QR CodeQR Code

یمن کی جنگ کب اور کیسے ختم ہوگی؟

24 May 2015 18:04

اسلام ٹائمز: شام اور عراق میں جاری دہشت گردی ہو یا یمن پر مسلط کی گئی یکطرفہ جنگ، یہ سبھی اس وقت تک جاری رہیں گی، جب تک غاصب و جعلی ریاست اسرائیل امریکا کے ذریعے ایسا چاہے گا۔ یہ جنگ اس وقت تک بھی جاری رہے گی کہ جب تک آل سعود جیسے خائن خاندان کو حرمین شریفین کی آڑ میں مقدس گائے بناکر پیش کیا جاتا رہے گا، لیکن یہ جنگ اس وقت ختم ہوسکے گی جب روس اور چین کھل کر عالمی سیاست اور اداروں میں امریکی اتحادیوں کے خلاف فعالیت بامقصد اور سنجیدہ فعالیت دکھائیں۔ یعنی اقوام متحدہ میں سعودی اتحاد کے خلاف سارے ممالک کو یکجا کریں۔ انہیں عالمی تجارت میں تنہا کریں اور مسلسل دباؤ ڈالیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر مسلمان اور عرب عوام پوری دنیا میں اس جنگ کے خلاف اپنے غم و غصے کا اظہار کرے اور اسے منظم احتجاج اور عالمی عوامی اتحاد کی صورت میں مجسم و متحرک کر دکھائے، تب بھی یمن کی جنگ جلد ہی ختم ہوگی۔


تحریر: عرفان علی

یمن کی جنگ کب اور کیسے ختم ہوگی؟ یہ عنوان اس لئے منتخب کیا گیا کہ ہمارے محترم دوست علی عباس رضوی صاحب نے سحر اردو ٹی وی کے ٹاک شو ’’انداز جہاں‘‘ میں سوال کیا تھا کہ یمن کی کب تک جاری رہے گی؟ بندہ اس پروگرام میں بھی عرض کرچکا تھا کہ جب تک عرب لیگ اور خلیجی عرب ممالک کے امریکی اتحادی حکمران عالمی سرمایہ دار و صہیونی نظام کے اتحادی رہیں گے, تب تک یمن سمیت ہر فلسطین دوست حکومت اور گروہ کے خلاف جنگیں اور سازشیں جاری رہیں گی۔ یمن کی جنگ کے ختم ہونے کی ایک صورت یہ بھی ہوسکتی ہے سعودی اتحاد جس نے یکطرفہ طور جنگ شروع کی تھی، وہ خود ہی یکطرفہ طور پر جنگ ختم کرنے کا اعلان کر دے۔ دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ اقوام متحدہ کی سربراہی میں کسی راہ حل پر اتفاق کروایا جائے۔ جہاں تک اقوام متحدہ کی بات ہے تو 28 مئی 2015ء کو جنیوا میں امن مذاکرات شروع ہوں گے۔ سیکرٹری جنرل بان کی مون نے کہا ہے کہ جنیوا میں یمن کے بحران کے بذریعہ مذاکرات ایسے سیاسی حل کے لئے ٹرانزیشن عمل کی سمت متحرک ہوا جاسکے گا کہ جو یمنیوں کی قیادت میں ہو اور جس میں سبھی شریک ہوں۔ انہوں نے فریقین پر زور دیا کہ پیشگی شرائط کے بغیر امن مذاکرات میں شرکت کریں۔ اقوام متحدہ ہی اگر غیر جانبدار اور ایماندار ہوتا تو سعودی اتحاد کو یمن پر جارحیت کی سزا دینے کے لئے سلامتی کاؤنسل کے ممالک باب ہفتم کے تحت عمل کرتے۔ ویسے بھی یہ جنگ اقوام متحدہ کی اجازت سے شروع نہیں ہوئی۔ ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور دیگر عہدیدار inclusive سیاسی عمل کی اصطلاح تو استعمال کر رہے ہیں لیکن اس پر عمل ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔

عراق میں جہاں ہر فرقے کو سیاسی نظام اور ریاستی ڈھانچے میں آئینی طور پر نمائندگی اور نمایاں عہدے دے دیئے گئے ہیں، وہاں اقوام متحدہ کے طاقتور ممالک اور اس کے اتحادی عرب ممالک کو ابھی بھی inclusive نظام نظر نہیں آرہا، لیکن یمن جہاں زیدی بادشاہ حکمرانی کیا کرتے تھے، وہاں زیدی یمنیوں اور ان کے اتحادی سنی عربوں کو باغی کہا جا رہا ہے، جبکہ وہ اس سیاسی عمل کا شروع سے جزو لاینفک رہے ہیں۔ ستمبر 2014ء میں ان کے اور عبوری حکومت کے دوران معاہدہ اقوام متحدہ کی سرپرستی میں طے پایا تھا، لیکن یمن پر جنگ مسلط کرنے والے سعودی اتحادی ممالک آج اس معاہدہ کو تسلیم نہیں کرتے، اصل مسئلہ یہاں سے شروع ہوتا ہے۔ کیا inclusive کی اصطلاح یمن میں بھی عراق کی طرح استعمال کی جائے گی؟ کیونکہ اگر کم ترین آبادی کے باوجود عراق میں بعض عناصر کو زیادہ سے زیادہ حصہ دلوایا گیا ہے تو یمن کے زیدیوں کی نمائندہ جماعت حرکت انصاراللہ اور اس کے اتحادی سنی حنفی اور شافعی عرب مسلمانوں کو ان کی نسبتاً زیادہ آبادی کے تناسب سے حصہ بقدر جثہ دلوایا جائے گا؟؟ ایسا ہوتا فی الحال نظر نہیں آرہا۔

حرکت انصار اللہ کا کہنا ہے کہ یمن کے امن مذاکرات میں ایران کی شرکت بھی یقینی بنائی جائے۔ یہ مطالبہ عام حالات میں شاید قابل اعتراض قرار دیا جاسکتا تھا لیکن جب یمن کے پڑوس کے امریکی صہیونی اتحادی عرب غیر نمائندہ شاہ و شیوخ و آمر حکمران یمن پر یکطرفہ جنگ مسلط کرکے جارحیت جاری رکھے ہوئے ہیں تو بین الاقوامی سیاست کے آداب کے تحت بھی ایران کو اس مفاہمتی عمل میں شریک کرنے کا مطالبہ غلط نہیں ہے اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے نمائندہ برائے یمن بھی اس کے حق میں ہیں۔ ان کے پیش رو نے بھی واضح طور کہا تھا کہ مسئلہ یمن کے پرامن حل میں سعودی عرب رکاوٹ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلاجواز ایک عرب مسلمان ملک کے پرامن شہریوں پر تاحال بم برسائے جا رہے ہیں۔ ’’انداز جہاں ‘‘ میں بندہ عرض کرچکا تھا کہ ان خائن عرب حکمرانوں کا قبلہ مکہ میں نہیں بلکہ واشنگٹن میں ہے، جہاں کا رخ کرکے یہ اپنی رعایا کی قسمت کے فیصلے کرتے آئے ہیں۔

اس مرتبہ بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ امریکا اور سعودی بادشاہت میں مسلسل رابطہ برقرار تھا۔ شام کے خلاف سازشوں میں بھی یہ دونوں اور ان کے اتحادی مغربی اور عرب حکمران ادارے اور شخصیات شامل تھے۔ دسمبر 2014ء میں یمن کے خلاف امریکا و سعودی حکمران شخصیات کا امریکا میں اجلاس ہوا۔ سینٹرل کمانڈ کے سربراہ پانچ سے زائد مرتبہ سعودی مقتدر شخصیات کے ساتھ اجلاس کرچکے ہیں۔ صدر اور بادشاہ کے مابین فون پر رابطہ برقرار ہے۔ فرانس کے صدر بھی ریاض کا دورہ کرچکے ہیں۔ خلیجی تعاون کاؤنسل کے رکن ممالک کے حکمرانوں کا 15واں مشاورتی اجلاس ریاض میں ہوا تو فرانسیسی صدر، وزرائے دفاع و خارجہ بھی وہیں تھے۔ قطر نے فرانس سے 7 بلین ڈالر اسلحے کی ڈیل کی ہے۔ عمان کے سلطان قابوس نے خود شرکت نہیں کی اور ایک نمائندہ اس اجلاس کے لئے بھیجا۔

13 اور 14 مئی کو خلیجی تعاون کاؤنسل اور امریکا کا سربراہی اجلاس کیمپ ڈیوڈ میں ہوا۔ یہاں سعودی بادشاہ نے اپنے ولی عہد بھتیجے محمد بن نایف اور نائب ولی عہد بیٹے محمد بن سلمان کو اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا تھا۔ یہ دونوں شہزادے ہی یمن کے خلاف جنگ کے انچارج ہیں۔ 9 مئی کو جی سی سی کے وزرائے خارجہ اور امریکی وزیر خارجہ جون کیری نے کیمپ ڈیوڈ اجلاس کے لئے مشاورت کی تھی۔ دورہ امریکا میں سعودی شہزادوں نے سی آئی اے کے سربراہ اور امریکی وزیر برائے ہوم لینڈ سکیورٹی سے بھی ملاقاتیں کیں۔ اجلاس سے پہلے کہا جا رہا تھا کہ امریکا ان ممالک کو سلامتی کے ایشوز پر کوئی ضمانت نہیں دے گا، لیکن اجلاس کے بعد خبریں آئیں کہ آہنی دفاع کی ضمانت دی گئی ہے۔ سعودی ولی عہد اور امریکی صدر کے مشترکہ بیان نے بھی ثابت کیا کہ دونوں ملکوں میں اختلافات اور دوریوں کی خبریں مفروضوں پر مبنی تھیں۔

پیرس اور واشنگٹن کے اجلاسوں کی روداد یہ سامنے آئی کہ وہاں یمن، ایران اور شام کے مسائل پر گفتگو کی گئی۔ وکالۃ انباء الامارات کی خبر کو میں نے بڑے غور سے پڑھا کہ شاید کہیں کسی کونے میں فلسطین اور جعلی ریاست اسرائیل کے بارے میں بھی کوئی بات کی گئی ہو، لیکن شاید اب نمائشی اور سطحی طور پر بھی مسلمانان عالم اور عرب عوام کو مطمئن کرنے والا کوئی بیان نہیں دیا گیا۔ پھر آپ نے دیکھا کہ نیوکلیئر ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ معاہدے NPT کی ریویو کانفرنس 2015ء پیرس میں منعقد ہوئی، لیکن وہ اس لئے ناکام ہوگئی کہ امریکا، کینیڈا اور برطانیہ نے مل جل کر مشرق وسطٰی کو نیوکلیئر فری زون بنانے پر اتفاق رائے نہ ہونے دیا، کیونکہ وہاں صرف نسل پرست جعلی ریاست اسرائیل ہی واحد نیوکلیئر بم کی حامل طاقت ہے اور نیوکلیئر فری زون کے لئے اسے غیر مسلح کرنا لازمی ہوگا۔

شام اور عراق میں جاری دہشت گردی ہو یا یمن پر مسلط کی گئی یکطرفہ جنگ، یہ سبھی اس وقت تک جاری رہیں گی، جب تک غاصب و جعلی ریاست اسرائیل امریکا کے ذریعے ایسا چاہے گا۔ یہ جنگ اس وقت تک بھی جاری رہے گی کہ جب تک آل سعود جیسے خائن خاندان کو حرمین شریفین کی آڑ میں مقدس گائے بناکر پیش کیا جاتا رہے گا، لیکن یہ جنگ اس وقت ختم ہوسکے گی جب روس اور چین کھل کر عالمی سیاست اور اداروں میں امریکی اتحادیوں کے خلاف فعالیت بامقصد اور سنجیدہ فعالیت دکھائیں۔ یعنی اقوام متحدہ میں سعودی اتحاد کے خلاف سارے ممالک کو یکجا کریں۔ انہیں عالمی تجارت میں تنہا کریں اور مسلسل دباؤ ڈالیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر مسلمان اور عرب عوام پوری دنیا میں اس جنگ کے خلاف اپنے غم و غصے کا اظہار کرے اور اسے منظم احتجاج اور عالمی عوامی اتحاد کی صورت میں مجسم و متحرک کر دکھائے، تب بھی یمن کی جنگ جلد ہی ختم ہوگی۔

یمن سال 2015ء کا فلسطین ہے، لیکن فرق یہ ہے کہ اس پر صہیونی دہشت گردوں نے براہ راست قبضہ اور حملہ نہیں کیا بلکہ عربوں اور مسلمانوں کے خائن غیر نمائندہ حکمرانوں کے ذریعے حملہ آور ہوا ہے۔ ایران نے جس طرح امدادی بحری بیڑہ روانہ کیا ہے، اسی طرح دنیا کے ہر ملک سے ایک امن فلوٹیلا یمن کے جنگ زدہ عوام کی مدد کے لئے بھیجے جانے کی ضرورت ہے۔ جب عالمی رائے عامہ کی طاقت سے جنگجو سعودی اتحاد کے خلاف دنیا کی خاموش اکثریت خود کو یمن کے حق میں ظاہر کر دے گی تو یمن کی جنگ ضرور ختم ہوجائے گی۔ دعا کی اہمیت اپنی جگہ، اس کے ساتھ ساتھ تبلیغاتی جنگ کے مورچے پر بھی فعالیت کی ضرورت ہے، لبیک یایمن کے نعرے کے ساتھ جنگ مخالفین کو سامنے آنا ہوگا۔


خبر کا کوڈ: 462819

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/462819/یمن-کی-جنگ-کب-اور-کیسے-ختم-ہوگی

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org