1
0
Tuesday 26 May 2015 11:00

پنجاب کے مدارس سے مشکوک افراد کی گرفتاری

پنجاب کے مدارس سے مشکوک افراد کی گرفتاری
تحریر: طاہر یاسین طاہر

ہر چند ہو مشاہدہء حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر

بے شک سیالکوٹ والے بہیمانہ واقعہ پر لفظوں کا بین کرنا تھا، نوحہ گری میرے عقیدے میں کفر نہیں۔ چنانچہ مجھے کسی فتوے اور فتنے کا خوف نہیں، حضرت نوح کو نوحؑ کہا ہی اسی لئے جاتا ہے کہ آپ بہت زیادہ گریہ کیا کرتے تھے۔ سوال مگر یہ ہے کہ کیوں؟ اللہ رب العزت کے برگزیدہ ترین بنی تھے۔ آدمِ ثانیؑ کا لقب پایا۔ ہاتھ دعا کے لئے بلند کرتے اور سارے کام سنور جاتے۔ نوحہ کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ اللہ کی حکمتیں اللہ جانے یا پھر اللہ والے۔ پرسوں سے پرلے دن پڑھ رہا تھا کہ مدارس علم کی ترویج کے منبع ہیں۔ ہوتے ہوں گے۔ ہم نے تو لال مسجد بھی دیکھی اور روجھان والا مدرسہ بھی۔ حقانیہ اوکاڑہ خٹک بھی دیکھا، جہاں کے زچہ خانے میں طالبان کا جنم ہوا۔ امامِ کعبہ آلِ سعود کے سرکاری مفادات کے محافظ بن کر پاکستان آئے تو ہر ایک پہلی صف میں جگہ ڈھونڈ رہا تھا۔ ہم اپنے معاشرتی رویے کے حوالے سے سازشی تھیوری والے لوگ ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کا فرمانا ہے کہ کچھ طاقتیں پاکستان کو سیکولر بنانا چاہتی ہیں۔ انہی کے فکری رفقاء کہتے ہیں کہ پاکستان کو ’’ڈانس کلچر‘‘ کا حصہ نہیں بننے دیں گے۔ جب سے سیاست کی دیوار میں مذہب نے نقب لگائی، مولوی کی چاندی ہوگئی۔

مسلم تاریخ پر بڑا ناز کیا جاتا ہے۔ بے شک مسلمانوں کی تاریخ قابلِ رشک ہے، لیکن اسی تاریخ کے چہرے پہ اورنگ زیب عالمگیر جیسا بادشاہ بھی ہے، جس کے بارے کسی انگریز مفکر نے کہا تھا کہ ’’اورنگزیب عالمگیر نے نہ کوئی بھائی چھوڑا نہ کوئی نماز‘‘ بلاغت میں جملہ اپنی مثال آپ ہے۔ ہم تاریخ کو بھی اپنی قبائلی و خاندانی روایات کی عینک سے دیکھتے ہیں۔ پاکستان میں انتہا پسندی کی درآمد کی بات کی جاتی ہے تو کوئی بھی معقول تجزیہ کار 1970ء کی دھائی والے امریکی جہاد کو فراموش نہیں کرسکتا۔ اے این پی کو داد دیئے بغیر نہیں رہا جاسکتا، جنھوں نے روس کے خلاف امریکی اتحادی بننے کی مخالفت کی تھی، اور ان کی یہ مخالفت محض جذباتیت پہ مبنی نہ تھی بلکہ ان کا مؤقف بڑا جاندار تھا، ان کا کہنا تھا کہ یہ درندے جو"مجاہدین‘‘ کے نام پہ ہم پال رہے ہیں، یہ ایک دن پلٹ کر ہمیں ہی کھا جائیں گے۔ آج یہ نام نہاد ’’مجاہدین‘‘ کے پی کے سمیت پورے پاکستان کو زخم زخم کر رہے ہیں۔ صرف پورے پاکستان کو ہی نہیں، بلکہ شام سے عراق اور عراق سے یمن، صومالیہ سے نائیجیریا اور بحرین سے سعودی عرب تک۔ ایک نام نہاد ایسی ریاست کا خواب جس میں مسلمانوں کو ذبح کرکے ’’خلافت‘‘ کی بنیاد رکھی جائے۔

اس امر میں کلام نہیں کہ جہاد کے حوالے سے مفاد پرست ملائیت نے غلط تعبیر کرکے جذباتی اور دین کی طرف راغب ہونے والے نوجوانوں سے بڑی زیادتی کی۔ انھیں صرف روس کیخلاف ’’جہادی ٹریننگ‘‘ نہیں دی گئی بلکہ انھیں بتایا گیا کہ روس کو شکست دے کر ہم ایک بڑی عالمی اسلامی ریاست کی بنیاد رکھیں گے۔ کچھ نے سوال اٹھایا کہ سرمایہ اور افرادی قوت کہاں سے آئے گی؟ تو جواب بڑا سادہ تھا۔ اغوا، پوست کی کاشت اور عرب و عجم کے حوروں سے ملنے والے مشتاق نوجوان۔ قصہ کوتاہ مدارس کی بڑی کھیپ تیار کی گئی۔ اسلام آباد میں ’’جہادی‘‘ کیمپ کا صدر دفتر بنا۔ اسلام آباد مسجد سے اسے لال مسجد کا نام دے دیا گیا۔ شاید اسی لئے کہ اس کے ’’طلباء‘‘ نے آگے چل کر پورے سماج کو ’’لال‘‘ کرنا تھا۔ مدارس کے لئے سعودی عرب اور لیبیا کی فنڈنگ کو بڑے تکنیکی انداز میں استعمال کیا گیا۔ بالخصوص کے پی کے، جنوبی وزیرستان، شمالی وزیرستان، خیبر ایجنسی، کرم ایجنسی اور کوئٹہ کو خاص طور پر ’’امریکی جہادی سرگرمیوں‘‘ کے لئے چنا گیا۔

پنجاب میں مگر لشکر جھنگوی، سپاہ صحابہ اور ایک کئی ایک تکفیری جماعتیں ریاستی سرپرستی میں امریکی ڈالر کے زور پہ جہادی جذبے سے ’’سرشار‘‘ ہوگئیں۔ بہت سی چیزیں ایسی ہوتی ہیں جنھیں انگریزی میں open secret بھی کہا جاتا ہے۔ یہ راز معاشرتی حرکیات پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ رانا ثناءللہ اور پنجاب حکومت ملک اسحاق اور لشکر جھنگوی کے انتہائی مطلوب افراد سے گہرے مراسم رکھتے ہیں۔ آپریشن سوات میں ہو یا جنوبی وزیرستان میں، خیبر ون ہو یا کہیں اور ہمیں طے شدہ باتوں سے چشم پوشی نہیں کرنی چاہیے۔ کیا یہ سچ نہیں کہ پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل سے القاعدہ کے دہشت گرد پکڑے گئے؟ اخبارات نے اس واقعے کو جلی حروف میں رپورٹ کیا۔ کیا یہ سچ نہیں کہ ہماری جامعات میں اساتذہ کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے؟ بات کے پی کے سے نکل چکی ہے۔ وہاں جو ہونا تھا ہوچکا۔ ابھی بہت کچھ ہوگا، اب نمبر کراچی اور جنوبی پنجاب کا ہے۔ وہی جنوبی پنجاب جہاں کے ڈکیت گروپ پنجاب کی بہادر پولیس کو اغواء کرکے لے جاتے ہیں اور پنجاب حکومت ہمیشہ کی طرح ’’مذاکرات‘‘ کا راستہ تلاش کرتی ہے۔

بھلا آج تک کسی ریاست نے ریاست کے باغیوں کے ساتھ مذاکرات کئے ہیں؟ کیا پنجابی طالبان کی ایک پوری فعال تنظیم نہیں ہے؟ تحریک اس لئے نہیں کہتا کہ تحریکوں کے مقاصد اعلٰی ہوا کرتے ہیں جبکہ قاتلوں کا مقصد خوف کی پرورش کرنا ہوتا ہے۔ انٹرنیٹ پر اخبارات دیکھ رہا تھا، سیالکوٹ والے واقعے پہ ہی نظر تھی کہ ایک مختصر مگر تکلیف دہ خبر نے توجہ کھنچ لی۔’’صوبائی وزارت داخلہ پنجاب کے زیرانتظام ہونے والی کارروائی میں پنجاب بھر سے دہشتگردی میں ملوث 13 مدرسوں سے 43 مشتبہ افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ گرفتار ہونے والوں میں مدارس کے مہتمم، ذمہ داران اور کارکن شامل ہیں۔ پنجاب کے محکمہ داخلہ کے ذرائع سے میڈیا کو موصول ہونے والی رپورٹ کے مطابق مدرسوں کی مانیٹرنگ کے عمل میں صوبہ بھر سے 13 ایسے اداروں کی نشاندہی ہوئی تھی، جن کے بارے میں اداروں کے پاس معلومات تھیں، کہ یہاں انتہا پسندانہ نظریات کی تبلیغ کے ساتھ باقاعدہ دہشت گردی کیلئے تربیت اور ٹارگٹ سونپے جاتے ہیں۔ جس پر باقاعدہ ٹیمیں تشکیل دی گئیں اور مصدقہ ثبوت سامنے آنے پر 13 مدرسوں سے 43 افراد کو گرفتار کیا گیا۔ جن میں ان اداروں کے مہتمم، ذمہ داران اور کارکن شامل ہیں۔ گرفتار شدگان کو مزید تحقیقات کیلئے تحقیقاتی اداروں کے سپرد کر دیا گیا ہے۔‘‘

یہ ہے ہمارا المیہ۔ یہ ہے ہماری دینی تعلیم۔ مدارس کے نصاب پہ بات کی جائے تو علمائے سو کھانے کو دوڑتے ہیں۔ حکومت تمام مدارس کے نصاب کی ازسرِ نو تنظیم سازی کرے اور جو بھی مدرسہ اس حوالے سے مزاحمت کرے، اسے ریاستی طاقت سے کچل دیا جائے۔ ہم نے اپنے بچوں کے ہاتھ میں قلم، کتاب اور علم و ادب کی شمع دینی ہے نہ کہ کلاشنکوف۔ ایسے تمام مدارس بشمول لال مسجد، ان مدارس کے سہولت کار اور ٹریننگ دینے والے ’’مہتمم‘‘ خواہ وہ فکری ٹریننگ ہو یا عملی ٹریننگ، ان سب کو نشانِ عبرت بنا کر معاشرے کو اس گند سے پاک کر دیا جائے۔ پسِ تحریر! لکھنے کو بہت کچھ ہے میرے پاس، گذشتہ سے پیوستہ روز کلر سیداں کے ایک بینک میں انٹر نیٹ کا بل جمع کرانے گیا تو ایک مولوی صاحب جو اپنی وضع قطع میں ہر ایک سے ’’قطع تعلق‘‘ لگتے تھے، مجھے کہنے لگے کہ آپ کے کالم باقاعدگی سے پڑھتا ہوں، آپ ہاتھ ہولا رکھیں‘‘ ان چند جملوں کا مقصد یہی ہے کہ بات ریکارڈ پہ آجائے۔
زندگی اتنی بھی غنیمت نہیں جس کیلئے
عہدِ کم ظرف کی ہر بات گوارا کر لیں
خبر کا کوڈ : 463145
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

raja qanbar
Pakistan
ec k siwa koi haal nai k jaab tak madaris sy "takfiri nisaab" khtm nai ho ga tb tk yeah kam chalta rahy ga
ہماری پیشکش