0
Sunday 12 Apr 2015 17:57

امریکہ اور سعودی عرب میں تبدیلی کا منظرنامہ

امریکہ اور سعودی عرب میں تبدیلی کا منظرنامہ
تحریر: عبداللہ مرادی

سعودی عرب کا شمار عالم اسلام اور مشرق وسطی کے موثر ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ سعودی عرب کی طاقت کا دار و مدار اپنے خام تیل کے وسیع ذخائر اور امریکہ کے ساتھ اسٹریٹجک تعلقات پر ہے اور اس ملک میں روایتی سلطنتی نظام حکومت حکمفرما ہے جبکہ سعودی معاشرہ ایک قبائلی معاشرہ جانا جاتا ہے۔ گذشتہ ایک صدی کے دوران سعودی عرب میں حکمفرما نظام کی بقا اور استحکام کی بنیادی وجوہات بھی یہی دو عناصر قرار دیے جاتے ہیں۔ لیکن داخلی تنازعات کی شدت میں اضافہ اور بین الاقوامی سطح پر سعودی حکومت کی متضاد پالیسیوں کے باعث اس ملک میں ممکنہ سیاسی تبدیلیوں اور حتی حکمفرما نظام کے زوال کا امکان بھی ماضی کی نسبت بہت زیادہ بڑھ چکا ہے۔ خاص طور پر ایسی صورتحال میں جب سعودی سلطنت ایسے شہزادوں پر مشتمل ہے جن کے درمیان شدید سیاسی رقابت اور کشمکش پائے جانے کے علاوہ ان میں سے اکثر شہزادے عمر رسیدہ اور بیمار بھی ہیں۔ لہذا موجودہ حالات میں یہ انتہائی اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ؛ سعودی نظام حکومت کی بقا کو چیلنج کرنے والے اہم ترین سیاسی عمل (Political processes) اور ماحولیاتی تبدیلیاں کون سی ہیں؟
 
بے شک سعودی عرب میں آرامکو (Aramco) آئل کمپنی کی سرگرمیوں کے آغاز اور اس کے بعد خلیج فارس کی سکیورٹی سے متعلق اس وقت کے امریکی صدر رچرڈ نیکسن کی دو ستونی ڈاکٹرائن (Two column doctrine) کے نتیجے میں یہ ملک امریکی خارجہ پالیسی میں انتہائی اہم اور مرکزی کردار کا حامل رہا ہے۔ دوسری طرف سعودی خاندان کی نظر میں بھی اپنی بقا اور تسلسل میں امریکہ انتہائی اہم اور مرکزی کردار کا حامل رہا ہے۔ اس عامل کے ساتھ ساتھ ہمیں دوسرے دو اہم عوامل سے بھی غافل نہیں ہونا چاہئے جو "خام تیل کی پیداوار سے حاصل ہونے والی آمدن" اور "مذہب" ہیں۔ خام تیل سے حاصل ہونے والی بے تحاشہ آمدن نے سعودی حکومت کو معاشرے سے بے نیاز کر دیا ہے، جبکہ مذہب، حکمفرما سعودی رژیم کو اپنی بقا کیلئے ضروری شرعی جواز فراہم کرنے میں مرکزی کردار کا حامل رہا ہے۔ طاقت کے انہیں تین عوامل کے بل بوتے پر سعودی خاندان نے اب تک کمیونزم، عربی قوم پرستی (Arabic Nationalism) اور آخرکار انقلاب اسلامی ایران سے متاثرہ اسلام پسندی کے اثرورسوخ سے درپیش خطرات کا مقابلہ کیا ہے۔ سعودی عرب کے حکمفرما سیاست دانوں نے ثابت کیا ہے کہ وہ داخلی اور بین الاقوامی مواقع اور رکاوٹوں کو صحیح طور پر سمجھتے ہیں لہذا انہوں نے خود کو ان کے ساتھ ہم آہنگ کرتے ہوئے سنی عرب دنیا کے قدامت پسند رہنماوں کے طور پر اپنی پوزیشن کو باقی رکھا ہے۔ 
 
لیکن سعودی عرب کے داخلی حقائق کچھ ایسے ہیں کہ جن کے باعث اکثر سیاسی ماہرین اور تجزیہ نگاران کا نظریہ یہ ہے کہ اس ملک کی سیاسی صورتحال بتدریج عدم استحکام کی جانب بڑھ رہی ہے۔ سعودی عرب کا سلطنتی ملکی آئین اور اقتدار کی منتقلی کا موروثی ہونا، دو ایسی چیزیں ہیں جو جدید عالمی جمہوری قوانین سے سو فیصد متضاد ہیں۔ دوسری طرف سعودی عرب کے روایتی اور قبائلی معاشرے میں پیدا ہونے والی جدت پسندی نے اس تضاد کو مزید شدت بخش دی ہے۔ عمر رسیدہ اور بیمار شہزادوں کی جانب سے چلائے جانے والے آمرانہ نظام میں عوام پر محرومیتوں کا بوجھ ڈالنے اور معاشرے میں سیاسی، ثقافتی اور مذہبی امتیازی رویے اپنانے کا انجام مستقبل میں زوال پذیر ہونے کے علاوہ اور کیا تصور کیا جا سکتا ہے۔ لہذا سعودی رژیم کے بارے میں یہ رائج نظریہ کہ وہ جدید زمانے سے ہم آہنگی نہ رکھنے کے باعث زیادہ عرصہ باقی نہیں رہ سکتی کوئی غیر معقول نظریہ دکھائی نہیں دیتا۔ 
 
حقیقت یہ ہے کہ سعودی نظام حکومت کے اب تک باقی رہنے کی اصل وجہ امریکہ یا بہتر الفاظ میں امریکہ کے ساتھ سعودی عرب کے اسٹریٹجک تعلقات رہے ہیں، لہذا اس بات کی توقع رکھنا بے جا نہ ہو گا کہ سعودی حکمفرما نظام کی بقا اور سلامتی کے ضامن اس عامل کے رویے میں تبدیلی سعودی رژیم کے زوال اور نابودی کا باعث بن سکتی ہے۔ ایک عرصے سے واشنگٹن میں بیٹھے سیاست دانوں میں سعودی عرب کی نسبت شک و تردید کی علامات کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ نائن الیون کے واقعات سے پہلے امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات میں کسی قسم کا شک و شبہ موجود نہ تھا اور امریکہ کے ساتھ سعودی وابستگی میں بھی کوئی شائبہ پایا نہیں جاتا تھا، لیکن اس دہشت گردانہ اقدام نے، جس میں ملوث زیادہ تر دہشت گردوں کا تعلق سعودی عرب سے تھا، اس مسئلے کو مزید اجاگر کر دیا ہے کہ امریکی مفادات کے تمام پہلووں کیلئے خطرہ سمجھی جانے والی جدید بنیاد پرستی کا سرچشمہ سعودی عرب کے سوا کوئی اور ملک نہیں۔ عراق میں دہشت گردی، القاعدہ کا عالمی نیٹ ورک، افریقہ میں شدت پسند گروہ اور یورپ اور امریکہ میں دہشت گردانہ اقدامات وغیرہ کا منشا سعودی عرب سے برآمد ہونے والی سلفی شدت پسندی کے سوا کچھ نہیں۔  
 
اگرچہ نائن الیون حادثات کے بعد، امریکی اسٹریٹجک مفادات کیلئے سعودی عرب کے داخلی استحکام اور عدم انتشار کی شدید اہمیت کے پیش نظر امریکہ نے سعودی عرب کے خلاف سخت اقدامات سے گریز کرتے ہوئے اور اس حقیقت سے بھی چشم پوشی کرتے ہوئے کہ وہابی طرز فکر مشرق وسطی میں دہشت گردی اور شدت پسندی کی بنیادی وجہ ہے، سعودی عرب کے ساتھ اپنے اسٹریٹجک تعلقات کو جاری رکھا ہے اور شرارت آمیز اقدامات کو نظرانداز کرنے کی پالیسی پر گامزن رہا ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان سلفی دہشت گردی کے بارے میں موجود شدید تنازعات ختم ہو چکے ہیں۔ 
 
سعودی عرب کی طاقت کا دوسرا مرکز خام تیل کے ذخائر ہیں۔ 260 ارب بیرل خام تیل کے عظیم ذخائر نے سعودی عرب کو منفرد حیثیت کا مالک بنا دیا ہے جس کے باعث وہ اوپیک کی خام تیل سے متعلق پالیسیوں اور مغربی دنیا کی اقتصاد پر اثرورسوخ کا حامل ہو چکا ہے۔ لہذا سیاسی ماہرین کی نظر میں ماضی اور حال میں سعودی عرب کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کی بنیادی وجہ سعودی عرب کے خام تیل کے ذخائر ہیں۔ البتہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ امریکہ، عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمت میں اتار چڑھاو اور نیز 1973ء میں مغربی ممالک کو خام تیل بیچنے کا بائیکاٹ کرنے میں سعودی عرب کے کردار کو بھول چکا ہو۔ 
 
لہذا جیسا کہ ہم مشاہدہ کر رہے ہیں، دونوں ممالک کے درمیان بہت زیادہ مسائل اور مشکلات موجود ہیں جنہیں امریکہ برداشت کرتا آ رہا ہے۔ لیکن اب ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ امریکہ کی برداشت ختم ہوتی جا رہی ہے اور حالات سعودی عرب کے بارے میں امریکی پالیسیوں میں تبدیلی کی سمت آگے بڑھ رہے ہیں۔ امریکہ لبرل ڈیموکریسی کی اقدار پر زور دیتا آیا ہے اور ان کے پرچار میں مصروف ہے جبکہ دوسری طرف سعودی عرب کے ساتھ اس کے اسٹریٹجک تعلقات اور جمہوریت مخالف اقدامات پر چشم پوشی کی سیاست، لبرل ازم کے اصولوں سے شدید تضاد رکھتے ہیں۔ یوں امریکہ، سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات کے معاملے میں دوغلے پن کا شکار نظر آتا ہے۔ لیکن ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اب صورتحال تبدیلی کی جانب بڑھ رہی ہے اور امریکہ اپنے لبرل ازم پر مبنی اصولوں پر خام تیل کی اسٹریٹجک اہمیت کو ترجیح دینے سے گریز کرنے لگا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ کو خام تیل کے حصول کیلئے سعودی عرب کے علاوہ دوسرے متبادل ذرائع مل گئے ہیں اور اس طرح اس معاملے میں اس کیلئے سعودی عرب کی اہمیت کم ہو گئی ہے۔ دوسری طرف ہم دیکھ رہے ہیں کہ مشرق وسطی میں موجود خام تیل کا نیازمند ہونے میں آہستہ آہستہ چین امریکہ کی جگہ لے رہا ہے۔ 
 
توقع کی جا رہی ہے کہ اب ماضی کی طرح سعودی عرب کے جارحانہ اقدامات پر بھی بے طرفی کا اظہار نہیں کیا جائے گا۔ سعودی حکومت، جو اسلام کے دعووں اور امریکہ کے ساتھ اتحاد کی بدولت خود کو مشرق وسطی میں امن و امان اور سیاسی استحکام کا مرکز و محور قرار دیتی تھی، آج خطے اور حتی خطے سے باہر دوسری جگہوں پر انجام پانے والے دہشت گردانہ اقدامات میں اس کے ملوث ہونے پر ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ شام اور عراق کو سعودی عرب کی مداخلت کے دو واضح نمونے قرار دیا جا سکتا ہے جہاں اس نے سلفی شرپسندوں کے ذریعے لوگوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ حالات اس قدر سنگین ہو چکے ہیں کہ حتی واشنگٹن اور دوسرے کئی یورپی دارالحکومت، داعش اور دوسرے تکفیری دہشت گرد گروہوں سے خطرے کا احساس کرنے لگے ہیں۔ اب جبکہ امریکہ، شام کے مسئلے میں دوسری عالمی طاقتوں کا ساتھ دینے کا سوچ رہا ہے تو سعودی عرب ماضی کی طرح شام میں سرگرم تکفیری دہشت گردوں کی بھرپور حمایت میں مصروف ہے اور اس طرح شام میں جاری خانہ جنگی کی آگ پر جلتی کا تیل ڈال رہا ہے۔ فائیو پلس ون ممالک کے ساتھ ایران کا ممکنہ جوہری معاہدہ اور اسی طرح جنیوا معاہدہ بھی سعودی عرب اور امریکہ کے بگڑتے تعلقات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب آہستہ آہستہ امریکہ کیلئے ایک پریشان کن اتحادی بنتا جا رہا ہے اور ایسے اتحادی کے ساتھ اتحاد برقرار رکھنے کے فائدہ مند ہونے میں امریکہ بھی روز بروز شک و شبہہ کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ 
 
لہذا تحریر کے آغاز میں پیش کئے گئے سوال کے جواب میں یہ کہنا چاہئے کہ سعودی حکومت کی جانب سے جمہوریت مخالف اقدامات اور امتیازی رویوں کے باعث عوامی مطالبات کا ریلا سعودی حکام کے قانونی جواز کو شدید بحران سے دوچار کر دے گا۔ اسی طرح سعودی رژیم کی بقا کی مثلث (خام تیل، مذہب اور امریکہ) بھی کئی اندرونی چیلنجز کا شکار ہو چکی ہے۔ لیکن جس چیز نے سعودی حکمفرما نظام کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے وہ امریکی پالیسیوں کا تبدیل ہونا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سعودی نظام حکومت کے زوال پذیر ہونے کی اصل وجہ ملک عبداللہ کی وفات یا سعودی شہزادوں کے درمیان اختلافات نہیں، بلکہ امریکہ کی طرف سے سعودی عرب کی حمایت نہ کرنا ہے۔ جیسا کہ مصر کے ڈکٹیٹر حسنی مبارک کے زوال کی اصل وجہ بھی یہی تھی۔ البتہ اس نکتے کی جانب توجہ ضروری ہے کہ سعودی عرب کے بارے میں امریکہ کی بے طرفی ابھی اپنے ابتدائی مراحل میں ہے اور اس نئی امریکی پالیسی کا آغاز درحقیقت سعودی نظام حکومت کے اختتام کا آغاز ہے۔ 
خبر کا کوڈ : 453836
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش