0
Friday 8 May 2015 02:00

یمن کی جنگ اور پاکستان کی پالیسی (1)

یمن کی جنگ اور پاکستان کی پالیسی (1)
تحریر: سینیٹر (ر) محمد اکرم ذکی
akramzaki31@gmail.com

یمن کی خانہ جنگی خلیجی ممالک کی مداخلت اور القاعدہ، داعش کی موجودگی کی وجہ سے ایک سنگین صورت اختیار کر گئی ہے، دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ کی شہ سرخیوں کی زینت بنی ہوئی ہے اور تمام ملکوں کے پالیسی ساز اس پہ غور و فکر کر رہے ہیں۔ پاکستان کی پارلیمنٹ نے چار دن کے طویل مباحثہ کے بعد اس جنگ میں غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کیا، اس کے پرامن حل کی ضرورت پر زور دیا اور ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ اگر حرمین شریفین کے تقدس یا سعودی عرب کی سلامتی کو کوئی خطرہ درپیش ہوا تو پاکستان ان کے ساتھ کھڑا ہوگا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایک قرارداد پاس کی، جس میں انھوں نے عرب ممالک کی حمایت اور حوثی قبائل کی مخالفت کی ہے، لیکن روس اس قرارداد میں غیر جانبدار رہا۔

وطن عزیز پاکستان دنیا کی ساتویں اور اسلامی دنیا کی اکلوتی جوہری طاقت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پیشہ وارانہ، منظم اور مضبوط فوجی قوت بھی ہے۔ طاقت اور اختیار کے زیادہ ہونے سے ذمہ داریاں بھی بڑھ جاتی ہیں اور پاکستان یہ ذمہ داریاں بطریق احسن طویل عرصے سے سرانجام دے رہا ہے۔ ایک مضبوط قوت ہونے کے باوجود پاکستان نے ہمیشہ دوسرے اسلامی ممالک سے اتحاد اور دوستی کی بنیاد پر تعلقات کو فروغ دیا ہے۔ اسلامی دنیا میں پاکستان کا کردار کسی ملک کے خلاف کبھی جارحیت پر مبنی نہیں رہا، بلکہ ہمیشہ ہی مسلم ملکوں سے تعلقات کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ ان ممالک کے درمیان پائے جانے والے تنازعات کو بھی خوش اسلوبی سے حل کرنے میں انتہائی اہم کردار ادا کرتا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک جانب پاکستان کے عمان، سعودی عرب، عرب امارات، کویت، بحرین، قطر کے ساتھ دفاعی تعاون کے معاہدے موجود ہیں تو دوسری جانب ایران، ترکی، وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ بھی انتہائی قریبی تعلقات ہیں۔ خلیجی ممالک بشمول سعودی عرب کے ساتھ دیرینہ اور گہرے مراسم کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ نہ صرف لاکھوں کی تعداد میں پاکستانی افرادی قوت ان ممالک میں موجود ہے، بلکہ پاکستان نے ان ممالک کی ترقی و استحکام کیلئے کلیدی کردار بھی ادا کیا ہے۔

ان ممالک میں بینکنگ کو پروان چڑھانا ہو، یا آئی ٹی کو فروغ دینا ہو، فضائی سروس کا آغاز کرنا ہو، یا بنجر صحراؤں کو خوشمنا باغات میں بدلنا ہو، زیر زمین سرنگوں سڑکوں کی تعمیر ہو یا انتظامی و سکیورٹی اداروں کی تشکیل، عسکری تربیت ہو یا انٹیلی جنس، پاکستان نے ہر میدان میں ایک بھائی کا کردار ادا کیا ہے۔ ان تمام امور سے ہٹ کر سعودی عرب کی سرزمین حرمین شریفین کی سرزمین ہے۔ حرمین شریفین کی حرمت، تقدس، تحفظ پوری امت مسلمہ کو اپنی جان سے بڑھ کر عزیز ہے۔ لہذا اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیئے کہ پاکستان حرمین شریفین کے تحفظ کیلئے کسی سے پیچھے رہے گا۔ یمن کے حالیہ قضیئے میں برادر دوست ممالک کے مطالبے اور پاکستان کے کردار پر بات کرنے سے قبل یمن کی تاریخ، اسٹریٹیجک اہمیت، سیاسی استحکام اور سعودی عرب و یمن کے تعلقات کا مختصر جائزہ لینا ضروری ہے۔

تاریخ یمن

یمن ایک طویل تاریخ کا حامل عرب دنیا کا شائد وہ واحد ملک ہے، جس نے جمہوریت کی جانب قدم بڑھانے کی کوشش کی ہے۔ بھرپور جنگی، قبائلی اور اسلامی تاریخ کا امین ہونے کے ساتھ ساتھ یمن کو اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سرزمین ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ حضرت اویس قرنی، حضرت عمار بن یاسر، حضرت مقداد سمیت کئی اصحاب رسول (ص) کا تعلق یمن سے تھا۔ تاریخ میں یمن کا ذکر 1200 قبل مسیح میں بھی ملتا ہے ۔حضرت سلمان علیہ السلام کے دربار میں جس ملکہ (شیبا) کا تخت لایا گیا تھا، اس کا تعلق بھی یمن سے تھا۔ دنیا کے نقشے پر براعظم ایشیا کے جنوب مغرب اور جزیرۃ العرب و مشرق وسطٰی کے جنوب میں واقع ہے۔ اس کی آبادی مسلمان اور تعداد میں لگ بھگ 2 کروڑ 40 لاکھ ہے۔ اس کا رقبہ 527229 مربع کلومیٹر پر محیط ہے۔ یمن کے مغربی کنارے پر بحیرہ احمر اور جنوبی کنارے پر بحیرہ عرب واقع ہے۔ یہاں کی آبادی 85 فیصد قبائل پر مشتمل ہے۔ کل آبادی میں تقریباً 30 فیصد آبادی زیدیہ شیعہ اور 12 فیصد شیعہ اثناء عشری اور اسماعیلی شیعہ مسالک پر مشتمل ہے۔ گویا یمن کی کل آبادی کا تقریباً 40 فیصد شیعہ مسالک پر مشتمل ہے، بقیہ آبادی سنی مسالک پر مشتمل ہے۔ جس میں اکثریت شافعی اہلسنت مسلمانوں کی ہے۔ ملک کی زیادہ تر زیدیہ مسلک کی آبادی شمالی حصے صعدہ میں آباد ہے جو کہ پہاڑی علاقہ ہے اور یمن کی شمالی 1800 کلومیٹر طویل سرحد سعودی عرب سے ملتی ہے جبکہ اس کی مشرقی سرحد پر عمان واقع ہے۔

قبل از اسلام اس سرزمین پر کئی طاقتوں نے لشکر کشی کی، مگر اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ اپنے عروج کے دور میں رومنز بھی یہاں حملہ آور ہوئے، مگر ناکام لوٹے۔ اسلام آنے کے بعد حضور نبی کریم (ص) نے حضرت علی (رض) کو یہاں تبلیغ کی غرض سے بھیجا۔ یہ ان کی تبلیغ کا ہی اثر تھا کہ پورے کا پورا یمن مسلمان ہوا۔ یہاں کے قبائل کی تاریخ خاص طور پر ان قبائل کی جو پہاڑی علاقوں میں رہتے ہیں، پاک افغان سرحدوں پر بسنے والے قبائل سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ قبائلی رسم و رواج اور روایات میں بندھے یہاں کے باشندے ہتھیار کو اپنی شان اور خنجر کو اپنا زیور سمجھتے ہیں۔ انتہائی نامساعد اور قلیل وسائل کے باوجود یہاں کے قبائل نے کسی جارح طاقت کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے۔ اپنی جنگجوانہ سرشت کے باعث یمن کے قبائل زیادہ تر مصروف جنگ ہی رہے۔ کبھی بیرونی طاقتوں سے تو بسا اوقات یہ قبائل آپس میں برسر پیکار رہے۔

اسلام آنے کے بعد بھی مختلف مسلمان بادشاہتیں ان کے ساتھ جوڑ توڑ کرکے حکومتیں کرتی رہیں، مگر مستحکم حکمرانی قائم نہی ہوسکی اور انتشار رہا۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے شہری علاقوں میں حکومتیں قائم رہیں مگر دیہی علاقے امامت سے منسلک رہے۔ دراصل یہاں کے زیدیہ مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد گرچہ امامت کے قائل ہیں، مگر ان کے اور اثناء عشری شیعہ مسلک میں بہت فرق ہے۔ زیدیہ مسلک کے لوگ امامت کے ساتھ ساتھ خلافت راشدہ کے بھی قائل ہیں اور اہلسنت کے زیادہ قریب سمجھے جاتے ہیں۔ امامت سے منسلک زیدیہ مسلک کی شمالی یمن پر حکومت کی تاریخ تقریباً ایک ہزار سال پر محیط ہے۔ اس دوران کئی مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ انہی زیدیہ مسلک قبائل کی حکومت پورے یمن پر بھی رہی۔ سلطنت عثمانیہ جب اپنے بام عروج پر تھی تو سولہویں صدی میں اس نے یہ علاقہ فتح کیا، مگر ان کے خلاف بغاوت رہی اور رومنز کی طرح ان کے بھی کئی بڑے جرنیل اور فوجی مارے گئے، یہاں تک کہ ان کو بھی بالآخر یہاں سے جانا پڑا۔ دوسری جانب جنوبی یمن کا علاقہ جس میں اہلسنت مسلک کی زیادہ تعداد تھی، ان کا دارالحکومت عدن کی بندرگاہ رہا۔

انیسویں صدی برطانیہ کے عروج کی صدی تھی، سمندر کی لہروں پر برطانوی بحریہ کی حکومت تھی۔ برطانیہ کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ اسٹریٹیجک اہمیت کے تمام کلیدی مقامات برطانوی قبضے میں تھے۔ آبنائے ملاکا، آبنائے ہرمز کی طرح یمن کے انتہائی اہم مقام آبنائے باب المندب پر بھی برطانیہ کی نظریں تھیں۔ باب المندب کو اپنی تحویل میں لینے کیلئے 1939ء میں برطانیہ نے عدن کی بندرگاہ پر قبضہ کرلیا، اور ہندوستان جانے والے جہازوں کے لئے کوئلہ کا ایندھن فراہم کرنے کیلئے اڈہ قائم کیا۔ اس وقت عدن کی کالونی کو برطانیہ کی ہندوستان میں حکومت کنٹرول کرتی تھی۔ 1969ء میں نہر سویز کھلنے کے بعد جب بحر قلزم اور بحیرہ احمر کے راستے یورپ کی تجارت شروع ہوئی، جو پہلے پورے براعظم افریقہ کے گرد چکر لگا کر گزرتی تھی، تو باب المندب کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی۔ برطانیہ نے یمن کے مختلف قبیلوں کے ساتھ بے شمار معاہدے کئے۔ بالکل ویسے ہی جیسے انہوں نے پاکستان کے قبائلی علاقے میں کئے، اور بے شمار سلطان، امیر اور شیخ اپنی چھتری میں لے کر جنوبی یمن کو اپنی سرپرستی میں لے لیا، اسی طرح جزیرہ نما العربیہ کے دوسری طرف خلیجی ممالک کو بھی اپنی حفاظت فراہم کر دی۔ برطانیہ کا اثر و رسوخ بھی جنوبی یمن تک ہی محدود رہا۔ شمالی یمن میں سلسلہ امامت جیسے تیسے 1962ء تک چلتا رہا۔

سعودی عرب کا قیام

بیسویں صدی میں نجدی خاندان کو خوب ترقی و شہرت ملی۔ 1902ء میں ابن سعود نے نجد کے صدر مقام ریاض پر قبضہ کرلیا۔ جس کے بعد کچھ ہی عرصے میں اس نے باقی نجد بھی فتح کرلیا۔ 1913ء میں خلیج فارس کے ساحلی صوبے الحساء پر جو کہ سلطنت عثمانیہ کے زیر اثر تھا، اس پر قبضہ کیا۔ اس دوران یورپ میں پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی۔ جس کے دوران عبدالعزیز ابن سعود نے برطانیہ سے تعلقات قائم کئے اور ترکوں کے خلاف کارروائیاں شروع کر دیں۔ حجاز میں شریف حسین آف مکہ کی حکومت تھی۔ برطانیہ کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے کے علاوہ جنگ عظیم کے بعد عبدالعزیز ابن سعود نے حجاز پر بھی حملہ کرکے قبضہ کرلیا، اور 1926ء میں اپنی بادشاہت کا اعلان کیا۔ بادشاہت کے اعلان کے بعد عبدالعزیز ابن سعود کی جانب سے فتوحات کا سلسلہ جاری رہا اور بالآخر 1932ء میں سلطنت سعودی عربیہ کا اعلان کر دیا۔ اس دوران مزید پیش قدمی کرتے ہوئے یمن کے کئی علاقے عسیر، نجران، جازان وغیرہ اپنی سلطنت میں شامل کرلئے۔ سعودی عرب اور یمن کے درمیان جنگ جاری رہی، جس کا نتیجہ 1934ء میں طائف معاہدے کی صورت میں سامنے آیا۔ اس معاہدے کی انتہائی اہم بات یہ تھی کہ پہلی مرتبہ سعودی عرب اور یمن کے درمیان سرحد کے تعین کیلئے اتفاق رائے پایا گیا۔ یمن کے جو علاقے سعودی عرب کے پاس تھے، ان پر بھی یمن کا حق تسلیم کیا گیا اور یمنیوں کو سعودی عرب میں داخل ہونے اور کام کرنے کی اجازت دی گئی۔ یہ تیل کے پیداواری علاقے بھی ہیں۔ یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ سعودی عرب کے زیر قبضہ یمنی علاقوں میں بھی زیدیہ مسلک کے قبائل آباد تھے اور سرحد کے پار کے یمنی علاقوں میں بھی انہی کی اکثریت تھی۔ باقاعدہ سرحد نہ ہونے کے باعث جھڑپیں چلتی رہیں۔ آخر کار 2000ء میں 1934ء کے معاہدے کی دوبارہ تصدیق ہوئی اور سرحد کا تعین کرلیا گیا۔

شمالی اور جنوبی یمن
1962ء میں شمالی یمن کے اندر زیدی امام کے خلاف فوجی بغاوت ہوگئی۔ اس فوجی بغاوت کی مدد کیلئے مصر کے جمال عبدالناصر نے مصری فوجی اور کثیر مقدار میں اسلحہ بھیجا۔ اس موقع پر سعودی عرب نے شیعہ زیدی امام کی حمایت کی۔ چونکہ شمالی یمن کی سرپرستی سعودی عرب اور جنوبی یمن کی جمال عبدالناصر کر رہے تھے۔ لہذا خانہ جنگی کی صورت میں شمالی یمن اور جنوبی یمن آپس میں برسر پیکار تھے۔ پانچ سال بعد مصر کو اپنے بچی ہوئی فوج وہاں سے نکالنا پڑی۔ شمالی یمن کے قبائلیوں نے رومنز، ترک، کے بعد مصریوں کو بھی تسلط قائم نہیں کرنے دیا اور انہیں نکال باہر کیا۔ ناصر کے بعد جنوبی یمن میں بائیں بازو کی قوتیں کامیاب ہوگئیں۔ برطانیہ کا عدن سمیت دیگر نوآبادیوں سے انخلاء عمل میں آیا تو مصر اور سعودی عرب کے درمیان مفاہمت کے نتیجے یمن باقاعدہ طور پر دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ شمالی یمن جمہوریہ یمن بن گیا اور جنوبی یمن عوامی جمہوریہ یمن کے نام سے قائم ہوگیا۔ یہ سعودی عرب کے پڑوس میں عرب دنیا کی واحد اور پہلی سوشلسٹ جمہوریہ تھی۔ جس نے سوویت یونین، چین، کیوبا اور فلسطینیوں کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کئے۔

1978ء میں علی عبداللہ صالح شمالی یمن کا صدر بنا، جس کی سرپرستی سعودی عرب نے کی اور اسے امریکہ کی حمایت و مدد بھی حاصل تھی۔ شمالی اور جنوبی یمن کے درمیان مخاصمت کا سلسلہ یہیں نہیں تھما، بلکہ دونوں کے درمیان لڑائیاں جاری رہی۔ علی عبداللہ صالح کے دور میں ہی لڑائیوں کے بعد جنوبی یمن کو شکست ہوئی اور بات چیت کے ذریعے 1990ء میں دونوں حصے دوبارہ مل گئے۔ علی عبداللہ صالح یمن کے صدر اور جنوبی یمن کا نمائندہ نائب صدر منتخب ہوئے۔ طویل خانہ جنگی کے باعث غربت میں بتدریج اضافہ ہوا۔ جنوبی یمن میں غربت اور احساس محرومی کی وجہ سے علیحدگی پسند تحریکیں اٹھتی رہیں، احتجاج ہوتے رہے، جن کو بزور طاقت کچلا گیا۔ متحدہ یمن کے قیام کے کچھ عرصے بعد صدام حسین نے کویت پر حملہ کر دیا۔ جس کے خلاف تمام خلیجی ممالک اکٹھے ہوئے اور صدام کے خلاف اتحاد تشکیل دیا۔ یمن نے اس اتحاد سے دوری اختیار کی۔ جس کے نتیجے میں یمن کے خلیجی ممالک کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہوگئے۔

سعودی عرب، کویت اور دیگر خلیجی ممالک نے اپنے ممالک میں موجود ہزاروں یمنی شہریوں کو نکال دیا۔ جس کے باعث یمن میں ایک جانب بیروزگاری میں اضافہ ہوگیا اور حالات ناگفتہ بے صورت اختیار کرگئے۔ خلیجی ریاستوں کے اس عمل نے یمنی عوام کے دلوں میں غم و غصے اور نفرت کے جذبات کو جنم دیا۔ حالانکہ یمن اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والے ایک معاہدے کے تحت سعودی عرب میں کام کرنے کے لئے یمنیوں کو کفیل کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ خلیجی ممالک کے ان اقدامات کے نتیجے میں حسین بدرالدین الحوثی نے اخوان المومنین نامی تنظیم کی بنیاد رکھی۔ اس تنظیم نے قبائل میں اپنے اثر و رسوخ کو انتہائی حد تک بڑھایا اور کچھ فلاحی ادارے بھی قائم کئے۔ 2000ء میں عدن میں امریکی نیوی (ایس ایس کول) پر خودکش حملہ کے ذریعے القاعدہ نے اپنے وجود کا احساس دلایا۔ جس کے بعد امریکہ کی جانب سے ڈرون حملوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ القاعدہ یمن کی حکومت کے بھی خلاف تھی اور حوثیوں کو بھی اپنا دشمن قرار دیتی تھی۔ 2004ء میں یمنی فوج نے اخوان المومنین تنظیم کے خلاف طاقت کا استعمال کیا۔ جس میں بدرالدین حوثی اور ان کے کئی قریبی ساتھی قتل ہوگئے۔ جس کے بعد اس تنظیم کی قیادت عبدالمالک حوثی کے پاس آئی۔ جنہوں نے اس تنظیم کو تحلیل کرکے حوثی تحریک کی بنیاد رکھی۔ جس میں حوثیوں کے تین قبیلے حاثد، باقل اور احمر قبیلے انتہائی متحرک تھے اور ان کا اثر زیادہ تھا۔ 2004ء سے 2009ء تک صالح کی فوج حوثیوں کے خلاف مسلسل لڑائیاں لڑتی رہی۔
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 459208
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش