0
Sunday 17 May 2015 20:31

روشن و بااختیار گلگت بلتستان

روشن و بااختیار گلگت بلتستان
تحریر: ارشاد حسین ناصر

پاکستان کے شمالی علاقہ جات جنہیں زرداری دور میں ایک آرڈیننس کے ذریعے صوبائی حیثیت دی گئی تھی اور گورنر، وزیراعلٰی نیز چوبیس اراکین پر مشتمل قانون ساز اسمبلی قائم کی گئی تھی، کے انتخابات آٹھ جون کو ہونے جا رہے ہیں۔ گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کیلئے ہونے والے الیکشن کیلئے اس وقت سیاسی مہم اور جوڑ توڑ عروج پر ہے، کئی سیاسی جماعتیں میدان میں اتر چکی ہیں، جن میں وہ جماعتیں بھی شامل ہیں جو ماضی میں حکومتیں کرچکی ہیں اور وہ بھی میدان میں ہیں، جنہوں نے گلگت بلتسان کو صوبائی حیثیت دینے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا اور اسے کشمیر کاز سے غداری کے مترادف قرار دیا تھا۔ اگر عوام کو یاد ہو تو گذشتہ اسمبلی میں پاکستان پیپلز پارٹی، جمعیت علماء اسلام، اسلامی تحریک، قاف لیگ، متحدہ قومی موومنٹ کی اتحادی حکومت قائم تھی، ان لوگوں نے عوام کو کچھ دیا یا نہیں؟ ان کی کارکردگی کا گراف کیسا رہا، ان انتخابات میں اس کا اندازہ ہوجائے گا۔ ویسے روایتی سیاست دانوں اور انتخابات کی طرح یہاں بھی وہی ماحول نظر آ رہا ہے کہ موقعہ و مناسبت سے پارٹیاں بدلی جا رہی ہیں اور موقعہ پرست سیاستدانوں کی طرف سے چھلانگیں لگائی جا رہی ہیں۔ خیر یہ تو ہر انتخاب میں ہوتا ہے، لوگ ہر صورت میں جیتنا چاہتے ہیں، جیت کی امید سے ہی پارٹی کا انتخاب کیا جاتا ہے، جس کی ہوا چل رہی ہو، اس میں شامل ہونا حکمت و دانائی کا تقاضا جانتے ہوئے چھلانگ لگا دی جاتی ہے۔

جن لوگوں نے گذشتہ حکومت میں اقتدار کے مزے لوٹے ہیں، عوام بہرحال ان کی کارکردگی اور عوامی مسائل کے حل کیلئے کی جانے والی جدوجہد نیز ان کی شخصیت کا جائزہ ضرور لیں گے اور اس کا اظہار اپنے ووٹ کی پرچی سے کریں گے۔ جمہوریت کا یہی حسن ہے کہ اگر ایک نمائندہ کو آپ نے مقررہ مدت کیلئے کچھ امیدیں اور توقعات کے تحت منتخب کر لیا اور اس نے عوامی توقعات اور امیدوں پر پانی پھیر دیا تو اگلی باری کسی اور کی ہوگی، اس کو اس کی سزا ضرور مل جاتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ گذشتہ حکمرانوں کے پاس انتخابات میں جاتے ہوئے عوام کو اپنی پانچ سالہ کارکردگی بتانے کیلئے زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہیں۔ پانچ سال تک اقتدار کے مزے لوٹنے والے وزراء اور حکومتی جماعتوں نے بیڈ گورننس، لوٹ مار اور کرپشن کے بازار گرم کئے رکھے، جبکہ عوامی فلاح و بہود کیلئے انہیں بہترین مواقع میسر تھے، اس لئے کہ وفاق میں ان کی پارٹی کی حکومت تھی، صدر بھی انہی کا تھا، پھر بھی یہ خاطر خواہ اقدامات اور کارکردگی دکھانے سے قاصر رہے، اب عوام کو اپنی جانب متوجہ کرنے کیلئے ان کے پاس بتانے کو کچھ نہیں ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ پیپلزپارٹی ہو یا نون لیگ یا کوئی اور جماعت۔۔ انہوں نے اس خطے اور یہاں کے عوام کی تقدیر بدلنے کیلئے کوئی خاطر خواہ خدمات انجام نہیں دیں۔ حقیقت میں حکمرانوں کی زندگیاں تو بدل گئیں لیکن خطے کے عوام آج بھی روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم اور صحت و روزگار جیسے مسائل سے دوچار ہیں۔ اس خوبصورت، بلند و بالا کہساروں اور دلفریب نظاروں کی سرزمین کے مخلص و غیور عوام نے ڈوگرہ راج سے اپنی طاقت، قوت اور قربانیوں کے بل بوتے پر آزادی حاصل کی اور غیر مشروط طور پر پاکستان کیساتھ کھڑے ہوگئے، لیکن 67 سال کی تاریخ گواہ ہے کہ وفاق میں جو بھی جماعت برسر اقتدار آئی، اس نے گلگت بلتستان کے عوام کو ان کے حقوق نہیں دیئے بلکہ انہیں محرومیاں ہی دی گئی ہیں۔ اب ان محرومیوں کے ازالے کا وقت آن پہنچا ہے۔ وفاق میں برسر اقتدار حکمران اب بھی کھوکھلے نعروں اور جھوٹے وعدوں سے یہاں کے مخلص عوام کو فریب دینے کیلئے کوشاں ہیں، جس کا ثبوت ایسے منصوبوں کا اعلان ہے جن کا عملی ہونا ممکن نہیں، یا ایسے منصوبے جن میں یہاں کے عوام کا خاطر خواہ حصہ ہونا چاہیئے تھا مگر انہیں نظر انداز کر دیا گیا ہے،  پھر کیسے کہا جاسکتا ہے کہ وفاقی حکمران جماعت ان الیکشنز میں عوامی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔؟

مجلس وحدت مسلمین اس خطے کے عوام کیلئے ایک نیا نام ہے، جس نے بہت کم عرصہ میں یہاں بہت زیادہ پذیرائی حاصل کی ہے، یہ مجلس وحدت مسلمین اور اس کی قیادت ہی ہے جس نے عوامی حقوق کی پامالی اور ان کے حصول کی جدوجہد کی شمع بجھنے نہیں دی، عوام کو مسلسل میدان میں لاکر اپنے وجود کا احساس دلایا۔ اپنے مطالبات کو دہرایا اور ان کے حصول کا عزم دہرایا۔ اس بہت تھوڑے عرصہ میں گلگت میں دفاع وطن کانفرنس کے نام پر اور سکردو میں استحکام پاکستان کے نام پر عوامی اجتماعات کا ایسا ریکارڈ قائم کیا، جسے آج تک کوئی سیاسی جماعت توڑنے سے قاصر ہے۔ یہی وہ عوامی بیداری ہے جس کے باعث حکمران یہ سوچنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ خطے کے عوام کو مزید محرومیوں سے دوچار رکھنا لاوا پٹھنے کا انتظار کرنے کے مترادف ہوگا۔ آج اگر کوئی حقوق اور سہولیات دینے کی بات کرتا نظر آتا ہے تو یہ اسی بیداری کا ہی نتیجہ ہے، جسے مجلس وحدت مسلمین پاکستان نے مسلسل تحریکی و تنظیمی فعالیت سے قریہ قریہ جاکر پیدا کیا۔

موجودہ حکمران اگرچہ بہت بلند و بانگ دعوے کرتے ہوئے میدان میں کودے ہیں، مگر یہ بات ریکارڈ پر ہے اور دنیا جانتی ہے کہ جب گلگت بلتستان کے پرامن وطن سے محبت کرنے والے عوام کو ملک دشمن دہشتگردوں نے چلاس، کوہستان اور لولوسر میں گاڑیوں سے اتار کر بیدردی سے شہید کیا تو اس کیخلاف پورے ملک میں احتجاج اور دھرنے دینے اور مظلوموں کی آواز کو دنیا تک پہنچانے والا کوئی اور نہیں تھا۔ مجلس وحدت مسلمین اور اس کے مخلص قائدین ہی تھے، جنہوں نے مظلوموں کی صدائے احتجاج کو عالمی ضمیر جگانے کیلئے بلند کیا۔۔۔۔ یہ بات بھی اہل گلگت بلتستان کبھی فراموش نہیں کرسکتے کہ ان المناک سانحات کے بعد ان کے دکھوں اور غم زدہ دلوں کو دلاسہ دینے کیلئے اگر کوئی بلند و بالا پہاڑوں، برف پوش چوٹیوں اور خطرناک راستوں کو چیرتا ہوا ان تک پہنچا ہے تو اس کا نام علامہ ناصر عباس جعفری ہے۔ یہ بات قطعاً بھلائی نہیں جاسکتی کہ ان حالات میں علامہ ناصر عباس جعفری نے اپنے اوپر تمام پابندیوں اور رکاوٹوں کو توڑتے ہوئے شہدائے ملت کی مظلومیت اور خون کو چھپانے کی سازش کو ناکام بنایا اور گلگت بلتستان کے گاوٗں گاوٗں جا کر عوامی بیداری کے ذریعے انقلاب برپا کر دیا۔

اور یہ بات بھلا کیسے بھلائی جاسکتی ہے کہ جب گلگت بلتستان کے عوام کے منہ سے روٹی کا نوالہ چھیننے کی سازش کرتے ہوئے حکمرانوں نے گندم سبسڈی ختم کرنے کا اعلان کیا تو اس عوامی ایشو پر مجلس وحدت مسلمین نے بھرپور کردار ادا کرتے ہوئے عوامی ایکشن کمیٹی قائم کی، جس میں تمام مکاتب فکر اور اضلاع و ایریاز کے نمائندوں کو شامل کرکے وحدت کا ایسا منظر پیش کیا، جس کو دیکھنے کیلئے آنکھیں ترس گئی تھیں، ملک دشمنوں نے دہشتگردی، فتنہ پروری سے جس وحدت کو پارا پارا کیا تھا، مجلس وحدت نے مشترکہ و متفقہ عوامی ایکشن کمیٹی قائم کرکے وحدت، اخوت، بھائی چارے اور محبتوں کی باد بہاراں سے ماحول کو ایک بار پھر اسی طرح معطر اور شفاف کر دیا، جس طرح یہاں کے بہتے چشموں کا پانی شفاف اور صاف ہوتا ہے۔ اس تحریک کے نتیجہ میں حکمرانوں کو گندم سبسڈی کی سہولت واپس دینا پڑی اور اس عوامی تحریک سے خطے کے عوام باہمی دشمنیوں اور قتل و غارت کو فراموش کرکے ایک بار پھر شیر و شکر ہوگئے جو کسی نعمت الٰہی سے کم نہیں تھا۔ آج اسی وحدت کا نتیجہ ہے کہ اتنے سنگین سانحات کے باوجود یہ خطہ دشمنوں کی لگائی آگ سے محفوظ ہے۔

یہ مجلس وحدت مسلمین اور اس کی بابصیرت و مخلص قیادت کا ہی کمال ہے کہ قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں پہلی بار شرکت کر رہی ہے اور ان انتخابات سے قبل اس نے حکمرانوں کی کرپشن، لوٹ مار اور خطے کے عوام کو محرومیاں دینے والوں کا کڑا احتساب کیا ہے اور انہیں عوامی کٹہرے میں لاکھڑا کیا ہے۔ مجلس وحدت نے اپنا وعدہ پورا کرتے ہوئے کرپٹ، لوٹ مار کے دلدادہ اور محرومیاں دینے والے نامی گرامی سیاسی جماعتوں اور قدیم بتوں کو ٹکٹس دینے کے بجائے ایسے امیدواروں کو ٹکٹس دیئے ہیں جو اعلٰی تعلیم یافتہ، بے داغ ماضی، پرعزم اور قوم و خطے کے مخلص ترین لوگ ہیں، جو ڈیلور کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ بھی فقط مجلس وحدت کا ہی امتیاز ہے کہ سب سے پہلے ٹکٹس کیلئے اخبارات میں اشتہار دیا، اس کے بعد آنے والی درخواستوں میں امیدواروں کی سکروٹنی کی گئی اور انٹرویوز کیے ذریعے اہل اور تعلیم یافتہ افراد کو ٹکٹس جاری کئے۔۔ ایسے امیدوار جن پر کرپشن کا ایک بھی الزام نہیں جبکہ دیگر جماعتیں وہی پرانے چہرے سامنے لائی ہیں جو سر کے بالوں سے لیکر پاوٗں کے ناخن تک کرپشن میں ڈوبے رہے۔۔۔ حتٰی تبدیلی کے نعرہ لگانے والی جماعت بھی پرانے چہرے لیکر سامنے آئی۔

مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کی ترقی، گڈگورننس اور ایسے امور کو لیکر الیکشن میں اتری ہے جو یہاں کے عوام کے دلوں کی آواز ہے، واحد ایم ڈبلیو ایم ایسی جماعت ہے جو گلگت بلتستان کیلئے اپنا 5 اور 20سالہ پروگرام رکھتی ہے۔۔ 20سالہ پروگرام کلیات پر مبنی ہے، جس کے تحت گلگت بلتستان آئندہ دو دہائیوں میں وفاق کا محتاج نہیں رہے گا اور خود کفیل ہوجائیگا، جبکہ پانچ سالہ پروگرام میں گلگت بلتستان میں گڈگورننس، کڑا احتساب کا نظام متعارف کرانے، عوامی مسائل حل کرنے اور کرپشن کا خاتمہ شامل ہے۔ پانچ سالہ پروگرام میں گلگت بلتستان کو سیاحت کا حب بنانے اور جی بی میں کسی ایک ایئر پورٹ کو انٹرنیشنل ائیرپورٹ کا درجہ دلانا بھی ایم ڈبلیو ایم کے منشور کا حصہ ہے، تاکہ دنیا بھر سے لوگ سیاحت کیلئے اس خطے کا رخ کرسکیں۔ اسی طرح مجلس وحدت مسلمین نے اپنے منشور میں پانچ برسوں میں توانائی بحران کو نصف کرنے کا پلان بھی دیا ہے۔ اسی طرح سمال اور بڑی انڈسٹری کا قیام بھی ایم ڈبلیو ایم کے منشور میں شامل ہے۔

مجلس وحدت مسلمین کے منشور میں اقتصادی راہداری کے منصوبے کے اندر گلگت بلتستان میں اقتصادی زون قائم کرنے اور معدنی ترقی کیلئے اقدامات بھی شامل ہیں، اس سلسلے میں ایک ادارہ قائم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے، جس میں ریسرچ بھی ہوگی اور پروڈکشن پر بھی کام کیا جائیگا۔ منشور میں قیمتی پتھروں کو پالش کرنے کا بھی پلان دیا گیا ہے، تاکہ قیمتی پتھروں کو دنیا بھر میں برآمد کیا جاسکے۔ بیروزگار نوجوانوں کو ملازمتوں کی فراہمی اور طلبہ کیلئے یونیورسٹی کا قیام بھی مجلس وحدت مسلمین کے منشور میں شامل ہے۔ مجلس وحدت مسلمین کی لیڈر شپ اس خطے پر کس قدر توجہ دے رہی ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کی قیادت علامہ ناصر عباس جعفری گلگت بلتستان کے ایک ماہ کے دورے پر ہیں، جہاں وہ قریہ قریہ عوام سے براہ راست ملاقاتیں کر رہے ہیں، تاکہ علاقائی مسائل بھی جان سکیں اور عوام کی باتیں بھی سن سکیں، جبکہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ الیکشن میں حصہ لینے والی دیگر قومی سیاسی و دینی جماعتوں کے قائدین علاقے کے عوام اور اس کے مسائل جاننے کیلئے وقت نہیں نکال سکے، جسے عوام کسی بھی طور نظرانداز نہیں کریں گے۔۔۔

ایک اور پہلو جس کو نظرانداز کرنا مشکل ہوگا وہ مجلس وحدت مسلمین کا علاقائی مسائل اور عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے کیلئے عملی اقدامات اٹھانا ہے۔ مجلس وحدت مسلمین فقط کھوکھلے نعروں اور انتخابی جھوٹے وقتی دعووں پر یقین نہیں رکھتی بلکہ عملی اقدامات سے میدان میں موجود ہے۔ کسی بھی صوبے میں حکومت نہ ہونے کے باوجود گلگت بلتستان میں ایم ڈبلیو ایم کے فلاحی شعبے خیر العمل فاوٗنڈیشن نے بہت محدود مدت میں 5 کروڑ روپے کی خطیر رقم سے کئی پروجیکٹس مکمل کئے ہیں۔ ان پروجیکٹس میں 12 مساجد، دو میڈیکل سینٹر، تین فراہمی آب، کفالت ایتام پروجیکٹ اور ہاوٗسنگ پروجیکٹ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ کئی ایسے منصوبے ہیں جن پرکام جاری ہے، ایم ڈبلیو ایم نے اسکردو میں پہلا چائلڈ مدر کیئر اسپتال قائم کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ سٹرسٹھ سالہ محرومیاں اب ختم ہونی چاہیں، آئینی حقوق کا حصول اس خطے کے عوام کا بنیادی ترین حق ہے، جسے مزید غصب کرنا ملکی سلامتی پر کاری ضرب لگانے کے مترادف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام کی آزادی کا سورج اس وقت طلوع ہوگا جب اس خطے کو آئینی صوبہ بنایا جائیگا اور یہاں کے لاکھوں کی تعداد میں بسنے والے پاکستان کے سپوتوں کو ان کے بنیادی آئینی حقوق اور وسائل دیئے جائیں گے۔ یہاں کے عوام کی قومی اسمبلی، سینیٹ میں نمائندگی اور آواز ہوگی، یہ ایک حقیقت ہے کہ قانون ساز اسمبلی منزل کی طرف بڑھتا ایک قدم ہے، قانون ساز اسمبلی منزل ہرگز نہیں، اہل گلگت بلتستان اس منزل کے حصول کیلئے آٹھ جون کو ہونے والے انتخابات میں اپنا ووٹ اہل، امانت دار اور پرعزم و مخلص نمائندوں کو دیکر منتخب کرسکتے ہیں۔ جن کو کئی برسوں سے آزماتے آئے ہیں ان کی کارکردگی سب کے سامنے ہے۔ مجلس وحدت مسلمین کے نامزدہ کردہ امیدواروں جن کا انتخابی نشان خیمہ ہے، پہلی بار میدان میں اترے ہیں اور عوامی خدمت کیلئے جذبہ و عزم کا اظہار کرتے ہیں۔ مجلس وحدت مسلمین کا الیکشن شعار روشن و بااختیار گلگت بلتستان ہے۔ روشن و بااختیار گلگت بلتستان ہی یہاں کے عوام کے دل کی آواز ہے، جس کا حصول ہر ایک کا خواب ہے، اس خواب کی عملی تعبیر کیلئے مجلس وحدت مسلمین کی مدد کرنا ہوگی۔
خبر کا کوڈ : 461436
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش