0
Wednesday 3 Jun 2015 00:13
15 شعبان المعظم، روز ولادت امام مہدی موعود علیہ السلام کی مناسبت سے

عالمگیر مہدوی (عج) حکومت، آیات و روایات کی روشنی میں

عالمگیر مہدوی (عج) حکومت، آیات و روایات کی روشنی میں
تحریر: جواد زروندی

اسلامی نقطہ نظر (آیات قرآن کریم اور احادیث معصومین علیھم السلام) کی روشنی میں ایک عالمگیر اسلامی حکومت کا تصور تو ضرور پایا جاتا ہے لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ دنیا میں بسنے والی مختلف اقوام اور قومیتوں کا تشخص ختم ہو جائے گا اور سب یکرنگ ہو جائیں گے۔ دین مبین اسلام میں اگرچہ عالمی سطح پر امت مسلمہ واحدہ کی تشکیل پر زور دیا گیا ہے لیکن اس امر کے تحقق پانے کیلئے قوموں کی نابودی کو ضروری قرار نہیں دیا گیا بلکہ اسلام کی نظر میں امت واحدہ مسلمہ کا معیار توحیدی عقیدے کا حامل ہونا ہے۔ اسلام مختلف قوموں کے تشخص کو باقی رکھتے ہوئے ایک عالمی توحیدی معاشرے کی تشکیل پر زور دیتا ہے اور ہر گز ان قوموں کے تشخص کو کچلنے کی بات نہیں کرتا۔ آیات قرآن کریم اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم و معصومین علیھم السلام کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ امام مہدیعج کی عالمی حکومت کے دور میں مختلف اقوام کی مشترکہ ثقافتی اقدار پر بھی توجہ دی جائے گی اور ان کی مخصوص ثقافتی عادات و اطوار کو بھی ملحوظ خاطر رکھا جائے گا اور ان میں سے کسی کو بھی کسی دوسرے کی خاطر حذف نہیں کیا جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک طرف تو ثقافتی تنوع اور گوناگونی معاشرے کی رونق بڑھاتی ہے اور دوسری طرف ایسے تنوع کو ختم کرنے سے معاشرے میں غیرمتوقع سیاسی اور سماجی ردعمل جنم لے سکتے ہیں جس کے باعث اس معاشرے کا اتحاد اور انسجام خطرے میں پڑ سکتا ہے۔

امام مہدی عج کے عالمگیر معاشرے میں نظریاتی بنیادوں یعنی اعتقادات، اقدار اور اخلاقی اصولوں کے لحاظ سے ثقافتی وحدت اور ہم آہنگی پائی جائے گی، کیونکہ عالمگیر مہدوی عج معاشرے کی اہم خصوصیات میں الہی اور توحیدی تصور کائنات اور اسلامی اصولوں اور اخلاقی اقدار کا عالمگیر ہو جانا شامل ہے۔ امام مہدی عج کے ظہور کے بعد دنیا کے تمام معاشروں پر الہی اور توحیدی تصور کائنات کی صورت میں حقیقی اتحاد اور انسجام حکمفرما ہو گا اور اس تصور کائنات کی بنیاد پر اسلامی اقدار اور اصول دنیا کی تمام ثقافتوں میں موجود ہوں گے۔ امام مہدی عج کی عالمی حکومت میں بروئے کار لانے والے طور طریقے جو عدالت اور حق پر استوار ہوں گے، انسان کی فطرت سے مکمل ہم آہنگی رکھتے ہوں گے اور دنیا کے تمام انسان توحید اور اسلامی آئیڈیالوجی کے پرچم تلے متحد ہو جائیں گے۔ امام علی علیہ السلام اس بارے میں مالک اشتر کو مخاطب قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: "اے مالک، اس دور میں ہمارا قائم (امام مہدیعج) قیام کرے گا اور دنیا کے تمام انسانوں کو ایک عقیدے اور طرز زندگی پر جمع کرے گا۔"

عالمگیر مہدوی عج معاشرے کی تہذیبی خصوصیات:
1
)۔ علم و آگاہی میں ترقی: حضرت امام مہدیعج کے زمانہ حکومت میں انسان علم و دانش کا اس قدر پیاسا ہو جائے گا کہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں: "مہدی عج کے زمانہ حکومت میں آپ سب کو علم و حکمت عطا کیا جائے گا، حتی کہ گھر میں بیٹھی خواتین اس قدر عالمہ ہو جائیں گی کہ کتاب الہی اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی روشنی میں فیصلے کریں گی"۔ (علامہ مجلسیرح، جلد 52، صفحہ 352)

2)۔ الہی – توحیدی تصور کائنات کا عالمی سطح تک پھیل جانا: عصر ظہور کی ایک اور خصوصیت، توحیدی اصول اور وحدانیت خداوند پر ایمان کا پوری دنیا میں پھیل جانا ہے۔ اس بارے میں امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: "خدا کی قسم (امام مہدیعج اور ان کے ساتھی) اس قدر جہاد کریں گے کہ سب خدا کی توحید کا اقرار کر لیں گے اور کوئی شخص خدا کا شریک نہیں ٹھہرائے گا"۔ (علامہ مجلسی، جلد 52، صفحہ 345)۔ اسی طرح ایک اور حدیث میں امام علی رضا علیہ السلام پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "خداوند متعال نے فرمایا ہے: میری عزت اور جلال کی قسم، اس قدر اس (امام مہدیعج) کی مدد کروں گا کہ دنیا کے تمام انسان میری وحدانیت پر گواہی دینے لگیں گے۔"

3
)۔ دینی اور اسلامی اصولوں کا عالمگیر ہو جانا: امیرالمومنین امام علی علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں: "حضرت مہدی عج کے ظہور کے بعد انسانوں میں عبادت، شرعی احکام کی پیروی، دین داری اور نماز جماعت کی طرف رغبت بڑھ جائے گی اور کوئی ایسا انسان نہ ہو گا جس کے دل میں اہلبیت پیغمبر علیھم السلام سے کینہ یا دشمنی پائے جائے۔"

4)
۔ دنیا بھر میں اخلاقی اصولوں کا عام ہو جانا: عصر ظہور کی ایک اور خصوصیت مہدوی معاشرے میں اخلاقی اصولوں کا عام ہو جانا ہے۔ امیرالمومنین امام علی علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں: "جب ہمارا قائم (امام مہدی عج) قیام کرے گا تو انسانوں کے دلوں سے ایکدوسرے کی دشمنی اور کینہ ختم ہو جائے گا"۔ (علامہ مجلسی، جلد 52، صفحہ 316؛ شیخ صدوق، جلد 2، صفحہ 541)۔ اسی طرح احادیث و روایات میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ جب امام مہدیعج کا ظہور ہو گا تو خداوند متعال اپنے بندوں کو اس قدر مال عطا کرے گا کہ وہ بے نیاز ہو جائیں گے اور جب امام مہدیعج یہ اعلان فرمائیں گے کہ محتاج اور ضرورت مند افراد آ جائیں تاکہ ان کی مدد کی جا سکے تو کوئی بھی نہیں آئے گا۔ (سید ابن طاووس، حدیث 1423)۔

حضرت امام مہدی عج  کی عالمگیر واحد حکومت:
ایک عالمگیر حکومت کی تشکیل کا تصور سب سے پہلے دین کی جانب سے پیش کیا گیا اور دنیا کے تمام بڑے الہی ادیان نے انسانوں پر ایک امت واحدہ کی تشکیل پر زور دیا ہے۔ معروف مغربی مفکر رابرٹسن (Robertson. R) اپنی کتاب “Globalization: Social theory and Global culture” میں لکھتا ہے: "یہ نظریہ کہ پوری دنیا ایک واحد معاشرے کی صورت اختیار کر جائے یا کم از کم اس میں ایسا واحد عالمی معاشرہ تشکیل دینے کی صلاحیت وجود میں آ جائے، ایک لمبی تاریخ کا حامل ہے۔ اس نظریے میں زمین پر عالمی سطح کی بہشت کی تشکیل یا دنیا بھر میں خداوند متعال کی سلطنت کے قیام کے بارے میں اظہار خیال کیا گیا ہے۔ بعض جدید مذہبی تحریکوں کی جانب سے بھی ایک عالمگیر مذہبی معاشرے کے تحقق کیلئے عملی کوششیں انجام پائی ہیں"۔ (صفحہ 186)۔

آیات قرآن کریم اور احادیث معصومین علیھم السلام کی روشنی میں دین مبین اسلام کو ایسا جامع ترین دین قرار دیا گیا ہے جس میں بنی نوع انسان کو درپیش آنے والی تمام تر مشکلات کا بہترین راہ حل موجود ہے اور اس کے ذریعے انسان کی تمام مشکلات اور ضروریات کو پورا کیا جا سکتا ہے۔ دین مبین اسلام، توحید جیسے مقدس اور اعلی عقیدے کی بنیاد پر دنیا میں موجود تمام اختلافات اور تنازعات کو حل کرنے کے درپے ہے۔ اسلام کی رو سے تمام نسلی، طبقاتی، قومی، وطنی، جغرافیائی، مسلکی، سیاسی اور لسانی امتیازات کا خاتمہ ضروری ہے اور انہیں کسی قسم کی برتری کی بنیاد نہیں بنایا جا سکتا۔ حتی دینی اور مذہبی اختلافات کا خاتمہ بھی ضروری ہے اور تمام انسانوں کو چاہئے کہ وہ فرامین الہی کے تابع ہو جائیں۔ قرآن کریم اس بارے میں فرماتا ہے:
قُلْ يٰا أَهْلَ اَلْكِتٰابِ تَعٰالَوْا إِلىٰ كَلِمَةٍ سَوٰاءٍ بَيْنَنٰا وَ بَيْنَكُمْ أَلاّٰ نَعْبُدَ إِلاَّ اَللّٰهَ وَ لاٰ نُشْرِكَ بِهِ شَيْئاً (آل عمران، آیہ 64)
ترجمہ: اے پیغمبرص، کہ دو کہ اے اہل کتاب آئیے ہمارے اور اپنے درمیان مشترکہ عقیدے پر متحد ہو جائیں، یعنی خدا کے علاوہ کسی اور کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ ٹھہرائیں۔

دین مبین اسلام ایک عالمگیر دین ہے اور اس کے تمام سیاسی، سماجی، اقتصادی، تہذیبی، گھریلو اور اخلاقی احکامات و دستورات عالمی سطح کے ہیں۔ اسلامی سوچ خاص طور پر شیعہ سوچ کا مرکزی خیال ایک عالمی سطح کی حکومت کی تشکیل پر استوار ہے اور اس میں جغرافیائی حدود کے اندر محدود مختلف قومیتوں پر مبنی حکومتوں کا کوئی تصور نہیں۔ اسی طرح دنیا، خدا، انسان، تاریخ، معاشرے، زندگی، ٹیکنولوجی اور دوسرے بشری نظاموں کے بارے میں اسلام کے تصور کائنات کا ماخذ بھی یہی مرکزی خیال ہے۔ معروف مسلمان مفکر، شہید آیت اللہ مرتضی مطہری کی نظر میں مہدویت درحقیقت ایک عظیم عالمی فلسفہ ہے، کیونکہ اسلام ایک عالمی دین ہے اور شیعہ سوچ بھی کسی خاص پارٹی، قوم، گروہ یا فرقے سے مخصوص نہیں ہے بلکہ شیعہ عقائد کا دائرہ عالمی سطح کا ہے جس میں تمام انسان شامل ہیں۔ قرآن کریم میں ارشاد خداوندی ہے:
وَ لَقَدْ كَتَبْنٰا فِي اَلزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ اَلذِّكْرِ أَنَّ اَلْأَرْضَ يَرِثُهٰا عِبٰادِيَ اَلصّٰالِحُونَ (انبیاء، آیہ 105)۔
ترجمہ: ہم نے ذکر (تورات) کے بعد زبور میں لکھ دیا کہ ہمارے صالح بندے زمین کے وارث ہوں گے۔ 
اس آیہ کریمہ میں پوری زمین کی بات کی گئی ہے اور خدا کے نیکوکار بندوں کی حکومت کو کسی خاص خطے یا جغرافیائی حدود سے مخصوص نہیں کیا گیا۔

دین مبین اسلام، خاص طور پر مکتب اہلبیت علیھم السلام میں مستقبل کی طرف توجہ اور معصوم امام کی سربراہی میں عدالت و انصاف کی بنیاد پر ایک عالمگیر واحد حکومت کی تشکیل بنیادی اہمیت کی حامل رہی ہے۔ اس بارے میں بہت زیادہ آیات اور احادیث موجود ہیں۔ خداوند متعال قرآن کریم میں فرماتا ہے:
هُوَ اَلَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدىٰ وَ دِينِ اَلْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى اَلدِّينِ كُلِّهِ وَ لَوْ كَرِهَ اَلْمُشْرِكُونَ (سورہ توبہ، آیہ 33)
ترجمہ: وہی تو ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اس (دین) کو (دنیا کے) تمام دینوں پر غالب کرے اگرچہ کافر ناخوش ہی ہوں۔

اسی طرح احادیث میں بیان ہوا ہے کہ جب بھی امیرالمومنین علی علیہ السلام اس آیہ کریمہ کی تلاوت فرماتے تھے تو اپنے اصحاب سے پوچھتے کہ "کیا یہ کامیابی حاصل ہو چکی ہے؟"۔ اصحاب فرماتے: جی ہاں۔ آپ علیہ السلام فرماتے: "ہر گز نہیں۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، جب یہ کامیابی حاصل ہو گی تو دنیا میں حتی ایک قصبہ اور گاوں ایسا نہیں بچے گا جہاں سے صبح اور شام "اشہد ان لا الہ الا اللہ" کی صدائیں بلند نہ ہو رہی ہوں۔ دوسری طرف علامہ طبرسی کی تفسیر "مجمع البیان" میں سورہ انبیاء کی آیہ کریمہ 105 کے ذیل میں امام محمد باقر علیہ السلام سے یہ حدیث بیان کی گئی ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا: "خدا کے صالح بندوں سے مراد امام مہدی عج کے ساتھی اور اصحاب ہیں۔ لہذا ایک عالمگیر واحد اسلامی حکومت کے قیام کا تصور قرآن کریم اور احادیث معصومین علیھم السلام سے لیا گیا ہے جس کے تحقق کا وعدہ خود خداوند متعال نے فرمایا ہے۔"

عالمگیر اسلامی حکومت کی تشکیل کی ضرورت:
دنیا کے موجودہ حالات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت عالمی سلامتی کو جنگ، غربت، ناانصافی، شدت پسندی، ظلم، کرپشن اور امتیازی رویوں کا خطرہ درپیش ہے۔ دنیا بھر کے لوگ شدید خوف اور اضطراب کا شکار ہیں اور ان کی یہ صورتحال ایک واحد عالمی حکومت کی تشکیل کا تقاضہ کرتی ہے کیونکہ صرف اسی صورت میں دنیا میں جنگ کے امکان کو ختم اور تمام اختلافات کو دور کیا جا سکتا ہے۔ ایسی عالمی حکومت کے سائے تلے بنی نوع انسان حقیقی سعادت تک پہنچ سکتا ہے اور دنیا کے لوگ الہی نعمتوں اور قدرتی ذخائر سے برابری کی بنیاد پر بہرہ مند ہو سکتے ہیں۔ دنیا کے ہر معاشرے میں پائے جانے والے تضادات، تنازعات، ظلم و ستم اور ناانصافیوں کی وجوہات کا سرچشمہ ان پر حکمفرما حکومتوں اور حکومتی ایوانوں سے پھوٹتا دکھائی دیتا ہے۔ یہ حکومتیں اپنے اقتدار کو مضبوط بنانے اور دائرہ اقتدار کو بڑھانے کیلئے کسی اقدام سے دریغ نہیں کرتیں اور ان کے ظالمانہ اقدامات کے نتیجے میں معاشرہ تضاد، تنازعات، ٹوٹ پھوٹ اور بحرانوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ ان تضادات اور تنازعات کا نتیجہ جنگ اور نابودی کی شکل میں نکلتا ہے اور یوں بیگناہ انسان ظلم و ستم کا شکار اور فردی آزادی سے محروم ہو جاتے ہیں۔

یونان کا معروف تاریخ دان اور لکھاری "پلوٹاک" کہتا ہے: "دنیا کے لوگ صرف اسی وقت حقیقی سعادت اور خوش بختی تک پہنچ سکتے ہیں جب وہ ایک قانون کے تابع ہو کر ایک وسیع حکومت تشکیل دیں"۔ اسی طرح شہید آیت اللہ مرتضی مطہری فرماتے ہیں: "حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے تمام معاشرے اور مختلف تہذیب و تمدن آپس میں نزدیک ہونے، ایک ہونے اور آخرکار ایکدوسرے میں ضم ہونے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ انسانی معاشروں کا مستقبل ایک ایسے ترقی یافتہ واحد عالمی معاشرے کی صورت میں نکلے گا جس میں تمام اعلی انسانی اقدار اپنے عروج تک پہنچ چکی ہوں گی اور انسان اپنی حقیقی سعادت اور کمال تک پہنچ کر حقیقی انسانیت کے درجے پر فائز ہو چکا ہوگا۔"

عالمگیریت (Globalization) اور امام مہدی عج کی عالمگیر حکومت کا تقابلی جائزہ:
1
اگرچہ دنیا کے مختلف میدانوں میں عالمگیریت کا عمل انتہائی تیزی سے جاری و ساری ہے لیکن اس کے باوجود یہ عمل بہت مبہم، ناپختہ اور پیچیدہ ہے، جبکہ حضرت امام مہدی عج کی عالمی حکومت کا تصور احادیث اور روایات کی روشنی میں انتہائی واضح ہے اور اس حکومت کی خصوصیات، بنیادی ڈھانچہ اور مختلف پہلو بہت اچھی طرح بیان کئے گئے ہیں اور اس بارے میں کسی قسم کا ابہام نہیں پایا جاتا۔

2)۔ تہذیبی اور سماجی لحاظ سے عالمگیریت کا مطلب دنیا کی مختلف تہذیبوں کا آپس میں قریب ہونے کا دعوی ہے، لیکن اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ مستقبل میں عالمگیریت کے دعوے داروں کے خیال کے برعکس دنیا میں ٹکراو اور تنازعات کی کیفیت میں اضافہ نہیں ہو گا (تہذیبوں کے درمیان ٹکراو کا مغربی نظریہ)۔ اسی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مغربی حکومتیں دنیا کی دوسری اقوام اور تہذیبوں پر اپنی پسندیدہ اقدار اور افکار زبردستی مسلط کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں اور مغربی سیاست دان اس طرح سے پوری دنیا پر اپنا قبضہ جمانا چاہتے ہیں۔ مغربی مفکر "ایلن ڈوبنوآ" لکھتا ہے: "اقوام اور تہذیبیں تاریخ کا حقیقی اثاثہ ہیں۔ اس وقت سرمایہ دارانہ جمہوریت دنیا پر چھا چکی ہے لیکن ایسا سوچنا ایک بڑی غلطی ہو گی کہ یہ نظام ہمیشہ کیلئے دنیا کو اپنے کنٹرول میں رکھ سکتا ہے اور اس کی کامیابی سے تاریخ کا سلسلہ اپنے اختتام کو پہنچ جائے گا۔"

تہذیبوں کے اس تصادم اور ٹکراو نے دنیا کو شدید اضطراب اور بے چینی کا شکار کر رکھا ہے۔ جبکہ دوسری طرف امام مہدیعج کے ظہور کے زمانے سے متعلق احادیث اور روایات میں کسی قسم کی کشمکش اور ٹکراو کا ذکر نہیں ملتا بلکہ ان احادیث میں ایک تہذیب کا دوسری تہذہب کے خلاف تسلط پسندانہ اقدامات کا تذکرہ بھی نہیں۔ اسلامی عالمگیریت ٹھوس منطقی اور عقلی بنیادوں پر استوار ہے اور اس میں انسانی اقدار اور معیاروں کا فروغ شامل ہے جس کے تحت ہر قوم اور تہذیب سے تعلق رکھنے والے انسانوں کو مکمل آزادی اور خودمختاری حاصل ہوگی۔

3)۔ عالمگیر مہدوی عج معاشرے کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں رہنے والے تمام افراد توحید پرست ہوں گے اور دنیا کے تمام انسان دین مبین اسلام سے شرف یاب ہو چکے ہوں گے۔ جیسا کہ امیرالمومنین امام علی علیہ السلام نے اس بارے میں فرمایا کہ مہدیعج کے زمانہ حکومت میں کوئی قریہ اور گاوں بھی ایسا نہ ہو گا جہاں سے خدا کی وحدانیت کی گواہی پر مبنی صدائیں سنی نہ جا سکتی ہوں۔ اسی طرح اس زمانے میں قرآن کریم بنی نوع انسان کی زندگی کا محور قرار پائے گا۔ امام علی علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں: "اس زمانے میں جب لوگ قرآن کی تفسیر اپنی ذاتی آراء کے مطابق کریں گے، مہدیعج ان کی آراء کو قرآن کریم کے تابع کر دیں گے"۔ (نہج البلاغہ، خطبہ 138)۔ امام علی علیہ السلام کے اس فرمان سے معلوم ہوتا ہے کہ امام عصرعج کے زمانہ حکومت میں ہر چیز، ہر رائے اور ہر عقیدے کا مرکز و محور قرآن کریم قرار پائے گا۔ جبکہ دوسری طرف عالمگیریت کے عمل میں ہم دیکھتے ہیں کہ نہ صرف قرآن کریم کو انسانی معاشرے کا مرکز و محور قرار نہیں دیا گیا بلکہ یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ دنیا کے انسانوں کو قرآن کریم اور قرآنی تعلیمات سے دور کیا جائے اور اگر بعض حالات میں قرآن کریم سے رجوع بھی کیا جائے تو اپنی ذاتی آراء کے مطابق اس کی تفسیر کی جائے۔

4)۔ بعض کا خیال ہے کہ عالمگیریت کے نتیجے میں معاشروں کے درمیان تہذیبی، اقتصادی اور سیاسی مساوات برقرار ہو جائے گی اور دنیا کے تمام افراد کیلئے کلچرل اور کمیونیکیشن مصنوعات کے استعمال کی راہ ہموار ہو جائے گی جس کے نتیجے میں تمام اختلافات اور ہر قسم کی اونچ نیچ ختم ہو جائے گی۔ لیکن اکثر مغربی محققین اس اندیشے کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں کہ عالمگیریت کے دوران تہذیبی اور کمیونیکیشن تعلقات میں اضافے کے باعث اونچ نیچ اور اختلافات میں شدت آئے گی اور دنیا کے معاشروں میں طبقاتی نظام مزید گہرا اور واضح ہو جائے گا۔ دوسری طرف امام مہدیعج کے ظہور اور حکومت سے متعلق احادیث کی روشنی میں جب ایک عالمی مہدوی حکومت قائم ہو جائے گی تو اس کی برکت سے دنیا سے ہر قسم کے طبقاتی اختلاف، سماجی ناانصافی اور عدم مساوات کا خاتمہ ہو جائے گا اور تمام انسانوں کیلئے قدرتی ذخائر سے بہرہ مند ہونے کے یکساں مواقع میسر ہوں گے۔

5)۔ امام مہدی عج کی عالمگیر واحد حکومت، عقل کی حاکمیت کی بنیاد پر ہو گی، کیونکہ زمانہ ظہور میں انسانوں کی عقل مکمل طور پر نشوونما پا کر اپنے کمال کے اعلی مدارج پر فائز ہو چکی ہو گی۔ جبکہ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ عالمگیریت یا گلوبلائزیشن کے عمل کی بنیاد انسان کی نفسانی خواہشات اور ہوس پرستی پر استوار ہے۔ امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: "جب ہمارا قائم (امام مہدی عج) قیام کرتے گا تو وہ انسانوں کے سر پر ہاتھ پھیرے گا جس کے باعث ان کی عقل کامل ہو جائے گی اور ان کا اخلاق حسنہ ہو جائے گا"۔ (بحار الانوار، علامہ مجلسی، جلد 52، صفحہ 336)

6)۔ عالمگیریت کے نتیجے میں دنیا کے قدرتی ذخائر کچھ محدود ممالک کے قبضے میں آ جائیں گے اور وہ اپنے محدود قدرتی ذخائر کے پیش نظر دوسروں کو ان تک رسائی سے باز رکھنے کی کوشش کریں گے، اور یہ امر عالمی سطح پر طبقاتی نظام معرض وجود میں آنے کا باعث بنے گا۔ جبکہ دوسری طرف احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ امام مہدیعج کے زمانہ اقتدار میں علمی ترقی اپنے عروج پر جا پہنچے گی اور قدرتی ذخائر کا دروازہ سب پر ایک جیسا کھول دیا جائے گا۔ امام جعفر صادق علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں: "علم و دانش کے 27 حروف ہیں۔ اب تک جو علم تمام انبیاء الہی اور انسانوں کے پاس موجود ہے وہ صرف 2 حروف پر مبنی ہے، لیکن جب ہمارا قائم (امام مہدیعج) قیام کرے گا تو علم و دانش کے بقیہ 25 حروف بھی آشکار کر کے انسانوں کو ان تک پہنچا دے گا اور اس طرح علم و دانش مکمل ہو جائے گا"۔ (بحار الانوار، علامہ مجلسی، جلد 52، صفحہ 336)

7)۔ عالمگیریت یا Globalization کے دوسرے منفی پہلو عالمی سطح پر ایک مدیریتی نظام کا فقدان، طاقت کے مختلف بلاکس کا ظہور اور عالمی سطح پر آپس میں ٹکراو کا شکار مختلف سیاسی اکائیوں کا پھیلاو ہے۔ جبکہ امام مہدیعج کے زمانہ حکومت میں پوری دنیا ایک اسلامی حکومت کے تابع ہو گی اور دنیا کی مختلف اقوام ایک حکومت کے سائے تلے زندگی بسر کریں گی۔ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: "مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) اپنے اصحاب کو دنیا کے تمام شہروں اور حصوں میں بھیج دے گا اور انہیں حکم دے گا کہ وہ عدالت اور نیکوکاری کو اپنے عمل کی بنیاد بنائیں"۔ (بحارالانوار، علامہ مجلسی، جلد 52)

نتیجہ:
انسانی تاریخ کے دوران ہمیشہ مخلص اور عدالت و انصاف کے خواہاں انسانوں نے امتیازی رویوں اور سماجی بے انصافیوں سے بیزاری کا اظہار کیا ہے اور ان سے مقابلہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایسے انسانوں کی آرزو رہی ہے کہ ایک عالمگیر عادلانہ حکومت کے ذریعے دنیا میں موجود امتیازی رویوں، اختلافات اور ظلم و ستم کا خاتمہ ہو جائے۔ اسلامی تعلیمات میں کرہ ارض کو ایک خانہ اور گھر قرار دیا گیا ہے اور اس میں بسنے والے تمام انسانوں کو ان کی نسل، قوم، زبان، طبقے اور رنگ سے بالاتر ہو کر اس گھر کا مالک ٹھہرایا گیا ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں: "اگر تم دنیا کے بارے میں غور و فکر کرو اور اپنی عقل کے ذریعے اسے پہچاننے کی کوشش کرو تو جان لو گے کہ یہ دنیا ایک گھر کی مانند ہے جس میں انسانوں کی تمام ضروریات موجود ہیں اور انسان اس گھر کا مالک ہے۔ خدا نے اپنے ارادے سے اس گھر میں موجود تمام اشیاء کو اس کے اختیار میں قرار دیا ہے"۔ (الحیاۃ، جلد 1، صفحہ 625)

خداوند متعال نے انسان کو ایسا خلق کیا ہے کہ وہ سماجی زندگی اختیار کرنے کی جانب راغب ہے۔ انبیاء الہی علیھم السلام نے بھی ایک وسیع تر انسانی معاشرہ تشکیل دینے پر زور دیا اور خاص طور پر دین مبین اسلام، جو جامع ترین اور کامل ترین الہی دین ہے، میں بھی واحد عالمگیر الہی حکومت کے قیام پر تاکید کی گئی ہے۔ امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کی جانب سے مصر کا والی منصوب کرتے وقت مالک اشتر کو لکھے جانے والا خط اس طرز فکر کا واضح نمونہ ہے۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں: "(اے مالک) اپنے دل کو اپنی رعایا کی محبت اور ان پر رحمت سے بھر دو، کیونکہ تمہاری رعایا دو قسم کے افراد پر مشتمل ہے؛ ان میں سے بعض تمہارے دینی بھائی ہیں جبکہ بعض دوسرے تمہارے انسانی بھائی ہیں"۔ (نہج البلاغہ، خط 53)
مالک اشتر نخعی کے نام امام علی علیہ السلام کے اس پیغام میں واضح طور پر نسل پرستی، نسلی امتیازات اور قومی تعصب کی نفی کی گئی ہے اور یہ فرمان ایک بین الاقوامی اور عالمی سطح کی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ ایسی سوچ جو دنیا کی تمام اقوام اور دنیا کے تمام انسانوں کے دل کی آواز ہے۔

عالمگیریت کا عمل ایک وسیع، تیز رفتار اور پیچیدہ عمل ہے جس کے انسانی زندگی پر مختلف قسم کے اثرات ظاہر ہو رہے ہیں۔ اس عمل نے انسانی زندگی کے کئی پہلووں پر گہرے اثرات ڈالے ہیں۔ نظام مواصلات میں تیزی سے آنے والی ترقی اور اس کے نتیجے میں مختلف انسانی معاشروں کا ایکدوسرے سے قریب ہو جانا اور عالمی امور کے بارے میں ایکدوسرے سے تبادلہ خیال میں اضافہ، انسانوں کی معلومات عامہ کی سطح میں اضافہ اور دنیا کا سمٹ جانا ان اثرات میں شامل ہیں۔ عالمگیریت سے پیدا ہونے والی بعض تبدیلیاں مثبت اور قابل قبول ہیں اور اس عمل کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں جیسے ٹیکنولوجی اور مواصلاتی نظام میں انقلاب، رائے عامہ اور انسانی افکار کا تبادلہ اور جدید اقتصادی طریقوں سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ دوسری طرف عالمگیریت کے عمل میں پائے جانے والے ابہامات اور پیچیدگیاں اور اس کے بعض منفی اثرات کی وجہ سے اس عمل کا انتہائی باریک بینی سے جائزہ لینے اور مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔

مادی امور میں انسان کو حاصل ہونے والی ترقی، مواصلاتی نظام کی ترقی کے نتیجے میں روز بروز بڑھتے ہوئے انسانی تعلقات اور عالمی صورتحال کے پیش نظر دنیا کے انسانوں کے درمیان اعلی انسانی اقدار اور بھائی چارے کی بنیاد پر حقیقی اتحاد کی ضرورت ہمیشہ سے زیادہ محسوس کی جا رہی ہے۔ انسان جس قدر آگے بڑھ رہا اس ضرورت کی شدت میں بھی اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ وہ گلوبل ولیج (Global Village) جس کا تصور آج مغربی مفکرین پیش کر رہے ہیں، اس کی تصویر 1400 سال پہلے دین مبین اسلام کی جانب سے پیش کی جا چکی ہے۔ اسلام نے 14 صدیاں قبل پوری قاطعیت اور یقین دہانی سے ایک عالمی اسلامی حکومت کے قیام کی خبر دی ہے اور اس کی تمام خصوصیات کو واضح طور پر بیان فرمایا ہے۔ قرآن کریم میں دنیا کے مستضعفین کی مستکبرین اور فرعون صفت قوتوں کے خلاف حتمی کامیابی اور غلبے کی بشارت دی گئی ہے۔

خوش قسمتی سے آج ایک عالمگیر واحد حکومت کی تشکیل کی بات گذشتہ پچاس سال کی نسبت کہیں زیادہ آسان اور ممکن دکھائی دیتی ہے۔ آج جب ایک عالمی سطح کی حکومت کی بات ہوتی ہے تو لوگوں کو اسے سننے میں زیادہ دشواری اور دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا کیونکہ گلوبل ولیج جیسی اصطلاحات اس قدر عام ہو چکی ہیں کہ لوگوں کیلئے معمول بن گئی ہیں۔ عالمگیریت کے عمل نے بلا شک انسانوں کا ایکدوسرے کے قریب ہونے، متحد ہونے اور ایک واحد عالمی معاشرہ تشکیل دینے کی ضرورت کو واضح کر دیا ہے۔ اسی طرح دنیا بھر میں علمی، صنعتی، فکری اور تہذیبی ترقی نے واحد عالمگیر حکومت کی قبولی کا زمینہ فراہم کر دیا ہے۔ لہذا امام مہدیعج کی عالمگیر اسلامی حکومت کا تصور بھی اب ممکن نظر آنے لگا ہے۔ قرآن کریم کی مختلف آیات اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور معصومین اطہار علیھم السلام میں امام مہدیعج کی حکومت اور مہدوی معاشرے کی خصوصیات انتہائی تفصیل سے ذکر ہوئی ہیں جن کے مطالعے سے ہم اسلام کی حقیقی تعلیمات سے زیادہ آشنا ہو سکتے ہیں۔ خداوند متعال سے دعا ہے کہ وہ ہمیں الہی اہداف اپنانے اور ان اہداف کی تکمیل کیلئے خلوص نیت سے جدوجہد کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ 
خبر کا کوڈ : 464523
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش