ ایک طرف شمال میں جمہوریۂ یمن معرض وجود میں آیا تو دوسری طرف جنوبی یمن میں جاری نیشنلسٹ سوشلسٹ گوریلا تحریک کے نتیجے میں برطانیہ کا عدن اور جنوبی یمن کی دوسری نوآبادیوں سے انخلا عمل میں آیا۔ جس کی بدولت عوامی جمہوریۂ یمن یا سوشلسٹ یمن کا قیام عمل میں آیا، جو سرد جنگ کے زمانے میں عرب دنیا کی واحد سوشلسٹ جمہوریہ تھی۔ 1990ء میں ایک معاہدے کے تحت شمالی اور جنوبی یمن میں اتحاد ہوگیا۔ یوں 22 مئی 1990ء کو علی عبداللہ الصالح متحدہ یمن کا پہلا صدر بن گیا۔

22 مئی 1990ء سے 27 فروری 2012ء تک یمن پر بلا شرکت غیرے حکمرانی کرنے والے علی عبداللہ صالح کا تعلق متحدہ یمن کے دارالحکومت صنعاء کے نواح میں مقیم احمر قبیلے سے ہے، جس کی اکثریت زیدی شیعہ ہے۔ خود عبداللہ کا تعلق بھی اسی مذہب ہے۔ عبداللہ الصالح کی متحدہ یمن پر حکومت کے قیام کو چند ماہ ہی گزرے تھے کہ اگست 1990ء میں کویت پر عراق نے قبضہ کر لیا۔ جس کے بعد عرب کی تمام ریاستوں نے صدام حسین کی عراقی حکومت کے خلاف اتحاد قائم کر لیا۔ لیکن یمن کا عمومی جھکاؤ عراق کی جانب تھا۔ جس کی وجہ سے یمن اور دیگر خلیجی ریاستوں کے درمیان تعلقات کشیدہ ہوگئے۔ خصوصاً خلیج کی دوسری جنگ کے موقعہ پر یمن نے کھل کر اپنا وزن عرب اتحاد کے مخالف پلڑے میں ڈال دیا تھا۔ یمن کی خارجہ پالیسی کے ردعمل میں سعودی عرب، کویت اور دیگر خلیجی ممالک کی عاقبت نااندیش قیادت نے اپنے ہاں سے بڑی تعداد میں یمنی شہریوں کو نکال دیا۔ خلیجی ممالک سے بڑے پیمانے پر انخلاء کی وجہ سے یمن میں عوام بہت زیادہ معاشی مشکلات کا شکار ہوگئے، خصوصاً یمن میں بے روزگاری میں بے پناہ اضافہ ہوگیا۔ اس معاشی ناگفتہ بہ صورت حال میں یمن کی عوام میں عرب حکومتوں کے خلاف جذبات کا پیدا ہونا فطری عمل تھا۔

1990ء میں عرب ممالک کی جانب سے یمن کی اقتصادی امداد کی کٹوتی اور عمومی سرد مہری کے رجحان کے بعد سید حسین بدرالدین حوثی نے "شباب المومنین" نامی تنظیم کی داغ بیل ڈالی۔ حسین ایک زبردست خطیب اور اپنے ساتھ لوگوں کو لے کر چلنے میں ماہر تھا۔ اس نے سب سے پہلے نوجوانوں کے اندر اپنا اثر و رسوخ بڑھایا اور بہت سے علاقوں میں ہسپتال، سکولز اور سوشل ویلفیئر کے دوسرے منصوبے شروع کئے۔ ان تمام اداروں میں خاص طور پر “امامی شیعہ دینیات” کے پڑھنے اور پڑھانے کا نظام قائم کیا گیا۔ سید حسین بدر الدین حوثی نے اپنی خطیبانہ مہارت اور انقلابی نعروں سے حوثی قبیلے کے شیعہ قائدین اور عوام کو اپنے گرد جمع کرلیا۔ بہت سے فوجی کمانڈروں اور حزب مخالف کے لیڈروں کو بھی اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہوگیا۔  14 سال کی محنت کی بدولت سید حسین بدر الدین حوثی نے اتنی عسکری قوت مہیا کی کہ اُس نے 2004ء میں یمن  پر سعودی عرب کے ایما پر یمنی فوج کی جارحیت کے خلاف اقدام کیا۔ شباب المومنین کا بانی  سید حسین بدرالدین اور اُس کے بہت سے اہم رفقاء یمنی فوج کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ خیال رہے کہ اس وقت یمن پر زیدی مذہب سے تعلق رکھنے والے علی عبداللہ الصالح کی حکومت تھی۔ سید حسین بدر الدین کی شہادت کے بعد تحریک کی قیادت اُس کے بھائی عبدالمالک الحوثی کے پاس آگئی۔ عبدالمالک الحوثی نے قیادت سنبھالتے ہی شباب المومنین کی تنظیم کو تحلیل کرکے اس کی جگہ نئی تنظیم انصاراللہ قائم کی، جسے عرف عام میں الحوثی تحریک کہا جاتا ہے۔

یمن کی سیاست میں ایک بڑی تبدیلی اُس وقت رونما ہوئی جب تیونس، مصر اور لیبیا میں عرب بہار کی کامیابی کے بعد یمن کے دارالحکومت صنعاء اور دوسرے شہروں میں مظاہرے شروع ہوگئے۔ ان میں وقت کے ساتھ ساتھ شدت آتی گئی۔ حکومت نے مظاہرین سے سختی سے نمٹنے کی حکمت عملی اپنائی۔ 2 ہزار سے زائد افراد مارے گئے۔ 22 ہزار شدید زخمی ہوئے، جبکہ 7 ہزار افراد جیلوں میں قید کر دیئے گئے۔ علی عبداللہ الصالح کی ری پبلکن گارڈز کی جانب سے طاقت کے وحشیانہ استعمال کے باوجود مظاہریں ڈٹے رہے۔ جس  کی وجہ  سے  علی عبداللہ الصالح کو اقتدار سے محروم ہونا پڑا اور یمن کے تمام سٹیک ہولڈرز پر مشتمل حکومت کا قیام عمل میں آیا۔ نئی قائم ہونے والی حکومت کا صدر “عبد ربہ منصور ہادی” بنا، جو سیاسی اعتبار سے مضبوط شخصیت کے مالک  نہ ہونے کے باعث ملکی سطح کوئی مضبوط پالیسی وضع نہیں کرسکا اور بیرونی قوتوں خاص طور پر سعودی عرب کے ہاتھوں استعمال ہوتا رہا اور انکے اشاروں پر ملکی سیاست کو چلانے کی پوری کوشش کی، دوسری جانب وزارت عظمٰی کا عہدہ تمام تر مخالفتوں کے باوجود تکفیری گروہ اخوان المسلمون کی یمنی شاخ جماعت الاصلاح کے پاس آگیا۔ اس طرح یمنی عوام کی اکثریت اقتدار سے محروم رہی، اسی احساس محرومی نے یمنی عوام کو اپنے حقوق کے حصول کیلئے ایک بار پھر میدان میں آنے پر مجبور کر دیا۔ یہاں حالات نے ایک اور کروٹ لی، یمن کے اکثر علاقوں میں  حوثیوں کی اقتدا میں اکثر یمنی قبائلیوں کی جانب سے انقلاب کے حق میں نعرے بلند ہونا شروع ہوئے اور سید عبدالمالک حوثی کی قیادت میں عوامی فورس نے پیش قدمی کرنا شروع کر دی، اور وہ بغیر کسی بڑی مزاحمت کے دارالحکومت صنعاء پر قابض ہوگئے۔ جہاں انہوں نے سب سے پہلے  تکفیری گروه “جماعت الاصلاح” کے وزیراعظم “سلیم باسندوا” کو برطرف کر دیا۔

یمن کے دارالحکومت صنعاء پر انقلابیوں کے مکمل قبضے اور موجودہ وزیراعظم کے استعفٰی کے بعد  قصر صدارت میں اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی جمال بن عمر کی زیر نگرانی انقلابیوں کی نمائندگی کرتے ہوئے حوثی نمائندوں اور باقی یمنی سیاسی جماعتوں کے مابین ایک دستاویز پر دستخط ہوئے۔ جسے “اتفاقیۃ السلم والشراکۃ” (معاہدہ امن و اشتراک) کا نام دیا گیا۔ اس معاہدے کے تحت سابق یمنی حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔ فوری طور پر ایک ٹیکنو کریٹ حکومت کے قیام پر اتفاق ہوا، جس کا وزیراعظم عوامی نمائندہ جماعت حُوثیوں میں سے ہونا قرار پایا اور مستعفی صدر “عبد ربہ ھادی منصور” کو اس مجوزہ حکومت کا عبوری صدر نامزد کیا گیا۔ حُوثیوں نے اس امن معاہدے کی سیاسی دستاویز پر دستخط کر دیئے۔ معاہدے کے بعد جب سعودی عرب نے دیکھا کہ اس معاہدے  کی رو سے یمن میں عوامی حکومت قائم ہوگی، جس کی رو سے یمن کے اندرونی معاملات میں    وہ اپنے ناپاک عزائم میں ناکام  ہوسکتا ہے۔ اسی لئے “عبد ربہ ھادی منصور” کے ذریعے معاہدے    کی مخالفت کرنے کی کوشش کی اور مستعفی صدر “عبد ربہ ھادی منصور” کو یمنی عوام کے  خلاف استعمال کرنے کیلئے دارالحکومت صنعا سے یمن کے دوسرے بڑے شہر عدن فرار کرانے میں   کامیاب ہوا اور اسی کے ساتھ عدن کو یمن کا دارالحکومت قرار دیتے ہوئے اپنے سفارتی عملے کو  بھی عدن منتقل کر دیا اور انقلاب یمن کو  کچلنے کیلئے القاعدہ اور دوسرے تکفیری گروہوں کے  ساتھ اتحاد قائم کی، جسکی وجہ سے عوام میں شدید غم و غصہ پایا جانے لگا۔

اسی لئے حوثیوں کی قیادت میں انقلابیوں نے جنوبی علاقوں کی جانب پیش قدمی کرتے ہوئے عدن کا محاصرہ کرلیا اور اس طرح یمن کے اندر سعودی عرب کے تمام ناپاک عزائم انقلابیوں کے ہاتھوں   خاک میں مل گئے اور یمنی عوام سے ناکامی کا بدلہ لینے کیلئے عین اسی وقت مستعفی صدر  “عبد ربہ ھادی منصور” کی قانونی حکومت کو بچانے کے بہانے سعودی عرب نے کچھ خلیجی ملکوں  کے ساتھ ملکر فضائی حملوں کا آغاز کیا، جسکے نتیجے میں اب تک ہزاروں بے گناہ افراد جن میں   اکثریت بچوں اور عورتوں کی ہے، شہید اور زخمی ہوئے۔ واضح رہے کہ یمن میں جمہوریت کے تحفظ  کا دعویٰ سعودی عرب اور انکے اتحادیوں کی جانب سے محض جھوٹا  پروپیگنڈا ہے، کیونکہ سعودی  عرب اور اسکی تمام حلیف حکومتوں میں دور دور تک جمہوریت کا نام و نشان تک نہیں پایا جاتا اور جس ملک کے اندر جمہوریت نہ ہو، وہ کس طرح دوسرے ملکوں میں جمہوریت کا ڈنڈورا پیٹ سکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سعودی عرب کو اس بات کا خطرہ لاحق ہے کہ یمن میں انقلاب  کی کامیابی کے اثرات سعودی عوام میں بھی مترتب ہوسکتے ہیں اور سعودی مظلوم  عوام کیلئے  یمن کا انقلاب  آئیڈیل بن سکتا ہے، جو صدیوں سے آل سعود کے مظالم کا شکار رہے ہیں۔ خیال رہے کہ سعودی عرب کی ڈیڑھ ہزار کلومیٹر طویل سرحد یمن سے ملتی ہے اور سعودی عرب کے تین صوبے “نجران، جازان اور عسیر” ماضی میں یمن کی سابق سلطنت کا حصہ رہے ہیں، جس پر  سعودی عرب نے ناجائز قبضہ جما رکھا ہے۔

سعودی عرب کی منافقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آج سعودی عرب اسلامی ملک یمن کی عوام کے خلاف جارحیت کے لئے تو اتحاد قائم کرتے ہوئے بے گناہ افراد کو قتل کرنے میں مصروف ہے جبکہ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے فلسطینوں کے خلاف اسرائیل کے حملوں میں فلسطینی مظلوم عوام کی آواز پر مذمتی بیان تک جاری نہیں کیا گیا، یہاں تک سعودی دسترخوان پر پروان چڑھنے والے مفتیوں نے دنیا بھر میں فلسطینی عوام کے حق میں ہونے والے مظاہروں کو حرام قرار دیا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ سعودی اور اس کے اتحادیوں کیلئے یمن کی سرزمین ویٹنام بنے گی اور عنقریب انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑیگا کیونکہ اس وقت یمن کی 70 فیصد آبادی زیدی مسلمانوں پر مشتمل ہے جو ایمانی جذبے سے سرشار  ہے۔ 20 فیصد آبادی سنی بھائیوں کی ہے، جن میں اکثریت شافعی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں، جو زیدیوں کے ساتھ شانہ بہ شانہ انقلاب کی کامیابی کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں، اس لئے یمن میں سعودی عرب اور اس کے حامیوں کے لئے کوئی جگہ نہیں۔
خبر کا کوڈ : 453683
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

عبداللہ
Iran, Islamic Republic of
سلام جوہری بھائی
بہت اچھی روشنی ڈالی ہے یمن اور حوثی قبائل کی تاریخ پر۔ اللہ آپ کی توفیقات میں اضافہ کرے۔ آمین
ہماری پیشکش