0
Saturday 25 Apr 2015 21:30

آل شیخ کی آمد یااللہ خیر!

آل شیخ کی آمد یااللہ خیر!
تحریر: سید اسد عباس تقوی

آج کل پاکستان عرب شیوخ کی جولانگاہ بنا ہوا ہے، ایک شیخ جاتے ہیں تو دوسرے تشریف لے آتے ہیں۔ گذشتہ ہفتے سعودیہ کے اسلامی امور و اوقاف کے وزیر شیخ صالح بن عبدالعزیز پاکستان تشریف لائے، انہوں نے اپنے دورے کے دوران بہت سے علماء سے ملاقاتیں کیں۔ شیخ صالح بن عبدالعزیز پاکستان کے بعد ہندوستان تشریف لے گئے، جہاں وہ ہندوستان کے علماء سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ شیخ صالح بن عبدالعزیز کے دورہ پاکستان اور ہندوستان کی اصل وجہ کیا ہے، تاحال اس کی تفصیلات سامنے نہیں آئیں، ممکن ہے وہ کسی سالانہ یاترا پر ہوں، تاہم غالب گمان یہی ہے کہ یمن کے معاملے میں وہ مملکت سعود کی مشکلات کے حوالے سے ہی محو پرواز ہیں۔ شیخ صالح بن عبدالعزیز کے بعد اس وقت امام کعبہ جناب شیخ خالد الغامدی بعض روایات کے مطابق چار اور بعض روایات کے مطابق سات روزہ دورے پر پاکستان تشریف لائے ہیں۔ ’’ان شیوخ کی آمد مرحبا‘‘ پاکستان ان کا اپنا دیس ہے جی آیاں نوں، جب چاہیں تشریف لائیں ’’ست بسم اللہ‘‘، ’’چشم ما روشن دل ما شاد‘‘ لیکن!
ذرا ٹھہریے!

ان شیوخ کو امت مسلمہ کی محبت نے تڑپایا ہے یا صلہ رحمی نے اکسایا ہے؟ اچانک سے کیوں دورے شروع ہوگئے اور وہ بھی اتنے طویل دورے؟ شاید بعض لوگوں کے لئے یہ دورے بہت تقدس کے حامل ہوں، تاہم ملک میں کچھ ایسے لوگ بھی بستے ہیں جن کو یہ دورے مقدس سے زیادہ سیاسی نوعیت کے لگ رہے ہیں اور وہ دیکھ رہے ہیں کہ ان دوروں کے نتائج کچھ زیادہ اچھے نہیں نکلنے والے۔ پاکستان ایک ایسا دیس ہے جہاں متعدد اقوام اور مسالک کے پیروکار آباد ہیں۔ امام کعبہ ہوں یا کوئی اور مذہبی وزیر، ان کا بہرحال ایک مسلکی تشخص ہے اور وہ اس تشخص کا لحاظ کرتے ہوئے فقط حکومتی عہدیداروں اور اپنے ہم مسلک افراد سے ہی ملتے ہیں۔ اس بات کا اظہار امام کعبہ کے استقبال سے بھی ہوتا ہے کہ سینیٹر ساجد میر اور علامہ طاہر اشرفی نیز چند حکومتی افسران کے علاوہ وہاں کسی اور مسلک کا کوئی نمائندہ موجود نہ تھا۔ پھر تازہ ترین سیاسی صورتحال اور پاکستان کی مشترکہ ’’نہ‘‘ نے تو معاملے کو اور بھی پیچیدہ بنا دیا ہے۔

کہا جا رہا ہے کہ یہ اعلٰی سطحی دورہ جات ملک میں بہت سے مالی وسائل لائیں گے، (اگرچہ وہ ایک مخصوص اکائی تک ہی محدود کیوں نہ ہوں)، پارلیمنٹ کے موقف کے باعث پیدا ہونے والی دوریاں بھی کم ہوں گی، پاکستان اور سعودیہ کے مابین تعلقات میں بہتری آئے گی، لیکن کس قیمت پر؟ یہ سوال پاکستان کے لئے سوچنے والے افراد کے لئے لمحہ فکریہ بنا ہوا ہے۔ کیا اس کے لئے ہمیں اپنے ملک میں موجود مسلکی تنوع کو نظر انداز کرکے ایک مخصوص فکر کو آگے بڑھانا ہوگا؟ کیا ہمیں ایک طفیلی ریاست بننا پڑے گا؟ کیا ہمیں دوسروں کی مرضیوں کے مطابق عمل کرنا ہوگا؟

میں ماضی کو نہیں کریدتا کہ کس نے کیا کیا؟ میرے مدنظر تو حال اور مستقبل ہے۔ عرب برادران نے یقیناً ہماری بہت سے امور میں مدد کی ہے، تاہم ان کی یہ مدد کہیں کہیں ہمارے لئے وبال جان بھی بنی۔ حکومتی سطح پر آنے والی مدد کے علاوہ ہمارے شہریوں کو عرب ممالک سے مذہبی و تبلیغی مد میں بھی بہت کچھ ملا، کاملاً نہ سہی ملک میں پھیلی شدت پسندی میں اس سرمایے کا ایک کردار ضرور ہے۔ اب اس سرمایے کی آمد اور ساتھ ساتھ شدت پسندی کی رفتار بڑھنے کی توقع کی جائے تو غلط نہ ہوگا۔ یہ حقیقت ملک کے دیگر مکاتب میں بے چینی کو جنم دینے کے لئے کافی ہے۔ بالکل وہی جہاد افغانستان والا منظر نامہ۔ مجھے تو یوں لگتا ہے کہ مشرق وسطٰی میں لگنے والی آگ نے اب آہستہ آہستہ برصغیر کا رخ کرنا شروع کر دیا ہے۔

اللہ ہمارے اہل فکر و نظر کو اس موقع پر صحیح فیصلے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اب تک ہمارے ملک کی سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے نہایت تدبر کا مظاہرہ کیا ہے۔ داد دینی پڑے گی مسلک دیوبند کے سرخیل مولانا فضل الرحمن صاحب اور جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب کو جنھوں نے یمن میں فوج بھیجنے کے حوالے سے پارلیمان میں عادلانہ موقف اختیار کیا۔ اسی طرح ملی یکجہتی کونسل پاکستان میں شامل جماعتوں نے بھی عوامی منشاء کے مطابق فیصلہ دیتے ہوئے یمن کے معاملے میں مصالحتی کردار ادا کرنے کی بات کی، تاہم اب معاملہ اگلے مرحلے میں داخل ہوچکا ہے۔

سعودی حکومت کے وزیر مذہبی امور اور امام کعبہ پولیو کے قطرے پلانے نہیں بلکہ پاکستان کی مذہبی اور سیاسی قیادت سے ملنے نیز انہیں یمن سے متعلق حقائق (جو سعودیہ کی نظر میں حقائق ہیں) سے آگاہ کرنے تشریف لا رہے ہیں۔ ان کی بھرپور کوشش ہوگی کہ ملک کی اکثریت کو دفاع حرمین کے عنوان سے متحرک کریں اور عوام میں دفاع حرمین کے حوالے سے شعور بیدار کریں۔ یہاں ایک بات عرض کرنا ضروری خیال کرتا ہوں کہ کہ نہیں معلوم کہ حرمین کو خطرہ ہے کس سے؟ حرمین کو تو درحقیقت خطرہ 1926ء میں درپیش تھا۔ پاکستان سے خلافت کمیٹی کے اراکین اس خطرے کو بھانپتے ہوئے عازم سعودیہ ہوئے، مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، علامہ سید سلیمان ندوی کئی روز تک آل سعود کے مہمان رہے، تاکہ ان سے یقین دہانی لے سکیں کہ حرمین میں موجود مقدسات مسلمین کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔

سلطان عبدالعزیز نے اپنے کئی تاروں کے ذریعے ان بزرگوں کو یقین دہانی کروائی کہ مزارات صحابہ، ازدواج رسول ؐ و اہل بیت کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا، لیکن خلافت کمیٹی کا یہ وفد لکھتا ہے کہ ابھی ہم جدہ میں ہی تھے کہ ہمیں اطلاع ملی کہ جنت البقیع میں موجود تمام مزارات کو مسمار کر دیا گیا ہے۔ کچھ گولیاں گنبد خضری میں بھی لگی ہیں۔ جس کی شکایت کا احوال مولانا محمد علی جوہر کی کتاب ’’نگارشات محمد علی جوہر‘‘ سے پڑھا جاسکتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ حرمین شریفین کو جتنا خطرہ اس دور میں آل سعود سے تھا کسی سے بھی نہیں ہوا۔ حیرت کی بات ہے کہ آج یہی آل سعود دفاع حرمین کی بات کرتے نظر آتے ہیں اور الزام ان حوثیوں پر ہے جو بیت اللہ کو خانہ خدا سمجھتے ہیں، پانچ وقت اس کعبہ کی جانب منہ کرکے نماز پڑھتے ہیں۔ اہل بیت علیہ السلام، صحابہ کرام اور ازدواج مطہرات کے ایمان کو اپنا جز سمجھتے ہیں۔ العجب ثم العجب
خبر کا کوڈ : 456525
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش