0
Wednesday 20 May 2015 14:48

انصاراللہ یمن سعودی عرب کیخلاف جارحانہ پالیسی اختیار کیوں نہیں کرتی؟

انصاراللہ یمن سعودی عرب کیخلاف جارحانہ پالیسی اختیار کیوں نہیں کرتی؟
تحریر: سعداللہ زارعی

کیا وجہ ہے کہ انصاراللہ یمن کی انقلابی تحریک سعودی عرب کی وحشیانہ جارحیت کا "مناسب اور منہ توڑ" جواب نہیں دے رہی، جو اسے جارحانہ اقدامات روکنے پر مجبور کر دے؟ کیا یہ پالیسی جارح آل سعود رژیم کی جانب سے مظلوم یمنی عوام کے خلاف ظالمانہ اقدامات میں مزید جری ہوجانے کا باعث نہیں بنے گی؟ کیا انصاراللہ یمن کی جانب سے سعودی جارحیت کا مناسب جواب نہ دینے سے یہ تاثر ایجاد نہیں ہوگا کہ انصاراللہ یمن فوجی لحاظ سے کمزوری کا شکار ہے؟ یہ سوالات اس وقت خطے کے لوگوں کے ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ افراد جو سعودی رژیم کی براہ راست جارحیت سے متاثر ہو رہے ہیں، انصاراللہ یمن سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ جارحانہ پالیسی اختیار کرے۔ ان سوالات اور ایسے ہی دوسرے سوالات کے جواب میں درج ذیل نکات پر توجہ ضروری ہے:

1)۔ اگر انصاراللہ یمن سعودی جارحیت کا بھرپور انداز میں جواب بھی دے تو وہ ایک جوابی کارروائی قرار پائے گی اور درحقیقت ایسے میدان میں کھیلنے کے مترادف ہوگی جو دشمن نے تیار کیا ہے۔ لہذا انصاراللہ یمن جیسے گوریلا گروہ کبھی بھی اپنی کارروائیوں کی منصوبہ بندی دشمن کے جارحانہ اقدامات کے لحاظ سے نہیں کرتے۔ مثال کے طور پر لبنان کے خلاف اسرائیل کی مسلط کردہ 33 روزہ جنگ کے دوران غاصب صہیونی رژیم نے لبنان کے شیعہ اکثریتی جنوبی صوبے صور کو اس قدر شدید بمباری اور میزائل حملوں کا نشانہ بنایا کہ ایسا لگتا تھا جیسا وہاں پر تین بار ہل چلا دیا گیا ہو، لیکن اس کے مقابلے میں حزب اللہ لبنان نے بہت محدود حد تک جوابی کارروائی کی، جبکہ حزب اللہ لبنان بہت آسانی سے تل ابیب اور حیفا جیسے اہم اسرائیلی شہروں کو شدید میزائل حملوں کا نشانہ بنا سکتی تھی۔ حزب اللہ لبنان نے اس وحشیانہ بمباری کے مقابلے میں بہت محدود حد تک اور علاماتی طور پر میزائل حملے کئے۔ حزب اللہ لبنان کے جوابی میزائل حملوں کا مقصد زیادہ تعداد میں اسرائیلی فوجیوں یا شہریوں کا جانی نقصان کرنا نہیں تھا بلکہ اصل مقصد اسرائیل کے دبدبے اور اس کے رعب کو ختم کرنا تھا۔ لہذا حزب اللہ لبنان نے انتہائی دقیق نشانہ لے کر حیفا کی میٹرو ٹرین اور صفد ہوائی بیس میں واقع جنگی طیاروں کے شیڈ کو میزائل حملوں کا نشانہ بنایا اور اس طرح دشمن کو یہ پیغام پہنچایا کہ وہ اس کی حساس تنصیبات کو نشانہ بنانے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ گوریلا سرگرمیاں ہمیشہ اس بنیاد پر استوار ہوتی ہیں کہ مدمقابل کے شرعی جواز کو ختم کرتے ہوئے اس کے ذہنی آرام کو نابود کر دیا جائے اور وہ ہر لمحہ ایک غیر متوقع گوریلا ایکشن کے خوف کا شکار رہے۔ انصاراللہ یمن بھی سعودی جارحیت کے پچاس روز گزر جانے کے بعد آل سعود رژیم کے شرعی و قانونی جواز کو مخدوش کرنے اور اس کے ذہنی سکون کو ختم کرنے میں کامیاب رہی ہے۔

2)۔
گوریلا جنگوں اور چھاپہ مار کارروائیوں میں کوئی بھی گوریلا فورس میدان جنگ کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کرتی ہے، جبکہ اس کے برعکس ایک باقاعدہ مسلح فوج لڑائی اور ٹکراو کی وسعت کو انتہائی محدود دائرے میں رکھتے ہوئے میدان جنگ میں پھرتی دکھا کر دشمن پر کاری ضرب لگانے کی کوشش میں رہتی ہے۔ لبنان کے خلاف اسرائیل کی 33 روزہ جنگ اور اسی طرح غزہ کے خلاف صہیونی جارحیت کا جائزہ لینے سے ایک طرف تو اس گوریلا حکمت عملی کے بروئے کار لانے کو دیکھا جاسکتا ہے اور دوسری طرف ایسی حکمت عملی کے انتہائی کارآمد اور مفید ہونے کا بھی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح ہمارے سامنے ایسے گوریلا گروہوں کی مثالیں بھی موجود ہیں، جنہوں نے لڑائی کا دائرہ وسیع کرکے خود ہی اپنی شکست اور ناکامی کا مقدمہ فراہم کر دیا۔ لہذا انصاراللہ یمن کی جانب سے سعودی جارحیت کے خلاف اپنی کارروائیوں کو صرف صعدہ کے مغربی حصے یعنی صوبہ جیزان تک ہی محدود رکھنا انتہائی سوچا سمجھا اور معقول فیصلہ ہے۔ اس علاقے میں جارح آل سعود رژیم کی فوج کو ہونے والا جانی نقصان انصاراللہ یمن کے جانی نقصان سے کہیں زیادہ ہے۔

3)۔ یمن کے خلاف سعودی جارحیت کے دوران انصاراللہ یمن کے سامنے دو محاذ کھل چکے تھے۔ ایک بیرونی جارح قوت کا مقابلہ کرنے کا محاذ اور دوسرا ملک کے اندر موجود سعودی حمایت یافتہ تکفیری دہشت گرد عناصر کے مقابلے میں محاذ۔ انصاراللہ یمن مجبور تھی ان دونوں محاذوں میں سے ایک کو چن کر اپنی تمام تر طاقت اس محاذ پر متمرکز کر دے، کیونکہ دونوں محاذوں پر ایک ہی وقت میں لڑنے سے اس کی قوت تقسیم ہوسکتی تھی اور اسے شدید نقصان پہنچنے کا خطرہ تھا۔ اسی طرح دونوں محاذوں پر لڑنے کے نتیجے میں جنگ کا دائرہ، شدت اور مدت میں اضافہ ہونے کا امکان بھی موجود تھا۔ انصاراللہ یمن نے انتہائی ذہانت اور سمجھداری کا ثبوت دیتے ہوئے اندرونی محاذ پر اپنی طاقت متمرکز کر دی اور سعودی جارحیت کے خلاف صرف محدود اور علامتی حد تک ہی جوابی کارروائی پر اکتفا کیا۔ اس حکمت عملی کا نتیجہ یہ نکلا کہ بیرونی محاذ دوطرفہ شدید جنگ کا شکار ہونے کی بجائے ایک طرفہ کم شدت کی لڑائی تک ہی محدود رہا۔ سعودی حکومت بھی ایسی صورتحال میں اپنی جارحیت کا قانونی جواز فراہم کرنے سے قاصر رہی۔ اگرچہ آل سعود رژیم یمن کے خلاف سکیورٹی کونسل میں قرارداد نمبر 2216 منظور کروانے میں کامیاب رہی، لیکن سعودی حکومت کی اس واحد کامیابی میں بھی یمن کے خلاف اس کی فوجی جارحیت کا قانونی جواز فراہم نہیں کیا گیا، جس کے باعث سعودی رژیم اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کرنے پر مجبور ہوگئی۔ اگرچہ یمن کے خلاف سعودی جارحیت انتہائی بے رحمانہ تھی، لیکن اس کی وسعت محدود تھی۔ اس جارحیت کے دوران 5 ہزار ہوائی حملے انجام پائے۔ دوسری طرف انصاراللہ یمن نے ملک کے جنوبی حصے میں واقع 7 صوبوں میں تکفیری دہشت گرد عناصر کے خلاف وسیع آپریشن انجام دیا اور سعودی نواز دہشت گرد گروہوں کو نابود کرکے یمن پر سعودی عرب کے دوبارہ تسلط کا راستہ ختم کر دیا۔ اگر انصاراللہ یمن سعودی شہروں پر 1 ہزار میزائل بھی فائر کرتی تو ایک طرف تو اسے بہت سی شرعی اور دینی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا اور دوسری طرف یمن میں سعودی نواز گروہ ماضی کی طرح اپنا اثرورسوخ باقی رکھتے اور کسی بھی وقت دوبارہ ملک پر قبضہ کرسکتے تھے۔

4)۔ اس جنگ میں سعودی عرب کی پوری کوشش رہی کہ وہ سرزمین وحی اور مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ جیسے مقدس شہروں کے دفاع کے نام پر بعض عرب اور اسلامی ممالک کو ساتھ ملا کر ایران اور یمن مخالف محاذ قائم کرسکے۔ اگر انصاراللہ یمن، خاص طور پر جنگ کے ابتدائی ہفتوں میں سعودی شہروں کو اپنے میزائل حملوں کا نشانہ بناتے تو یہ اقدام ایران اور یمن مخالف محاذ بنانے میں سعودی حکمرانوں کیلئے انتہائی مددگار ثابت ہوسکتا تھا۔ انصاراللہ یمن نے ان حملوں سے گریز کرکے اور اپنی جوابی کارروائی کو محدود حد تک کم کرکے آل سعود رژیم کی جارحانہ حکمت عملی کا پانسہ پلٹ کر رکھ دیا۔ درحقیقت سعودی حکومت نے یمن کے خلاف جارحیت کو قانونی جواز فراہم کرنے اور اس کی بنیاد پر ایران اور یمن مخالف محاذ تشکیل دینے کیلئے جس قتل و غارت اور ہولوکاسٹ کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی، وہ انجام نہ پا سکی اور اس طرح سعودی رژیم کے فوجی اقدام کا فلسفہ وجودی ہی خطرے میں پڑ گیا۔ اگر ہم حال ہی میں ریاض میں یمن کے فراری حکمرانوں کے ساتھ سعودی حکام کی ہونے والی میٹنگ کا جائزہ لیں تو دیکھیں گے کہ اس میٹنگ میں سعودی حکام نے یمن کے خلاف اپنی جارحیت کو سابق یمنی صدر منصور ہادی کی درخواست سے جوڑنے پر بے حد اصرار کیا ہے، جبکہ یمن کے خلاف جارحیت کے ابتدائی دنوں میں سعودی حکام اس بات پر زور دے رہے تھے کہ حرمین شریفین خطرے میں ہے اور سعودی عرب اور دوسرے عرب ممالک کی قومی سلامتی شدید خطرے سے دوچار ہوچکی ہے۔

اس وقت سعودی حکام کا موقف تبدیل ہوچکا ہے اور وہ یمن کے خلاف اپنی جارحیت کو یمن کے سابق صدر کی درخواست سے جوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ البتہ یہ بھی ایک بڑا جھوٹ ہے کیونکہ اگر سابق یمنی صدر ہادی منصور عبد ربہ نے سعودی عرب سے یمن کے خلاف فوجی کارروائی کی درخواست کی ہوتی تو وہ جنگ کے ابتدائی دنوں میں ہی ذرائع ابلاغ یا قانونی اداروں میں منظر عام پر آجاتی اور اگر فرض بھی کر لیا جائے کہ سابق یمنی صدر نے سعودی عرب سے فوجی کارروائی کی درخواست کی تھی تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک مستعفی، غیر قانونی اور ملک سے بھاگے ہوئے صدر کی درخواست کی قانونی حیثیت کیا ہے؟ اور کیا ایسی درخواست کو بنیاد بنا کر کسی آزاد اور خود مختار ملک پر فوجی چڑھائی کی جاسکتی ہے؟ اگر منصور ہادی یمن کے قانونی صدر ہوتے اور پورے یمن پر ان کی حکومت قائم بھی ہوتی، تب بھی ان کی درخواست سعودی عرب کو اپنے ہمسایہ ملک پر فوجی حملہ کرنے، عوام کی قتل و غارت کرنے اور گھروں، مساجد، بازاروں اور اسکولوں کو وحشیانہ بمباری کا نشانہ بنانے کا قانونی جواز فراہم کرنے سے قاصر تھی، چہ جائیکہ نہ تو ایسی درخواست کی گئی، نہ منصور ہادی یمن کے قانونی صدر تھے اور نہ ہی بنیادی طور پر ایسا مطالبہ قانونی قرار دیا جاسکتا ہے۔ انصاراللہ یمن کی جانب سے ملک کے اندرونی محاذ پر متمرکز رہنے کی پالیسی اپنائے جانے کی وجہ سے یمن کے خلاف پاکستان، ترکی اور مصر کی شرکت سے ایک وسیع تر فوجی اتحاد کی تشکیل ممکن نہ ہوسکی۔ اسی طرح انصاراللہ یمن کی جانب سے جیزان کے خطے میں جوابی اقدامات کی منصوبہ بندی ایسے انداز میں کی گئی کہ ان ممالک نے بھی سعودی عرب کی مدد کرنے سے گریز کرنے کا فیصلہ کیا، جنہوں نے جنگ کے ابتدائی ہفتوں میں سعودی عرب کو اس پر حملے کی صورت میں مدد کی یقین دہانی کروائی تھی۔

5)۔ سعودی عرب یمن کے خلاف فوجی جارحیت اور ہوائی حملوں کی صورت میں اپنی بھرپور طاقت کا مظاہرہ کرچکا ہے، لہذا اب اس کی جیب میں کوئی نیا پتہ باقی نہیں رہا، جبکہ انصاراللہ یمن نے اب تک انتہائی محدود حد تک اور قبائل کی سطح تک جوابی کارروائی کی ہے، جس کی وجہ سے اس کے پاس کہنے کو اب بھی بہت کچھ ہے۔ اگرچہ انصاراللہ یمن کی جانب سے ملک کے اندر تکفیری دہشت گرد عناصر کے خاتمے کیلئے شروع ہونے والا آپریشن ابھی اپنے اختتامی مرحلے تک نہیں پہنچا اور خاص طور پر "حضر موت" جیسے وسیع صوبے کے مرکزی حصے یعنی "مکلا" پر ابھی تک القاعدہ کے ذیلی گروہ انصار الشریعہ کا قبضہ ہے، لیکن اس کے باوجود انصاراللہ یمن کے پاس اس خطے کو تکفیری دہشت گرد عناصر سے پاک کرنے اور سعودی علاقوں میں جوابی کارروائی انجام دینے کا انتخاب موجود ہے۔ اس وقت بھی انصاراللہ یمن کو یہ یقین حاصل ہے کہ اس کے خلاف جارحیت میں سعودی عرب اکیلا ہے۔ انصاراللہ یمن کے پاس زمین اور سمندر سے انجام پانے والے حملوں کا جواب دینے کی صلاحیت موجود ہے اور لڑائی کی شدت کی مقدار کا تعین بھی انصاراللہ یمن خود ہی کرنے کی قابلیت رکھتی ہے۔ 
خبر کا کوڈ : 462046
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش