2
Tuesday 26 May 2015 15:30

سعودی جارحیت یمن ٹائمز کے ایڈیٹر کی نظر میں

سعودی جارحیت یمن ٹائمز کے ایڈیٹر کی نظر میں
تحریر: عرفان علی

یمن ٹائمز یمن کا پہلا انگریزی اخبار ہے۔ یہاں بریٹ اسکاٹ نے تقریباً ایک سال ایڈیٹر اور منیجنگ ایڈیٹر کی حیثیت سے فرائض انجام دیئے۔ 5 اپریل کو انہیں صنعا سے بحفاظت نکالا گیا۔ 10 روز تک وہ بمباری کی زد پر تھے۔ کومل قریشی نے ان سے ایک انٹرویو کیا جو انگریزی روزنامہ میں شایع ہوا۔ چونکہ اس میں بعض دلچسپ حقائق بھی بیان کئے گئے ہیں، اسی لئے قارئین کی خدمت میں وہ اہم نکات پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ یمن ٹائمز زیدیوں یا حوثیوں کا حامی اخبار نہیں اور اس میں بہت سی خبریں اور تجزیے زیدیوں کے خلاف ہی شائع ہوتے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بریٹ اسکاٹ جیسے صحافی کی زبان سے جو حقیقت بیان کی گئی ہے، اس کو نسبتاً زیادہ اہمیت دی جانی چاہئے۔ بریٹ اسکاٹ نے یمن کے حوثی زیدی گروہ کو فرقہ پرست قرار دینے والوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ حوثی زیدی تحریک میں سنی بھی شامل ہیں۔ یمن کی وہ فوج جو حوثی زیدی تحریک کا ساتھ دے رہی ہے، اس میں بھی سنی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فرقہ پرستی کے زاویے سے صورتحال کا تجزیہ کیا جائے تو وہ اس طرح ہے کہ ایک طرف مذکورہ گروہ ہے (جس کے خلاف سعودی اتحاد جارحیت کر رہا ہے) اور دوسری طرف داعش و القاعدہ ہے، جو سعودی حملے کی وجہ سے مضبوط ہو رہی ہے۔ حوثی تحریک شروع ہی یمن کے زیدی صدر علی عبداللہ صالح کے خلاف ہوئی تھی، (جو سعودی عرب کی بادشاہت کا ایک کٹھ پتلی صدر تھا)، اس زاویے سے بھی یمن کی زیدی تحریک کو فرقہ پرست قرار نہیں دیا جاسکتا۔

یمن ٹائمز کے سابق ایڈیٹر نے مزید کہا کہ سچ بولا جائے تو انہیں نہیں معلوم کہ سعودی حکومت کس ہدف کو حاصل کرنے کی امیدر کھتی ہے۔ یمن میں ہر شخص جو بمباری کی زد پر ہے، وہ یہ جانتا ہے کہ اس بمباری کا سب سے زیادہ فائدہ القاعدہ کو ہی ہوگا۔ وہ کہتے ہیں کہ نئے سعودی بادشاہ ایران کو یمن میں اثر و رسوخ بڑھانے سے روکنے کے لئے (دانستہ طور پر) ایسا کر رہے ہیں، (یعنی بھلے القاعدہ و داعش مضبوط ہوجائے)۔ ایک اہم نکتہ یہ بھی بیان کیا کہ حوثی زیدی ایران کے کٹھ پتلی نہیں ہیں بلکہ ایران انہیں اسڑٹیجک ایڈوائس دیتا ہوگا۔ حوثی تحریک کے حامیوں کا یمن کے شمال پر مکمل کنٹرول ہوچکا تھا اور جنوب میں بھی کئی علاقے ان کے کنٹرول میں آرہے تھے۔ باب المندب تک ان کا کنٹرول تھا۔ سعودی اثر و رسوخ یمن میں تقریباً ختم ہوچکا تھا۔ حوثی اور ان کے حامی ایران کے اتحادی ہیں، لیکن ایران ان کو کنٹرول نہیں کرتا۔ شمال کے کئی صوبوں میں استحکام تھا۔

بریٹ اسکاٹ کی باتوں سے محسوس ہوتا ہے کہ یمن میں سعودی سلفی جماعتوں کو زیدیوں کے خلاف استعمال کرتے تھے، تاکہ تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی کے تحت اپنے کٹھ پتلی صدر کے اقتدار کو طول دے۔ ان کی رائے یہ ہے کہ سعودی حکومت اس وقت تک بمباری جاری رکھے گی جب تک یمن کا فوجی انفراسٹرکچر مکمل تباہ نہ کر دے۔ ایسا وہ اس لئے کرے گی کہ یمن کے مسئلے کے سیاسی حل کے لئے اپنے ایجنٹوں کے لئے سودے بازی میں زیادہ سے زیادہ حصہ حاصل کرسکے۔ اس صحافی نے پچھلے سال سوچا تھا کہ حوثی شمال تک محدود ہیں اور وہ صنعا پر کنٹرول نہیں کرپائیں گے، لیکن ستمبر 2014ء میں حوثی صنعا میں تھے۔ اسکاٹ نے سوچا کہ کنٹرول تو کرلیا ہے لیکن یہ مسلح جدوجہد کرنے والے کمانڈرز کرپٹ ہوجائیں گے اور یہ تحریک خود بخود ختم ہوجائے گی، لیکن ان کے اندازے کے برعکس عبدالمالک ال حوثی کی تحریک نے مقامی آبادی کی کوآرڈی نیشن سے موثر حفاظتی نظام وضع کر لیا۔ مارچ میں سعودی بمباری سے پہلے سکیورٹی چیک پوائنٹس بھی ختم کر دیئے گئے تھے اور وہ  بلاخوف وہاں گھوما پھرا کرتے تھے۔

یمن ٹائمز کے سابق ایڈیٹر کہتے ہیں کہ مردہ باد امریکا کا نعرہ لگانے والے اس گروہ کے گن مین ہمیشہ ان کے ساتھ نرمی اور شائستگی سے پیش آتے تھے اور خوشی خوشی تصاویر کھینچنے کی اجازت بھی دیتے تھے، غرضیکہ ہر ممکن تعاون کرتے تھے۔ انہوں نے واضح کیا کہ وہ اس گروہ کے حامی نہیں کیونکہ وہ ان کی بہت سی باتوں سے خوش نہیں، لیکن ان کے کنٹرول والے علاقے میں نارمل صورتحال کی وجہ سے خود کو محفوظ تصور کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ حوثی مسئلے کی جڑ نہیں بلکہ سابق صدر کی حکومت کی غلط کاریاں مسائل کا بنیادی سبب ہیں اور صورتحال کو مزید خراب القاعدہ جیسے گروہوں نے کیا۔ مثال کے طور پر ممتاز حوثی صحافی عبدالکریم ال خیوانی کو حال ہی میں بے دردی سے قتل کیا گیا۔ سابق صدر علی عبداللہ صالح نے اس کی تحریروں کی وجہ سے اسے قید کر دیا تھا اور انہیں قتل کرنے کی ذمے داری القاعدہ نے قبول کی۔ انہوں نے حوثی تحریک کو سلفی گروہوں کا ردعمل بھی قرار دیا۔

بریٹ اسکاٹ کا شکریہ کہ کسی حد تک انہوں نے سچ بولنے کی جرات کی۔ قارئین کی معلومات میں اضافے کے لئے عرض کر دیں کہ یمن کے مفاہمتی عمل میں حوثی تحریک کی نمائندگی کرنے والے ہائی پروفائل نمائندگان کو بھی ہدف بنا کر قتل کیا جاچکا تھا۔ یمن میں ایندھن (تیل) کی قیمت میں سو فیصد اضافہ کر دیا گیا تھا اور اس پر دی جانے والی سبسڈی ختم کر دی گئی تھی۔ مفاہمتی عمل کے اصولوں کے مطابق کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی تھی۔ حوثی تحریک (انصاراللہ) نے انہی ایشوز کے لئے پرامن احتجاج شروع کیا تھا۔ اگر سعودی حکومت اور جی سی سی کے امریکی پٹھو حکمران یمن کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرتے اور یمن کے عوام کو اپنی مرضی سے نمائندہ جمہوری سیاسی نظام اور حکومت قائم کرنے کے حق کو تسلیم کرلیتے تو یمن میں سیاسی خلاء پیدا نہ ہوتا۔ جنگ مسلط کرنے والے ممالک خاص طور پر سعودی عرب نے ستمبر 2014ء کے اس معاہدے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے، جو یمن کی عبوری حکومت اور حرکت انصاراللہ کے مابین اقوام متحدہ کے توسط سے طے پایا تھا۔

مذکورہ صحافی نے جو حالات بیان کئے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یمن میں نارمل صورتحال تھی، یعنی سعودی و اتحادی بمباری کا جواز ہی نہیں تھا۔ منصور ہادی عبد ربہ یمن چھوڑ کر فرار ہوچکا تھا۔ اگر مستعفی و مفرور صدر کے کہنے پر یمن میں سعودی مداخلت جائز قرار دی گئی ہے تو افغان صدر کے کہنے پر سوویت یونین کا افغانستان میں داخل ہونا بھی جائز تھا، اور اگر وہ جائز تھا تو سعودی و خلیجی عرب شیوخ نے امریکا اور یورپ کے ساتھ مل کر افغانستان کی اس حکومت کے خلاف جنگ کیوں کی، جو سوویت یونین کی اتحادی تھی اور اگر سوویت یونین سامراج تھا تو امریکا اور یورپی ممالک بھی تو سامراج ہی تھے۔ سعودی و اتحادی عرب غیر نمائندہ حکمران کل بھی غلط تھے اور آج بھی غلطی پر ہیں۔ وہ امریکا کے بے دام غلام تھے اور ہیں۔ امریکا اسرائیل کا وفادار سرپرست تھا اور ہے۔ امریکا مردہ باد کہنے والے مسلمان سعودی عرب کو زندہ باد کیسے کہہ سکتے ہیں۔؟
خبر کا کوڈ : 463226
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش