0
Saturday 9 May 2015 16:39

یمن کی جنگ اور پاکستان کی پالیسی(2)

یمن کی جنگ اور پاکستان کی پالیسی(2)
تحریر: سینیٹر (ر) محمد اکرم ذکی
akramzaki31@gmail.com

عوامی مظاہروں کیخلاف طاقت کا استعمال

2011ء میں تیونس، مصر سے جو عرب سپرنگ اٹھی، تو اس نے لامحالہ یمن کو بھی متاثر کیا۔ ملک میں غربت، بیروزگاری، پسماندگی کے خلاف قبائلی عوام سڑکوں پر نکلنے لگے۔ حکومت کے خلاف جاری ان مظاہروں میں زیدیہ اور اہلسنت دونوں ہی شریک تھے۔ علی عبداللہ صالح کو چونکہ سعودی عرب کی سرپرستی حاصل تھی۔ اس لئے ان مظاہرین کے خلاف طاقت کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ جس میں تقریباً دو ہزار افراد قتل ہوئے۔ سات ہزار کے قریب افراد کو جیلوں میں ڈالا گیا۔ طاقت کے استعمال کے باوجود عوام ثابت قدم رہے، جس کے نتیجے میں علی عبداللہ صالح کو اقتدار سے محروم ہونا پڑا۔ صالح کے بعد اسی کے نائب منصور ہادی کو تین سال کیلئے نگران صدر مقرر کیا گیا۔ سیاسی طور پر غیر مستحکم یمن میں القاعدہ کو جگہ بنانے کا زیادہ موقع ملا۔ منصور ہادی کی حکومت کے خلاف بھی عوامی احتجاج جاری رہا۔ جس کے دوران صدر منصور ہادی نے پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان کر دیا۔ صدر ہادی کے خلاف اٹھنے والی آوازیں زیادہ طاقت اختیار کر گئیں۔ صدر ہادی کے خلاف اٹھنے والی تحریک کے مطالبات ذیل تھے۔ پٹرول کی قیمت میں اضافے کو واپس لیا جائے، چونکہ حکومت بدعنوان ہے، لہٰذا مستعفی ہو کر ٹیکنوکریٹس کی حکومت بنائی جائے۔ قومی مذاکرت کے نتیجے میں ہونے والی سفارشات کی روشنی میں آئینی اصلاحات کی جائیں۔

صدر منصور ہادی کا استعفٰی اور یمن کیخلاف اعلان جنگ
واضح رہے کہ اس عرصے میں صدر ہادی کی مدت صدارت بھی ختم ہوچکی تھی۔ اس دوران مارچ 2015ء داعش نے حوثیوں کی دو مساجد پر خودکش حملے کئے۔ جن میں سینکڑوں نمازی لقمہ اجل بنے۔ حوثیوں نے صدارتی محل کا گھیراؤ کرلیا، اس دوران سابق صدر علی عبداللہ صالح بھی حوثیوں سے آملے اور ان مطالبات کی حمایت کی۔ صدر منصور مستعفی ہوکر پہلے عدن گیا۔ جہاں اس نے اعلان کیا کہ وہ استعفٰی واپس لیتا ہے اور اس کے بعد سعودی عرب چلا گیا۔ اگلے ہی روز ریاض میں جی سی سی کا اجلاس بلاکر یمن پر حملے کی تجویز پیش کی گئی۔ جس کے بعد واشنگٹن میں مقیم سعودی عرب کے سفیر نے اپنی پریس کانفرنس میں منصور ہادی کی درخواست پر یمن پہ حملوں کا اعلان کر دیا۔ اگلے دن سعودی عرب اور عرب اتحادیوں نے یمن پر حملے شروع کئے۔ جس میں اب تک ہزاروں افراد اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ یمن عرب دنیا کا ایک غریب اور کمزور ملک ہے۔ طویل خانہ جنگی اور وسائل کی عدم دستیابی کے باعث عوام پہلے ہی مسائل کا شکار ہیں۔ حالیہ جنگ سے متعلق انٹرنیشنل ہیومن رائٹس کی جانب سے پیش کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خوراک اور ادویات کی شدید قلت کے باعث اموات تجاوز کر رہی ہے۔ رپورٹ میں اقوام متحدہ سے جنگ بند کرانے کی سفارش کی گئی ہے۔ اس جنگ کو ایران پر حوثیوں کی حمایت کا الزام لگا کر کچھ قوتوں نے اسے شیعہ سنی لڑائی کا رنگ دینے کی کوشش بھی کی، لیکن ایران نے مداخلت کے الزامات کو مسترد کر دیا، اور بات چیت کے ذریعے مسائل کو حل کرنے کی حمایت کی۔

اسٹریٹیجک اہمیت
یمن کے مغربی کنارے پر واقع تنگ بحری راستہ باب المندب جیو اسٹراٹیجی کے اعتبار سے انتہائی اہمیت رکھتا ہے، اور مشرق وسطٰی سے نکلنے والا تیل اپنی منزل یورپ کے لئے پہلے آبنائے ہرمز (جو ایران اور عمان کے درمیان واقع ہے) سے ہوتا ہوا اسی تنگ بحری راستے پر پہنچتا ہے اور پھر اگلے مرحلے پر نہر سویز سے نکل کر یورپ کی طرف جاتا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق اس تنگ بحری راستے سے سالانہ 20،000 بحری جہاز گزرتے ہیں۔ یعنی یورپ سے افریقہ تک کا مختصر ترین ٹرانزٹ پوائنٹ ہے۔ بحر قلزم کو بحیرہ احمر کے ذریعے بحرہند کو جوڑنے والی مصرف ترین آبی گزرگاہ کی اہمیت کا اندازہ یوں بھی لگایا جاسکتا ہے کہ یہ یورپ اور افریقہ کے درمیان مختصر ترین تجاری راستہ ہے۔ بحیرہ احمر میں ایک جانب مصر، سوڈان، اریٹیریا اور جبوتی ہیں، جبکہ دوسری جانب سعودی عرب اور یمن واقع ہیں۔ بحیرہ احمر میں کچھ جزائر بھی ہیں۔ 1995ء میں اریٹیریا آزاد ہوا تو جزیروں کے تنازعہ پر یمن اور اریٹیریا کی آپس میں لڑائی ہوگئی۔ اسی طرح یمن کے کچھ جزائر ایسے بھی تھے، جس پر سعودی عرب کے ساتھ جھگڑا تھا، اور ان جزیروں پر بھی یمن کے حق کو زیادہ تسلیم کیا گیا۔ باب المندب ایشیاء اور افریقہ کے درمیان بھی آبی گزر گاہ ہے۔ سعودی عرب کو اس مقام پر سب سے بڑی مشکل یہ درپیش ہے کہ جن سمندروں سے اس کے ساحل ملتے ہیں۔ ان کی اصلی آبی گزرگاہیں دوسرے ممالک کے کنٹرول میں ہیں۔ جیسے خلیج فارس میں واقع آبنائے ہرمز پر ایران اور عمان کا کنٹرول ہے۔ بحیرہ احمر کی اصلی آبی گزرگاہ شمار ہونے والی نہرسویز کا کنٹرول مصر کے پاس ہے۔ اسی طرح آبنائے باب المندب کا کنٹرول یمن اور افریقی ممالک کے پاس ہے۔ چنانچہ یمن میں اپنی مرضی کی حکومت کے قیام کا ایک بڑا مقصد ان سمندری راستوں پر اثر برقرار رکھنا بھی ہے۔

پاکستان کا کردار
عرب اتحاد کی جانب سے جب یمن پر حملوں کا اعلان کیا گیا تو اس موقع پر ان تمام ممالک کے جھنڈے موجود تھے، جو اس جنگ میں شریک تھے۔ ان جھنڈوں میں پاکستان کا پرچم بھی شامل تھا۔ بین الاقوامی میڈیا نے اس پرچم کو نہ صرف فوکس کیا، بلکہ یہ خبر بھی جاری کر دی کہ حملہ آور فضائی دستوں میں پاکستان کے طیارے بھی شامل ہیں۔ جس کی بعد میں پاکستان نے تردید کی۔ دوسری جانب سعودی عرب کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ پاکستان اس جنگ میں ان کا اتحادی ہے۔ جس کا سب سے خطرناک نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ یمن میں مقیم پاکستانیوں کی زندگیاں خطرے سے دوچار ہوگئیں اور انہیں یمن سے فوری طور پر انخلاء کرنا پڑا۔ عالمی میڈیا کے اعلان کے باوجود یمن میں مقیم پاکستانیوں کو حوثیوں نے کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔ جس کا برملا اظہار یمن سے آنے والے پاکستانیوں نے بھی کیا۔ یمن کی جنگ میں پاکستان کی فوجی شرکت کا مطالبہ سامنے آنے کے بعد مختلف سیاسی جماعتوں کا ردعمل بھی سامنے آیا، اور بلاآخر ایک قرارداد منظور ہوئی۔ جس میں نہ صرف سعودی عرب کے تحفظ کیلئے اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کا اعادہ کیا گیا، اور یمن کی جنگ میں غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کیا گیا۔ پاکستان کا یہ فیصلہ انتہائی اصولی اور سفارتی قواعد و ضوابط کے عین مطابق تھا۔

پاکستان کے آئین کے آرٹیکل چالیس میں بھی واضح طور پر درج ہے کہ پاکستان اسلامی دنیا کے ممالک کے ساتھ اتحاد کی بنیاد پر دوستانہ اور بردارانہ تعلقات قائم رکھے۔ ان میں اگر کوئی اختلافات پیدا ہوں، تو ان کو پرامن طریقے سے حل کرنے کو ترجیح دے۔ اس سے قبل وطن عزیز کے اندر چند دینی جماعتوں کی جانب سے تحفظ حرمین شریفین کے نام ریلیاں، سیمینارز، کانفرنسز شروع ہوگئیں۔ کچھ بیرونی وظیفہ خوروں نے اسے شیعہ سنی جنگ قرار دینے کے لئے اپنی ایڑی چوٹی کا زور صرف کر دیا، تو کہیں سے سعودی عرب کی سلامتی کو درپیش خطرات کا ذکر خیر جاری ہوا۔ پارلیمنٹ کی متفقہ قرارداد سامنے آنے کے بعد برادر دوست ممالک کی جانب سے جو ردعمل سامنے آیا، یقینی طور پر اس سے پاکستان کے عوام کے جذبات کو ٹھیس پہنچی، اور سفارتی اصولوں کے بھی منافی تھا۔ یمن کی جنگ میں غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ یوں بھی ضروری تھا کہ بیرونی قوتیں اس جنگ کو فرقہ وارانہ ثابت کرنے پر کمربستہ ہیں۔ پاکستان میں دونوں مسالک موجود ہیں اور دونوں کے درمیان افہام و تفہیم و بھائی چارے کی فضا پائی جاتی ہے۔ لہذا یمن کے مسئلہ میں کسی بھی ایک فریق کی حمایت ہمارے لئے داخلی مسائل کو بھی جنم دے سکتی تھی۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان، اسلامی جمہوریہ ایران اور برادر ملک ترکی کے درمیان 1985ء سے اقتصادی تعاون کی تنظیم کے ذریعے مختلف شعبوں میں تعاون جاری ہے۔ جس کا صدر دفتر تہران میں ہے۔ 1992ء میں سوویت یونین سے الگ ہونے والی اسلامی ریاستوں اور افغانستان کو بھی اس تنظیم میں شامل کرلیا گیا اور وسیع پیمانے پر ان کے درمیان تعاون جاری ہے۔ پاکستان خلیجی ریاستوں میں بھی استحکام چاہتا ہے اور شمالی افریقہ کی مسلم ریاستوں کی آزادی کیلئے بھی پاکستان کا کلیدی کردار رہا ہے۔ فلسطین کے معاملے پر پاکستان آج بھی اپنے بانی قائداعظم کی پالیسی پر گامزن ہے، اور اس نے اسرائیل کو نہ ہی تسلیم کیا اور نہ ہی اس سے تعلقات قائم کئے۔ یہ الگ بات ہے کہ بعض عرب ممالک اپنے اصولی موقف سے ہٹ کر اسرائیل سے تعلقات قائم کرچکے ہیں اور ان تعلقات کو فروغ بھی دے رہے ہیں۔ یمن کے مسئلہ پر غیر جانبدار رہنے کی زیادہ ضرورت یوں بھی تھی کہ یمن سعودی عرب کے مقابلے ایک کمزور اور غریب ملک ہے۔ اس جنگ میں سعودی عرب کی سلامتی یا حرمین شریفین کو کوئی خطرہ لاحق نہیں تھا بلکہ یمن پر حملہ دوسرے عرب ممالک کی طرف سے ہوا تھا۔ اس کے علاوہ پاکستانی افواج ضرب عضب میں مصروف ہیں۔ ملک کے اندر دہشت گردی اور دہشت گردوں کا خاتمہ ہمارے لئے ایک چیلنج ہے۔ بقاء کی اس جنگ کو ہمارے لئے جیتنا انتہائی ضروری ہے۔ دوسری جانب ہندوستان ہماری مشرقی سرحدوں پر جارحانہ کارروائیوں میں مصروف ہے۔ یہی ہندوستان ہماری مغربی سرحد کو بھی غیر محفوظ بنانے کیلئے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے۔ بلوچستان اور کراچی میں ہونے والی تخریب کاری میں اس کے ملوث ہونے کے واضح شواہد موجود ہیں۔

ہمارے ملک کے حالات اس امر کے ہرگز متحمل نہیں کہ ہم یمن کی جنگ میں فریق بنیں۔ ہم اسلامی دنیا کی اکلوتی جوہری طاقت ہیں۔ ہماری جوہری طاقت کے اوپر تمام بڑی طاقتیں نظریں جمائے بیٹھی ہیں۔ ہمیں کوئی بھی ایسا اقدام لینے سے اجتناب کرنا ہوگا کہ جس کے باعث یہ طاقتیں ہمیں غیر ذمہ دار جوہری طاقت سمجھیں۔ ویسے بھی جب ہمارے اوپر حملے ہوئے تھے تو کس کس ملک نے ہمارے دفاع کیلئے کتنی فوج بھیجی تھی۔ کس کس ملک نے جنگوں میں ہماری کتنی مدد کی تھی۔ بھارت کے ساتھ ہونے والی جنگوں میں جن ملکوں نے ہماری مدد کی۔ ہم اس مدد کے شکر گزار ہیں اور ان تمام ممالک کا احترام کرتے ہیں۔ پاکستان پہلے بھی امن کے قیام کے لئے کردار ادا کرتا رہا ہے اور آئندہ بھی کرتا رہے گا۔ یمن کی جنگ کے بارے میں عمان سعودی عرب کے اتحاد کا حصہ نہیں ہے۔ ایران اور ترکی نے بھی مسئلہ کے پرامن حل کی ضرورت پر زور دیا ہے اور جنگ بندی کی تجویز پیش کی ہے۔ عرب ملک عراق کے وزیراعظم نے بھی اس جنگ کی مخالفت کی ہے۔ جنگیں کبھی مسائل کا حل ثابت نہیں ہوتیں۔ عرب ممالک نے مشترکہ عرب فورس کے قیام کا اعلان بھی کیا ہے۔ پاکستان عرب ملک نہیں ہے، جس کی وجہ سے وہ اس فورس کا حصہ نہیں بن سکتا۔ یمن پر حملے سے قبل ریاض میں جی سی سی کی کانفرنس بلائی گئی۔ اگر او آئی سی کی کانفرنس بلائی جاتی تو اس میں پاکستان بھی شامل ہوتا اور اسلامک فورس کا قیام عمل میں آتا تو پاکستان اس میں ضرور شریک ہوتا۔

یمن پر سعودی عرب اور اتحادیوں کے حملے میں یمنی عوام کی ہلاکتوں کے علاوہ دوسرا بڑا نقصان داعش اور القاعدہ کے منظم ہونے کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ فضائی حملوں کے نتیجے میں داعش کے دہشتگردوں نے یمن کی دو جیلیں توڑ کر ان میں قید اپنے سینکڑوں ساتھی آزاد کرالئے ہیں۔ یمن کا صوبہ حضرموت داعش کے کنٹرول میں آچکا ہے۔ یہ وہی داعش ہے، جو حرمین شریفین سے متعلق اپنے مذموم عزائم کا اظہار کرچکی ہے۔ اسی داعش کے خلاف عراق اور شام میں ایران اور اس کے زیر اثر ملیشیا لڑ رہے ہیں۔ یمن کے اندر یہی داعش حوثیوں پر حملے کر رہی ہے۔ یمن پر سعودی حملوں کے نتیجے میں اگر داعش، القاعدہ وغیرہ زیادہ منظم ہوتے ہیں، تو سوچنے کی بات یہ ہے کہ سعودی عرب کے لئے سنگین خطرہ کون ثابت ہوگا، وہ حوثی اور ان کے اتحادی جن میں سابق صدر علی عبداللہ صالح بھی شامل ہے، جو پاور شیئرنگ کی بنیاد پر حکومت میں حصہ چاہتے ہیں یا وہ داعش جو عراق، شام میں تباہی کی مثالیں رقم کرنے کے ساتھ ساتھ حرمین شریفین اور سعودی حکومت سے متعلق اپنے مذموم ارادے ظاہر کرچکی ہے۔

ترقی اور استحکام کے لئے پائیدار امن کا قیام ناگزیر ہوتا ہے۔ ایران کا چھ بڑی طاقتوں کے ساتھ حالیہ جوہری معاہدہ امن کی جانب نہایت مثبت پیش رفت ہے۔ ایران نے ایک لحاظ سے قربانی دی ہے کہ امن کی خاطر وہ دس سال کے لئے اپنا جوہری پروگرام منجمد کرنے پر رضامند ہوا ہے۔ اس معاہدے کے تحت ایران پر عائد اقتصادی پابندیاں بھی اٹھ جائیں گی۔ پابندیوں کے خاتمے سے ہمارے لئے ایران سے بجلی اور گیس کا حصول آسان ہوجائے گا، جو کہ ہماری بنیادی ضرورت بھی ہے۔ ہمارے برادر عرب دوست ملکوں ہماری پوزیشن سمجھنی چاہیے۔ یمن کے مسئلہ کا پرامن حل سب کے مفاد میں ہے۔ 2011ء میں جس طرح کا معاہدہ کرکے حوثیوں کو شریک اقتدار کیا گیا، اب بھی اسی طرز کے معاہدے کی ضرورت ہے۔ چالیس فیصد آبادی کو شریک اقتدار کئے بغیر امن نہیں لایا جاسکتا۔

اگر امن نہیں آیا تو جنگ پورے خطے میں پھیل جائے گی۔ اس جنگ کا پھیلاؤ یا طول سعودی عرب سمیت دیگر خلیجی ممالک کے مفاد میں بھی نہیں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاور شیئرنگ کی ایسی کونسل بنائی جائے، جس میں سب کی نمائندگی موجود ہو۔ یمن میں بھی امن کا یہی راستہ ہے اور افغانستان میں امن کا یہی راستہ ہے۔ طاقت کے بل بوتے پر کوئی مسئلہ حل نہیں ہوسکتا، کوئی مقصد حاصل نہیں ہوسکتا۔ تاریخ نے ایک عجیب سبق دیا ہے کہ امریکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد جتنی بھی جنگوں میں گیا ہے کسی ایک میں بھی اپنا مقصد حاصل نہیں کرسکا۔ اسے کامیابی نہیں ملی۔ ویتنام، عراق، افغانستان کی مثالیں دنیا کے سامنے ہیں۔ برادر دوست ملک سعودی عرب کو امریکی جنگوں کے نتائج ملحوظ خاطر رکھنے چاہیں۔ پاکستان نے بھی امریکی ناکامیوں کو سامنے رکھتے ہوئے یمن کے معاملے میں غیر جانبدار رہنے کا مستحسن فیصلہ کیا ہے اور اس پر قائم رہ کر پرامن طریقے سے مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش جاری رکھنی چاہیے۔
خبر کا کوڈ : 459211
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش