0
Sunday 19 Apr 2015 22:25

خواب دیکھنے پر کیا خرچ آتا ہے۔۔۔؟

خواب دیکھنے پر کیا خرچ آتا ہے۔۔۔؟
تحریر: ارشاد حسین ناصر

ہمارا ہمسایہ افغانستان جس کی طویل ترین سرحد ہمارے ساتھ ملتی تھی اب فتح ہو چکا ہے، اس کے دارالخلافہ کابل کے مرکزی چوک میں پاکستان کا جھنڈا لہرا رہا ہے، جس کو افغان عوام 23 مارچ کے یوم پاکستان پر سلیوٹ کر رہے تھے، خوشی و مسرت کے اس عظیم موقعہ پر قبائلی رسم و رواج کے تحت ہر سو ہوائی فائرنگ کی جا رہی تھی، ایسی فائرنگ جس سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔۔۔۔ہمارے بہت ہی معزز سمجھے جانے والے مذہبی و سیاسی چغادری اس بات پر فخر و مباہات سے سرشار دکھائی دیتے اور شکر کا کلمہ پڑھتے نظر آرہے تھے۔ الحمدللہ ایک خواب کی تکمیل ہوئی، پاکستان اس ملک کو اپنا صوبہ بنانے میں کامیاب ہوا۔۔۔۔ اس خواب و خیال کے بھیانک نتائج سے قارئین بخوبی آگاہ ہیں۔ کچھ بتانے کی ضرورت نہیں، روز سڑکوں، سکولوں، بازاروں، درباروں، امام بارگاہوں، مساجد اور سرکاری و نیم سرکاری اداروں کے مراکز پر ہونے والے حملوں پتہ چل ہی جاتا ہے اور لوگ اس کا ثواب فاتحہ پڑھ کے جنرل ضیاء اور اس کے ساتھیوں کو روانہ کر دیتے ہیں۔

دہلی کے لال قلعہ پر بھی پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہرا رہا ہے، اس تاریخی قلعہ کو فتح کرنے اور سبز ہلالی پرچم لہرانے کی جدوجہد میں ہمارے بہت سے نوجوان قربان ہوئے، ان کی قربانیاں رنگ لے آئی ہیں، دہلی کا یہ لال قلعہ اب ان نوجوانوں کے تسلط میں آچکا ہے، جن کے بہت سے دوستان نے اس کو فتح کرنے کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، ان نوجوانوں کے ہاتھوں آزادی کے بعد اب یہاں پاکستان کا قومی ترانہ گایا جا رہا ہے۔۔۔۔۔ہر طرف لمبی داڑھیوں، اونچی شلواروں کا راج دکھائی دے رہا ہے۔۔۔ بارک اللہ۔۔۔ مبروک۔۔۔ مبارک مبارک کی صدائیں کانوں میں رس گھول رہی ہیں۔۔۔۔ یہ مبارک مبارک کی صدائیں سننے کیلئے پاکستان نے کتنی قیمت ادا کی ہے، اس کا اندازہ بھی بہت اچھی طرح ہمیں ہے کہ بلوچستان میں ہمارے ہی لوگوں نے آزادی کا نعرہ بلند کرکے افواج پاکستان کیلئے ایک چیلنج کھڑا کر دیا، رقبہ کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہاتھ سے جاتا محسوس ہونے لگا، اور صوبے میں پنجابی، اردو سپیکنگ، الغرض غیر بلوچ اقوام سے تعلق رکھنے والے مزدوروں سے لیکر پروفیسرز تک اور سول سرونٹ سے لیکر فورسز سے وابستہ خاندانوں تک سب کا جینا حرام ہوگیا، اور صدیوں سے رہائش پذیر غیر بلوچ اقوام کو اپنی جائیدادیں اونے پونے بیچ کر بھاگنے میں ہی عافیت محسوس ہوئی۔ اس قیمت پر ہم نے یہ خیال و خواب اپنی آنکھوں میں سجایا تھا، ہائے کس قدر بھیانک تھا یہ خواب بھی۔

اب ہم اپنے ایک اور دیرینہ دوست اور ہمسائے جن کے ساتھ ہماری دوستی کی مثال ہمالیہ کی بلندی سے دی جاتی ہے، کے صوبہ سنکیانگ میں آزادی کے متوالوں کی یادگار پر جمع ہیں، جہاں ان کے خوابوں کی تکمیل پر جشن برپا ہے، ان قربانیاں دینے والے جوانوں کو خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے، سنکیانگ کی ملحدوں سے آزادی مبارک۔۔۔۔ سبیلنا سبیلنا الجہاد الجہاد۔۔ اللہ اکبر کے فلک شگاف نعرے جن کو سننے کیلئے کان ترس گئے تھے، آج سنائی دے رہے ہیں، اس خواب کی تکمیل کیلئے ہمارا ساتھ حسب سابق کاخ سفید کے مکینوں نے دیا، اگر وہ مدد نہ کرتے تو ممکن نہیں تھا کہ ہم ایک قدم بھی آگے بڑھتے، کجا یہ کہ ہم اپنے خواب کی تکمیل میں فاتح ٹھہرے۔۔۔ یہ بھیانک خواب بھی ہمیں جس قدر رسوا کرچکا ہے، اس کا اندازہ اہل اقتدار کو خوب ہے۔ چین جیسا مخلص دوست ہم سے اس حوالے سے کس قدر شکوے و شکایات رکھتا ہے اور ہمیں اس ہمسائے کو راضی رکھنے کیلئے کتنی سہولیات دینا پڑتی ہیں، اس کا اندازہ شائد کسی کو بھی نہیں ہے۔

ایک اور ہمسائے جس کے ساتھ ہماری طویل سرحد ملتی ہے اور اس سے دیرینہ لگ بھگ ایک ہزار سال پرانے تعلقات بھی ہیں، اس کے ایک صوبے سیستان و بلوچستان میں بلوچ آزادی پسندوں، متوالوں کو عظیم کامیابی پر آزادی کے گیت گاتے اور جھومتے دیکھا جاسکتا ہے، اب سیستان و بلوچستان کے بلوچ آزادی پسندوں کو وہ حقوق مل جائیں گے، جو اسلامی جمہوری ایران انہیں نہیں دے رہا تھا اور ہم نے اپنی طرف کے بلوچوں کو دے رکھے ہیں اور انہیں ہمیشہ سے خوش و خرم رکھا ہوا ہے، اپنی طرف کے بلوچستان کے رہائشیوں کی طرح یہ سہولیات اور حقوق پا کر اب سیستان و بلوچستان کے بلوچ بھی عالمی سطح کے معیار زندگی سے لطف اندوز ہوا کریں گے۔۔۔۔ ظاہر ہے کہ ہماری طرف بلوچستان کے صحرا میں سڑکوں کے جال بچھے ہوئے ہیں، یورپ اور پیرس کی ترقی بہت پسماندہ نظر آتی ہے۔ یہ جنت نظیر خطہ امن و استحکام اور ترقی کی مثال بنا ہوا نظر آتا ہے، جبھی تو دوسری طرف کے بلوچوں نے بھی اپنے ملک سے بغاوت کرکے ادھر شامل ہونے کا خواب دیکھا ور ہمارے بہت سے اندر کے لوگوں نے انہیں ہر قسم کی سہولیات بہم پہنچانے کی ذمہ داری اٹھائی ہے۔  انہیں راہداریاں دی ہوئی ہیں، جن کو دکھا کر وہ ہر جگہ آجا سکتے ہیں، بارڈر کے اس پار آنا جانا، منشیات سمگلنگ، دہشت گردانہ کارروائیاں اور خودکش حملوں کا اہتمام سب کچھ تو آسانی سے کر دیا جاتا ہے، آخر یہاں بھی کاخ سفید کے مکینوں نے وسیع پیمانے پر انویسٹمنٹ کی ہوئی ہے، جس سے لطف اٹھانے والوں میں ہمارے لوگ برابر سے کچھ زیادہ کے حصے دار ہوتے ہیں۔۔۔۔

کہتے ہیں کہ خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں ہوتی، ہر ایک خواب دیکھنے میں آزاد ہے، یہ سنہری ہوں یا پیلے، کالے ہوں یا نیلے، اجلے ہوں یا دھندلے، بھیانک ہوں یا خوش کن، ان پر کچھ خرچ نہیں آتا۔ ہاں اگر رات کی تاریکی میں گہری نیند کی بجائے دن میں دیکھے جائیں اور انہیں عملی کرنے کی کوشش کی جائے تو ان کی بھاری قیمت چکانا پڑتی ہے، کئی دفعہ یہ قیمت اس قدر بھاری ہوتی ہے کہ جس کا اندازہ کسی کو بھی نہیں ہوتا اور کسی نے بھی امید یا توقع نہیں کی ہوتی، دنیا پر حکمرانی کا خواب کتنا خوش کن اور سہانا ہے، مگر اس کو عملی کرنے کی کوشش کی جائے تو کتنی بڑی قیمت ادا کرنا پڑ جائے گی، اس کا اندازہ ماضی کی سپرپاور سویت یونین روس کو بھی ہے، جسے ناکوں چنے چبوا کر اور گیارہ برس تک مسلسل ان کی درگت بنا کر افغان قوم نے بھاگنے پر مجبور کر دیا تھا، اگرچہ اس میں پاکستان کا کردار تسلیم شدہ ہے، مگر کون نہیں جانتا کہ روس کو بھگانے کے بعد ہم نے اس افغانستان پر اپنا حق سمجھ لیا اور اس غلط فہمی کا خمیازہ ہم اب تک سمجھ رہے ہیں، یہ ہو نہیں سکتا کہ آپ کسی قوم کو محکوم بنا لیں۔ ممکن ہے کہ جبر و طاقت کے ذریعے ایسا ممکن ہوجائے مگر یہ جبر کتنا پائیدار ہوگا، اس بارے کچھ نہیں کہہ سکتے۔

آل سعود کیساتھ ملکر ہم نے جو خواب دیکھے، ان کا کیا نتیجہ نکلا، کس کو کیا ملا اور کون کیا لینے کا دعویدار اور حق دار سمجھتا تھا، یہ ایک بھیانک خواب کی مانند ہماری قوم کی یادوں میں محفوظ رہیگا، ہمارے وہ ہمسائے جن کے ساتھ ہماری طویل سرحدیں ملتی ہیں، جن پر مصیبت آئی تو ہم نے ان کیلئے دروازے کھول دیئے، ہجرت مدینہ کی یادیں تازہ ہوگئیں، چالیس لاکھ منہ سے کہنا آسان ہے مگر ہم نے ان کو اپنے ہاں پناہ دی اور انہیں اپنا جانا، مگر اس کے باوجود جب ہم نے انہیں جبر کا شکار کرنے کی کوشش کی تو وہ ہمارے مقابل آن کھڑے ہوئے، بھلا کیسے ممکن ہے کہ یمنی، آل سعود کی غلامی قبول کرلیں، یمنی تو سختی میں افغانوں سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں، یمن کو اگر آل سعود فتح کرسکتے ہیں، بڑے شوق سے کریں، یہ ان کا خواب ہوسکتا ہے، جس کی تعبیر ہمیں بہرحال بھیانک محسوس ہو رہی ہے، ہم اس کھچڑی سے رہے، یمنی کھچھڑی کھانے کے شوقین حافظ سعید، مولوی طاہر اشرفی، عامر لیاقت، مولوی عبدالعزیز اور اس قماش کے جتنے بھی ریال خور یہاں موجود ہیں، ان سے پاکستان کو پاک کر دیا جائے اور ان کے حواریوں سمیت انہیں یمن کے محاذ پر بھیج دیا جائے، تاکہ یہ اپنے شرعی خوابوں کی تکمیل میں دقت محسوس نہ کریں۔
خبر کا کوڈ : 455474
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش