0
Thursday 7 May 2015 12:11

یمن پر سعودی جارحیت اور اسرائیلی مفادات کی تکمیل

یمن پر سعودی جارحیت اور اسرائیلی مفادات کی تکمیل
تحریر: محمد محسن فایضی

26
مارچ 2015ء کو سعودی عرب نے یمن کے خلاف فوجی جارحیت کا آغاز کر دیا اور 27 روز کی بمباری کے نتیجے میں 4 ہزار سے زائد بیگناہ یمنی شہریوں کو جاں بحق اور زخمی کرنے کے بعد عارضی جنگ بندی کا اعلان کر دیا۔ البتہ سعودی عرب کی جانب سے اعلان کردہ یکطرفہ جنگ بندی زیاد دیر قائم نہ رہ سکی اور یمن پر حملوں کا نیا سلسلہ شروع ہوگیا۔ سعودی عرب نے اپنی اس فوجی کارروائی کے دوران جس کا نام "فیصلہ کن طوفان" (عملية عاصفة الحزم   Operation Decisive Storm) رکھا گیا تھا، زمینی کارروائی کیلئے اتحادیوں اور ساتھیوں کی تلاش جاری رکھی۔ سعودی عرب نے مختلف وجوہات کی بنا پر یمن کے خلاف زمینی کارروائی کیلئے اپنے اتحادیوں سے مدد مانگی۔ ان وجوہات میں کرائے کے فوجیوں پر مشتمل ہونے کی وجہ سے اپنی مسلح افواج کی کمزوری، 2009ء میں حوثی جنگجووں کے مقابلے میں شکست کا تلخ تجربہ جبکہ اس وقت حوثی جنگجو آج کے مقابلے میں کہیں زیادہ کمزور اور کم تعداد میں تھے اور دیگر وجوہات شامل ہیں۔ لیکن آل سعود رژیم کی توقع کے برخلاف اس کے اتحادیوں نے یمن کے خلاف زمینی حملے میں شرکت سے انکار کر دیا۔ ہم اپنی اس تحریر میں اسرائیل کی جانب سے انصاراللہ یمن کا اثرورسوخ کم کرنے اور اسے برسراقتدار آنے سے روکنے کے بہانے یمن پر سعودی فوجی جارحیت کی کھل کر حمایت کئے جانے کا جائزہ لیں گے۔

اسرائیلی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی رپورٹس کے مطابق اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم اب تک یمن کے خلاف سعودی جارحیت میں براہ راست ملوث رہی ہے اور اس جارحیت کی مکمل حمایت کرتی آئی ہے۔ اسرائیل نے یمن کے خلاف جنگ شروع ہونے کے ایک ہفتے بعد اپنے جنگی طیاروں کو یمن کے خلاف ہوائی حملوں میں شامل کر دیا، تاکہ سعودی اتحادیوں کی جانب سے آغاز ہونے والے "فیصلہ کن طوفان" نامی فوجی آپریشن کے تحت انجام پانے والے ہوائی حملوں کی عدن اور یمن کے دوسرے صوبوں میں یمنی فوج اور انقلابی فورسز کی تیزی سے جاری پیش قدمی کو روکنے میں ناکامی کا ازالہ کیا جاسکے۔ جزیرہ نما عرب خطے میں سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان دوطرفہ تعاون کی تاریخ 1962ء سے 1965ء تک جاری رہنے والی یمن میں خانہ جنگی سے شروع ہوتی ہے، جس کے دوران وہاں شیعہ حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔ اس دوران سعودی عرب اور اسرائیل نے مل کر یمن میں مصر کے انقلابی صدر جمال عبدالناصر کے حامیوں کا مقابلہ کیا اور انہیں شکست دے دی۔ اب اسرائیل کی نظر میں یمن کی اہمیت، یمن کے خلاف فوجی جارحیت کیلئے سعودی عرب کو انتخاب کئے جانے کی وجہ، اسرائیل کی جانب سے یمن کے خلاف جاری سعودی جارحیت کی حمایت اور سعودی عرب کی جانب سے خطے میں اسرائیل کے موثر کردار ادا کرنے کی خواہش کا جائزہ لیتے ہیں۔

1)۔ اسرائیل کی نظر میں یمن کی اہمیت:
الف)۔ بحیرہ احمر اور انرجی کی سکیورٹی میں آبنائے باب المندب کی اہمیت: اسرائیل کیلئے یمن کی اہمیت کی اہم ترین وجہ اس کی جیوپولیٹیکل پوزیشن ہے۔ اسرائیل اپنی بندرگاہ "ایلات" کے ذریعے بحیرہ احمر کے آزاد پانیوں سے متصل ہوتا ہے اور بحیرہ احمر اسرائیل کیلئے بحر ہند سے متصل ہونے کیلئے ایک پل کی حیثیت رکھتا ہے۔ آبنائے باب المندب مشرقی ایشیا تک پہنچنے کیلئے بحیرہ احمر اور بحر ہند کے درمیان واقع ہونے کے ناطے اسرائیلی بحری جہازوں اور بحیرہ احمر پر کنٹرول رکھنے کیلئے بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اسرائیل کیلئے بحیرہ احمر کی سکیورٹی اس لئے بھی انتہائی اہمیت رکھتی ہے کیونکہ اس کے پاس دنیا کے باقی حصوں کے ساتھ رابطے کا واحد ذریعہ بحیرہ روم ہی ہے۔ اسرائیل کے پاس مشرقی اور مغربی ایشیا آنے کیلئے آبنائے باب المندب کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں۔ 1973ء میں سویز کینال کی جنگ کے تجربے نے اسرائیل کیلئے اس آبنائے کی اہمیت کو مزید بڑھا دیا ہے۔ لہذا گذشتہ چند سالوں کے دوران اسرائیلی حکومت نے افریقی سینگ پر واقع ملک اریٹیریا سے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کی ہے، تاکہ اس طرح آبنائے باب المندب اور بحیرہ احمر پر اپنا کنٹرول قائم رکھ سکے۔

آبنائے باب المندب انرجی اور خام تیل کی تجارت کیلئے اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم اور آل سعود رژیم کیلئے مشترکہ خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔ آبنائے باب المندب پر اںصاراللہ یمن کا کنٹرول برقرار ہو جانے کی صورت میں آبنائے ہرمز سے کہیں زیادہ مضبوط اور حساس نکتہ اسلامی مزاحمتی بلاک کے ہاتھ لگ جائے گا، چونکہ آبنائے باب المندب بحیرہ احمر کا دروازہ تصور کیا جاتا ہے، لہذا اس جگہ پر اسلامی مزاحمتی فورسز کی موجودگی اسرائیل اور سعودی عرب کیلئے فقط سکیورٹی خطرہ ہی نہیں بلکہ براہ راست فوجی خطرہ تصور کی جائے گی۔ یمن کے خلاف سعودی عرب کی جانب سے پراکسی وار کے آغاز پر اسرائیلی حکام اور ذرائع ابلاغ کی خوشحالی سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ آبنائے باب المندب پر اسلامی مزاحمتی قوتوں کے قابض ہو جانے سے کس قدر خوفزدہ اور پریشان ہیں۔

ب)۔ یمنی انقلابی عناصر سے درپیش خطرات: یمن میں اںصاراللہ کے برسراقتدار آجانے کی صورت میں خطے میں ایک اسرائیل مخالف حکومت کا اضافہ ہوجائے گا۔ گذشتہ تیس برس کے دوران اسرائیل کی صہیونی رژیم نے خطے کے عرب ممالک کے ساتھ خوشگوار تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی ہے لیکن آج وہ دیکھ رہا ہے کہ یمن میں عنقریب اس کی دشمن حکومت برسراقتدار آنے والی ہے۔ اسرائیل کی نظر میں اس خطرے کا بغور جائزہ لینے سے یمن کے خلاف فوجی جارحیت میں اسرائیل کی جانب سے سعودی عرب کی حمایت اور تعاون کی وجوہات کو سمجھا جاسکتا ہے۔ یمن میں انصاراللہ تحریک نے اپنے آغاز سے ہی "اللہ اکبر، الموت لامریکا، الموت لاسرائیل، اللعنہ علی الیھود، النصر للاسلام" کا نعرہ بلند کیا ہے۔ ان نعروں نے اسرائیل کو خوفزدہ کر دیا ہے اور اسے یہ پریشانی لاحق ہوگئی ہے کہ کہیں 1970ء کے عشرے میں انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کے بعد اسرائیل کے خلاف وجود میں آنے والی نفرت کی لہر ایک بار پھر یمن میں پیدا نہ ہو جائے۔ یمن میں اسرائیل کے خلاف ایک نیا محاذ کھل جانے سے خطے میں اس کے خلاف نئے مزاحمتی گروہوں کی تشکیل کا زمینہ فراہم ہوسکتا ہے۔ لہذا اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم خطے میں اپنے ایسے مخالف گروہوں اور سیاسی جماعتوں کی تشکیل اور طاقت پکڑنے سے خوفزدہ اور پریشان نظر آتا ہے، جو خطے کے ممالک کے ساتھ اس کے خوشگوار تعلقات کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہوسکتے ہیں۔ اسی وجہ سے اسرائیل یمن میں جاری سیاسی تبدیلیوں کو اپنے لئے بڑا ممکنہ خطرہ تصور کرتا ہے۔

2)۔ یمن کے خلاف جارحیت میں سعودی عرب کی حمایت سے اسرائیل کے اہداف و مقاصد:
اسرائیلی حکام نے یمن کے خلاف فوجی جارحیت کے دوران رسمی طور پر سعودی عرب کی حمایت کا اعلان کیا ہے اور اس طرح یمن میں انصاراللہ کی کامیابیوں کو روکنے کیلئے انجام پانے والی کوششوں پر اپنی خوشی کا اظہار کیا ہے۔ اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم یمن کے خلاف انجام پانے والی جارحیت کو اپنی فتح سمجھتی ہے۔ مسلمانوں کو کمزور کرنا اور عالمی رائے عامہ کی توجہ مسئلہ فلسطین سے ہٹا کر کسی اور جانب مبذول کرنا اسرائیل کے دو اہم موجودہ اہداف ہیں، جن کی تکمیل کے ذریعے وہ مختصر مدت کیلئے کامیابی حاصل کرنا چاہتا ہے۔ یمن کے خلاف سعودی فوجی جارحیت کی حمایت میں پوشیدہ اسرائیل کے چند اہم ترین اہداف درج ذیل ہیں:
الف)۔ ایران اور اسلامی مزاحمت کی جیوپولیٹیکس کو کنٹرول کرنا:
اسرائیل نے یمن کے خلاف اپنی پراکسی وار آل سعود رژیم کو سونپ کر خود کو فوجی نقصان سے محفوظ کر لیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اسلامی مزاحمت کے جیوپولیٹیکل محاذ کو بھی پھیلنے سے روک کر بحیرہ احمر اور آبنائے باب المندب میں خود کو درپیش سکیورٹی اور انرجی خطرات کا مقابلہ کرنے میں مصروف ہے۔

ب)۔ ایران اور فائیو پلس ون گروپ کے درمیان جوہری مذاکرات: اس وقت اسرائیل کی حکمران پارٹی خاص طور پر بنجمن نیتن یاہو جو ایران اور مغربی ممالک کے درمیان جاری جوہری مذاکرات کا سب سے بڑا مخالف تصور کیا جاتا ہے، الیکشن میں کامیاب ہو کر ایک بار پھر حکومت بنانے کی تیاری کر رہا ہے۔ بنجمن نیتن یاہو حالیہ الیکشن میں کامیابی کے بعد خطے میں زیادہ موثر کردار ادا کرنے کے بارے میں مزید امیدوار ہوگیا ہے۔ امریکہ اور مغربی طاقتوں کے درمیان جاری جوہری مذاکرات کے بارے میں سعودی عرب اور اسرائیل کے مشترکہ نقطہ نظر کے پیش نظر اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی کوشش ہے کہ وہ سعودی عرب سے تعلقات بڑھا کر ایران کی پوزیشن کو کمزور کرنے کی کوشش کرے، تاکہ ان مذاکرات میں ایران اپنے مطالبات نہ منوا سکے۔ بنجمن نیتن یاہو اور دوسرے اسرائیلی حکام کا خیال ہے کہ امریکہ اور مغربی ممالک کے ساتھ ممکنہ جوہری معاہدہ طے پا جانے کی صورت میں ایران گوشہ گیری کی حالت سے نکل آئے گا، جس کے باعث اسلامی جمہوریہ ایران کی طاقت میں اضافہ ہو جائے گا اور وہ خطے میں زیادہ موثر کردار ادا کر پائے گا۔ لہذا اسرائیلی حکومت یمن کے خلاف جاری جارحیت میں شمولیت کو ایران اور مغربی ممالک کے درمیان معاہدے کے مخالفین کا اثرورسوخ بڑھانے کا ایک قیمتی موقع تصور کرتی ہے۔ اگرچہ اس میں کوئی شک نہیں کہ مغربی ممالک اور امریکہ کے ساتھ ممکنہ جوہری معاہدہ طے نہ پانے کی صورت میں بھی ایران خطے میں انتہائی موثر کردار ادا کرسکتا ہے۔

ج)۔ اسرائیل کیجانب سے سلفی گروہوں اور القاعدہ کو ڈھال کے طور پر استعمال کرنا: یمن، القاعدہ اور سلفی گروہوں کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے اور اس ملک میں ان تکفیری دہشت گرد گروہوں کے مقابلے میں انصاراللہ کی کامیابی اسرائیل کی قومی سلامتی کیلئے خطرے کی گھنٹی تصور کی جاسکتی ہے۔ آج اسرائیل کے مقابلے میں اسلامی دنیا میں موجود اسلامی مزاحمتی قوتیں تکفیری دہشت گرد عناصر کے مقابلے میں کھڑی ہیں۔ لہذا تکفیری دہشت گرد عناصر جس قدر کمزور ہوں گے اسلامی مزاحمتی بلاک اسی قدر مضبوط اور طاقتور ہوتا جائے گا۔ اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم جنوبی یمن میں القاعدہ کی شکست کو اسلامی مزاحمتی بلاک کے مقابلے میں اپنی ڈھال کھو دینے کے مترادف سمجھتی ہے، لہذا یمن کے خلاف جاری فوجی جارحیت میں سعودی عرب کی کامیابی کو تکفیری دہشت گرد عناصر پر مشتمل اپنی ڈھال کی حفاظت کیلئے انتہائی اسٹریٹجک کامیابی تصور کرتی ہے۔

3)۔ یمن کے خلاف آپریشن میں سعودی عرب کی جانب سے اسرائیل کو شامل کرنے کی کوششوں کی وجوہات:
سعودی عرب یمن کے خلاف شروع کی گئی فوجی جارحیت میں اسرائیل کو بھی شامل کرنے پر مصر ہے۔ سعودی عرب کے اس اقدام کی درج ذیل وجوہات بیان کی جاسکتی ہیں:
الف)۔ علاقائی سطح پر گوشہ نشینی سے باہر نکلنا: سعودی عرب آج مختلف وجوہات خاص طور پر شام میں صدر بشار اسد کی حکومت گرانے میں ناکامی اور امریکہ کی جانب سے شام کے خلاف فوجی کارروائی سے امتناع کے باعث سیاسی طور پر خطے میں گوشہ نشینی کا شکار ہوچکا ہے۔ لہذا سعودی عرب نے اسرائیل کو اپنے ساتھ ملا کر ایک تو اس گوشہ نشینی سے باہر نکلنے کی کوشش کی ہے اور دوسرا خطے کے باقی ممالک جیسے پاکستان اور ترکی وغیرہ کو بھی یمن کے خلاف جارحیت میں اسرائیل کے دوش بدوش کردار ادا کرنے میں سبقت لے جانے کی غرض سے شریک ہونے کی ترغیب دلائی ہے۔ مصر کی جانب سے یمن کے خلاف جنگ میں شرکت پر اظہار آمادگی کو اسی رقابت کا نتیجہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ لیکن جو چیز خطے کے ممالک کی جانب سے یمن کے خلاف زمینی فوجی کارروائی میں شرکت سے گریز کرنے کا باعث بنی، وہ یمن کے خلاف زمینی حملے کا اسٹریٹجک اعتبار سے خطا ہونا تھا۔ سعودی فرمانروا ملک سلمان خام تیل کی پیداوار سے حاصل ہونے والے ڈالرز کی مدد سے تشکیل پانے والے اس اتحاد کے ذریعے عراق اور شام میں ہونے والی ناکامیوں کا ازالہ کرنے اور ملک کو گوشہ نشینی سے باہر نکالنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ سعودی عرب میں نئی حکومت کی تشکیل اور ملک سلمان کے برسراقتدار آنے کے بعد یمن انتہائی اہم ایشو کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے اور سعودی حکام اسے اپنا بڑا کارنامہ ظاہر کرکے سیاسی مفادات حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ج)۔ ایران کے مقابلے میں مصنوعی برابری ظاہر کرنے کی کوشش: خطے کی موجودہ حساس صورتحال میں سعودی عرب کے زیر اثر ممالک میں اسلامی جمہوریہ ایران کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ بذات خود آل سعود رژیم کیلئے بڑی سیاسی ناکامی شمار ہوتی ہے۔ آج سعودی حکومت ایران کو اپنا سب سے بڑا نظریاتی دشمن سمجھتی ہے، لہذا یمن میں اس کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو روکنے میں مصروف ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسی صورتحال میں سعودی حکومت کیلئے اسرائیل سے بڑا مددگار اور حامی تصور کئے جانا ممکن نہیں۔ آل سعود رژیم کی کوشش ہے کہ خطے کے دوسرے ممالک کے ساتھ سیاسی اور فوجی اتحاد تشکیل دے کر اسلامی جمہوریہ ایران کی طاقت کے مقابلے میں مصنوعی برابری کا اظہار کرے۔

موجودہ حالات میں آل سعود رژیم کی اسٹریٹجک غلطی اس کو درپیش کئی ممکنہ خطرات کے حقیقت میں تبدیل ہوجانے کا باعث بنی ہے۔ وہ اسٹریٹجک غلطی جس کے نتیجے میں انصاراللہ یمن کی طاقت میں اضافہ ہوا ہے اور اپنے مخالفین پر اس کے غلبے نے اسلامی مزاحمتی بلاک کے دشمنوں کو شدید خوف میں مبتلا کر دیا ہے۔ یمن کے خلاف سعودی عرب کی نام نہاد فوجی کارروائی کے خاتمے کے اعلان پر اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کی پراسرار خاموشی، یمن کے بارے میں اس کی پریشانی باقی رہنے کی واضح علامت ہے۔ جیوپولیٹیکل خطرات کا ابھر کر سامنے آنا، اسلامی مزاحمتی بلاک کا مزید طاقتور ہوجانا، بحیرہ احمر کی وجہ سے پائی جانے والی بارڈر سکیورٹی میں کمی اور اسرائیل کی ڈھال کے طور پر تکفیری دہشت گرد گروہوں اور القاعدہ کی کمزوری، یمن کے خلاف سعودی جارحیت کے چند اہم اثرات شمار کئے جاتے ہیں۔ 
خبر کا کوڈ : 459046
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش