1
0
Sunday 19 Apr 2015 11:30

یمن بحران کو سفارتی طریقے سے حل کیا جائے!

یمن بحران کو سفارتی طریقے سے حل کیا جائے!
تحریر: طاہر یاسین طاہر

بلاشبہ یمن میں شورش برپا ہے۔ حرمین شریفین تمام عالمِ اسلام کے لیے مقدس ترین مقامات ہیں۔ مگر ملکوں کی لڑائیوں میں ہمیں مقدسات اور شہنشاہیت و خاندانی آمریت کو الگ الگ کرکے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ حرمین شریفین کو حوثیوں، جو دراصل انصاراللہ ہیں، ان سے کوئی خطرہ نہیں، نہ ہی وہ سعودی عرب کی طرف پیش قدمی چاہتے ہیں۔ ان کی مسلح لڑائی کو سمجھنے کے لیے ہمیں زیادہ نہیں تو مختصر سا تاریخی سفر ضرور طے کرنا پڑے گا۔ ہم مگر سہل پسند لوگ ہیں، حقائق سے آنکھیں چرانے والے۔ جذباتیت کی رو میں بہہ جانے والے، اپنے اپنے مسالک کے پیروکار۔ ہمدردی، نفرت اور تعصب درست تجزیہ کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ سعودی بلاک کے پاکستانی’’علما‘‘ ریلیاں نکال رہے ہیں کہ حرمین شریفین کو خطرہ لاحق ہوا تو جان دے دیں گے۔ اب مگر اس سے آگے بڑھ کر یہ ریلیاں آلِ سعود کے حق میں تبدیل ہوتی چلی جا رہی ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ سعودی عرب کی سالمیت کو اگر خطرہ لاحق ہوا تو ’’کٹ‘‘ مریں گے۔

ایک اخباری دانشور کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان نے سعودی عرب کی عسکری و غیر عسکری مدد نہ کی تو یہ نہ صرف ’’عالمِ اسلام‘‘ کے ساتھ زیادتی ہوگی بلکہ ان صاحب کی منطق یہ ہے کہ سعودی عرب اور اس کے اتحادی عرب ممالک میں جو پاکستانی ’’عزت‘‘ سے روزگار کما رہے ہیں اور پاکستان میں سالانہ بلین ڈالرز زرِ مبادلہ بھجوا رہے ہیں، وہ زرِ مبادلہ آنا بند ہوجائے گا۔ ان کی اگر اسی منطق کو ایک اور طرح سے دیکھا جائے تو لاکھوں پاکستانی امریکہ و یورپ میں واقعی نہ صرف باعزت روزگار کما رہے ہیں بلکہ انھیں امریکہ و یورپ کی شہریت بھی حاصل ہے، اور کافروں نے انھیں وہ تمام حقوق بھی دے رکھے ہیں جو ان کے اپنے ’’کافر‘‘ شہریوں کو حاصل ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ان کافروں نے اپنی کافرہ عورتوں کو پاکستانیوں کے نکاح میں بھی دے رکھا ہے۔ اخباری دانشور کی منطق کو اگر دیکھا جائے تو ہمارے ہاں آئے روز امریکہ مردہ بار اور امریکہ کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے کے نعرے لگتے رہتے ہیں۔ کیا ایسے امریکہ و یورپ مخالف نعروں سے وہاں قیام پذیر پاکستانیوں کو خطرات لاحق نہیں ہوں گے؟

اگر امریکہ و یورپ غضب میں آ کر ان پاکستانیوں کو وہاں سے نکال دیں تو کیا جماعۃالدعوہ والے ان پاکستانیوں کو سنبھال لیں گے؟ کیا سعودی عرب اور اس کے اتحادی عرب ممالک بشمول ترکی و اسرائیل ان پاکستانیوں کو روزگار اور شہریت دے دیں گے؟ اس امر میں کلام نہیں کہ سعودی عرب اور عرب امارات کے کسی بھی ملک میں کوئی بھی پاکستانی آزادانہ کاروبار نہیں کرسکتا۔ بغیر کفیل کی مرضی کے حج و عمرہ تک نہیں کرسکتا۔ کیا سعودی عرب نے پاکستانیوں کو جو سال ہا سال سے وہاں ’’کفیل‘‘ کے رحم و کرم پر ہیں، انھیں شہریت دے دی ہے؟ کیا عرب ممالک نے پاکستانیوں کو جن کے زرِمبادلہ کی وجہ سے اخباری دانشور پاکستان کو پرائی جنگ میں جھونکنا چاہتے ہیں، انھیں کم از کم بنیادی انسانی حقوق دے دیئے ہیں؟ بے شک ان آمروں نے تو اپنے شہریوں کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھا ہوا ہے اور یہی محرومی حریت کیش عربوں کو اپنے آمر شہنشاہوں کے خلاف صف آرا کر گئی۔

اس کی ابتدا اگرچہ تیونس سے ہوئی تھی، جو یکایک مصر کے التحریر سکوائر تک پھیل گئی۔ التحریر سکوائر میں جو ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ مرسی کیسے صدر بنے اور پھر کیسے جیل گئے، یہ بھی ایک دلچسپ داستان ہے۔ ہم مگر داستان وقت گذاری یا لذت اندوزی کے لئے پڑھتے ہیں۔ اس سے سبق حاصل نہیں کرتے۔ اس ’’گہما گہمی‘‘ کو ’’عرب بہار‘‘ کا نام دیا گیا۔ اس بہار کے جھونکے یمن میں علی عبداللہ صالح کے صدارتی محل تک بھی گئے۔ اگر استعماری طاقتیں اپنے عرب شہنشاہوں کی مدد سے عرب عوام کی بیداری کی تحریک کو ’’ہائی جیک‘‘ نہ کر لیتیں تو بے شک عرب دنیا کے باسی بھی سال ہا سال کی خاندانی بادشاہتوں سے جان چھڑا کر جمہوریت کی راہ پر آہستہ آہستہ چل رہے ہوتے۔

تاریخ کے طالبعلم جانتے ہیں کہ تیونس انقلاب سے لے کر مصر کی مرسی حکومت کے خاتمے تک سعودی عرب کا کیا کردار رہا ہے۔ مرسی کی حکومت کے خاتمے کے لئے سعودی عرب نے پانی کی طرح پیسہ بہایا۔ اگرچہ مرسی حکومت کے خاتمے کی دیگر علاقائی و عالمی وجوہات بھی تھیں مگر ہم اس پر کسی اور نشست میں بات کریں گے۔ کیا یہ سعودی عرب ہی نہیں تھا جس نے امریکہ کو دعوت دی تھی کہ وہ القاعدہ اور النصرہ کی مدد کو آئے اور بشارالاسد کی حکومت کے خلاف کارروائی کرے۔ پیشکش یہ تھی کہ شام کے خلاف امریکہ و اس کے اتحادیوں کی چڑھائی کا سارا خرچہ سعودی عرب اٹھائے گا۔ امریکہ مگر نہ مانا۔ لیبیا کی خانہ جنگی میں کس نے کس کی کیسے مدد کی، یہ بھی تاریخ کبھی نہ چھپا پائے گی۔ بحرین کے عوام کو ان کے بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھنے کے لئے کس ملک نے کیا کیا ستم اٹھائے، یہ بھی تاریخ کا ایک دردناک باب ہے۔ عراق میں خانہ جنگی کو بڑھاوا دینے میں کس نے کتنا مال خرچ کیا؟

بے شک القاعدہ کو سعودی عرب نے تخلیق کیا، القاعدہ نے کئی ایک بچے جنے جن میں النصرہ اور داعش زیادہ وحشت ناک بن کر سامنے آئے۔ القاعدہ نے افغانستان اور پاکستان میں بھی اپنی ’’نسل‘‘ کو زندہ رکھنے کے کئی ایک حربے کئے، ان حربوں اور تجربوں نے پاکستان تحریکِ طالبان، مولوی فضل اللہ، عصمت اللہ معاویہ، ملا عمر اور مولوی عبدالعزیز جیسی باقیات کو ’’مسلم کشی‘‘ کے لئے توانا کیا۔ تمام عدل پسند اور غیر جانبدار تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ آلِ سعود نے اپنی شہنشاہیت کی بقا کے لئے انتہا پسندی کو رواج دیا۔ انھوں نے سعودی عرب کے سرکاری ’’مسلک‘‘ کو عالمِ اسلام کا مسلک بنانے کی ناکام کوشش کی، جس کے باعث مسلم امہ میں پہلے سے موجود علمی و فقہی اختلافات گلی کوچوں تک آگئے اور خونِ مسلم پانی کی طرح بہایا جانے لگا۔

یمن پر سعودی عرب کی چڑھائی کسی مذہب یا مسلک کے مسلح اظہار کی لڑائی نہیں۔ حوثی ایک قبیلہ ہے، جو اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہا ہے اور اس کے ساتھ کئی ایک دیگر قبائل بھی ملے ہوئے ہیں جو سنی العقیدہ ہیں۔ یہاں اس بات کی وضاحت بھی بہت ضروری ہے کہ حوثی یا انصاراللہ والے ان معروف معانی میں شیعہ بھی نہیں ہیں، جنھیں عالمِ اسلام اثنا عشری کہتے ہیں۔ حوثی زیدی شیعہ ہیں جو فکری اعتبار سے حنفی مسلک کے انتہائی قریب ہیں۔ میری یہ سوچی سمجھی رائے ہے کہ یہ مسلکوں کے مسلح اظہار کی جنگ نہیں بلکہ یہ عربوں کا علاقائی بالادستی کا معاملہ ہے۔ سعودی عرب کسی انجانے خوف کا شکار ہو کر یمن پر حملہ آور ہوگیا۔ اس نے ایسا کیوں کیا؟ اور اس کے اتحادی کیا چاہتے ہیں، اس کا ہم اگلے کالم میں تفصیلی جائزہ لیں گے اور عام قاری کو بتائیں گے کہ حوثی کون ہیں؟ کیا ہیں اور کون کون سے قبائل ان کے ساتھ شامل ہیں۔

یمن پر سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی چڑھائی ایک بہیمانہ اقدام ہے کہ انھوں نے یمنی پناہ گزینوں کے کیمپوں پر بھی حملے کئے۔ عالمی برادری اس قضیے کا حل سفارتی طریقے سے تلاش کرے تو دنیا ایک بڑی تباہی سے بچ سکتی ہے۔ بالخصوص پاکستان کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ اس مرحلے پہ فریق کے بجائے ثالث کا کردار ادا کرے۔  البتہ ایک بات طے ہے کہ آلِ سعود اپنے سیاسی و خاندانی مفادات کو حرمین شریفین کے ساتھ جوڑ کر ایک اور بڑی غلطی کر رہا ہے۔ یہ ایسی غلطی ہے جو پورے مشرقِ وسطٰی کو اپنی لپیٹ میں لے کر راکھ کا ڈھیر بنا دے گی۔ خطے میں اصل خطرہ یمن نہیں بلکہ القاعدہ اور داعش ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ سعودی عرب کے اتحادی اپنے طیاروں کا رخ یمن کے شہر المکلہ کی طرف موڑ دیں، جہاں القاعدہ قابض ہے اور جس کی نظریں سعودی ’’سالمیت‘‘ پر بھی لگی ہوئی ہیں۔ غالب کو یاد کئے بنا چارہ نہیں۔
ہر چند ہو مشاہدہِء حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
خبر کا کوڈ : 455438
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

raja qanbar
Pakistan
یہی تو المیہ ہے کہ ذات کو مذہب کے لبادہ میں محترم کرلیا جاتا ہے جس سے اسلام کا ہی نقصان ہوتا ہے۔
ہماری پیشکش