0
Thursday 14 May 2015 22:49

امام موسٰی کاظم علیہ السلام کی شہادت

امام موسٰی کاظم علیہ السلام کی شہادت
تحریر: محمد ذاکر رضوان

مختصر تعارف:
 
حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام، رسول مقبول حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتویں جانشین اور ہمارے ساتویں امام ہیں۔ آپ کے والد محترم حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اور آپ کی والدہ ماجدہ جناب حمیدہ خاتون تھیں، جو بربر یا اندلس کی رہنے والی تھیں۔ امام محمد باقر علیہ السلام جناب حمیدہ خاتون کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں، آپ دنیا میں حمیدہ اور آخرت میں محمودہ ہیں۔
 
ولادت باسعادت:
حضرت امام موسٰی کاظم علیہ السلام ٧صفر المظفر 128ھ بروز اتوار ابوا کے مقام جو مدینہ و مکہ کے درمیان واقع ہے پیدا ہوئے۔ ولادت کے فوراً بعد ہی آپ نے اپنے ہاتھوں کو زمین پر ٹیک کر آسمان کی طرف رخ کرکے کلمہ  شہادتین زبان پر جاری فرمایا۔ یہ عمل آپ نے بالکل اسی طرح انجام دیا جس طرح آپ (ع) کے جد بزرگوار حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انجام دیا تھا۔ آپ کے داہنے بازو پر یہ کلمہ "تمت کلمتہ ربک صدقا وعدلا" لکھا ہواتھا۔

آپؑ کے فضائل:
اہل سنت کے بزرگ عالم دین ابن طلحہ تحریر کرتے ہیں، "وہ ایک عظیم القدر اور عظیم الشان امام تھے، بہت زیادہ تہجد گذار اور محنت و کوشش کرنے والے تھے، جن کی کرامات ظاہر تھیں اور جو عبادت میں مشہور اور اطاعت الٰہی پر پابندی سے گامزن رہنے والے تھے، راتوں کو رکوع و سجود میں گزارتے تھے اور دن میں روزہ رکھتے اور خیرات فرمایا کرتے تھے، اور بہت زیادہ حلم و بخشش اور اپنی شان میں گستاخی کرنے والوں کی بخشش کی وجہ سے آپ کو کاظم کے نام سے پکارا جاتا تھا، اور جو شخص آپ کی شان میں گستاخی کرتا تھا آپ اس کا جواب نیکی اور احسان کے ذریعہ دیتے تھے، اپنے اوپر ظلم و ستم کرنے والوں کو بخش دیا کرتے تھے، اور بہت زیادہ عبادت کی وجہ سے آپ کا نام ”عبد صالح“ پڑ گیا، اور آپ عراق میں ”باب الحوائج الی اللہ “ کے نام سے مشہور ہوئے، کیونکہ ان کے وسیلہ سے خدائے قادر سے متوسل ہوا جاتا ہے جس کا نتیجہ بھی برآمد ہوتا ہے اور آپ کی کرامات عقلوں کو حیران کردیتی ہیں۔ (کشف الغمه :ج2، ص 212)
اسی طرح آپ کی شان میں ابن حجر لکھتے ہیں،
"و كان معروفاً عند أهل العراق بباب قضاء الحوائج عند الله و كان أعبد أهل زمانه و أعلمهم و أسخاهم»
"آپ عراقیوں کے درمیان خدا کی طرف سے باب اللہ کے نام سے مشہور تھے اور اپنے زمانہ کے سب سے بڑے عبادت گزار، سب سے بڑے عالم اور سب سے زیادہ سخی انسان تھے۔ (الصواعق المحرقه :ص،203)۔

دور امامت
۱۴۸ھ میں امام جعفر صادق علیہ السلام کو شہید کیا گیا۔ والد کی شہادت کے بعد آپ منصب امامت پر فائز ہوئے اور امامت کے تمام فرائض کے ذمہ دار ہوئے۔ اس وقت منصور دوانقی ملعون کی حکومت تھی۔ یہ وہی ظالم و جابر بادشاہ تھا جس کے ہاتھوں لاتعداد سادات موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے یا دیوار میں چنوا دیئے گئے۔ ۱۵۸ھ کے آخر میں منصور دوانقی ملعون واصل جہنم ہوتا ہے، اس کے بعد اس کا بیٹا مہدی تخت سلطنت پر بیٹھتا ہے۔ مہدی کے بعد اس کا بھائی ہادی ۱۶۹ھ میں تخت سلطنت پر بیٹھا اور صرف ایک سال اس نے حکومت کی۔ اس کے بعد ہارون رشید کا زمانہ آیا۔ اس ملعون کے دور میں امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کو آزادی کی سانس لینا نصیب نہیں ہوئی۔

مشکلات اور آپؑ کا صبر:  
آپ نے دوران قید تلخ ترین مصائب اور سخت ترین تکالیف کا سامنا کیا، یہاں تک کہ آپ زندان سے تنگ آگئے اور مدت کی طوالت سے ملول ہوئے، حکومت آپ کو مختلف زندانوں میں منتقل کرتی رہی۔ امام نے زندان سے ہارون کے نام ایک خط لکھا جس میں آپ نے ہارون پر اپنے شدید غصے کا اظہار فرمایا، ''جان لو جس طرح میرے مشقت و آلام کے دن گزر جائینگے اسی طرح تیرے راحت و آرام کے دن بھی گزر جائیں گے، پھر ایک دن ایسا آئے گا جب ہم سب کا خاتمہ ہوگا، اور کبھی ختم نہ ہونے والا دن آ پہنچے گا، اس دن بدکار لوگ خسارے میں ہوں گے۔ ہارون کے زندان میں امام طرح طرح کی اذیتوں کو برداشت کرتے رہے، کیونکہ ایک طرف سے آپ کو بیڑیوں سے پا بہ زنجیر کیا گیا دوسری طرف سے آپ پر زبردست سختیاں اور اذیتیں روا رکھی گئیں، ہارون رشید نے ہر قسم کے مصائب ڈھانے کے بعد آخر کار آپ کو زہر دے کر شہید کیا، یوں آپ شہادت و سعادت کی منزل پر فائز ہوئے اور اپنے خالق سے جا ملے۔

امام علیہ السلام کی شہادت:
امام علیہ السلام کو بصرہ میں ایک سال قید رکھنے کے بعد ہارون رشید ملعون نے والی بصرہ عیسیٰ بن جعفر کو لکھا کہ موسیٰ بن جعفر (امام موسیٰ کاظم علیہ السلام ) کو قتل کرکے مجھ کو ان کے وجود سے نجات دے۔ اس نے اپنے ہمدردوں سے مشورہ کرنے کے بعد ہارون رشید ملعون کو لکھا، میں نے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام میں اس ایک سال کے اندر کوئی برائی نہیں دیکھی ۔ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام روز و شب نماز اور روزہ میں مصروف و مشغول رہتے ہیں اور عوام و حکومت کے لئے دعائے خیر کرتے ہیں اور ملک کی فلاح و بہبودی کے خواہشمند ہیں ۔ کس طرح ایسے شخص کو قتل کر دوں، میں ان کے قتل کرنے میں اپنے انجام اور اپنی عاقبت کی تباہی دیکھ رہا ہوں لہٰذا تو مجھے اس گناہ عظیم کے ارتکاب سے معاف کر بلکہ تو مجھے حکم دے کہ میں ان کو اس قید بامشقت سے آزاد کر دوں۔ اس خط کو پانے کے بعد ہارون رشید ملعون نے اس کام کو سندی بن شاہک کے حوالے کیا اور اسی ملعون کے ذریعہ امام علیہ السلام کو زہر دلوا کر شہید کر دیا۔ علامہ ابن حجر مکی لکھتے ہیں ہارون رشید نے آپ کو بغداد میں قید کردیا اور تاحیات قید رکھا، آپ (ع) کی شہادت کے بعد آپ کے ہاتھوں اور پیروں سے ہتھکڑیاں اور بیڑیاں کاٹی گئیں۔ آپ کی شہادت ہارون رشید کے زہر سے ہوئی جو اس نے سندی ابن شاہک کے ذریعہ دلوایا تھا۔ (صواعق محرقہ،ص ۱۳۲

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی شہادت 25 رجب المرجب بروز جمعہ ۱۸۳ھ میں واقع ہوئی۔ اس وقت آپ کی عمر ٥٥ سال کی تھی۔ آپ نے ۱۴سال ہارون رشید کے قید خانہ میں گزارے۔ شہادت کے بعد آپ کے جنازہ کو قید خانہ سے ہتھکڑی اور بیڑی سمیت نکال کر بغداد کے پل پر ڈال دیا گیا تھا اور نہایت ہی توہین آمیز الفاظ میں آپ کو اور آپ کے ماننے والوں کو یاد کیا گیا۔ سلیمان بن جعفر ابن ابی جعفر اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ ہمت کرکے نعش مبارک کو دشمنوں سے چھین کر لے گئے اور غسل و کفن دے کر بڑی شان سے جنازہ کو لے کر چلے۔ ان لوگوں کے گریبان امام مظلوم کے غم میں چاک تھے انتہائی غم و اندوہ کے عالم میں جنازہ کو لے کر مقبرہ قریش میں پہنچے۔ امام علی رضا علیہ السلام کفن و دفن اور نماز کے لئے مدینہ منورہ سے با اعجاز پہنچ گئے۔ آپ نے اپنے والد ماجد کو سپرد خاک فرمایا۔ تدفین کے بعد امام علیہ السلام مدینہ منورہ واپس تشریف لے گئے۔ جب مدینہ والوں کو آپ کی شہادت کی خبر ملی تو کہرام برپا ہو گیا۔ نوحہ و ماتم اور تعزیت کا سلسلہ مدتوں جاری رہا۔
خبر کا کوڈ : 460891
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش