QR CodeQR Code

سعودی جزائر تیران و سنافیر پر قابض کون؟

19 Apr 2015 00:29

اسلام ٹائمز: سعودی حکومت ان جزائر کے حوالے سے1967ء سے اب تک بالکل خاموش ہے۔ سعودی حکومت یہ کہہ سکتی ہے کہ سمندر میں واقع یہ جزائر بہت چھوٹے ہیں اور ان کی کوئی معاشی اہمیت نہیں، تاہم یہ جزائر تزویراتی اعتبار سے اس قدر اہم ہیں کہ جو بھی ان جزائر پر موجود ہو، وہ خلیج عقبہ کو کنٹرول کرسکتا ہے۔ ان جزائر کے سبب اسرائیل مصر سے دو جنگیں لڑ چکا ہے۔ کیمپ ڈیوڈ معاہدے میں اسرائیل نے باقاعدہ طور پر ان جزائر اور آبنائے تیران کے کھلے رکھنے کی یقین دہانی لی۔ سوال یہ ہے کہ سعودیہ اس مسئلہ کو عالمی عدالت انصاف یا کسی اور عالمی فورم پر کیوں نہیں اٹھاتا؟ وہ سعودیہ جو اپنی علاقائی سالمیت کے نام پر یمن پر گذشتہ چند دنوں سے مسلسل بمباری کر رہا ہے اور اس نے خطے میں یمن کے خلاف ایک فوجی اتحاد بھی تشکیل دیا ہے، ان جزائر کو واگزار کروانے کے لئے اتحاد کیوں تشکیل نہیں دیتا؟ حالانکہ یمن کے حوثیوں نے ابھی تک سعودیہ کی سرحدی سالمیت کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا، لیکن اسرائیل گذشتہ نصف دہائی سے سعودیہ کی علاقائی سالمیت کو چیلنج کر رہا ہے، اس دوہرے معیار کی کیا وجہ ہوسکتی ہے۔؟


تحریر: سید اسد عباس تقوی

خلیج عقبہ جزیرۃ العرب کے مغرب اور صحرائے سینا کے مشرق میں واقع ہے۔ یہ خلیج خطے کی بہت سی بندرگاہوں کو بحر احمر سے ملاتی ہے۔ مشرق وسطٰی میں تین خلیجیں بہت اہمیت کی حامل ہیں، خلیج فارس کا نام تو تقریباً سبھی کا سنا ہوا ہے، دوسری خلیج عقبہ اور تیسری خلیج سوئز ہے۔ خلیج عقبہ پر چار ممالک کے اہم شہر اور بندرگاہیں واقع ہیں۔ اردن کی واحد بندرگاہ عقبہ، غاصب اسرائیلی ریاست کی بندرگاہ ایلات، سعودیہ کا ساحلی شہر حقل اور مصر کے شہر طابا، شرم الشیخ اور دہب اسی خلیج کے دہانے پر واقع ہیں۔ خلیج عقبہ زیادہ لمبی یا چوڑی خلیج نہیں ہے، اس کی کل لمبائی 84 کلومیٹر اور زیادہ سے زیادہ چوڑائی 15 میل ہے۔ اس خلیج کے جنوبی سرے پر آبنائے تیران ہے۔ آبنائے تیران بنیادی طور پر تین بحری راستے ہیں، جن میں سے دو راستے بڑے بحری جہازوں کے لئے استعمال ہوسکتے ہیں جبکہ تیسرا راستہ کم گہرا ہونے کی وجہ سے تجارتی مقاصد کے لئے استعمال نہیں ہوسکتا۔

آبنائے تیران کو یہ نام اس کے مشرق میں واقع جزیرے کے سبب ملا، جس کا کل رقبہ تقریباً 80 مربع کلومیٹر ہے۔ یہ جزیرہ صحرائے سینا سے تقریباً پانچ یا چھے کلومیٹر کے فاصلے پر واقعہ ہے۔ تیران کے مشرق کی سمت نسبتاً چھوٹا جزیرہ سنافیر واقع ہے، دونوں جزائر کا کل رقبہ تقریبا 113 مربع کلومیٹر ہے۔ یہ دونوں جزائر جغرافیائی اور تاریخی طور پر سعودیہ کا حصہ ہیں۔ 1948ء میں ناجائز اسرائیلی ریاست کے قیام کے بعد عرب ریاستوں کے اسرائیل سے تعلقات اچھے نہ رہے، مصر اس سلسلے میں سرخیل کا کام کر رہا تھا۔ 1949ء میں سعودی شاہ نے یہ دونوں جزائر مصر کے صدر جمال عبد الناصر کی درخواست پر دفاعی مقاصد کے لئے مصر کو دیئے۔ مصر کے اس وقت کے صدر نے ان جزائر پر اپنی فوجی پوسٹیں قائم کیں اور ساٹھ کی دہائی میں ان جزائر کے ذریعے خلیج عقبہ کو اسرائیلی جنگی و تجارتی جہازوں کی آمد و رفت کے لئے بند کر دیا گیا۔ اسرائیل کا نوے فیصد تیل آبنائے تیران کے راستے سے ہوتا ہوا اسرائیلی بندرگاہ ایلات تک پہنچتا تھا۔ اسی طرح اسرائیل کا مشرق بعید سے ہونے والا کاروبار بھی اسی راستے سے کیا جا رہا تھا۔

1957ء اور پھر 1967ء میں مصر نے آبنائے تیران کو اسرائیلی جہازوں کے لئے بند کر دیا، جس کے سبب اسرائیل کے تجارتی جہازوں خصوصاً تیل لے کر آنے والے جہازوں کو پورے افریقہ کا چکر کاٹ کر اسرائیل کی دوسری بندرگاہ تک پہنچنا پڑتا تھا۔ 1957ء میں اسرائیل نے اس مشکل سے چھٹکارا پانے کے لئے پہلی مرتبہ ان جزائر نیز دیگر ساحلی علاقوں پر قبضہ کیا اور ان کا کنڑول اقوام متحدہ کو دیا اور دوسری مرتبہ یعنی 1967ء میں چھے روزہ جنگ کا آغاز ان جزائر پر قبضے سے ہوا۔ تاہم اس مرتبہ اقوام متحدہ کے نگران دستوں کے ساتھ ساتھ اسرائیلی افواج بھی جزیرہ تیران پر موجود رہیں۔ آج بھی جزیرہ تیران پر اسرائیلی فوجی تعینات ہوتے ہیں اور عبرانی زبان میں اس جزیرے کو ’’یوتوات‘‘ کہا جاتا ہے۔ مشرق وسطٰی میں امن کے حوالے سے ہونے والا معاہدہ جسے کیمپ ڈیوڈ کے عنوان سے بھی جانا جاتا ہے، میں دوسری شقوں کے ہمراہ باقاعدہ طور پر آبنائے تیران کو بھی کھلا رکھنے کے لئے اسے عالمی پانیوں کا حصہ قرار دیا گیا۔ جزیرہ ’’تیران اور سنافیر‘‘ کو مصری صدر انوار السادات نے معاہدے کا حصہ نہ بنایا، ان کا موقف تھا کہ یہ جزائر سعودیہ کی ملکیت ہیں، تاہم عملی طور پر اس وقت تیران پر اقوام متحدہ کے دستوں کے ہمراہ اسرائیلی فوجی بھی تعینات ہیں۔

سعودی حکومت ان جزائر کے حوالے سے1967ء سے اب تک بالکل خاموش ہے۔ سعودی حکومت یہ کہہ سکتی ہے کہ سمندر میں واقع یہ جزائر بہت چھوٹے ہیں اور ان کی کوئی معاشی اہمیت نہیں، تاہم یہ جزائر تزویراتی اعتبار سے اس قدر اہم ہیں کہ جو بھی ان جزائر پر موجود ہو، وہ خلیج عقبہ کو کنٹرول کرسکتا ہے۔ ان جزائر کے سبب اسرائیل مصر سے دو جنگیں لڑ چکا ہے۔ کیمپ ڈیوڈ معاہدے میں اسرائیل نے باقاعدہ طور پر ان جزائر اور آبنائے تیران کے کھلے رکھنے کی یقین دہانی لی۔ سوال یہ ہے کہ سعودیہ اس مسئلہ کو عالمی عدالت انصاف یا کسی اور عالمی فورم پر کیوں نہیں اٹھاتا؟ وہ سعودیہ جو اپنی علاقائی سالمیت کے نام پر یمن پر گذشتہ چند دنوں سے مسلسل بمباری کر رہا ہے اور اس نے خطے میں یمن کے خلاف ایک فوجی اتحاد بھی تشکیل دیا ہے، ان جزائر کو واگزار کروانے کے لئے اتحاد کیوں تشکیل نہیں دیتا؟ حالانکہ یمن کے حوثیوں نے ابھی تک سعودیہ کی سرحدی سالمیت کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا، لیکن اسرائیل گذشتہ نصف دہائی سے سعودیہ کی علاقائی سالمیت کو چیلنج کر رہا ہے، اس دوہرے معیار کی کیا وجہ ہوسکتی ہے۔؟

اس خاموشی کی میری نظر میں دو متوقع وجوہات ہوسکتی ہیں، اول یہ کہ سعودیہ براہ راست طور پر اسرائیل کو چیلنج نہیں کرنا چاہتا اور اس کی قوت و طاقت سے خوفزہ ہے۔ دوسری وجہ (خدا نہ کرے کہ ایسا ہو) کہ سعودیہ نیز خطے کے دیگر عرب ممالک اور اسرائیل نیز اس کے مغربی حامیوں کے مابین کوئی ایسی خفیہ مفاہمتی قراردار موجود ہو، جس کے تحت سعودیہ اپنے ان جزائر کے بارے میں کوئی بات نہیں کرے گا اور اس کے بدلے میں اسرائیل اور مغربی طاقتیں عرب ممالک کو کچھ مراعات دیں گی۔ یہ مراعات سیاسی و فوجی ہر دو نوعیت کی ہوسکتی ہیں۔ بہرحال صورتحال جو بھی ہے یہ مسئلہ واقعاً حل طلب ہے، اس مسئلہ کو عام مسلمانوں کی مانند عرب عوام سے بھی چھپایا جاتا رہا ہے۔ عرب میڈیا اور اخبارات میں ان جزائر کا بہت کم تذکرہ ملتا ہے جبکہ اس کے برعکس ابوموسٰی، تنب صغیر و تنب کبیر کا مسئلہ آئے روز اخبارات و میڈیا کی زینت بنتا ہے۔ اس امید کے ساتھ کہ خلیج عقبہ میں موجود یمنی جزیرے ’’ہانش‘‘ کی کہانی بھی اہل علم سے پوشیدہ نہیں ہوگی۔


خبر کا کوڈ: 455363

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/455363/سعودی-جزائر-تیران-سنافیر-پر-قابض-کون

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org