0
Sunday 10 May 2015 13:53

پاکستان میں آل سعود کی آخری اُمید "مذہبی" جماعتیں(2)

پاکستان میں آل سعود کی آخری اُمید "مذہبی" جماعتیں(2)
تحریر: شیخ سلمان رضا
salmanrazapk@gmail.com

واقعہ کچھ یوں ہے کہ کراچی میں سائٹ ایریا میں موجود سعودی قونصلیٹ میں ان علمائے کرام کے ساتھ پرتکلف ضیافت کا اہتمام کیا گیا اور اس کے اہتمام پر جامعہ دارالعلوم کے مفتی اعظم مولانا رفیع عثمانی نے یہ اعلان کیا کہ چونکہ قرآن کریم ہمیں حکم دیتا ہے کہ اگر کوئی گروہ بغاوت کرے، تو مصالحت کی کوشش کے بعد اس کا قتال جائز ہے، لہٰذا سعودی عرب کی حکومت کا اقدام قابل تحسین ہے، اور اگرچہ پاکستانی پارلیمنٹ کی قرارداد کا متن کچھ اور ہے، لیکن پاکستان کی پوری قوم (مفتی صاحب کے بقول) سعودی اقدام کی دل و جان سے تائید کرتی ہے۔ اب یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی مولانا کو جاکر بتائے کہ یمن میں جاری مزاحمت درحقیقت امریکہ، اسرائیل اور اس کے پٹھو حکمرانوں کے خلاف ہے۔ بالفرض اگر اس مفروضے کو درست مان بھی لیا جائے کہ یہ مزاحمت عوامی نہیں بلکہ بغاوت ہے، تو پھر بھی اس کا مقابلہ یمن کی حکومت (جو کہ منصور ہادی کی صورت میں عبوری عرصے کیلئے تھی اور پہلے سے مستعفی ہوچکی تھی) اور فوج کو مل کر کرنا چاہیے جبکہ یہ حقیقت اب کس سے چھپی ہے کہ منصور ہادی آل سعود کی بھیجی ہوئی کشتی میں بیٹھ کر ریاض کی طرف فرار ہوگئے تھے اور رہی یمنی فوج تو وہ حوثی "باغیوں" کے شانہ بشانہ سعودی افواج، منصور ہادی کے مسلح جتھوں اور القاعدہ کے خلاف برسر پیکار ہے۔ پھر آل سعود کے دل میں یمنی بھگوڑے حکمران کی کال پر کونسا ارتعاش پیدا ہوگیا کہ وہ چھ ملکوں کی فوج کو ساتھ ملا کر نہتے یمنی عوام پر چڑھ دوڑے ہیں۔ ہم آل سعود سے یہ سوال کرتے ہیں کہ جب ان کی بغل میں مصر کی پہلی منتخب حکومت کو فوجی بغاوت کے ذریعے گرایا گیا تو اس وقت آل سعود نے اپنی فوج وہاں کی منتخب حکومت (جو مسلک کے اعتبار سے بھی سلفی تھی) کو بچانے کے لئے بھی بھیجی تھی یا اس کے برعکس اس فوجی آمر کے ساتھ مکمل تعاون کرکے ایک منتخب حکومت کو چلتا کیا اور بعدازاں اب تک اسی آمر جنرل السیسی کو 12 ارب ڈالر کی امداد بھی دی اور مزید 5 ارب ڈالر دینے کا وعدہ بھی کر رکھا ہے اور آج وہی آمر جنرل آل سعود کے شانہ بشانہ یمنی عوام پر آگ کے گولے برسا رہا ہے۔

کوئی مولانا کو کیسے سمجھائے کہ یہ "بغاوت" سعودی عرب کی سرزمین پر نہیں ہوئی بلکہ یمن کی سرزمین پر ہوئی ہے، لہٰذا سعودی جارحیت کسی طرح بھی قابل قبول نہیں۔ اس سے بڑھ کر ہم مولانا سے یہ سوال پوچھنا چاہتے ہیں کہ جب خود مولانا کے اپنے دیس پاکستان (اگرچہ مولانا کے مسلک کے علماء کی جماعت نے قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی) میں طالبان کی صورت میں بغاوت ہوئی تو مولانا نے کیا اسی قرآنی آیہ سے استدلال کرتے ہوئے طالبان کے قتال کا فتویٰ جاری کیا تھا، لیکن ہمارا حافظہ اتنا بھی خراب نہیں، پوری قوم جانتی ہے کہ اس وقت مولانا کے مسلک کے "جید" علماء نے مل کر پریس کانفرنس میں طالبان کو باغی قرار دینے کی بجائے ایک فریق قرار دیا تھا اور پاکستان کی شجاع اور بہادر افواج کو "قتال" کی بجائے جنگ بندی کا درس دیا تھا۔ اُس علامیے میں دونوں "فریقوں" یعنی طالبان اور پاک فوج سے رضاکارانہ طور پر جنگ بندی کی اپیل کی گئی تھی۔ جبکہ ایک پرائے دیس میں عوامی مزاحمت کو ایک فریق کی بجائے باغی اور دوسرے ہمسایہ ملک کی جارحیت کو قرآنی آیہ کے مصداق کے طور پر دفاعی جنگ قرار دیا ہے۔

ہمارا سوال ہے کہ پاکستان میں موجود مذکورہ مکتب فکر کے علماء نے اس وقت بھی ایسی ہی بھاگ دوڑ کی تھی جب طالبان کی شکل میں کچھ درندے روزانہ کی بنیاد پر مسجدوں، امام بارگاہوں، سکولوں، بازاروں اور دفاعی تنصیبات پر حملے کر رہے تھے۔ جب اس وطن کے محافظ پولیس اہلکاروں اور بہادر فوجیوں کے گلے کاٹ کر فٹ بال کھیلتے ہوئے ویڈیوز بنا کر اَپ لوڈ کی جا رہی تھیں تو کیا ان میں سے کسی عالم دین نے یہ بیان دیا تھا کہ ہم وطن کے دفاع کے لئے اپنے بیٹے بھی قربان کر دیں گے۔ آج آل سعود کے پیٹ میں ایک برادر اسلامی ملک یمن کی حکومت کی کمزوری کا مروڑ تو اُٹھ رہا ہے لیکن جب آپریشن ضرب عضب سے پہلے پاکستان کا چپہ چپہ خون آلود تھا اور حکمرانوں کے قدم ڈگمگا رہے تھے تو کیا اس وقت بھی آل سعود نے اپنے طیارے پاکستان بھیجے تھے کہ ہماری مدد آپ کے لئے حاضر ہے اور انہیں چھ ممالک کی افواج پاکستان (جو واحد اسلامی نیو کلیئر اسٹیٹ ہے) کے دفاع کے لئے حاضر کی تھیں یا اس وقت کوئی سعودی مذہبی امور کا وزیر پاکستان آکر انہیں وظیفہ خواروں کو اکٹھا کرکے پریس کانفرنس کرتا نظر کیوں نہیں آیا۔ شاید اس لئے کہ طالبان والا "گلشن" تو خود آل سعود کی امداد سے سجایا گیا تھا اور اسے خود تباہ کرنا کہاں کی دانشمندی ہوتی۔

سعودی وزیر کے دورے کے بعد امام کعبہ بھی پاکستان کے سات روزہ دورے پر تشریف لائے اور پھر بڑی بڑی مسجدوں، مدرسوں اور پارلیمنٹ کا رُخ کرتے رہے۔ امام کعبہ کے منصب کا تقرر سعودی عرب میں آل سعود کی مذہبی مشینری کرتی ہے اور وہ آل سعود کے خلاف کوئی ایک حرف بھی نہیں کہہ سکتے، لیکن پاکستان میں اُن کو اس طرح پیش کیا گیا جیسے وہ اُمت مسلمہ کی وحدت کی علامت ہیں اور ان کا انتخاب علم، تقویٰ اور زہد کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ امام کعبہ شیخ خالد الغامدی نے اپنے بیانات میں وحدت کا تو خوب پرچار کیا اور یہ تاثر دیا کہ ان کا دورہ سیاسی نہیں بلکہ مذہبی نوعیت کا ہے، لیکن اپنی گفتگو میں وہ یمن پر آل سعود کی جارحیت کا دفاع اور یمن کی عوامی مزاحمت کو بغاوت کہتے رہے اور ساتھ ہی ساتھ حرمین شریفین کے دفاع کا کارڈ بھی کھیلتے رہے۔ باوجود اس کے کہ حوثی تنظیم انصاراللہ کے ترجمان نے اپنے حالیہ انٹرویو میں اس بات کی سخت الفاظ میں تردید کی کہ ان کی طرف سے کبھی ایسا بیان آیا ہو کہ نعوذ باللہ وہ حرمین کی طرف پیش قدمی کا ارادہ رکھتے ہیں اور انہوں نے یہ سوال اُٹھایا کہ کیا وہ مسلمان نہیں، جو ان سے ایسے بیانات کو منسوب کیا جا رہا ہے، لیکن ذرائع ابلاغ پر اس انٹرویو کے آجانے کے باوجود کسی پاکستانی عالم میں یہ جرات پیدا نہیں ہوئی کہ وہ امام کعبہ سے پوچھے کہ آپ آل سعود کی جارحیت کے دفاع میں مذہبی استحصال کا سہارا کیوں لے رہے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ آل سعود نے اپنے دفاع کے لئے جن مذہبی تنظیموں کا انتخاب کیا ہے، وہ تنظیمیں پاکستانی انتخابات میں کبھی بھی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کرسکیں، بلکہ یہ تنظیمیں خود اپنے لیڈروں کے قول و فعل کے تضادات اور دکھاوے کی استعمار دشمنی کی وجہ سے کبھی بھی عوامی حلقوں میں محبوبیت حاصل نہیں کرسکیں۔ ان تنظیموں کا پلے گرائونڈ ان مدرسوں سے فارغ التحصیل طلبا ہی رہے ہیں، لہٰذا ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ اگر ایک لاکھ لوگ بھی امام کعبہ کے پیچھے نماز ادا کرلیں یا "جید" علماء کے مدرسوں میں زمین ریال اگلنے لگے، تب بھی باشعور پاکستانی عوام کی اکثریت سعودی عرب فوج بھیجنے کی حمایت نہیں کرے گی، وہ بھی ایسی صورت میں جب سعودی افواج ایک برادر اسلامی ملک کے نہتے عوام پر آگ برسا رہی ہوں۔ میڈیا چینلز پر آ آ کر یہ علماء دلیلیں دے رہے ہیں کہ سعودی عرب نے 1998ء میں ہمیں ایٹمی دھماکوں کے بعد 2 ارب ڈالر کا مفت تیل دیا تھا اور گذشتہ برس نواز شریف حکومت کو 5.1 ارب ڈالر کی امداد دی تھی۔

اب اس وقت ہمارا احسان کا بدلہ چکانا فرض ہے تو ہم ان "جید" علماء سے سوال کرتے ہیں کہ امریکہ نے 2001ء سے اب تک ہمیں 20 ارب ڈالر سے زیادہ کی امداد دی ہے تو کیا اس کی جنگوں میں شمولیت بھی ھل جزالاحسان کے مترادف ہوگا۔ اسلامی ممالک میں بغاوت کے خلاف راگ الاپنے والے یہ تو بتائیں کہ شام اور عراق میں گذشتہ چار سال سے جو شورش انہیں عرب حکمرانوں اور امریکہ و اسرائیل کے تعاون سے جاری ہے، اس کے بارے میں فتوے کب آئیں گے یا یہ عرب اتحاد، شام اور عراق جو کہ ان کے ہمسائے میں ہیں، وہاں کب اپنے طیارے بھیجیں گے تاکہ ان باغیوں کی سرکوبی کی جاسکے۔ ہمیں بار بار یہ علماء ڈرا رہے ہیں کہ سعودی عرب میں ہمارے 20 لاکھ پاکستانی مزدوری کر رہے ہیں جو کہ سالانہ 4 ارب ڈالر زرمبادلہ پاکستان بھجواتے ہیں۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا یہ پاکستانی وہاں فارغ بیٹھ کر بھیک کی شکل میں رقم وصول کرتے ہیں یا انتہائی پست ملازمتوں پر بنیادی انسانی حقوق کی عدم دستیابی میں خون پسینہ ایک کرکے قلیل تنخواہ حاصل کرتے ہیں۔ اگر یہ اپنے حق سے بھی کم تنخواہ لے رہے ہیں تو انہیں کس چیز کا خوف ہے۔ دوسرا سعودی عرب میں جتنے پاکستانی ہیں لگ بھگ اتنے ہی بنگالی اور پھر کثیر تعدا میں بھارتی اور ویتنامی باشندے بھی برسر روزگار ہیں۔ کیا آل سعود نے بنگلہ دیش یا بھارت کو بھی بلیک میل کیا کہ یمنی جارحیت میں ہمارا ساتھ دو اور اپنی افواج بھیجو، ورنہ ہم تمہارے مزدوروں کو بے دخل کر دیں گے۔

پاکستانیوں کی کثیر تعداد امریکہ و یورپ میں بھی برسر روزگار ہے (جسے عرب ممالک کی نسبت بہت بہتر حقوق حاصل ہیں) تو کیا امریکہ اور یورپ کی جنگوں میں شمولیت ہماری بیرون ملک افرادی قوت کے تحفظ کے لئے ضروری قرار پائے گا۔ تصویر کا ایک دوسرا رُخ یہ بھی ہے کہ پاکستان کو سعودی عرب، کویت اور متحدہ عرب امارات سے ہمارے لگ بھگ تیس لاکھ مزدور سالانہ 7 سے 8 ارب ڈالر کا زرمبادلہ وطن بھجواتے ہیں، جبکہ پاکستان ان تین عرب ممالک سے سالانہ لگ بھگ 16 ارب ڈالر کا معدنی تیل خریدتا ہے۔ پاکستان کی بغل میں بیٹھا ایران بھی معدنی دولت سے مالا مال ہے اور ہمیں چھ ماہ کے ادھار پر تیل فروخت کرنے کی آفر بھی کرچکا ہے، لیکن ہم سینکڑوں میل دور بیٹھے عرب ممالک سے تیل خریدنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں، تاکہ وقت آنے پر یہ خلیجی ممالک ہمیں بلیک میل تو کرسکیں، لیکن ہم جو اس (بلیک میلنگ) کا جواب دینے کی بہتر پوزیشن میں ہیں کہ ہم آپ سے تیل خریدنا چھوڑ دیں گے، منہ سے ایک لفظ نکالنے سے بھی قاصر ہیں۔

گذشتہ دنوں سعودی فرمانروا نے 45 سالہ پرانے وزیر خارجہ سعود الفیصل اور ولی عہد مقرن بن عبدالعزیز کو ان کے عہدوں سے برخواست کر دیا ہے اور ان کی جگہ بالترتیب امریکہ میں تعینات سفیر احمد الجبیر اور محمد بن نائف کو نامزد کر دیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اپنے 30 سالہ ناتجربہ کار بیٹے کو وزیر دفاع کے ساتھ ساتھ نائب ولی عہد بھی مقرر کر دیا ہے۔ یہ امر اس بات کا مظہر ہے کہ سعودی عرب اس جنگ کے نتیجے میں سفارتی میدان و داخلی میدان دونوں میں بری طرح ناکامی کے درپے ہے اور کسی بھی جنگ کے دوران اتنی بڑی تبدیلی کسی لیڈرشپ کی بوکھلاہٹ کی نشاندہی کرتی ہے۔ پاکستانی حکومت کو چاہیے کہ پارلیمانی قرارداد میں تبدیلی کی بجائے ہوش کے ناخن لے اور آل سعود کی اس ڈوبتی ہوئی کشتی میں سوار ہونے کی بجائے یمن کے نہتے عوام پہ بمباری رکوانے میں اپنا بھرپور کردار بطور ایک نیوکلیئر پاور ادا کرے۔
خبر کا کوڈ : 459415
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش