QR CodeQR Code

مسئلہ یمن کو بین الاقوامی سطح تک پھیلانے کی سازش

15 May 2015 15:29

اسلام ٹائمز: یمنی عوام جنہوں نے انتہائی ذہانت اور عقلمندی کے ساتھ اس نابرابر جنگ کو مقدس دفاع میں تبدیل کر دیا ہے، ملک کے اندر سیاسی راہ حل کی تلاش اور سیاسی عمل کے اجرا کی بھی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں اور کم از کم مدت میں ایک لائق اور کارآمد حکومت تشکیل دے سکتے ہیں۔


تحریر: سعداللہ زارعی 

گذشتہ چند روز کے دوران سعودی عرب کے ملکی اور بین الاقوامی اخبارات میں ایران کو ایک ایسے موثر مسلمان ملک کے طور پر مخاطب قرار دیا گیا ہے جو مسلمانوں کا خیر خواہ ہے اور ساتھ ہی اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ وہ ایسے جنگ کے خاتمے کیلئے کردار ادا کریں جس کا فائدہ اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کو پہنچ رہا ہے! لیکن دوسری طرف اس مسلمان دوستانہ اور امن پسندانہ اظہار خیال کے ساتھ ہی سعودی عرب کے جنگی طیاروں نے گذشتہ ایک ہفتے کے دوران، جب انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے زخمیوں اور بیماروں کی مدد کیلئے عارضی جنگ بندی کا مطالبہ کیا جا رہا تھا، یمن کے مظلوم شہریوں کے گھروں پر بمباری کی شدت میں اضافہ کر دیا۔ 
 
گذشتہ چند روز کے دوران لندن سے شائع ہونے والے سعودی اخبارات "الحیات" اور "شرق الاوسط"، نیز سعودی عرب سے شائع ہونے والے اخبار "عکاظ" میں ایسے متعدد مقالات شائع ہوئے ہیں جن میں اسلامی جمہوریہ ایران بالخصوص قائد انقلاب اسلامی سید علی خامنہ ای سے یمن کا مسئلہ حل کرنے میں موثر کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اخبار "الحیات" نے پیر کے دن ایک مقالہ شائع کیا جس کا عنوان تھا "یا قادت تعالوا الی کلمه سواء"۔ اس مقالے میں آیا ہے: "ہم اور آپ – ایران – صرف کچھ طریقہ کار میں آپس میں اختلاف رکھتے ہیں جبکہ ہم دونوں اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کے دشمن ہیں اور اسے مسلمانوں کا پہلے درجے کا دشمن سمجھتے ہیں۔ پس کیوں صرف اختلافی مسائل پر ہی زور دیتے رہیں"۔ اسی طرح سعودی اخبار "عکاظ" نے اسی دن اپنے ایک شائع ہونے والے مقالے میں لکھا: "قتل و غارت ہمیں اپنے مقصد تک نہیں پہنچا سکتی اور جنگ کا جاری رہنا نہ تو ایران کے فائدے میں ہے اور نہ ہی سعودی عرب کے فائدے میں"۔ 
 
سعودی عرب کی جانب سے ایران سے یمن کے ساتھ جنگ میں ثالثی کا کردار ادا کرنے کی درخواست ایسے وقت سامنے آئی ہے جب یمن کے خلاف سعودی جارحیت کے آغاز میں سعودی عرب کے سابق وزیر خارجہ نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ یمن کی جنگ سے ایران کا کوئی تعلق نہیں اور یہ محض عربی ایشو ہے۔ جیسا کہ یمن کے خلاف جنگ شروع ہونے کے پہلے ہفتے کے دوران بعض دوسرے سعودی حکومتی اہلکاروں کی جانب سے بھی انصاراللہ یمن کو ایران نواز قرار دیتے ہوئے ایران کے خلاف موقف اختیار کیا گیا۔ لہذا آج سعودی اخبار "الحیات" کی جانب سے "یا سماحه الامام المرشد علی الخامنہ ای" جیسے الفاظ کا مکرر استعمال یہ ظاہر کرتا ہے کہ سعودی عرب اس جنگ میں بند گلی تک پہنچ چکا ہے اور اس سے باہر نکلنے کیلئے ایران پر نظریں لگا رکھی ہیں۔ 
 
سعودی عرب بخوبی آگاہ ہے کہ یمن کے خلاف جنگ زیادہ عرصہ جاری نہیں رہ سکتی اور اگر ایک مہینے تک بھی جاری رہے تب بھی اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔ لہذا وہ اس جنگ کو باعزت طور پر ختم کرنے کیلئے سوچنے پر مجبور ہو چکا ہے۔ اس وقت سعودی عرب جاری سیاسی مذاکراتی عمل سے باہر نکل جانے اور نتیجتاً ریاض کی جگہ تہران کا خطے کا محور قرار پا جانے کے بارے میں شدت سے پریشان دکھائی دیتا ہے۔ ابھی دو دن قبل ہی امریکی حکام نے ایسا ظاہر کیا ہے کہ یمنی گروہوں کے درمیان جاری مذاکرات ریاض سے جنیوا منتقل ہونے والے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ جان کری نے ٹیلیفون کے ذریعے ایران حکام کو اس بارے میں آگاہ بھی کیا۔ البتہ وہ اس طرح ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کو خوش کرنا چاہتا تھا۔ مذاکراتی عمل کی یہ منتقلی ابھی فائنل نہیں ہے اور اس میں کئی شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں لیکن اس منتقلی میں امریکہ کا کوئی کردار نہیں۔ 
 
یمن کے متحارب گروہوں کے درمیان جاری مذاکراتی عمل کا ریاض سے کسی دوسرے شہر منتقل ہو جانا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 2216 کے خلاف ہے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ سلامتی کونسل کی یمن مخالف قراردادوں خاص طور پر اہم ترین قرارداد 2216 کے نامعتبر ہونے کا آغاز ثابت ہو گا۔ یاد رہے کہ اس قرارداد میں خلیج تعاون کونسل کی مرکزیت اور سعودی عرب کے کردار پر بے پناہ تاکید کی گئی ہے۔ اس صورتحال کے تناظر میں ایسا دکھائی دیتا ہے کہ سعودی عرب نے ایران کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ خطے میں اس کا کردار قبول کرنے کو تیار ہے لیکن اس شرط پر کہ ایران بھی خطے میں سعودی عرب کے کردار کو قبول کر لے۔ اخبار الحیات نے اپنے چیف ایڈیٹر عبدالسلام کے قلم سے لکھے گئے اس مقالے میں کہا ہے: عرب ممالک ایران پر تسلط قائم نہیں کر سکتے جیسا کہ ایران بھی عرب سرزمینوں پر مسلط نہیں ہو سکتا۔ لہذا ایسی صورتحال میں ایرانی رہنماوں کو چاہئے کہ وہ قومی تنازعات کو ختم کرنے میں ہماری مدد کریں"۔ 
 
لیکن آل سعود رژیم نے اس میڈیا مہم کے ساتھ ہی دوسری طرف یمن کے خلاف اپنے ہوائی حملوں کی شدت میں اضافہ کر دیا اور گذشتہ ہفتہ جمعرات سے، جب 5 روزہ جنگ بندی کی باتیں شروع ہوئیں، یمن کے شمالی شہروں پر انتہائی شدید بمباری کا آغاز ہو گیا۔ "اعادۃ الامل" منصوبے کے تحت جنگ کے 28 ویں روز سے ایسے خطوں پر ہوائی حملوں میں شدت لائی گئی جہاں انصاراللہ یمن کی فورسز اور سابق یمنی صدر ہادی منصور کی فورسز میں جنگ جاری تھی۔ ان دنوں صعدہ، مران اور عمران پر ہوائی حملوں میں شدت اور خاص طور پر زیدی مسلک مسلمانوں کے تاریخی و مذہبی مراکز کو بمباری کا نشانہ بنانے کا مقصد انصاراللہ یمن کو عقب نشینی پر مجبور کرنا ہے۔ جیسا کہ انہی دنوں شام میں سعودی نواز دہشت گرد گروہ یعنی النصرہ فرنٹ کی پیش قدمی اور دمشق کو خطرات لاحق ہونے پر مبنی نفسیاتی جنگ کا آغاز بھی کر دیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سب جھوٹا پروپیگنڈہ ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ ایران شام میں صورتحال کی تبدیلی کے خطرے کا احساس کرتے ہوئے یمن میں سرگرم انصاراللہ پر سعودی عرب کے ساتھ سیاسی سازباز کرنے کیلئے دباو ڈالے۔ 
 
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو جنگ بندی کے آغاز کے قریب فوجی کاروائی میں شدت لانے کی کوئی فوجی اہمیت نہیں اور ایسے اقدام کا مقصد درج ذیل دو مقاصد میں سے کوئی ایک ہو سکتا ہے: اول جنگ کے دوران کامیابیاں حاصل کرنے والی فوج کی جانب سے اپنی فتح کو مضبوط بنانا اور دوم بھاری نقصان کے باوجود کوئی کامیابی حاصل نہ کر پانے والی فوج کی جانب سے خود کو فاتح اور کامیاب ظاہر کرنے کی کوشش کرنا۔ یمن کے شمالی حصوں پر سعودی عرب کی حالیہ بمباری کا مقصد ایران اور انصاراللہ پر دباو بڑھانے کے ساتھ ساتھ یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرنا ہے کہ جنگ میں سعودی مسلح افواج کا پلڑا بھاری ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر بالفرض جنگ کے بعد شروع ہونے والے مذاکراتی عمل میں سعودی عرب کو ایک فریق کے طور پر شامل کر بھی لیا جائے تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سعودی عرب کے پاس مذاکرات کی میز پر لانے کیلئے کیا آپشنز موجود ہیں؟
 
اگر فرض کر لیں کہ یمن کے خلاف حقیقی طور پر جنگ بندی ہو چکی ہے اور آل سعود حکومت نے 5 روز کیلئے ہی سہی یمن کے خلا ف حملوں کو روک دینے کا فیصلہ کر لیا ہے، تو ایسی صورت میں انصاراللہ یمن کا پلڑا میدان جنگ میں واضح طور پر بھاری نظر آ رہا ہے۔ دو دن پہلے امریکی کابینہ کے ایک رکن نے امریکی صدر براک اوباما کے بقول کہا تھا: "ہر فریق جہاں کہیں بھی ہے وہیں رہے، ہم کہیں گے کہ حملے روک دیے جائیں"۔ اس وقت انصاراللہ یمن تین شہروں تعز، عدن اور مارب پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکی ہے۔ یہ تین شہر اخوان المسلمین اور وہابی سوچ رکھنے والے گروہوں کا گڑھ تصور کئے جاتے ہیں لہذا یمن میں سعودی نواز قوتوں کیلئے کوئی جگہ باقی نہیں رہی۔ یمن کی مسلح افواج جو ملک کا قانونی ادارہ تصور کی جاتی ہیں، انصاراللہ یمن کے شانہ بشانہ لڑ رہی ہیں اور اسی طرح یمن کی 15 چھوٹی اور بڑی سیاسی جماعتوں نے انصاراللہ کے ساتھ الحاق کر رکھا ہے۔ یمن کے اکثر قبائل بھی انصاراللہ کا ساتھ دے رہے ہیں۔ اگر ایسی صورتحال میں مذاکراتی عمل شروع ہوتا ہے اور یہ مذاکرات یمنی گروہوں کے درمیان انجام پاتے ہیں تو سعودی عرب اور اس کی حمایت یافتہ قوتیں ان میں کس کردار کی حامل ہوں گی؟
 
اس بات کے پیش نظر کہ سعودی عرب، خلیج تعاون کونسل اور عرب یونین عملی طور پر سیاسی عمل میں کوئی موثر کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں، مسئلہ یمن کو بین الاقوامی سطح پر پیش کرنا اگرچہ ایک محدود موقع سمجھا جا رہا ہے لیکن آل سعود رژیم کیلئے سنہری موقع ہے۔ اگرچہ یمن کے مسئلے کو بین الاقوامی سطح پر پیش کئے جانا سیکورٹی کونسل کی قرارداد نمبر 2216 پر حکمفرما اصولوں سے واضح تنافی رکھتا ہے اور سعودی حکومت کے علاقائی اہداف سے بھی متضاد ہے اور اس لحاظ سے سیکورٹی کونسل کی مذکورہ قرارداد کیلئے شدید دھچکہ ثابت ہو سکتا ہے، لیکن سعودی عرب مسئلہ یمن کے یمنی – یمنی راہ حل کے مقابلے میں بین الاقوامی راہ حل کو اپنے لئے کم نقصان دہ تصور کرتا ہے۔ اس بارے میں بہت سے شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں کہ کیا مسئلہ یمن بین الاقوامی سطح پر پیش کیا جائے گا یا نہ، کیونکہ انصاراللہ سمیت یمن کی فاتح قوتیں مسئلہ یمن کو ملکی سطح پر ہی حل کرنے کے خواہاں ہیں۔ اگر مسئلہ یمن بین الاقوامی سطح پر پیش کیا گیا تو اس کے حل کیلئے لمبا عرصہ درکار ہو گا۔ شام کے مسئلے، شمالی کوریا اور ایران کے جوہری تنازعہ کے بارے میں انجام پانے والے بین الاقوامی مذاکرات کے تجربات سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر کسی مسئلے کو حل کرنے کا عمل انتہائی لمبا اور تھکا دینے والا ہوتا ہے، جبکہ یمنی عوام ابھی سے ایک ایسی "مسئولیت پذیر حکومت" کے نیازمند ہیں جو پورے ملک کی نمائندہ حکومت تصور کی جاتی ہو۔ 
 
شاید روس وہ پہلا ملک تھا جس نے مسئلہ یمن کیلئے بین الاقوامی حل پر زور دیا تھا لیکن یمن سے متعلق روسی نقطہ نظر کے بارے میں بہت سے شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ چینی حکام کا خیال ہے کہ روس آبنائے باب المندب، بحیرہ احمر اور خلیج عدن کی ضرورت کے پیش نظر مسئلہ یمن کے طولانی ہونے کو اپنے لئے اچھا موقع تصور کرتا ہے کیونکہ اس امریکہ اور اس کے اتحادی اس مسئلے میں الجھے ہوئے ہیں۔ روس کے مسائل سے آگاہ اکثر تجزیہ نگاران، سیکورٹی کونسل کی قرارداد 2216 میں روس کی بے طرفی کو اسی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ بہرحال، مسئلہ یمن کو بین الاقوامی سطح پر پیش کرنے میں یمنی عوام کا کوئی فائدہ نہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران کو یمن کے مظلوم عوام کا حقیقی حامی ہونے کے ناطے مسئلہ یمن کو بین الاقوامی سطح پر پیش ہونے سے روکنے کی بھرپور کوشش کرنا چاہئے۔ یمنی عوام جنہوں نے انتہائی ذہانت اور عقلمندی کے ساتھ اس نابرابر جنگ کو مقدس دفاع میں تبدیل کر دیا ہے، ملک کے اندر سیاسی راہ حل کی تلاش اور سیاسی عمل کے اجرا کی بھی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں اور کم از کم مدت میں ایک لائق اور کارآمد حکومت تشکیل دے سکتے ہیں۔ 
 


خبر کا کوڈ: 460977

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/460977/مسئلہ-یمن-کو-بین-الاقوامی-سطح-تک-پھیلانے-کی-سازش

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org