0
Saturday 9 May 2015 02:00

پاکستان میں آل سعود کی آخری اُمید "مذہبی" جماعتیں(1)

پاکستان میں آل سعود کی آخری اُمید "مذہبی" جماعتیں(1)
تحریر: شیخ سلمان رضا
salmanrazapk@gmail.com


سرزمین یمن پر جاری سعودی جارحیت کو ایک ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اب تک اس جنگ کے نتیجے میں ایک ہزار سے زائد نہتے شہری جاں بحق اور تین ہزار سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔ جاں بحق ہونے والوں میں تین سو سے زائد بچے اور عورتیں شامل ہیں۔ جونہی سعودی عرب نے یمن پر سفاکانہ جارحیت شروع کی تو دفاعی تجزیہ نگاروں کی اکثریت نے اسے بے سود اور احمقانہ قرار دیا، لیکن سعودی بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ان کے جواں سال فرزند محمد بن سلمان (جو درحقیقت اپنے والد سعودی فرمانروا کو چلا رہے ہیں) بضد تھے کہ ان کے حملے کی وجہ سے یمن میں مزاحمتی بلاک یعنی حوثی زیدیہ، یمنی فوج اور ان کے شانہ بشانہ سنی شافعی مسلمان پسپا ہوجائیں گے اور نتیجتاً ماضی کی طرح ایک دفعہ پھر آل سعود اپنی کٹھ پتلی حکومت یمن پر مسلط کرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔ لیکن آج حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ آل سعود زمین پر اپنی ناک رگڑ رہی ہے، لیکن اُسے کوئی آبرومندانہ راہ فرار نہیں مل رہی۔ رہبر معظم جیسی بابصیرت شخصیت نے اس احمقانہ اقدام کے فوراً بعد یہ کہہ دیا تھا کہ آل سعود نے یمن پر جارحیت کرکے سنگین غلطی کی ہے اور اس حماقت کے پیچھے آل سعود کی ناتجربہ کار اور کم عمر قیادت کا ہاتھ ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ عجلت میں کئے گئے اس فیصلے کے بعد آل سعود کشکول گدائی تھامے جن ممالک کے پاس گئی ان میں پاکستان سرفہرست ہے۔ جونہی شاہ سلمان بن عبد العزیز نے میاں نواز شریف کو ٹیلی فون کیا، میاں صاحب نے اپنے نجات دہندوں اور حالت ملک بدری کے میزبانوں کو پاکستانی فوج کی اس جارحیت میں شمولیت کی یقین دہانی کروا دی۔ میاں صاحب نے فرط جذبات میں یہاں تک کہہ دیا کہ پاکستان کی تمام دفاعی صلاحیتیں سعودی عرب (یعنی آل سعود) کے دفاع کے لئے حاضر ہیں۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ ہماری تمام دفاعی صلاحیتوں میں سے ایک ہماری ایٹمی ٹیکنالوجی یا ایٹم بم بھی ہے، لیکن میاں صاحب کے اس بیان کے نتیجے میں ملک کی تمام اپوزیشن جماعتوں نے شدید ردعمل کا اظہار کیا۔

ابتدائی ایام میں میڈیا نے بھی اس جنگ میں شمولیت کے خلاف لوگوں میں پائی جانے والی اُمنگوں کی درست ترجمانی کی اور سب سے بڑھ کر دفاعی حلقوں یعنی پاکستانی افواج کی طرف سے بھی خفی انکار کا اظہار کیا گیا۔ ایسی صورت میں میاں صاحب کے پاس فرار کا ایک ہی راستہ رہ گیا کہ اس جنگ میں شمولیت کا فیصلہ پارلیمنٹ سے منظور کروایا جائے، لہٰذا شدید تر عوامی ردعمل اور جنگ کی مخالفت کے بعد میاں صاحب نے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کرلیا اور کئی دن بحث مباحثے کے بعد پارلیمنٹ میں مشترکہ قرارداد پیش کی گئی، کہ پاکستان اس جارحیت میں شریک نہیں ہوگا اور اس جنگ میں غیر جانبدار رہے گا۔ مزید یہ کہ اس تنازع کے پر امن حل کے لئے پاکستانی حکومت اپنی خدمات پیش کرے گی۔ اس قرارداد کا منظر عام پر آنا تھا کہ آل سعود میں بے چینی اور اضطراب کی ایک لہر دوڑ گئی اور سوچا جائے تو یہ بے چینی اپنی جگہ برحق تھی، کیونکہ جب میاں نواز شریف پر آل سعود نے اتنے احسانات کئے ہوں اور اُن کے بارے میں آل سعود کہتی ہو کہ وہ پاکستان میں پاکستانی نہیں بلکہ آل سعود کا آدمی ہے تو اُن سے آل سعود کی یہ توقعات تو ہوں گی، کہ اگر ہم نے اس کی جان جنرل پرویز مشرف کے شکنجے سے بچائی تھی، تو آج جب ہمارے (آل سعود کے) خیال میں ہماری جان کسی (خود ساختہ) شکنجے میں پھنس گئی ہے، تو جونہی ہم میاں نواز شریف کو آواز دیں گے، تو وہ پشت پر ہاتھ باندھے ہر چیز ہمارے سامنے حاضر کر دیں گے، لیکن اس سارے معاملے میں آل سعود سے ایک غلطی ہوگئی کہ وہ چونکہ نظام بادشاہت میں پلے بڑھے ہیں، لہٰذا انہوں نے یہ سمجھنا شروع کر دیا کہ پوری دنیا میں فیصلے بادشاہت والے اسٹائل میں ہوتے ہیں۔

پاکستان اپنی تمام تر خرابیوں کے باوجود ایک جمہوری ملک ہے اور میاں نواز شریف خود کو بادشاہ سمجھتے ہوئے بھی ابھی اتنے بااختیار نہیں کہ پاکستانی قوم کے ٹیکسوں پر پلنے والی بہادر فوج کو انگلی کے اشارے سے سعودی عرب بھجوا دیں۔ لہٰذا دن بدن آل سعود کے پریشر کے باوجود میاں صاحب بے بس رہے اور سعودی فرمانروا کو زبانی طفل تسلیاں دیتے رہے، حالانکہ میاں صاحب کو چاہیے تھا کہ وہ اپنے ذاتی احسانات کا بدلہ چکانے کے لئے اپنے ذاتی وسائل بروئے کار لاتے اور ذاتی احسانات کا بدلہ پاکستانی سپوتوں کے خون سے ادا کرنے کی یقین دہانی ہی نہ کرواتے۔ ذاتی خدمات اس طرح پیش کی جاسکتی تھیں کہ وہ اپنے بیٹے کو لندن میں ملٹی ملین کاروبار ترک کروا کر سعودی فوج میں بھرتی کروا دیتے یا اپنے خاندان کی فوج ظفر موج میں سے چند نوجوانوں پر مشتمل ایک دستہ آل سعود کے دفاع کے لئے بھیج دیتے۔ اس ضمن میں خود اپنے داماد (ریٹائرڈ) کیپٹن صفدر کی خدمات بھی لی جاسکتی تھیں، جو کہ یقیناً میاں صاحب کی دامادی میں آنے کے بعد سے جہاد کے فریضے کی ادائیگی کے لئے بے تاب ہونگے۔ اب چونکہ میاں صاحب نے اپنی خاندانی خدمات سے بھی کنارہ کشی کیے رکھی تو نتیجتاً آل سعود کے تیور بدلے اور پہلے انہوں نے اپنے گماشتے اماراتی وزیر ڈاکٹر انور محمد قرقاش کے ذریعے دھمکی دلوائی کہ پاکستان کو اس حملے کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔

لیکن اس دھمکی کا بھی الٹا اثر ہوا اور پاکستانی عوام نے اسے ناقابل قبول قرار دیا اور اس دھمکی کو درحقیقت حکمرانوں کے لئے دھمکی گردانا کیونکہ اماراتی وزیر جو قیمت لے سکتے تھے، اس سے عوام کا کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ وہ حکمران صفوں میں بیٹھے وزیروں، مشیروں اور پارلیمنٹرینز سے ہی وصول کی جاسکتی تھی، جن کے ناجائز اثاثے اور دولت اماراتی سرزمین اور بنکوں میں موجود ہے۔ حماقت در حماقت کے مصداق اس بیان کا جب الٹا اثر ہوا اور بعض سیاستدانوں نے بھی اس پر ردعمل کا اظہار کیا تو آل سعود پاکستانی سیاستدانوں اور عوام سے مایوس ہوگئی۔ دوسری طرف چونکہ ان کے یمن پر وحشیانہ حملے بھی کارگر ثابت نہیں ہورہے تھے اور مزاحمتی بلاک کی پیش قدمی بھی عدن کی طرف جاری تھی، لہٰذا آل سعود کو اور تو کوئی چارہ نظر نہیں آیا، لہٰذا اس نے پاکستان میں اپنے پرانے وظیفہ خواروں کی طرف رجوع کرنے کا فیصلہ کیا۔ آل سعود یہ جانتی تھی کہ پاکستان میں موجود شیعہ سنی مسلمان اس جنگ کی حمایت نہیں کریں گے، اس لئے اس نے ان مذہبی جماعتوں کی طرف رجوع کیا، جن کے مالی مفادات آل سعود سے وابستہ ہیں، اور ماضی میں بھی سعودی سفارتخانے کی طرف سے ان حلیفوں کے مدارس اور مختلف پراجیکٹس پر سرمایہ کاری کی جاتی رہی ہے۔ بس وہ دن اور آج کا دن سعودی طیارے سے ایک سعودی مشیر آتا ہے تو اس کی واپسی سے پہلے دوسرا سعودی وزیر آجاتا ہے۔

ماہ اپریل کے اوائل میں سعودی سفارتخانے نے اعلان کیا کہ سعودی وزیر مذہبی امور شیخ صالح بن عبدالعزیز پاکستان کے دورے پر آرہے ہیں، لیکن موصوف تو 13 اپریل کو پاکستان تشریف لائے، البتہ اپنے دورے سے پہلے اپنے مشیر کو ریالوں کے بریف کیس بھر کر پاکستان بھیج دیا، تاکہ ان کے دورے سے پہلے پاکستان میں زمینہ سازی کی جائے، لہٰذا اس مشن کے لئے ڈاکٹر عبدالعزیز نے سب سے پہلے اپنے ہم مسلک مدارس کی تنظیم کے سربراہ کے ساتھ رابطہ کیا۔ ہمیں یاد رہے کہ اس تنظیم کے سربراہ پچھلے کئی سالوں سے مسلم لیگ نون کے ٹکٹ سے سینیٹر منتخب ہوتے آئے ہیں اور کبھی براہ راست عوامی ووٹوں سے پارلیمان میں منتخب نہیں ہوسکے اور ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ میاں صاحب کی آل سعود کے ساتھ کمٹمنٹ ہے کہ وہ مولانا صاحب کو سینیٹ کے انتخابات میں اپنی پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب کروائیں گے۔ ہمیں یاد رہے کہ پاکستان میں اسی مسلک کے پیروکاروں کی ایک جہادی تنظیم (جو بعد میں کالعدم قرار دے دی گئی تھی اور آج کل ایک نئے نام سے فعالیت کر رہی ہے) کے سربراہ نے روز اول سے سعودی جارحیت کی بلا مشروط حمایت کا اعلان کر رکھا ہے اور وہ آل سعود کی اس جارحیت کو حرمین کے دفاع کے پردے میں چھپانے پر کاربند ہے۔ اب تک موصوف کئی شہروں میں دفاع حرمین کے نام پر ریلیاں نکال چکے ہیں اور کئی سیمینارز اور پریس کانفرنسوں کا اہتمام بھی کرچکے ہیں۔ سعودی مشیر مذہبی امور نے اپنے دورے کے دوران ایک دوسرے مسلک کے علمائے کرام کے ساتھ بھی ملاقاتیں کیں اور سعودی سفارتخانے نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے ڈاکٹر عبدالعزیز کے مختلف چینلز پر انٹرویو بھی کروائے۔

انہیں میں سے ایک انٹرویو کے دوران سعودی مشیر نے یہ لطیفہ بھی سنایا کہ یمن میں حوثی قبائل کی تعداد صرف ایک فیصد ہے۔ اگر موصوف یہ کہتے کہ یمن میں حوثیوں کی تعداد صرف تین فیصد ہے تو ہم یہ سمجھتے کہ نظر کی کمزوری کے باعث قبلہ کو تین کے ساتھ صفر نظر نہیں آتا، لیکن حوثی آبادی کو ایک فیصد قرار دینا ہاتھی کو بلی کہہ کر پکارنے کے مترادف ہی سمجھا جائے گا۔ حیرت انگیز طور پر ترنت قسم کے اینکر بھی خاموشی سے اعداد و شمار کے الٹ پلٹ کو برداشت کرگئے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سعودی گھاٹ سے صرف مخصوص علماء کرام نے ہی پانی نہیں پیا، بلکہ میڈیا پرسنز اور تجزیہ نگاروں کے خشک حلق بھی سیراب ہوئے ہیں۔ شاید اسی لئے اگر روزانہ اخبارات میں اس موضوع پر لکھے جانے والے آرٹیکلز میں سے 70 فیصد سعودی عرب افواج نہ بھیجنے کے حق میں لکھے جاتے تھے تو اس دورے کے بعد سے نئی دلیلوں اور تاویلوں کے ذریعے آل سعود کے لئے نرم گوشہ پیدا کرنے والے آرٹیکلز کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ایک باخبر تجزیہ نگار کے مطابق ڈاکٹر عبدالعزیز سے ملنے جو گیا یا جس سے بھی وہ ملنے گئے، اس کی اقتصادی مشکلات پر ڈاکٹر صاحب نے دست بیضا جیسا ہاتھ پھیر دیا۔ جب زمینہ تیار ہوگیا، تو سعودی عرب کے وزیر برائے مذہبی امور شیخ صالح بن عبدالعزیز صاحب نے بھی اپنے قدم پاکستانی سرزمین پر رنجا فرمائے۔ پھر 13اپریل کے دن سے وزیر موصوف بھی اپنے پیشرو کی طرح انہیں مدارس اور علماء کرام کے ساتھ مصروف نظر آئے اور 16 اپریل 2015ٗء کی شام جب سعودی وزیر اپنا دورہ مکمل کرکے جانے لگے تو اس سے پہلے پاکستان کے چند "جید" علمائے کرام کے ساتھ کانفرنس کے اختتام پر وہ عظیم الشان بیان جاری کیا گیا، جس کے بعد سے پاکستان میں ہلکی پھلکی مذہبی سوجھ بوجھ رکھنے والا ہر انسان اپنا منہ چھپا رہا ہے۔

(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 459410
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش