1
Sunday 12 Apr 2015 00:41

آل سعود کے فیوض و برکات کی جھلکیاں

آل سعود کے فیوض و برکات کی جھلکیاں
تحریر: عرفان علی

آل سعود کے نمک خوار پاکستان جیسے ملکوں میں حرمین شریفین یعنی مکہ و مدینہ کے تقدس کی آڑ میں امریکی صہیونی اتحادی حکمران آل سعود کا دفاع کرتے آئے ہیں۔ آج جب سعودی و اتحادی ممالک بمباری کرکے یمن کے عرب مسلمانوں کا بے جرم و خطا قتل عام کرنے میں مصروف ہیں تو کوئی اس کی کھلی مذمت نہیں کرتا۔ سعودی جغرافیائی حدود کے دفاع اور سالمیت کے تحفظ کے بیانات دینے والوں سے کوئی یہ تو پوچھے کہ متنازعہ کشمیر پر بھارت کی جارحیت ناجائز اور آزاد و خودمختار ملک یمن پر سعودی فوجی جارحیت جائز کیسے ہوگئی؟۔ افغانستان کی حکومت کی درخواست پر سوویت یونین کی افواج افغانستان میں داخل ہوئیں تو سعودی عرب اور امریکا نے اسے جارحیت کہا۔ اب یمن کے مستعفی صدر عبدربہ منصور ہادی کی درخواست پر سعودی و اتحادی عرب ممالک کی یلغار کس منطق کے تحت جارحیت نہیں ہے؟ ایک مستعفی و مفرور صدر کو جائز حکمران کہنا اور اپنے مادر وطن یمن کا دفاع کرنے والوں کو باغی کہنا، کس اصول کے تحت جائز ہے؟

کیا میں بتاؤں کہ کوئی ایک حدیث نہیں ہے کشمیر کی فضیلت پر لیکن یمن کی مقدس سرزمین کے بارے میں خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی (ص) کی واضح احادیث ہیں۔ صحاح ستہ کی بعض کتب میں بھی اور مختلف تاریخی کتابوں کی مدد سے لکھی جانے والی علامہ شبلی نعمانی اور علامہ سید سلیمان ندوی کی کتاب سیرت النبی(ص) میں بھی یمن اور اہل یمن کی فضیلت کا تذکرہ ہے۔ قریش کے لئے بادشاہت لیکن اہلیان یمن کے لئے ایمان، حدیث نبوی ﷺ میں اس کا ذکر کیا گیا ہے۔ آسان الفاظ میں قریش کی بادشاہت سرزمین ایمان یمن پر حملہ آور ہے۔ یمن کا وہ علاقہ جو سعودی سرحدوں پر واقع ہے، یہی سرزمین حضرت اویس قرنی ؓ ہے جس کے تقدس کو پامال کرنے کے لئے نجد کی نجس سعودی بادشاہت نے یمن پر یکطرفہ جنگ مسلط کی ہے۔ اس گستاخ رسول (ص) بادشاہت نے برطانوی سامراج کے منظور نظر محمد بن عبدالوہاب کی تحریک وہابیت سے ساز باز کرکے حجاز مقدس پر قبضہ کیا اور وہابیت کو بادشاہت کے تابع سرکاری مذہب قرار دیا۔ اس طرح سعودی بادشاہت سنی مذہب کی نہیں غیر مقلد وہابی حکومت ہے اور مکہ کے جنت المعلی اور مدینہ کے جنت البقیع کے مسمار مزارات و زمین بوس قبور ان کی گستاخیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

مسلمانان عالم کے مقامات مقدسہ کو مسلمان نما جس مکتب کے پیروکاروں سے خطرہ ہے وہ نجدی وہابی اور ان کے اتحادی ہیں نہ کہ دنیا کے سنی یا شیعہ مسلمان۔ سعودی صہیونی وہابی بادشاہ کے دیگر اتحادیوں میں بعض ایسی حکومتیں بھی شامل ہیں جن کے ممالک میں مالکی فقہ کے پیروکار اکثریت میں ہیں۔ ابھی موطا امام مالک پڑھیں اور جہاد کے اصول دیکھیں کہ غیر مسلموں کی خواتین، بچوں ور بوڑھوں کوجنگ میں بھی امان حاصل ہوتی ہے اور ان پر حملہ کرنا حرام ہے لیکن آج یمن میں ایک حاملہ عرب مسلمان خاتون نے سعودی بمباری میں جام شہادت نوش کیا ہے۔ گھروں، مساجد اور اسکولوں پر بمباری کی جارہی ہے، یہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کے اسلام کے مطابق تو حرام ہے لیکن سعودی وہابی حکمران اور ان کے اتحادیوں کا محمدی (ص) اسلام سے کیا واسطہ، ان کا پیرو مرشد محمد بن عبدالوہاب نجدی ہے، جس کے مطابق بغیر جنگ کے بھی سب کچھ جائز ہے۔

پاکستان کی قومی اسمبلی و سینیٹ نے مشترکہ اجلاس میں متفقہ قراردادکے ذریعے گول مول اور مبہم باتیں کرکے اپنی جان چھڑانے کی کوشش کی ہے لیکن یمن کے مظلوم و بے بس عرب مسلمانوں کی ہمدردی میں ایک لفظ بھی اس قرارداد میں شامل نہیں، یمن پر جاری جارحیت اور یلغار کی مذمت نہ کرکے پاکستان کی پارلیمنٹ نے جو تاریخی غلطی کی ہے، خدا کبھی انہیں اس فاش اور دانستہ غلطی پر معاف نہیں کرے گا۔ ہم ظالم کی مذمت کئے بغیر مظلوم کے حامی نہیں کہلوا سکتے۔ پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے سرزمین سیالکوٹ کا تقدس پامال کیا ہے۔ علامہ اقبال اسی سرزمین پر پیدا ہوئے اور انہوں نے کہا

فتنہ ملت بیضا ہے امامت اس کی
جو مسلماں کو سلاطیں کا پرستار کرے

حبیب جالب نے شیوخ و شاہ کے بارے میں بہت کچھ لکھا لیکن لاہورکے رائے ونڈ محل کے مکینوں کو کیا معلوم کہ اقبال اور حبیب جالب کون تھے؟ بانی پاکستان محمد علی جناح کو اسی یمن کے زیدی حکمران امام یحی ٰ نے مسئلہ فلسطین پر عربوں کی حمایت پر شکریہ کا خط لکھا تھا اور جناح صاحب نے اس کا جواب لکھا تھا۔ یمن کے یہ زیدی شروع سے ہی سامراج دشمن تھے اور فلسطینیوں کے حق میں بانیان پاکستان بالخصوص علامہ اقبال کے ہم فکر تھے۔ یمن کی زیدی حکومت نے ترکی خلافت عثانیہ کے خلاف برطانوی سامراج کا ساتھ نہیں دیا، نہ ان سے کوئی خفیہ ڈیل کی نہ ہی ترکوں سے غداری کی۔ آل سعود اور اردن کا موجودہ حکمران خاندان جو اس وقت ایک خفیہ ڈیل کے تحت بظاہر الگ الگ دکھائی دیا کرتا تھا لیکن ایک ہی سازش کے دو حصوں پر عمل کررہا تھا۔ سازش یہ تھی کہ سنی مسلمانوں کی مرکزیت یعنی ترک سلطنت عثمانیہ جسے خلافت بھی کہا جاتا تھا، اس کا خاتمہ کروا دیں اور اس وقت کے عالمی سامراج برطانیہ و فرانس نے کامیابی کے ساتھ یہ کر دکھایا۔ آل سعود کے فیوض و برکات کے قصیدے پڑھنے والوں کو معلوم ہو کہ آل سعود کی حکومت برطانوی سامراج کے ایجنڈا کے تحت مکہ و مدینہ پر مسلط کی گئی تھی۔

1945ع سے آج تک امریکا و سعودی حکمرانوں کا اعلانیہ اتحاد ہے۔ مسئلہ فلسطین کو دفن کرکے نت نئے مسائل ایجاد کرنا سعودی امریکی اتحاد کے ایجنڈا کے تحت کیا جارہا ہے۔ انقلاب اسلامی ایران کے بعد آل سعود نے جو کچھ کیا وہ سب اسرائیل کے دفاع و تحفظ کی خاطر کیا۔ یقین نہ آئے تو ولیم سمپسن کی کتاب دی پرنس پڑھیں۔ اس کے صرف ایک باب یعنی باب چہارم میں اٹلی، انگولا، کمبوڈیا، ایتھوپیا، نکاراگوا اور چاڈ کے اندرونی معاملات میں سعودی مداخلت کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ ان میں سے کس ملک کے ساتھ سعودی عرب کی سرحد ملتی تھی اور وہاں سے سعودی عرب کو یا مقامات مقدسہ کو کیا خطرات لاحق تھے جو ان کے خلاف امریکی اسرائیلی سازشوں میں سعودی حکمرانوں نے کاندھے فراہم کئے۔ چاڈ کا مسئلہ لیبیا کے ساتھ تھا، سرحدی تنازعہ تھا۔ سوڈان کی سرزمین پر ایتھوپیا کے خلاف سازش، انگولا کے خلاف مراکش کی سرزمین پر UNITA نامی گروہ کی سرپرستی، اٹلی کے الیکشن میں دھاندلی کروانا، ان سب کا اعتراف امریکا میں سابق سعودی سفیر اور سعودی انٹیلی جنس کے سابق سربراہ شہزادہ بندر بن سلطان بن عبدالعزیز نے کیا اور مذکورہ کتاب کا مصنف بندر بن سلطان کا دوست ہے اور یہ کتاب نیم سرکاری بائیوگرافی ہے۔

امریکی سازشوں میں سعودی عرب کی شمولیت کے بارے میں پاکستانیوں کو محض افغانستان کے حوالے سے تھوڑی بہت معلومات ہوں گی۔ دیگر کتب میں دنیا کے دیگر ممالک میں بھی امریکی سی آئی اے کے انسانیت دشمن منصوبوں میں ناجائز سعودی کردار کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ پاکستان کو سعودی یا خلیجی ممالک کی امداد کا قصہ بیان کرنے والوں سے کوئی یہ پوچھے کہ عرب لیگ اور جی سی سی (GCC) کے ان عرب ممالک نے جنہوں نے یمن کے خلاف فوجی اتحاد بناکر جارحیت شروع کی ہے، انہوں نے کشمیر کے مسلمانوں کی آزادی کے لئے کتنے فوجی اور کتنے طیارے بھیجے؟ بحر ہند، کھلے سمندر میں کتنی جنگی آبدوز اور جنگی بحری بیڑے پاکستان کی مدد کرنے آئے۔ 1965ء اور 1971ع کی جنگوں میں ایسی کونسی مدد کی جس کا تذکرہ کیا جائے؟ اس کے برعکس ریمنڈ ڈیوس جیسے دہشت گرد امریکی ایجنٹ کو سعودی حکومت کے کہنے پر شریف برادارن نے آزاد کروایا تھا۔ کیا آل سعود کے یہ فیوض و برکات ہیں جس پر وہ ہمارے محسن قرار پائے ہیں؟
پاکستانی دیگر ممالک میں رزق حلال کمانے گئے ہیں اور نوکری تو یہودیوں کے باغ میں بھی کی جاسکتی ہے۔

اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ نوکری دینے والے سیٹھ ممالک کا پاکستانیوں کی جان و مال و آبرو یا آزادی پر کوئی حق تسلیم کرلیا جائے۔ ادھار پر تیل فراہم کرنا، یا ڈیڑھ ارب ڈالر ادا کرنا، کیا اس لئے ہے کہ ہم کسی دوسرے ملک سے سستی اور فوری بجلی و گیس نہ خرید سکیں؟ کیا اس لئے؟ ایران نے سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کیا، ایران نے جنگوں میں مدد کی، توانائی کے بحران کا حل ایران کے پاس ہے نہ کہ امریکا اور اس کے پٹھو سعودی عرب کے پاس۔ سعودی بادشاہ ایرانی انقلاب سے پہلے بھی امریکا کی اسلام دشمن و انسانیت دشمن سامراجی سازشوں میں شرکت کرکے نیابتی جنگیں لڑتا رہا ہے۔ پراکسی وار یا نیابتی جنگ اس کی پالیسی کا حصہ ہے۔ یمن کی کوئی سرحد ایران سے نہیں ملتی تو ایران یمن کی مدد کیسے کرسکتا ہے؟ جگہ جگہ تو سعودی، اتحادی عرب ممالک یا ان سے کا آقا امریکا خود اس خطے میں موجود ہے، یمن کی مدد ایران کیسے کررہا ہے، کچھ ہمیں بھی تو پتہ چلے؟
خبر کا کوڈ : 453713
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش