1
0
Tuesday 28 Apr 2015 14:35

کعبہ سے پارلیمنٹ تک!!

کعبہ سے پارلیمنٹ تک!!
تحریر: طاہر یاسین طاہر

کعبہ تمام مسلمانوں کا مرکز اور امت مسلمہ کے اتحاد کی علامت ہے۔۔۔ امامِ کعبہ جو آج کل پاکستان کے دورے پہ ہیں، ان کا فرمان ہے کہ یمن کے فتنے کو روکنا دینی فریضہ ہے، حوثی باغیوں نے حرمین پر قبضے کے عزائم ظاہر کئے تھے جبکہ حوثیوں کا کہنا ہے کہ وہ خانہ کعبہ اور روضہ رسول (ص) پر حملے کا سوچ بھی نہیں سکتے اور یہ کہ وہ بھی دیگر مسلمانوں کی طرح خانہ کعبہ کی طرف ہی منہ کرکے نماز ادا کرتے ہیں۔۔ مجھے نہیں معلوم کہ فریقین میں سے ’’سچا‘‘ کون ہے۔ البتہ ایک بات طے ہے کہ امامِ کعبہ اس وقت عالمِ اسلام کی نمائندگی کرنے کے بجائے آلِ سعود کے سرکاری ترجمان کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہ امر نہایت افسوسناک ہے کہ وہ جگہ جو مسمانوں کے اتحاد کی علامت ہے، اس سے جڑی ہوئی ایک معتبر شخصیت عالمِ اسلام کی نمائندگی کرنے کے بجائے ایک مسلک اور ایک خاندان کی نمائندگی کرتی نظر آرہی ہے۔ یہی نہیں یہ عظیم ہستی ایک فرقے اور مسلک کو پروموٹ کرتے ہوئے یہ بھی کہتی ہے کہ ’’فرقہ واریت‘‘ دہشت گردی سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔۔ مصحفی کا مصرع یاد آتا ہے
’’وہی قتل بھی کرے ہے وہی لے ثواب الٹا‘‘

ہمارے پاکستانی میڈیا کا المیہ کچھ اور ہے، سعودی عرب اور یمن کے تنازع میں جو بہرحال ایک سیاسی تنازع ہے، پاکستانی میڈیا بھی اسے ایک مقدس جنگ کے طور پر پیش کرتا نظر آرہا ہے۔ اگرچہ کچھ تجزیہ کار بڑے وقار سے سعودی جارحیت کے مضر اثرات پہ لکھ بھی رہے ہیں اور بول بھی رہے ہیں، مگر ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ نہ صرف پاکستانی میڈیا بلکہ مشرقَ وسطٰی اور دنیا کا بیشتر میڈیا یک طرفہ ٹریفک کے بہاؤ میں بہہ رہا ہے، جہاں صرف سعودی عرب کے مؤقف کو بیان کیا جاتا ہے۔ یہ سعودی عرب اور اس سے جڑے مفادت کی اختراع ہے کہ حوثی حرمین شریفین پہ حملہ کرنا چاہتے تھے، جبکہ حوثیوں کا کہنا ہے کہ وہ ایسا سوچ بھی نہیں سکتے۔ حوثیوں کے مؤقف کو کم از اکم پاکستانی میڈیا نے وہ جگہ نہیں دی جو ان کے اس بیان کی بنتی تھی۔ اگر پاکستانی میڈیا حوثیوں کے اس بیان کو واضح شائع کرتا تو پاکستان میں فرقہ وارانہ بیج بونے والوں کی حوصلہ شکنی ہوتی۔ مگر وہ آج بھی اسی ڈگر پہ چل رہے ہیں کہ حرمین شریفین کو خطرہ لاحق ہے۔ یہ ایک طرف کا مؤقف ہے۔ سعودی عرب کا شاہی مؤقف۔۔

آلِ سعود کے پاس اس کے سوا راستہ نہیں کہ وہ پاکستان سے جذباتی حمایت حاصل کرنے کے لئے حرمین شریفین کا کارڈ استعمال کرے۔ اس مقصد کے لئے آلِ سعود نے امامِ کعبہ کی خدمات حاصل کیں اور وہ پورے مذہبی کروفر کے ساتھ سعودی شاہی خاندان کے لئے سیاسی مدد حاصل کرنے کو پاکستان آن پہنچے۔ لفظوں کی حرمت پامال نہ ہو تو پورا سچ یہی ہے کہ ان کا مقصد پاکستان کی کچھ مذہبی سیاسی و عسکری جماعتوں کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ انھیں مزید مہمیز کرنا تھا، تاکہ پاکستان کی جانب سے عسکری حمایت بھی حاصل کی جائے۔ حرمین شریفین کے تقدس کو اپنی آمریت کے ساتھ جوڑنے والے ازخود جنت البقیع کی عظمت پامال کر چکے ہیں۔ زمانہ مگر ستم نواز ہے اور پاکستان میں تو اس وقت جس خاندان کی حکومت ہے، وہ سعودی ’’نواز‘‘ ہے۔

لاہور سے فراغت پانے کے بعد سوموار کو امامِ کعبہ الشیخ ڈاکٹر خالد الغامدی نے اسلام آباد میں پاکستانی پارلیمنٹ کا دورہ کیا۔ یہ وہی پارلیمنٹ ہے جو یمن سعودی تنازع پر ایک مبہم سی قرارداد بھی منظور کرچکی ہے، جس میں یہ کہا گیا تھا کہ اگر سعودی عرب کی سالمیت اور حرمین شریفین کو خطرہ لاحق ہوا تو پاکستان سعودی عرب کا ساتھ دے گا۔ مجھے نہیں معلوم کہ امامِ کعبہ کو یہ ضرورت کیوں پیش آئی کہ وہ خود پارلیمٹ میں آکر پارلیمانی جماعتوں کو یہ یقین دھانی کرائیں کہ سعودی عرب اور حرمین شریفین اس وقت واقعی خدشے میں ہیں۔ مجھے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کا بیان یاد آرہا ہے، جو انھوں نے کچھ دن پہلے دیا تھا کہ ’’حرمین شریفین کے لئے ہماری جان بھی قربان مگر ہم آلِ سعود کے آلہء کار نہیں بنیں گے۔‘‘

قصہ کوتاہ یہی کہ آنے والے دنوں میں ان مذہبی، سیاسی و عسکری جماعتوں کی فعالیت دیکھنے کے لائق ہوگی۔ یہ مزید کانفرنسز اور ریلیوں کا اہتمام کریں گی اور حکومت جو پہلے ہی ہتھیار ڈال چکی ہے، اس پر زباؤ بڑھائیں گی کہ وہ سعودی عرب کی حفاظت کے لئے پاکستانی افواج کو وہاں بھیج دے۔ صدرِ مملکت ممنون حسین پہلے ہی امامِ کعبہ کے ساتھ اپنی ملاقات میں فرما چکے ہیں کہ ’’جو چیز سعودی عرب کے لئے اچھی ہے وہ پاکستان کے لئے بھی اچھی ہے اور جو چیز سعودی عرب کے لئے بری ہے، وہ پاکستان کے لئے بھی بری ہے۔‘‘ کیا اب پارلیمنٹ میں ایک نئی قرارداد آئے گی؟ یا کیا امامِ کعبہ جو آلِ سعود کے سرکاری نمائندہ ہیں، وہ اس پارلیمنٹ کا چہرہ دیکھنے آئے جس نے سعودی عرب کی حمایت میں ’’لیت ولعل‘‘ سے کام لیا؟ پہلے عرض کیا کہ کعبہ تمام مسلمانوں کے لئے عقیدت کا مرکز اور تمام مسلمانوں کے لئے وحدت کی نشانی ہے۔ مگر اس سے جڑی معتبر شخصیت کا سعودی یمن تنازع کے حوالے سے بات کرتے ہوئے مرکزی نکتہ یہی رہا کہ سعودی عرب کی سالمیت اور حرمین شریفین کو خدشہ ہے۔ بھلا کس سے؟ ان سے جن پر سعودی عرب نے حملہ کرکے انھیں در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کر دیا ہے۔

منطقی طور پر جارح کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا، جبکہ اس کے ساتھ ایک بڑا اور توانا اتحاد بھی ہو، جبکہ حوثی بغیر کسی غیر ملکی اتحاد کے اپنی سرزمین کے دفاع اور اپنے سیاسی حقوق کے تحفظ کے لئے لڑ رہے ہیں۔ ہمیں آلِ سعود اور حجازِ مقدس کے تاریخی فرق کو فراموش نہیں کرنا چاہیئے۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ کیا آلِ سعود اور حرمین شریفین ایک ہی چیز ہیں؟ بلاشبہ آلِ سعود کی شہنشاہیت کو لاحق خطرات کسی بھی طرح حرمین شریفین کے لئے خطرہ نہیں ہیں۔ آخری تجزیے میں آلِ سعود خطے میں نفرت کے نئے بیج بو رہا ہے، جو اپنے تباہ کن اثرات کے ساتھ ظاہر ہوں گے۔ اس خاندان نے ہمیشہ اپنی بادشاہت کے لئے مذہب کو استعمال کیا۔ کیا ہی اچھا ہو کہ سعودی عرب اور اس کے سرکاری نمائندے قبلہ اول کو آزاد کرانے کے لئے بھی اتنی ہی فعالیت کا مظاہرہ کریں۔ فکری مغالطے بے شک امت کو کمزور کا کرنے کا سبب بنیں گے۔ دانشورانِ پاکستان کو پاکستان کا مفاد دیکھنا چاہیے، کیا ہی اچھا ہو کہ سعودی عرب کے لئے بھی وہی چیز اچھی ہو جو پاکستان کے لئے اچھی ہے۔۔ پاکستان کے لئے امن سب سے اچھا ہے اور اس امن کو خراب کرنے والوں کی سعودی عرب نے ہمیشہ دامے درہمے سخنے مدد کی ہے۔ آج وہی طالبان کے نمائندے امامِ کعبہ کے ساتھ تصویر میں نظر آتے ہیں تو میں اپنے صدرِ مملکت کے بیان پر انگشت بدندان رہ جاتا ہوں۔
خبر کا کوڈ : 457092
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

raja qanbar
Pakistan
100% true. every body hilaal the "petro dollrs"
ہماری پیشکش