2
0
Wednesday 22 Apr 2015 21:49

اصل دشمن کون؟ اسرائیل، داعش، القاعدہ یا یمن

اصل دشمن کون؟ اسرائیل، داعش، القاعدہ یا یمن
رپورٹ و انٹرویو:             پیام زینبؑ
ایڈیٹنگ:  این ایچ نقوی

اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کے رکن علامہ السیدافتخارحسین نقوی النجفی کی ہمہ جہت شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں دینی، علمی اور فلاحی حوالے سے ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں اس سب کے ساتھ ساتھ ملکی اور بین الاقوامی حالات پر ان کی گہری نظر ہے ان سے یمن کی موجودہ صورتحال پر انٹرویو لیا گیاجس میں انہوں نے بہت سارے اہم نکات پر روشنی ڈالی اس انٹرویوکو بغور پڑھنے والا ہر قاری استعمار کی سازشوں کوسمجھ سکے گا۔اس انٹرویوکی اہمیت کے پیش نظراسلام ٹائمز کے قارئین کے لئے شائع کیا جارہا ہےتاکہ ہمارے قارئین حالات حاضرہ سے آگاہ ہوسکیں۔
عالم اسلام
اس وقت عالم اسلام کی جو صورتحال بنی ہوئی ہے وہ بہت ہی افسوسناک ہے، یمن اور سعودیہ حالت جنگ میں ہیں اس جنگ کو اس انداز سے بھی اُٹھایا جا رہا ہے کہ اس جنگ کے درمیان حرمین شریفین کی حفاظت کا عنوان لایا جارہاہے۔ سعودی اپنے لئے یمن کو خطرہ سمجھتا ہے اور وہ دبے الفاظ میں یہ کہہ رہے ہیں کہ حرمین کو خطرہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ حرمین کو خطرہ یمن سے ہے یا اسرائیل سے؟ یہ اصل سوال ہے کہ حرمین کو کس سے خطرہ ہے؟
اصل خطرہ۔۔۔یمن یا اسرائیل؟
یہ جاننے کیلئے ضروری ہے کہ ہم یہ جائزہ لیں کہ حرمین کی ماضی میں کن قوتوں نے بے احترامی کی یاحرمین کو خطرے سے دوچار کیا؟اگر بہت ماضی بعید میں چلے جائیں توہم دیکھتے ہیں کہ حرمین کی توہین ہمیشہ اقتدار پسند قوتوں نے کی۔ اپنے اقتدار کے لئے حرمین شریفین کا سہارا لیا۔ عالم اسلام کے دو عظیم مکاتب شیعیان علی ؑ اور اہل سنت میں سے ہم دیکھتے ہیں کہ حرمین پر اقتدار اہل سنت مکتب سے تعلق رکھنے والوں کا رہاہے۔
شیعہ فرقے
اس سے پہلے کہ میں اس بات کو بتاؤں ایک بنیادی نقطہ جو میں بتانا چاہتا ہوں کہ شیعہ مسلک کے پیروکار، شیعہ چاہے زیدی ہو، اسماعیلی ہو، اثناء عشری ہو(اثناء عشری شیعہ میں دو گروہ ہے ہیں، ایک اصولی ہے اوردوسرا اخباری ہے) ان میں سے کسی گروہ کی حرمین پر حکمرانی نہیں رہی۔
سعودی عرب کی جغرافیائی صورتحال
سعودی عرب کی جغرافیائی صورتحال یہ ہے کہ اس کے ایک طرف اسماعیلی شیعہ ہیں جو یمن کی سرحد پر ہیںیعنی نجران وغیرہ میں۔ وہ چھ اماموں کو مانتے ہیں یعنی شیعہ اثناء عشری کے ساتویں امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کو نہیں مانتے البتہ وہ نجف و کربلا میں زیارات کے لئے بھی آتے ہیں۔
سعودیہ کے دوسری طرف احساء، قطیف کے صوبے ہیں وہاں بارہ امامی شیعہ ہیں لیکن ان کی اکثریت غیر مقلد ہیں یعنی اخباری شیعہ ہیں اور وہ شیعہ اثناء عشری کے مجتہدین جو نجف اور قم المقدسہ میں موجود ہیں ان کو نہیں مانتے، کیونکہ شیعہ اثناء عشری میں اخباریت کانظریہ تقریباً پوری دنیا میں ختم ہوچکاہے۔ پاکستان میں غیرمقلدین موجودہیں لیکن ان کی کوئی علمی بنیاد نہیں ہے یہاں حسینیؑ سٹیجوں پر تقلید کے مخالف بات کی جاتی ہے جس کی کوئی علمی بنیاد نہیں ہے اورنہ ہی ان کے درمیان کوئی علمی مرکز موجود ہے۔
آلِ سعود کا اصل خوف
اس طرح سعودیہ کے گرد گھیراشیعہ مسلک والوں کا ہے۔آل سعود نے اپنی عوام کو بالعموم اور شیعہ عوام کو بالخصوص ترقی سے محروم رکھا ہوا ہے ان کے بنیادی انسانی حقوق سلب شدہ یں جب کہ شیعہ آبادی والے صوبے تیل کی دولت سے مالامال ہیں۔ ایران کے شیعہ اصولی شیعہ ہیں جن کو ہم مقلد شیعہ کہتے ہیں ایران میں بارہ امامی شیعہ ہی کی غالب اکثریت ہے۔
زیدی شیعوں کی صورتحال
زیدی شیعوں کی صورتحال یہ ہے کہ ان کے پاس ہزار سال یمن کی حکومت رہی وہ عقیدہ کے اعتبار سے بارہ اماموں سے چار اماموں کو امام مانتے ہیں۔ حضرت امام محمدباقر علیہ السلام جو پانچویں امام ؑ ہیں ان کو نہیں مانتے ان کی جگہ امام علی زین العابدین ؑ کے بیٹے زید ؑ کو مانتے ہیں۔ فقہی نظریات میں وہ فقہ جعفری کے خلاف ہیں بہت سارے مسائل میں فقہ حنفی کے قریب ہیں جیسا کہ بیان کیا جاتا ہے۔
یمن کے قبائل
یمن میں چودہ قبائل ہیں، بڑا قبیلہ حوثی قبیلہ ہے جو جنگ جُو ہے یہ قبائل عام طور پر ایک دوسرے سے لڑتے رہتے ہیں سب کے پاس ہتھیار ہیں یمن کی ایک الگ تاریخ ہے یمن میں فلک بوس پہاڑ ہیں تنگ و تاریک وادیاں، سنگلاخ پہاڑوں میں غاروں کا سلسلہ ہے جو علاقے حوثیوں کے پاس ہیں وہ بہت ہی مشکل علاقے ہیں اور صعب العبور ہیں جو باہر سے حملہ آور آئے انہوں نے شکست ہی کھائی اسی طرح صدیوں پر محیط حوثیوں ہی کی حکومت رہی لیکن زیدیوں کا شیعہ سے تعلق ضرورہے کیونکہ زیدی شیعوں نے حضرت امام علی زین العابدین علیہ السلام کے بعداُن کے فرزند حضرت زیدکو امام مان لیا حضرت امام باقر علیہ السلام کو امام نہیں مانا وہ تھوڑے متشدد بھی ہو گئے وہ فقہ کے اعتبار سے زیادہ تر حنفیوں کے قریب ہو گئے ، عقیدے کے اعتبار سے حضرت امام علی علیہ السلام کو انہوں نے پہلا امامؑ مانا تو وہ شیعہ ہو گئے ۔
دیو بندیوں کی مثال
اس کی مثال دیوبندیوں سے دُوں، دیوبندی عقیدے کے لحاظ سے وہابی ہیں بلکہ اہل حدیث سے بھی زیادہ سخت وہابی ہیں کیونکہ یزیدی فکر والے بھی ان میں ہی موجودہوتے ہیں۔جو محمد بن عبد الوہاب کی پیروی کرتے ہیں اور امام حنبل کی پیروی(عقائد میں)کم کرتے ہیں۔ جبکہ عملاً وہ ابوحنیفہ کے مقلد ہیں، اس طرح وہ بریلویوں کے قریب ہو جاتے ہیں حالانکہ عقیدے میں ان کی بریلویوں سے جنگ ہے لیکن فقہی اعتبار سے وہ اور بریلوی حنفی ہیں۔ یمن میں شافعی بھی موجودہیں لیکن زیدی شافیعوں کے قریب کم اور حنفیوں کے قریب زیادہ ہیں۔ ان کے ہاں مجتہد ہوتے ہیں وہ ایک زندہ امام کے قائل ہیں جو جہاد کر رہا ہو،زیدی ہو، عالم ہو اس کو امام مان رہے ہوتے ہیں ان کا ایک اپنا بیک گراؤنڈ ہے۔
یمنی عوام
یمنی عوام جنگ جُو، خوش خلق، محنت کش، حکمرانوں کے ظلم کا شکار، کاشتکار، غربت میں گھرے ہوئے خوشحالی زندگی سے محروم ، ترقی یافتہ دور میں اکثریت بنیادی وسائل اور ضروریات زندگی سے محروم ہے باہمی جنگ و جدال میں گھرے رہنے والے ہیں۔
شیعہ آبادی
شیعہ کی ایک بڑی آبادی پاکستان اور انڈیا میں ہے اورممالک میں بھی شیعہ موجود ہیں، شیعوں کی بہت بڑی آبادی ایران کے بعد عراق میں ہے ظاہر ہے عراق میں شیعہ حکومت نہیں رہی لیکن شیعوں کی عراق میں ہمیشہ اکثریت رہی۔
شیعہ نقطہ نظر سے حرمین کا تقدس
اب دیکھنا یہ ہے کہ شیعہ نقطۂ نظر سے حرمین کا کتنا تقدس ہے اور شیعہ تاریخ حرمین کے تقدس کے حوالے سے کیا ہے؟ اگر شیعہ تاریخ پر جائیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ فاطمی شیعوں کی حکومت مصر میں رہی جو کہ اسماعیلی تھے۔ اسماعیلی شیعوں کی حکومت برصغیر میں بھی رہی پاکستان میں مولتان تک ان کامرکزرہا۔افغانستان میں بھی ان کی حکمرانی کے آثار ہیں، جبکہ ایشیاء کی دیگر اسلامی ریاستوں میں بھی اسماعیلی شیعوں کی حکمرانی کی داستانیں تاریخ کے اوراق میں موجودہیں۔ اگر شیعہ تحریکوں کی طرف جائیں تو کوئی ایک تحریک بھی شیعہ کی ایسی نہیں ملتی جس نے مکہ و مدینہ پہ چڑھائی کرکے اور مکہ و مدینہ میں اپنی حکومت قائم کی ہو۔ اگر شیعوں نے حکومت کی ہے تو مکہ و مدینہ سے باہر کی ہے۔ اس کو اگر آپ عقیدتی حوالے سے مزید اس سے پیچھے لے جائیں تو امام علی علیہ السلام جب خلیفہ بنتے ہیں تو آپؑ اپنی خلافت کے دارالحکومت مدینہ کو چھوڑ کر کوفہ آجاتے ہیں کیونکہ آپ کو پتہ تھا کہ مخالفین کی طرف سے جنگ ہو گی لہٰذا آپ ؑ یہ نہیں چاہتے تھے کہ مدینہ و مکہ میں جنگ ہو۔
حضرت امام حسن ؑ حاکم شام سے جنگ بندی کا معاہدہ کر کے خلافت کو چھوڑ کر مدینہ تشریف لے آئے۔آجائیں امام حسین علیہ السلام کی طرف، امام حسین علیہ السلام امام حسن علیہ السلام کے جنازے پرظلم ہونے کے باوجود ہتھیار نہیں اُٹھاتے، جنگ نہیں کرتے اور جب آپ ؑ کی اپنی باری آئی توآپ ؑ مدینہ چھوڑ دیتے ہیں، مکہ بھی چھوڑ دیتے ہیں، کربلا میں آجاتے ہیں کربلا میں اسلام کے لئے اپنی عظیم قربانی پیش کرتے ہیں اور اُس کے بعد آپ ساری شیعہ تحریکیں پڑھ لیں۔ زیدیوں کی تویمیں میں1962ء تک حکومت رہی وہ طاقتور رہے انہوں نے کبھی حرمین پرحملہ نہیں کیا اور نہ ہی یہ اعلان کیا کہ ہم حرمین پر قبضہ کرتے ہیں اور مکہ و مدینہ پر حکومت کرتے ہیں۔
اقتدار میں آنے والوں کے نزدیک حرمین کا تقدس
اب دوسری طرف آجائیں، جتنی سنی تحریکیں ہیں جناب عبد اﷲ بن زبیر سے لے کر آگے کی طرف چلے آؤ آج تک جتنی بھی اسلام کے اس دوسرے مکتب کی تحریکیں ہیں جب ان کو دیکھتے ہیں تو جناب عبد اﷲ بن زبیر نے بھی اپنا ہیڈ کوارٹر مکہ کو بنایا اور مکہ کی تاراجی ہوئی، پھر مدینہ سے مکہ پر چڑھائی کی گئی کہ یزیدہلاک ہو گیا اور جناب عبداللہ بن زبیر خلیفہ بن بیٹھا پھرجناب عبداللہ بن زبیر کی سرکوبی کے لئے مروانیوں نے حجاج بن یوسف کے ذریعہ مکہ پر چڑھائی کردی اس طرح مکہ کی بے حرمتی کی گئی۔ کعبہ کو ڈھایاگیا، یہ تاریخ ہے حقیقت میں حکمرانوں نے اپنے اقتدار کے لئے حرمین کی توہین کی۔
موجودہ دور
آجائیں موجودہ دور پر، موجودہ دور میں دیکھیں کرنل قذافی، سنی مسلک سے تھے اس نے نعرہ بلند کیا مجھے مکہ و مدینہ کو آزاد کرانا ہے۔ اس سے ماضی میں چلے جائیں آل سعود کا اقتدارکیسے آتا ہے؟ یہ قبیلہ ریاض کا ایک بدو قبیلہ تھا جنگجو لوگ تھے ان کے پیچھے تو برطانیہ تھا محمد بن عبد الوہاب کو تیار کیا گیا اور پھر اس قبیلے کے ساتھ معاہدہ کیا گیا اوربڑی جنگیں ہوئیں،ان جنگوں کے نتیجہ میں انہوں نے مکہ اور مدینہ پر چڑھائی کرکے وہاں جو شریف خاندان حکمران تھا اُس کا خاتمہ کیا۔ شریف خاندان سادات سے تھا مگرشیعہ نہیں تھا۔حرمین سے اُن کو نکالاگیاانکے خاندان سے ایک کو اُردن کی شاہی دے دی گئی اوردوسرے کو عراق کی شاہی دے دی لیکن وہ سنی المسلک تھے شیعہ المسلک نہیں تھے۔ لہٰذاجو کچھ مدینہ و مکہ میں ہواتو وہ حکمرانوں نے کیا جن کا تعلق شیعہ مسلک سے نہ تھا۔
اس کے بعد آجائیں مصر میں جمال عبدالناصر کا زمانہ آتا ہے ناصر جب یہاں عرب ازم کو لے کر اُٹھتا ہے تو اس کی توجہ اس پر تھی کہ مکہ و مدینہ پر اس کاکنٹرول ہو، وہ کہتا تھا کہ میں عربوں کا بڑا ہوں اور اس نے یمن پربھی اپنی فوجیں اُتاریں، ترکی کو لے لو، ترکی کے ذریعہ خلافت عثمانیہ آتی ہے تو انہوں نے مکہ و مدینہ پر جا کر قبضہ کیا کیونکہ مکہ و مدینہ والے ان کے ماتحت تو نہیں تھے انہوں نے جا کر قبضہ کیا اور اسکو اپنے کنٹرول میں لے لیا مکہ و مدینہ پر ترکوں نے چڑھائی کی، ان کا بھی ظاہر ہے سنی خلافت اور سنی مسلک سے تعلق تھا۔
موجودہ دور کے شیعہ حکمران
موجودہ دورکی بات ہے اس وقت ایران کا شاہ شیعہ تھا اس نے بھی مکہ و مدینہ پر چڑھائی کی بات نہ کی۔شیعہ کااپنا نظریہ ہے شیعہ حرمین کا خاص تقدس سمجھتے ہیں، آئمہ اطہارؑ سے لے کران کے خالص شیعوں میں سے کسی نے بھی مسلح تحریک حرمین کی آزادی کے نام پرشروع نہیں کی۔ مولا علی ؑ کی حکومت آئی تو مدینہ و مکہ چھوڑ کر کوفہ آبیٹھے ہیں۔ماضی میں مختلف علاقوں میں حکومتیں شیعوں کی قائم ہوئیں فاطمیوں کی سینکڑوں سال حکومت رہی۔ امام حسن علیہ السلام مدینہ میں شہید ہوئے لیکن مدینہ میں بیٹھ کرانہوں نے حاکم کے خلاف مدینہ میں جنگ تو نہیں لڑی۔ شہادت بھی زہر سے ہوئی، آپ کے جنازے پر تیر چلائے گئے تو اس وقت ہاشمی تو کھڑے ہوئے سب غصے میں آگئے لیکن جنگ نہیں ہوئی۔
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد جب خلافت قائم ہوئی تو اس خلافت کے خلاف مولاعلی ؑ نے جنگ نہیں کی اور نہ ہی اپنے شیعوں کو حکم دیا کہ وہ ان کے خلاف ہتھیار اٹھائیں جب کہ بعض اقتدار پسند قریشیوں کے بڑوں نے اس قسم کا مولا علی ؑ کو مشورہ بھی دیا لیکن آپ ؑ نے قبول نہ کیا ۲۵ سال خلافت کے دور میں پُر امن رہے۔ اسلام کی خدمت کی، اسلامی اقدار کی حفاظت کی وحدت امت کے لئے کام کیا۔ جب آپ ؑ خلیفہ بنتے ہیں تو آپ ؑ کے خلاف دوسرے افکار والے جنگیں شروع کر دیتے ہیں یہ بہت بڑا لمحہ فکریہ ہے یہاں دو کردار ہیں ایک امن کا داعی ہے دوسرا کردار فتنہ پرور ہے جو آج تک جاری ہے اسلام امن کا دین ہے اسلام کے صحیح پیروکار وہی ہیں جو امن پسند ہیں، محبتیں عام کرنے والے ہیں۔
اسرائیل کا قیام
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسرائیل کیلئے زمین کس نے دی؟ شاہ عبد العزیز بن سعود نے دی۔غالباً ۷۵ ہزار لیرے میں دی، ہم اس کو اس انداز سے لیتے ہیں بھئی آل سعود کے بڑے شاہ عبد العزیز نے بڑی سخاوت کی اوریہودیوں پر مہربانی کی یہودیوں کو دُنیا بھر میں کوئی ٹھکانہ نہیں دیتا تھا انہوں نے ان کے لئے جگہ دے دی لیکن یہودیوں نے اس کے بدلے میں کیا کیا؟ اس کے بدلے میں عربوں کا اور مسلمانوں کا قتل عام کیا یہودں نے احسان کا بدلہ اس شکل میں دیا۔آج آل سعود کو سمجھنا چاہیے کہ اسرائیل انکاخیر خواہ نہیں ہے۔
موجودہ دور میں فلسطینیوں پر زیادتیاں
موجودہ دور آگیا اس موجودہ دور کی صورتحال یہ ہے کہ جب فلسطینوں پر زیادتیاں ہوتی ہیں ان کی سرزمین پر اسرائیل نام کی حکومت قائم ہوتی ہے تو فلسطینیوں کی حمایت میں ایک آواز پاکستان سے اُٹھتی ہے اورمحمد علی جناحؒ ان کے حق میں بولتے ہیں۔اس وقت ہمارے مجتہدین کی آواز میں زیادہ وزن نہیں تھاکیونکہ ان کے پاس اقتدار نہیں تھا، شیعہ مراکز نجف و قم فلسطینیوں کے لئے سراپا احتجاج تھے ۔دُنیا کے اور کسی جگہ سے آواز نہیں اُٹھی جس زوردار طریقہ سے محمد علیؒ جناح نے اُٹھائی۔ پہلی آواز اسرائیل کے خلاف اس کے قیام کے خلاف پاکستان سے اُٹھی اورشیعہ مجتہدین نے فلسطین کا دفاع بھی کیا ان کے لئے دُعائیں بھی کیں جنگ سے پہلے بھی اور جنگ کے بعد بھی اور ان کی ہر طرح سے سپورٹ بھی کی۔
اسرائیل کے خلاف پورا عالم اسلام سراپا احتجاج
البتہ عوامی سطح پر پورا عالم اسلام سراپا احتجاج رہا۔ اہل سنت کے جید علماء نے اسرائیل کے قیام کے خلاف زور دار آواز بلند کی فلسطین کی خاطر بہت سارے علماء شہید ہوئے۔ بات حکمران طبقہ کی ہے۔ محمد علیؒ جناح بانی پاکستان تھے نئی حکومت بنی تھی۔ اقتدار سے پہلے اور بعد میں بھی بھرپور حمایت اور زور دار آواز پاکستان سے اٹھی اور یہ آواز آج تک موجود ہے۔ ایران کاشاہ جو کہ شیعہ تھا اس کے ساتھ شیعہ مجتہدین کے اختلاف کا ایک بنیادی نقطہ یہ تھا کہ اس نے اسرائیل کو قبول کیا تھا۔
امام خمینیؒ کا اقتدار
امام خمینیؒ کے اقتدار کے بعد امام خمینیؒ نے جو پہلی تحریک بنائی وہ آزادی بیت المقدس کی تحریک بنائی کہ ہم بیت المقدس کو آزاد کرائیں گے۔انہوں نے مکہ و مدینہ کی آزادی کی بات نہیں کی۔ بیت المقدس کے لئے فورس بنائی گئی اور حزب اﷲ کی تحریک بنی وہ بھی اسرائیل کے خلاف قائم کی گئی تھی یہ تحریک اس لئے بنی کہ لبنان کواسرائیل سے آزاد کرائیں، 1980ء میں جب لبنان پر اسرائیل کا مکمل قبضہ ہو جاتا ہے اور بیروت تک وہ آجاتے ہیں اور اُس وقت لبنانی شیعہ عوام، سادے عام لوگ، ان کی سطحی سوچ تھی ہر وقت شیعہ مار ہی کھاتے رہتے تھیلبنان میں عیسائیوں سے، سنیوں سے، شیعہ عوام اس قدر مار کھا چکے تھے کہ جب یہودی لبنان میں داخل ہوئے تو وہ بڑے خوش ہو گئے کہ ہماری جان چھوٹ جائے گی ان سے اوربقول بعض کے ان کو پھول بھی دیئے گئے۔
امام خمینیؒ کا لبنان کی آزادی کیلئے حکم نامہ
لیکن امام خمینی رضوان اﷲ تعالیٰ علیہ نے باقاعدہ ایک حکم نامہ جاری کیا کہ لبنان اسلام کی سرزمین ہے کیونکہ وہاں اکثریت مسلمانوں کی ہے، عیسائیوں کی اقلیت ہے اگرچہ فرانس جاتے ہوئے ۔ اس ملک کے اقتدارکی صورتحال جوبنا گیا وہ یہ تھی کہ صدر مسیحی ہو گا وزیر اعظم سنی ہو گا اور سپیکر اسمبلی شیعہ ہو گا جبکہ سب سے زیادہ تعداد شیعوں کی ہے۔ دوسرے نمبر پر سنیوں کی ہے اور عیسائیوں کا بھی وہ فرقہ جو دوسرے عیسائیوں سے تعداد میں کم ہے اس کو صدارت دے دی گئی۔
لبنان کی سر زمین
امام خمینیؒ نے کہا کہ یہ سرزمین اسلام کی سرزمین ہے، اس کا دفاع ضروری ہے۔ اس پر یہودیوں کا قبضہ نہیں ہونا چاہیے تو اس وقت پانچ سو شیعہ نوجوان جن کی عمریں بیس، پچیس سال سے زیادہ نہیں تھیں، یہ اُٹھے اور ان کے پاس ہتھیار کیا تھے،وہ کلاشنکوف سے زیادہ بڑے ہتھیار نہیں تھے اور انہوں نے بیروت کوآزاد کرا لیا ۔
لبنان کی داخلی جنگیں
اس کے بعد لبنان کے اندر جو داخلی جنگیں شروع ہوئیں لڑائیاں شروع ہوئیں عیسائیوں کے ساتھ ، سنی شیعہ کی، خود شیعوں کی آپس میں جنگیں ہوئیں جس کا حساب نہیں، بلکہ اتنے زیادہ شیعہ آپس میں لڑ لڑ کے مرے کہ اتنے شیعہ دوسروں کے ساتھ لڑائی میں نہیں مرے۔ یہ مراحل طے ہوتے گئے کیونکہ اوپر سے راہنمائی مجتہد اعظم کی تھی بالآخر ان کی آپس میں لڑائیاں ختم ہوئیں شیعوں کی آپس میں صلح ہو گئی سنی شیعہ بھائی بھائی ہو گئے، امن پسند عیسائیوں سے بھی صلح ہو گئی لبنان کا اقتدار لبنانیوں کے پاس آگیا۔ اور حزب اللہ تنظیم مضبوط ہوگئی جس کا ایک نعرہ تھا لبنان کی آزادی، فلسطینیوں کی حمایت، بیت المقدس کی آزادی۔
عربوں کی شکست

اسرائیل کے اپنے قیام کے بعد ہی عرب ممالک پر چڑھائی شروع کر دی مصر پر حملہ، شام پر حملہ، عراق پر حملہ، لبنان پر قبضہ، ہر جنگ مین اسرائیل فتح یاب اور عرب حکمران ناکام ہوئے۔ اس کے بعد اسرائیل کی جنگیں عربوں سے ہوتی رہیں تو اس میں ہم دیکھتے ہیں کہ عرب ممالک شکست کھاتے رہے اوریہ ایک تاریخ ہے۔
اسرائیل کا زوال
اسرائیل کا زوال کب شروع ہوتا ہے جب حزب اﷲ طاقت میں آجاتی ہے اور طاقت میں آنے کے بعد حزب اﷲ نے سب سے پہلا کام کیاکہ انہوں نے اپنی زمین آزاد کرائی۔ اپنے قیدیوں کو چھڑایا ہے۔ مختلف مراحل میں 2002ء سے یہ سلسلہ باقاعدہ شروع ہوا اور یہ فتوحات مسلسل آتی گئیں اور عروج پر پہنچے 2006ء میں 33 روزہ جنگ میں اور اس کے بعد ان کی ہی سپورٹ سے غزہ میں فلسطینیوں کو اسرائیل کے خلاف یکے بعد دیگرے تین مرتبہ کامیابی حاصل ہوئی۔
خوفزدہ اسرائیل
اب تو اسرائیل کے اپنے بیانات بھی ہیں جو اُن کے بڑے بڑے تجزیہ کرنے والے ہیں ان کے جو دماغ بیٹھے ہیں جو یورپ میں بیٹھے ہیں جو پوری دُنیا کو چلا رہے ہیں اقتصادی طور پر بھی اور سیاسی طور پر بھی اور وہ سب دیکھ رہے ہیں طاقت کا سرچشمہ کہاں ہے کس طرح اس طاقت کو توڑنا ہے اسرائیلی وزیر دفاع تک کھلے بیانات دے چکے ہیں کہ انہیں اس وقت حزب اﷲ کے پاس جو کچھ ہے وہ ہمارے پاس نہیں ہے ہم انکامقابلہ جنگ سے نہیں کر سکتے۔اس وقت اسرائیل خوفزدہ ہے لیکن وہ لومڑی کی طرح بزدل لیکن شاطر و مکار اور چالاک ہے اپنی چالاکیوں، مکاریوں سے خود کو بچاتا ہے اور اپنا مقصد پورا کرتاہے۔
مسلمانوں کے خلاف یہودی منصوبہ بندی
انہوں نے بڑی منصوبہ بندی کے تحت یہ کوشش کی ہے کہ عرب دنیامیں ہی سے ایسے گروپ کھڑے کریں کہ وہ خود آپس میں لڑیں ذرائع ابلاغ کی طاقت ان کے پاس ہے تجزیہ و تحلیل کرنے والے بھی ان کے پاس ہیں کہ ایک حقیقت کو کس طرح کے لبادہ میں اوڑھ کر غلط کو ایک حقیقت بنا کر سامنے پیش کردیں اور پھر اس پر کس طرح تبصرے کیے جائیں، میڈیا وار سب سے خطرناک جنگ ہے سابقہ میں بھی یہ جنگ تھی اور اب بھی ہے سابقہ دور میں بھی تو حاکم شام کا یہ پروپیگنڈہ ہی تھا کہ جب مولا علی ؑ شہید ہوتے ہیں تو لوگوں کو یہ سوال کرتے سنا گیا کہ کیا علیؑ بھی نماز پڑھتے تھے ۔
حضرت امام حسین علیہ السلام کی کامیابی
حضرت امام حسین علیہ السلام الٰہی نمائندے تھے ان کی منصوبہ بندی ایسی منصوبہ بندی تھی کہ بنی امیہ والے جو کچھ فکری طور پربدل چکے تھے اسے کربلا کی تحریک نے بدل کررکھ دیاآج ہر کوئی حسینؑ کے حق میں بات کرتا ہے، یزید کے حق میں کوئی بات نہیں کرتا، اگر کوئی بات کر رہا ہوتا ہے تو اس کو جواب دینے والے موجود ہوتے ہیں خود اس کے اپنے مسلک سے ہی جواب دینے والے موجود ہوتے ہیں۔
یہودیوں کی مرحلہ وار سازشیں
یہودیوں نے پہلے تو یہ کوشش کی شام جہادیوں کے لئے ایک اہم مورچہ تھا وہ ان جہادی قوتوں کے اُس کو کمزور کریں، اُس کو کمزور کرنے کیلئے انہوں نے سعودی شاہ کو آگے کیا اورشام میں تحریک اُٹھائی کہ یہاں پر آزادانہ الیکشن ہونے چاہیں اتنی مدت سے ایک ہی خاندان اقتدار کیوں کر رہاہے اور یہ کہ وہ علوی ہیں، یہ شیعہ ہیں جب کہ اکثریت اہل سنت کی ہے باہر سے بھی قوت بھیجی گئی اس طرح کئی نام نہاد جہادی گروپ بن گئے، لیکن وہ سب بشارالاسد کی حکومت کو گرانے میں ناکام ہوئے ہم اس بحث میں نہیں جاتے کہ شام میں کیا ہوا اور اب کیا ہو رہا ہے ہمیں اصل پوائنٹ پررہنا ہے اور وہ یہ ہے کہ جب یہودیوں نے دیکھا کہ وہ مقصد تو حاصل نہیں ہواشام میں مخالف تحریکیں جن کو سعودیہ سپورٹ کررہا تھا، قطر جن کو سپورٹ کررہاتھا ، دیگر عرب ممالک سپورٹ کررہے تھے وہ سب ناکام ہوتے ہیں۔ بشارالاسد ویسے ہی موجود رہا تو یہاں پراسرائیل اور امریکہ نے بیٹھ کر بڑی منصوبہ بندی کی کہ مسلمان خلافت کے بڑے شیدائی ہیں جس سے جلدی ان کودام میں پھنسایا جا سکے گاانہوں اپنے ملکوں میں مسلمانوں کوآزادی دی ہوئی ہے تووہ انہی سے اپنے مقاصد کے لئے افراد بھی تیار کرتے ہیں۔
یورپ میں اسلام
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اسلام تیزی سے یورپ میں پھیل رہا ہے مادیت کا مرض زوال پذیر ہے روحانیت اور معنویت کی طرف توجہ ہے۔ اسلام یورپ کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ اس کیلئے یہودی ذہن نے کام کیا ہے کہ ان پڑھ اسلام سے نا بلند مسلمانوں کے اندر ایسے گروپ تیار کرو جو اسلام کے نام پر ایسے ایسے کام کریں جس کو سامنے پیش کر کے یورپ کے نوجوانوں کو اسلام سے دور کیا جائے اور اسلام کے خلاف نفرت پھیلائی جائے۔ دشمن اس میں کامیاب ہے ۔
خلافت کا عنوان
افغانستان کی کوکھ سے نکلنے والے طالبان ہو یا پھر اب عرب دنیا میں ابوبکرالبغدادی کی خلافت یا پھر افریقہ میں یوحرام کی تحریک اور اسی قسم کے مختلف گروہ، سب کے پیچھے ایک ہی سوچ ہے اور وہ ہے اسلام کو اسلام پسندوں کے ہاتھوں برباد کرنا اور عالمی سطح پر اسلام کو ایک وحشی دین بنا کر پیش کرنا اور مسلمانوں کو خود ان کے اپنے اسلحہ سے نابود کرنا۔ ان کے درمیان انتشار اور افتراق کو عام کر کے انہیں انتہائی درجہ خوار کرنا۔ اسلام علم دوست ہے اور اسلام کے نام پر خلافت کا نام نہاد ابوبکربغدادی ہو یا پاکستان کا طالبان یہ سب علم دشمن ہیں۔ ظالموں کے ساتھی ہیں یہ خود ظالم اور خونخوار ہیں یہ بہت بڑا پلان ہے جس پر عمل ہو رہا ہے ۔
روس کا خاتمہ اور مغرب کا ہدف
جب رُوس ختم ہو رہا تھا اوریہ کہا گیاکہ اب تو جنگوں کی ضرورت نہیں رہی تواس وقت کہاگیا کہ اب اسلام کی باری ہے ہمارے دشمن تو بہت دُور کی سوچتے ہیں وہ بڑی منصوبہ بندی سے میدان میںآتے ہیں۔ اسرائیل بنانے کیلئے انہوں نے کتنا پہلے سے پلاننگ کی تھی۔
داعش کی اصلیت
انہوں نے بیٹھ کر داعش تیار کی اور داعش کی تمام بنیادیں خود انہوں نے بنائیں اس کے بنیادی 12 افرادکاچناؤ اسرائیلیوں، امریکیوں نے مل کر کیا ہے ابوبکر البغدادی کو بعنوان خلیفہ منتخب کروایاگیا، اس کا اصل نام ابوبکر نہیں بلکہ ابراہیم سامرائی ہے وہ بغداد کا نہیں سامرا کا ہے صدام کی انٹیلی جنس کا اہم آدمی تھا اس کی ماں یہودی ہے۔ویب سائٹس پر اس کی ساری ہسٹری بھی آچکی ہے، وہ اصل میں یہودی ہے۔ اس کو انہوں نے اٹھا لیا اورآناً فاناً جوتحریک بشارالاسد کے خلاف النصرہ کے علاقے تھے پہلے ان کے اندر داخلی لڑائی شروع کرائی پھر شام کے دو بڑے صوبے جو ایک تہائی حصہ شام کابنتا ہے اس کے ہاتھ میں آگیا اوروہ آندھی کی طرح عراق کی طرف بڑھا۔
داعش عراق کی جانب
عراق کے لئے ان کی پلاننگ تھی وہ خلافت کا اعلان کریں گے اہل سنت اور کرد صوبوں میں جوپہلے سے بیروانی امداد سے تحریکیں چل رہی تھیں انہوں نے ابوبکرالبغدادی کی حمایت کرنی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ عراق کے پانچ صوبوں پر قبضہ کر لیتے ہیں موصل میں جا کر خلافت کا اعلان کرتے ہیں۔ بغداد، کربلا، نجف پر قبضہ کرنے کا اعلان کرتے ہیں۔کیونکہ ان کو پتہ تھا عراقی فوج کی کمزوری کا، ان کو پتہ تھا کہ نوری المالکی نے فوج میں تطہیر نہیں کی اور نہ ہی اس کے پاس کوئی مضبوط انٹیلی جنس کا نیٹ ورک تھا، وہ بڑی آسانی سے کربلا اور نجف تک پہنچ سکتے تھے بلکہ ان کا بڑا ہدف کربلا تھا۔وہ تو راتوں رات جب شام سے آگے عراق کی طرف بڑھے ہیں تو آقائی خامنہ ای رہبر اسلام اور نجف میں موجود دیگر شیعہ بزرگ مجتہدین کی طرف سے فوراً حکم جاری ہوا کہ مقامات مقدسات کی حفاظت واجب ہے اور ان کے حکم پر۱۳ لاکھ عراقی جوان میدان میں آتے ہیں وہ قربانی دینے کیلئے میدان میں نکلے، عراق کی سرزمین پر۔ البتہ عراقی جوان جان تو قربان کر سکتے تھے لیکن عراقی اچھی پلاننگ نہیں کرسکتے تھے، اس کے لئے تجربہ کار جرنیل ایران اور لبنان سے پہنچے اس میں ایک جرنیل کا نام ہر جگہ لیا جا رہا ہے تو انہوں نے جوپہلا کام کیاوہ کربلا، نجف، سامرا، کاظمین کا دفاع تھا جس طرح حرمین شریفین کا تقدس ہے اسی طرح یہ مقامات بھی مقدس ہیں ان کی حفاظت واجب ہے۔
کربلا کی بے حُرمتی
پہلے ادوار میں کربلا برباد ہوئی، انہی وہابیوں نے کربلا کو ویران کیا۔ کئی دفعہ ایساہوا، کاظمین، سامراء کو ویران کیاگیا۔سامرا کے حرم کی تباہی تو اس دور میں بھی ہوئی البتہ نجف کی طرف ماضی میں وہ نہیں بڑھ سکے کیونکہ خود نجف کا اپنا علاقائی دفاع اس قدر مضبوط تھا کہ دشمن وہاں پر حملہ آور نہ ہوا بلکہ نجف میں برطانیہ بھی نہ پہنچ سکا۔ کسی نے تبصرہ میں لکھا ہے کہ سانپ ہے عراق اور اس کا سر نجف ہے۔ کیونکہ برطانوی افواج کو سب سے زیادہ نقصان نجف پہنچ کر ہوا پھر انہیں وہاں سے واپس ہونا پڑا۔
برطانیہ کا سازش
عراق کی حکومت شاہ فیصل کو دے گئے جو اہل سنت سے تھے۔ اسی فیصد آبادی شیعہ تھی برطانیہ کی مخالفت شیعہ مجتہدین اور مجاہدین نے کی لیکن برطانیہ حکومت اہل سنت کو دے گئے جو صدام کے دور تک رہی اور صدام کے دور میں ۸۰ لاکھ شیعوں کا قتل ہوا اب موجودہ دور میں مخلوط حکومت ہے جس میں وزیراعظم شیعہ ہے۔ اسمبلی کا اسپیکر اہل سنت سے ہے جب کہ صدر کا تعلق کردوں سے ہے یہ فیصلہ اقوام متحدہ کے کمیشن کی طرف سے ہوا۔
اسلام دشمن برطانیہ نے اسلام کے پیروکاروں میں فرقہ واریت کو پروان چڑھایا سنی عربوں میں وھابیوں کو بنا کر برصغیر کے مسلمانوں میں احمدیوں کولا کر پروان چڑھا کر وہ آج بھی مصروف ہے۔
داعش کی شکست
داعش جس طاقت سے آگے بڑھی تھی عراق کے پانچ صوبوں پر انہوں نے قبضہ کیا، رمادی، انبار، صلاح الدین، موصل اور نینواپانچ صوبوں پر انہوں نے قبضہ کیا۔ایرانی لبنانی جرنیلوں نے الحمد ﷲ کربلا اور نجف کا دفاع بھی مضبوط بنایا اوربغداد کی جانب داعش کو آنے سے بھی روک دیا اب صلاح الدین صوبہ آزاد ہو چکا ہے اور تکریت بھی آزاد ہو چکا ہے اور دیگر صوبوں کی آزادی کیلئے جنگ جاری ہے۔
سوال :اب خطرہ حرمین کو کس سے ہے؟؟!!
داعش اسرائیل نے بنائی ہے! داعش نے اعلان کیا کیا ہے؟ اعلان کیا ہے کہ وہ مکہ و مدینہ پر قبضہ کریں گے۔ انہوں نے یہ واضح اعلان کیا ہے ظاہر ہے خلافت مضبوط تب ہی ہو گی جب مکہ و مدینہ ان کے پاس آئے گا ورنہ خلافت مضبوط نہیں ہو سکتی لیکن اس دوران ایران نے کیا کہا ہے؟ یایوں کہیں کہ شیعہ تحریک نے کیا کہا ہے؟ شیعہ تحریک نے کہا کہ ہم نے بیت المقدس کو آزاد کرانا ہے۔
شیعہ نے سعودی عرب کو بچایا
شیعہ نے عراق میں داعش کی پیش قدمی روک کر سعودی عرب کو بچایا ہے کیونکہ اگر عراق پر داعش قابض ہوجاتے تو اگلا مرحلہ کویت تھا اور کویت سے آگے وہ سیدھے ریاض جاتے اورشام سے اُردن پرقبضہ کرنے کے بعد سعودیہ میں داخل ہوتے داعش کے لئے تو خودسعودیہ کے اندر سے حمایت موجود ہے،کیونکہ وہ نظریاتی طورپرمحمد بن عبد الوہاب والا نظریہ رکھتے ہیں کہ جہاں پہنچو پہلے مزارات گراؤ، انہوں نے سب سے پہلے مزارات گرائے ہیں اور شریعت کے نام پر گرائے وہ کہتے ہیںیہ سب بدعتیں ہیں، مینار، مزارات، پرانی مسجدیں، گرجے، آثار قدیمہ، عملاً ایسا وہ کام کررہے ہیں۔
اصل خطرہ۔۔۔داعش /اسرائیل
اصل خطرہ یمن سے نہیں داعش سے ہے، یمنیوں نے تو کبھی نہیں کہا کہ ہم حرمین میں آئیں گے۔
امریکہ کی چالاکیاں
اس ساری صورتحال میں امریکی بڑے چالاک ،سیانے اور سمجھدار ہیں وہ اس وقت پوری دُنیا پر حکمرانی کررہے ہیں ان کو پتہ ہے کہ ایران اس خطے کی طاقت ہے انہیں یہ بھی پتہ ہے کہ شیعہ جو بات کرتے ہیں تووہ جھوٹ نہیں بولتے وہ اس پر ڈٹ جاتے ہیں۔ انہوں نے دیکھا کہ حزب اﷲ میں سیدحسن نصر اﷲ جب خطاب کرتے ہیں تو اسرائیلی اُن کی بات پر زیادہ یقین کرتے ہیں اپنے حکمرانوں کی بات پر یقین نہیں کرتے کیونکہ جو وہ بات کرتے ہیں وہ وہی کرتے ہیں دوسری بات نہیں ہوتی۔ البتہ وہ یہ بات پوری سمجھداری سے کرتے ہیں اور جانتے ہیں کہ انہوں نے کہاں کیا بات کرنی ہے؟امریکہ جان چکا ہے کہ اس خطے میں ایران ایک طاقت ہے یورپ کے اپنے اقتصادی مفادات ہیں اور وہ اس خطے کے اندر تبدیلی چاہتا ہے وہ یہ تبدیلی بھی چاہ رہا تھا کہ جتنا جلدی ہو عراق کوتین حصوں میں تقسیم کر دیاجائے۔کُردوں کو پہلے علیحدہ کیا لیکن جب کردوں پر داعش نے چڑھائی کی تو کردوں نے ایران سے مدد مانگی، ایران سے باقاعدہ مدد مانگی اور ایران سے کہا کہ ہمیں افراد نہ دیں میزائل دیں جہاز دیں اور اپنے ماہرین دیں جو ہماری راہنمائی کریں۔
داعش کے مظالم
جو سنی مملکت بنانا چاہتے تھے پہلے تو داعش والوں کو ویلکم کیا جب داعش والوں نے تمام اسلامی آثار مٹانے شروع کئے۔مسلمانوں کے خلیفہ دوئم کے پوتے سلطان شاہ کا مزار تک گرا دیا ۔ صدام کی بیٹی نے ساتھ دیا داعش نے صدام کے مقبرہ کو زمین بوس کردیا۔ سنی علماء کے گلے کاٹ دیے تو پھر ان علاقوں کے قبائل سرداروں، سنی عوام نے بغداد سے مدد مانگی اور شیعہ مجتہدین سے مدد کی درخواست کی، سنی علاقوں کو داعش کے چنگل سے آزاد کرنے کے لئے شیعہ رضاکار اپنے اہل سنت بھائیوں کے ساتھ مل کر داعش کے خلاف جنگ کررہے ہیں۔تکریت میں تو کوئی شیعہ نہیں ہے، صلاح الدین میں تو کوئی شیعہ نہیں ہے، اگر وہاں شیعہ ہیں بھی تو بہت ہی تھوڑی تعداد میں ہیں شیعوں نے تو آکر وہاں اہل سنت کے لئے اس علاقہ کوآزاد کرا دیا ہے اس طرح وہ شیعہ بھائیوں کے ممنون الاحسان ہو گئے ہیں کیونکہ سید رضاکاروں نے بڑی قربانیاں دے کراپنے سنی بھائیوں کو داعش کے مظالم سے بچایا ہے، داعش ان کے علماء کے گلے کاٹ رہا تھا ٹیلی فون سنو گے تو کوڑے کھاؤ گے فٹبال کھیلو گے تو کوڑے کھاؤ گے یہ باتیں چھپی ہوئی موجود ہیں وہ جو کرتے ہیں اسے بیان کر دیتے ہیں۔
مغربط والوں کا انداز
مغرب اسے نشر کررہا ہے وہ اس لئے کہ اپنے لوگوں سے کہتا ہے کہ دیکھو یہ مسلمانوں کا خلیفہ ہے یہ خلافت والے ہیں ان کے ایسے نظریات ہیں لہٰذا اسلام کی طرف نہ جاؤ، وہ اُدھر سے اپنے جوانوں کو بچا رہا ہے کہ وہ اسلام کی طرف نہ آئیں اور یہاں پر اس کا مقصد حاصل ہو رہا ہے کہ خود مسلمان مسلمان کو ماررہا ہے ظاہر ہے کہ شام برباد ہوگیا اس کا انفراسٹریکچر تباہ ہو گیا لاکھوں افراد مر گئے۔ شام میں جو کچھ تھا وہ اسرائیل کے خلاف استعمال ہوتا تھا عرب کے خلاف تو استعمال نہیں ہوتا تھا۔مصر کو بھی انہوں نے برباد کردیا لیبیا، تیونس کی حالت زار سامنے ہے کسی کی حیثیت باقی نہیں رہی۔
آل سعود کے خلاف سازش
باقی رہ گیا تھا آل سعود کہ یہ شاہوں کی حکومت نہ تھی اور یہ آرام سے بیٹھے تھے دوسرے عرب ملکوں میں سازشیں کررہے تھے دشمن اسلام نے ان کوبھی براہ راست ایک جنگ میں جھونک دیا ہے وہ بڑاپلان رکھتے ہیں جو اسرائیل کی فکر ہے اسرائیل نے پہلے دن سے کہا تھا کہ مدینہ ہماراہے، ہم نے مدینہ پہنچناہے، اب وہ مدینہ براہ راست پہنچنے سے تو رہے، انہیں پتہ ہے کہ اگر براہ راست مدینہ پر حملہ کرتے ہیں تو تمام مسلمان اکٹھے ہو جائیں گے اور اگر مسلمانوں کا خلیفہ مکہ و مدینہ کی آزادی کے لئے جاتا ہے تو اس پر عام مسلمان نہیں بولے گا جو مخالفت کریں گے تو ان کا قتل عام ہوگا۔
مکہ و مدینہ پر قبضہ القاعدہ کاہدف
مکہ و مدینہ پر قبضہ کون کرنا چاہتاہے؟ القاعدہ کرنا چاہتی ہے جس نے 1980ء میں چڑھائی کی تھی کعبہ پر، جس پر پاکستانی فوج اور فرانس سے بھی کمانڈوز آئے ہیں اور کعبہ کو آزاد کرایا تو وہ کون تھے؟ اسی کا سلسلہ القاعدہ بنی، القاعدہ کا ہیڈ کوارٹر کہاں ہے؟ یمن میں ہے۔ القاعدہ چاہتی ہے کہ یمن پروہ قبضہ کرے وہاں سے یمنی پاکستان میں بھی آئے ، اُسامہ بن لادن یمنی تھا وہ مکلا صوبے کا تھا جواس کا آبائی صوبہ ہے۔ انصار اللہ والے یمنی تو القاعدہ کے خلاف لڑ رہے تھے اب جب باہر سے حملہ ہوا ہے تو اُس کے بعد القاعدہ مضبوطی ہوئی ہے بلکہ اس کے لیے ہتھیار بھی پھینکے جا رہے ہیں دوسری طرف الحرمین کو خطرہ ہے تو داعش سے خطرہ ہے۔ داعش کی پشت پناہی اسرائیل اور امریکہ کر رہے ہیں۔ داعش کا کھاتہ چھپا ہوا نہیں ہے، القاعدہ کے بارے میں تودور سے جا کے بتاؤ گے یہاں داعش کے بارے میں مسئلہ وہ ہے ہی نہیں۔
اسرائیل خوش!!
اسرائیل مسلمانوں کے لئے اصل خطرہ ہے اس کا ذکر بھی نہیں ہو رہا ہے نہ بحثوں میں، نہ تحریروں میں، وہ اس جنگ کے پیچھے چھپ گیا ہے وہ ایسا ماحول بنا رہا ہے کہ یکدم خبر آئے کہ مکہ و مدینہ پر حملہ ہو گیا، اور یہ خبر دے دی جائے کہ یہ حملہ زیدی شیعوں نے کر دیاہے، پھر یہ خبر آئے کہ میدان میں ایران آگیاہے۔ اس طرح گھر گھر لڑائی کرا دو۔ جیسے ایک اعلان ہوتاہے کہ قرآن جلا دیا، اب نہیں پتہ کہ کس نے جلایا ہے عوام جا کر ان لوگوں کے گھر ہی جلا دیتے ہیں بعد میں پتہ چلتا ہے کہ یہ تو جھوٹ تھا بلکہ جس نے قرآن جلانے کا اعلان کیا خود وہ اس مکروہ عمل کو انجام دینے والا تھا اب بھی کھیل عالمی سطح پر بڑے پیمانے پر ہونے والا ہے مستقبل میںیہ ایک بڑا خطرناک کھیل ہونے جا رہاہے ۔
اللہ حافظ و نگہبان
البتہ ہماری تو اُمیدیں اﷲ تبارک و تعالیٰ پر ہیں۔ ایک اور بھی پوائنٹ بتا دُوں، ہمارے آئمہ نے بھی یہی کہا ہے کہ مکہ و مدینہ کا وارث اﷲ ہے اس کو بچانا بھی اﷲ نے ہے، ہم نے وہاں جنگ نہیں کرنی۔ امام مہدی (عج) جب ظہور فرمائیں گے تو امام مہدی (عج) مکہ و مدینہ میں جنگ نہیں کریں گے، مکہ میں جس صبح ظہور کا اعلان ہو گاتو اس کے بعد ایک قطرہ خون کا بہے بغیر پورا مکہ آپ ؑ کے سامنے سرنڈر کردے گا۔ آپؑ کی جنگ جو ہونی ہے وہ مکہ و مدینہ سے باہر ہونی ہے ۔ آپؑ کے ظہور سے پہلے جنگ ہوگی مکہ مدینہ میں خون خرابہ ہوگا وہ بھی اقتدار پسندوں کی طرف سے یہ وہ باتیں ہیں جو سنی روایات میں بھی ہیں اورشیعہ کے ہاں بھی ہیں۔
سفیانی(شامی) کی مدینہ پر چڑھائی
شام پر آل ابی سفیان کی حکومت قائم ہونی ہے امام مہدی (عج) کے ظہور سے پہلے شام میں تین گروہ آپس میں لڑیں گے، ایک گروہ اصھب کا ہو گا،ایک گروہ عبد اﷲ کا ہو گا ایک فلاں کا ہو گا۔ بعض لوگ تبصرے کر رہے ہیں اصھب کیونکہ شیر کے ناموں سے ایک نام ہے اور یہ اس وقت بشارالاسدہے اس کا نام بھی اسد ہے اور شاید یہی ہو اور اس کے بعد سفیانی نے آنا ہے کہاں سے آنا ہے؟ وہ بنی کلب قبیلہ سے ہوگاہے اوروہ وادی یابس سے آئے گا جو اُردن میں ہے اُردن کی سرزمین درعا میں داخل ہوگا۔ابھی جو منصوبہ بندی ہو رہی ہے یہ سارے جہادی شام میں موجود ہیں جن کی پشت پر اسرائیل ہے۔ النصرہ والے درعا کی طرف زیادہ جمع ہیں اس وقت داعش کو عراق میں بڑی شکست ہوئی ہے۔
عراق کے بعد دوبارہ داعش کی شام کی طرف توجہ
اب ان کا رُخ شام کی طرف ہے اور شام میں زیادہ کارروائیاں ہوں گی بصریٰ شہر پر داعش نے قبضہ کر لیا ہے بصریٰ بہت قدیمی شہرہے، وہاں حضور پاکؐ کی یادیں ہیں کیونکہ حضور پاکؐ وہاں پرتشریف لے گئے تھے۔ میں نے وہاں اس مقام کی زیارت کی ہے جہاں پرجلیل القدر صحابی کا مزار بھی ہے آپؐ کی اونٹنی بیٹھی تھی، وہاں مسجد بنی ہوئی ہے۔ وہاں ایک بہت قدیمی قلعہ بھی ہے وہ اس کو بھی ویران کر رہے ہیں۔ ادلب شہر پر بھی داعش نے قبضہ کر لیا ہے کیونکہ نصرہ اپنے زیر قبضہ علاقے چھوڑتی جا رہی ہے اور اس کی جگہ داعش آ رہی ہے اس کی طرف کوئی متوجہ نہیں ہے کیونکہ ظاہر ہے اس سب کے پیچھے اسرائیل ہے دھڑا دھڑ مغرب سے لڑکیاں اورلڑکے بھی داعش میں بھرتی ہونے کے لئے آرہے ہیں۔ عجب ہے اُدھر تو یہ ہے کہ اُن کا چہرہ ایسا دکھا رہے ہیں پھر کہہ رہے ہیں کہ یہاں پر اُن کے لشکر میں شامل ہونے کے لئے اتنے بندے بھی یورپ سے داعش کے لئے آرہے ہیں۔
سفیانی کی شام پر حکومت

سفیانی کی شام میں حکومت ہو گی اس کا دمشق پر قبضہ ہوگا وہ اُردن پر قبضہ کرے گا حمص پر قبضہ کرے گا اوروہ ایران کی طرف بھی جانا چاہے گا لیکن وہاں سے وہ پیچھے آئے گا، پھر بغداد پراس کا قبضہ ہو گا کوفہ پروہ قبضہ نہیں کر سکے گا جب کوفہ کی جانب جائے گا تو اسے مزاحمت کا سامنا ہوگا قبل اس کے وہ کوفہ پہنچے روایات میں ہے کہ یمانی اور ایرانی یہ دونوں اس طرح تیزی سے کوفہ کو بچانے کیلئے دوڑیں گے جس طرح دو میدان میں گھوڑے مقابلے کیلئے دوڑ رہے ہوتے ہیں۔ یہ سفیانی پھر کہاں جائیں گے؟ سفیانی مدینہ جائے گا۔
مسلمانوں کا مستقبل
ہماری اس سارے گفتگو کرنے کامقصد یہ ہے کہ مکہ اور مدینہ ماضی میں بھی اقتدار کے پوجاری نام نہاد مسلمانوں سے پامال ہوئے اور آخری زمانہ میں بھی ایسا ہوگا ماضی میں مکہ و مدینہ کی آزادی کیلئے اٹھنے والی تحریکیں بھی اہل سنت سے اُٹھیں، کسی شیعہ کی تحریک مکہ مدینہ کی طرف نہیں گئی اور امام مہدی (عج) جب تشریف لائیں گے تو اس وقت بھی آپ ؑ بیت المقدس کی آزادی کا نعرہ بلند کریں گے آپ ؑ کی وجہ سے مدینہ و مکہ کی بے حرمتی نہ ہوگی۔ حضرت امام مہدی ؑ سنی ، شیعہ سب کے ہیں، سنی عوام نے کبھی مکہ و مدینہ کی توہین نہیں کی اور شیعہ عوام نے بھی نہیں کی۔ بات ہورہی ہے اقتدار پر براجمان ہونے والوں کی، تخت و تاج والوں کی، حکمرانوں کی، یہ حقائق ہیں جو ماضی میں ہوا وہ اب پھر ہونے جا رہا ہے۔ مسلمان بیدار ہوں سنی، شیعہ نہ لڑیں اپنے بے عمل حکمرانوں پر نظر رکھیں جو اسلام کا ماسک پہن کر اسلام کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔
سفیانی کا انجام
البتہ اﷲ کا اپنا نظام ہے کہ مدینہ میں توسفیانی لشکر والے قتل عام کریں گے اورپھر امام مہدی (عج) کو گرفتار کرنے کیلئے وہ جب مدینہ سے روانہ ہو گاتو مکہ و مدینہ کے درمیان وادی بیداء میں زمین پھٹے گی اور اس کا پورا لشکر زمین میں غرق ہو جائے گاصرف دو آدمی بچیں گے۔۔۔ البتہ سفیانی نے قتل ہونا ہے انطاکیہ کے کنارے پر ہے جو فلسطین میں ہے۔ البتہ اس سے پہلے یہودیوں کا خاتمہ تقریباً ہو چکا ہو گا۔ جوبچے کھچے ہوں گے تو وہ حضرت امام مہدی ؑ کی آمد پر ختم ہوں گے حضرت امام مہدی ؑ کی اصل جنگ سفیانی سے ہوگی جو باغی گروہ ہوں گے دنیا امن اور سکھ کا سانس لے گی اس کاآغاز ہوگا۔
یرموک کیمپ کے فلسطینی
اس وقت جو صورتحال ہے اسے دیکھو! یرموک کیمپ میں لاکھوں فلسطینی ہیں اس وقت وہ مشکل میں ہیں اور اُن کا قتل عام ہو رہا ہے اس کی آواز کوئی بلند نہیں کر رہا۔ ان پر ظلم کون کر رہا ہے؟ داعش کر رہا ہے۔ وہاں عرب خاموش ہیں۔ سعودی عرب کہہ رہا ہے کہ مجھے خطرہ ہے ، وہ اسرائیل کی بات بھی نہیں کررہا ہے۔ جو اصل خطرہ ہے اس کی بات تک نہیں کی جارہی۔ بڑا اچھا لکھا ہے ایاز میر نے مجھے تو ان کا یہ جملہ بہت پسند آیامیں جو چیز بتانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ لکھنے والوں کے ذہن میںیہ بات ڈالی جائے یا آجائے کہ اصل خطرہ اسرائیل ہے اور اسرائیل نے اپنے بڑے منصوبے کے لئے جو پلاننگ کی ہے وہ اس وقت کامیاب جا رہا ہے اور اس وقت ہوش مندی کی ضرورت ہے
’’پاکستان اس وقت انتہائی آزمائش میں آگیا ہے۔ جیسے سعودی مذہبی امور کا مشیر اور اُن کا وزیر کہہ گیا ہے کہ ہم نے تو ان سے نا اسلحہ مانگاہے نہ جہاز مانگے ہیں نہ فوجی مانگے ہیں ہم تو یہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان ہمارے اتحاد میں آجائیں پھر اتحاد والے فیصلہ کریں گے کہ ہمیں پاکستان سے کیا چاہیے۔ ‘‘
سوال یہ ہے کہ’’محمد مرسی عوام کے ووٹوں سے منتخب ایک آئینی حکمران تھے لیکن وہ خلیجی ریاستوں کو گوارہ نہ تھا اسی لئے انہوں نے محمد مرسی کا تختہ الٹنے پر جنرل اللسلیسی کی حمایت کی اور نئی حکومت کو سنبھالا دینے کیلئے سعودی عرب نے بھاری رقوم فراہم کی، سعودی حکومت کو نہ تو اخوان پسند ہیں اور نہ ہی داعش، اور پھر ان کے دل میں ایران کا خوف بھی موجود، وہ امریکہ سے بھی ناراض ہے کیونکہ اس نے خطے میں ان کے ایجنڈے کو آگے نہیں بڑھایا ، شام پر حملہ نہیں کیا، اب وہ اپنے ہمسائے پر موجود یمن کے حالات سے پریشان ہیں، یہ تمام پریشانی اپنی جگہ پر، لیکن کیا اس سے یہ تاثر نہیں ملتا کہ انہیں اسرائیل سے کوئی تشویش لاحق نہیں! کیا یہ سوال نہیں پوچھا جانا چاہیے کہ ہمارے اسلامی بھائیوں کو کیا پسند ہے؟ انہیں مکمل تحفظ کا احساس دلانے کیلئے کیا کیا جا سکتا ہے؟

اصل بات!!آل سعود کے لئے خطرہ
اصل بات یہ ہے کہ آل سعود کوخطرہ ہے کہ ہم جاتے ہیں اور اس جانے میں امریکہ کا ہاتھ ہے کہ یہ شاہ اب چلے جائیں لیکن اس جانے میں اسرائیل شامل ہے اور ان کی سازش یہ ہے کہ یہاں فرقہ واریت بھی بناؤ عربوں عجموں کو بھی لڑاؤ، عربوں کو عربوں سے بھی لڑاؤاور خود مزے سے آرام سے اسرائیل بیٹھا مزے لے رہاہے۔
آل سعود کی حالت زار
سعودیہ کے اندر آل سعود سے سلفی بھی ناراض ہیں اور عام سنی بھی ناراض ہیں۔
اب جو شیعہ ہیں اسماعیلی شیعہ یا اثناء عشری ہوں وہ سعودیہ کے اطراف میں ہیں وہ اپنے حقوق مانگتے ہیں، وہ جب سعودی کے خلاف بات کر رہے ہوتے ہیں تو وہ اپنے حقوق مانگ رہے ہوتے ہیں وہ حکومت نہیں چاہتے ، بلدیاتی الیکشن میں اپنا حق مانگتے ہیں ان کے جوحقوق ہیں وہ انہیں دیئے جائیں تیل ان کے علاقے میں ہے اسماعیلیوں کے علاقے میں تیل ہے اور اِدھرشیعہ اثناء عشریوں کے علاقے میں ہے۔ درمیان میں تو صحرا ہے ابھی وہاں شہر بنا دیئے ہیں وہاں تو کچھ بھی نہیں جو آباد علاقے ہیں وہ سارے شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے تو نہیں کہاکہ ان کی حکومت ہمیں چاہیے، وہ تو نہیں کہتے کہ ہمیں مکہ و مدینہ چاہیے۔ مکہ مدینہ لینے والا آئے گا وہ بغیر جنگ کے مل جائے گا۔
اقتدار پسندوں کی منطق
شیعہ کہتا ہے کہ ہم بیت المقدس کی آزادی چاہتے ہیں،عام سنی بھی بیت المقدس کی آزادی چاہتا ہے۔شیعہ ہوں یا سنی کوئی مکہ و مدینہ کی بے احترامی نہیں چاہتا مکہ و مدینہ کا تقدس عزیز ہے حکمران طبقہ کے نزدیک اقتدار مقدس ہے، حرم رسولؐ اور کعبۃ اللہ مقدس نہیں ہیں شیعہ سنی سب چاہتے ہیں کہ اسلام کا دشمن مسلمان کا دشمن۔ اسرائیل کا وجود ختم ہونا چاہیے اب اس بات کو کس طرح عام ذہنوں میں ڈالا جائے یہ اصل کام ہے ہمارے تجزیہ نگار بہت اچھی اچھی باتیں لکھ رہے ہیں اور بڑا کلیئر مؤقف بھی مجموعی طور پر آگیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ سعودی کہہ رہے ہیں کہ پاکستان عرب اتحاد میں آجائے، اگر آجاتا ہے تو اسرائیل مقابل میں آتا ہے تو عربوں نے تو اسرائیل کو تسلیم کیا ہوا ہے۔ پھر پاکستان کیاکرے گا؟ جبکہ ہمارا تو پہلا دن کامؤقف یہ ہے کہ ہم اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے۔ یہ بڑے عجیب و غریب حالات ہیں بہرحال آپ لوگ اپنی عقلیں استعمال کریں۔

قارئین کیلئے ضروری وضاحت
مندرجہ بالا تحریر۱۷ اپریل ۲۰۱۵ء کی ہے۔ ۲۲ دن ہوگئے یمن پر یکطرفہ طور پر سعودیہ کے جنگی طیارے بم برسا رہے ہیں۔ ہزاروں یمنی شہید اور مجروح ہیں،سلامتی کونسل کا غیر منصفانہ فیصلہ بھی آچکا ہے جب تک یہ تحریر قارئین تک پہنچے گی حالات مزید بدل چکے ہوں گے ۔
امید ہے یمن میں امن قائم ہوچکا ہوگا۔ البتہ جو کچھ ہو رہا ہے اس پر افسوس کرناچاہیے۔
مصر میں محمد مرسی کی منتخب آئینی حکومت کو گرانے کیلئے سعودی عرب السلیسی کی حمایت کرتا ہے۔
شام میں بشارالاسد منتخب صدر کو گرانے کے لئے مسلح باغی تحریکوں کی سعودیہ حمایت کرتاہے۔
یمن میں۷ ۳ سال کے اقتدار میں رہنے والے علی عبدالصالح کو ایک معاہدہ کے تحت عبدالرب الہادی جو نائب صدر ہوتا ہے اسے اقتدار دیا جاتا ہے سعودیہ اس پر راضی ہوتا دونوں حوثی اور زیدی ہیں جب وہ اپنے معاہدہ پر عمل نہیں کرتا اور اس کے خلاف یمنیوں کی تحریک اٹھتی ہے تو ایک غیر منتخب صدر کو بچانے کے لئے یمن پر سعودی عرب چڑھائی کردیتا ہے اور سارے عرب ساتھ دیتے ہیں۔
غزہ پر اسرائیل چڑھائی کرتا ہے کوئی عرب حکمران میدان میں نہیں آتا۔ ایران غزہ والوں کومیزائل دیتاہے، غزہ کے اہل سنت کو بچاتا ہے، لبنان پر حملہ ہوتا ہے، سنی شیعہ سب کا قتل عام ہوتا ہے اسرائیل کے خلاف کوئی عرب میدان میں نہیں آتا۔ شام اور ایران حزب اللہ کی مدد کو آتے ہیں۔
لیبیا کے کرنل قذافی کا تختہ الٹنے پر عرب خاموش رہتے ہیں۔ داعش مکہ و مدینہ پر چڑھائی کی بات کرتے ہیں لیکن اس کے خلاف بھی عرب میدان میں نہیں آتا۔
عراق کے اہل سنت اور شیعوں کو بچانے کے لئے بلکہ کردوں کو حفاظت دینے کے لئے شیعہ رضاکار اور ایرانی و لبنانی جرنیل میدان میں آتے ہیں۔
یہ دُہرا معیار ، آخر کب تک؟؟
ایک بات واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے، مستقبل اسلام کا ہے، اللہ کے نمائندے حضرت امام مہدی ؑ (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف)نے تشریف لانا ہے، میں دیکھ رہاہوں یہ سب حالات ایک بڑے انقلاب کی نوید دے رہے ہیں جب منافقین کے چہروں سے نقاب اتریں گے ظالم اپنے ظلم کا انجام پائیں ح گے، اللہ کا نظام ہر سُو نافذ ہوگا، انسان امن سے رہے گا کوئی کسی کا دشمن نہ ہوگا ہر طرف ہریالی ہوگی، سکون ہی سکون ہوگا، آرام ہی آرام ہوگا۔
’’الیس الصبح بقریب‘‘ظلمت کی سیاہ رات چھٹے گی اور عدل الٰہی کی صبحِ نور طلوع ہوگی کوئی کسی کو دھوکہ نہ دے سکے گا، پیار عام ہوگا، محبت کے اقتدار کی آرزو ہی ہماری زندگی کا متاع ہے۔
اللھم عجل لولیک الفرج والنصر
**۔۔۔*۔۔۔**
خبر کا کوڈ : 456056
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

نورسید
Pakistan
یا اللہ اپنے نائب امام مہدی علیہ السلام کا ظہور جلد فرما اور ہمیں ان کے عوان و انصار میں شامل فرما۔ آمین ثم امین
نقوی
Pakistan
الٰہی آمین
ہماری پیشکش