0
Thursday 4 Jun 2015 15:00

امت کے مسائل کا حل امام امت کی نظر میں

امت کے مسائل کا حل امام امت کی نظر میں
تحریر: سید اسد عباس تقوی

انسانوں کا باہمی ربط چاہے گھر میں ہو یا دفتر میں، مسجد میں ہو یا مندر میں، مدرسے میں ہو یا یونیورسٹی میں، کھیت میں ہو یا منڈی میں، دیہات میں ہو یا شہر میں، ملک میں ہو یا دنیا میں، اس ربط کے خیر و خوبی سے برقرار رہنے کے لئے چند رویئے بہت اہم ہیں۔ یہ رویئے بنیادی طور پر انسان کے فکر و عقیدہ، فہم و فراست اور ذہنی کیفیت کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ اگر معاشرے میں یہ رویئے اعتدال کے ساتھ موجود نہ ہوں تو انسانوں کا ربط بعض اوقات بہت بھیانک صورت اختیار کر جاتا ہے۔ عدم برداشت اور شدت پسندی دو ایسے ہی رویئے ہیں، جو معاشرے میں فساد اور خلفشار کا بہت اہم اور بنیادی عامل ہیں۔ آج بڑا مشکل اور عجیب دور ہے، لوگ اصطلاحات اور ان کے مفاہیم کے مابین سعی کرتے نظر آتے ہیں، جیسے حجاج صفا و مروہ کے مابین سعی کرتے ہیں۔ ہزاروں نہیں لاکھوں روپیہ ان اصطلاحات کو مفاہیم بخشنے اور پھر ان مفاہیم کو اذہان انسانی میں راسخ کرنے کے لئے لگایا جاتا ہے، جو بذات خود اس سارے عمل کو مشکوک کر دیتا ہے۔ انسانی لغت میں اصطلاحات اور مفاہیم کا تعلق کبھی بھی ایسا نہ تھا۔ مفاہیم پہلے وجود رکھتے تھے اور ان کے لئے اصطلاحات بعد میں وضع کی جاتی تھیں۔ تاہم آج بعض مخصوص موارد میں اصطلاح پہلے آتی ہے اور اسے مفہوم کی قبا بعد میں پہنائی جاتی ہے۔

شدت پسندی، انتہا پسندی، عدم برداشت، دہشت گردی جیسے الفاظ کے ساتھ بھی کچھ یوں ہی ہوا۔ آپ دنیا کی تاریخ پر نظر دوڑایئے جو کچھ پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں ہوا، کیا وہ شدت پسندی اور عدم برداشت کے مظاہر نہ تھے، جو ظلم ہیرو شیما میں کیا گیا، کیا وہ عدم برداشت اور بربریت کا ایک مظاہرہ نہ تھا؟ ویتنام میں بھی دہشت گردی نہیں کی گئی، نوآبادیاتی نظام کے ذریعے دنیا کے وسائل کو پوری دو صدیاں دونوں ہاتھوں سے لوٹا جاتا رہا، کیا یہ انتہا پسندی اور ریاستی دہشت گردی نہ تھی۔ فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم اور اس کے نتیجے میں اسرائیل کو وجود میں لانا، کیا مذہبی دہشت گردی نہیں ہے، لیکن اس سب کچھ کے باوجود دنیا کی ایک بہت بڑی اکثریت ان دہشت گردوں، شدت پسندوں اور عدم برداشت کے حامل لوگوں کو محسن انسانیت اور دہشت گردی کے خلاف برسرپیکار ممالک کی صف میں نہ صرف شامل کرتی ہے بلکہ آج یہ تصور کیا جاتا ہے کہ دہشت گردی، انتہا پسندی اور عدم برداشت کے خلاف جنگ کو لڑنے والے ہیں ہی یہی۔ طرفہ تماشہ دیکھئے کہ شدت پسند، انتہا پسندی اور دہشت گرد کی اصطلاحات اب کچھ خاص ڈھب کے لوگوں کے لئے رہ گئی ہیں، لفظ ادا ہوا نہیں اور ذہن اس دین کے پیروکاروں کی جانب چلا گیا، جس کی آمد کا مقصد ہی دنیا میں امن و آشتی، اعتدال اور عدل اجتماعی تھا۔

وہ دین جو اپنے پیروکاروں سے کہتا ہے:
دین میں کوئی جبر نہیں(1)
وہ دین جس کی تعلیم ہے کہ:
"ایمان والوں سے کہہ دیجئے کہ ان لوگوں کو جنہیں اللہ کے دنوں پر یقین نہیں ہے، کو معاف کر دیں اس لئے کہ یہ اسی خدا کا کام ہے کہ ہر ایک کو اس کے اعمال کے مطابق بدلہ دے۔"(2)
وہ دین جس نے اپنے پیروکاروں کو معاف کرنے اور غصہ پی جانے کی تعلیم کچھ انداز سے دی:
"وہ غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کو معاف کر دیتے ہیں، اور اللہ نیکی کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔"(3)
وہ دین جس نے سب انسانوں کو کچھ اس انداز سے کلمۃ سواء پر جمع ہونے کی دعوت دی:
"کہہ دیجئے اے اہل کتاب! ہمارے اور تمہارے درمیان جو بات مشترک ہے اس کی طرف آؤ! یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں۔ یہ کہ ہم اسکے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور یہ کہ ہم سے کوئی اللہ کو چھوڑ کر کسی دوسرے کو معبود نہ بنائے۔"(4)

کوئی بھی سچا پیروکار مصطفٰی ؐ ان آیات پر ایمان لائے بغیر اور ان کو اپنی زندگی کے روزمرہ امور میں اپنائے بغیر دین داری کا دعویٰ نہیں کرسکتا، اس کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ انتہا پسندوں کی ایک بڑی جماعت اسلام کے لبادہ میں دین دشمنی پر کمر بستہ ہے۔ آج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ معاشرہ اسی طرح کے رویوں کا شکار ہے۔ نعرہ تکبیر لگا کر مسلمانوں کے گلوں پر خنجر چلایا جاتا ہے۔ اسلام کی خدمت سمجھ کر مسلمانوں کی آبادیوں میں دھماکے کئے جاتے ہیں۔ دین کی سربلندی کی بات کرکے عورتوں اور بچوں کو قتل کیا جاتا ہے۔ توحید کا نظام نافذ کرنے کے نام پر توحید پرستوں ہی کے عقائد و نظریات نیز مقدسات پر حملے کئے جاتے ہیں۔ پورا عالم اسلام بالخصوص اور عالم انسانیت بالعموم اس فکر سے دوچار ہے کہ اس عفریت سے معاشرے کو کیسے نجات بخشی جائے۔ انسانوں کی بدقسمتی کہیئے یا مقدر کہ دنیا کی وہ طاقتیں جو عالمی وسائل پر تسلط کا خواب دیکھتی ہیں،ان کے لئے یہ عفریت مفید ہے۔

اگر ہم فقط مشرق وسطٰی جو کہ اسلام کا مرکز ہے، پر غور کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ اس خطے میں عالمی استعمار کے بنیادی طور پر تین اہداف ہیں۔
پہلا ہدف ایک صہیونی ریاست کا قیام اور اس کا تحفظ۔
دوسرا ہدف خطے میں موجود توانائی کے ذخائر پر کنٹرول۔
اور تیسرا ہدف خود اسلام حقیقی کی بحیثیت نظام طاقت و قوت کو ختم کرنا ہے۔
ان کی نظر میں جو عمل سے بھی ظاہر ہے، یہ تینوں اہداف حاصل کرنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ ان خطوں کو بدامنی، خلفشار، اندرونی مسائل اور الجھنوں میں گرفتار رکھا جائے۔ تکفیری فکر، شدت پسندی اور عدم برداشت کے رویئے ان مقاصد کے حصول کا بہترین ذریعہ ہیں۔ مسلمانوں کو علاقائیت، فرقہ اور مذہب کی بنیاد پر تقسیم رکھنے کے لئے ہر حربہ بروئے کار لایا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں ان علاقوں میں براجمان کٹھ پتلی بہترین خدمت گزار کا کردار ادا کرتے ہیں۔

پیر جماران اور امت کے مسائل

آج دنیا اس عظیم بطل اسلام کا یوم وفات منا رہی ہے، جس نے امت کے مسائل کو بہت قریب سے دیکھا اور اپنی قرآنی و الہی بصیرت کو بروئے کار لاتے ہوئے ان مسائل کا حل پیش کیا۔ امام خمینی کے افکار کا اگر مطالعہ کیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ ان کا بنیادی زور ’’دشمن شناسی‘‘ پر تھا۔ وہ مسائل سے پہلو تہی نہیں کرتے تھے بلکہ ان مسائل کا سامنا کرتے ہوئے ان کے حل پر توجہ مبذول رکھتے تھے۔ امام خمینی رضوان اللہ علیہ کی انسانی معاشرے پر تاثیر کو اپنے اور پرائے سبھی نے قبول کیا ہے، تاہم آج بھی اس شخصیت کی بہت سی ایسی پرتیں ہیں جن پر سے پردہ اٹھنا باقی ہے۔ امام خمینی ایک مجتہد ہونے کے ساتھ ساتھ فلسفی، مفکر، عارف، شاعر اور اعلٰی انسانی صفات کی حامل شخصیت تھے۔ ان کا بدنی تعلق تو شاید کسی ایک خطے اور زمانے سے ہو، تاہم روحانی و فکری وسعت کے اعتبار سے وہ زمانوں اور خطوں سے ماوراء انسان تھے۔ اسلام کا گہرا مطالعہ، امت مسلمہ کے مسائل کا گہرا ادارک، اس امت کی کمزوریوں کا گہرا احساس اور اس کی نشاۃ ثانیہ کا گہرا ارمان ان کے قلب و نظر میں معجزن تھا۔

نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج بھی عالم اسلام کو اپنے اس عظیم فرزند کی افکار کو سمجھنے میں بہت سی مشکلات اور رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ ہماری دوریاں اس قدر زیادہ ہیں کہ ہم اپنے افق پر طلوع ہونے والے آفتاب کو نہیں دیکھ پاتے۔ یہ ایسا ہی ہے کہ انسان ایک سمت رخ کرکے کھڑا ہوجائے اور اسی سمت سے آفتاب کے طلوع کا منتظر رہے، حالانکہ نور کا پھیلاؤ اس بات کی علامت ہو کہ کسی اور سمت سے آفتاب طلوع ہوچکا ہے۔ اندھیروں کا چھٹ جانا، چھپے ہوئے دشمنوں کا ظاہر ہو جانا، مسائل کی حقیقتوں کا اندازہ ہو جانا، ظلم کے خلاف آوازوں کا بلند ہونا، سب اس بات کی علامت ہیں کہ روشنی کا منبع یعنی آفتاب طلوع کرچکا ہے۔ خمینی جنہیں بت شکن کے لقب سے بھی پکارا جاتا ہے، نے امت کے موجودہ دور میں مسائل کو بہت خوبی سے نہ صرف بیان کیا بلکہ ان کے بہت واضح حل کا بھی تعین کیا۔ ان کا دیا ہوا شعار مرگ بر امریکا (مردہ باد امریکا)، اس شعار میں بت شکن نے مظلومین عالم اور امت مسلمہ کے حقیقی مسائل کے ایک اہم عامل کی جانب متوجہ کیا۔ اگر ہم حقیقی معنوں میں اس شعار کے پیچھے چھپے پیغام کو سمجھ لیں اور اس سے جڑے مسائل کو حل کرنے کی جانب بڑھنے لگیں تو آج بھی اپنی عزت رفتہ کو بحال کرسکتے ہیں۔

امام خمینی کے نعرے ’’لا شرقیہ ولا غربیہ‘‘ اور ’’مرگ بر امریکا‘‘ کے اندر چھپے پیغام نے جو دراصل اسلام کے بنیادی کلمے لا الہ الا اللہ سے ماخوذ ہے، نہ صرف ملت ایران کو بیدار کیا بلکہ ان کو بیداری اسلامی کا سرخیل اور پشتی بان بنایا۔ ملت ایران اس شعار پر عمل کرکے نہ فقط خود استبدادی پنجہ سے آزاد ہوئی بلکہ اقوام عالم میں حق و صداقت کی ایک مضبوط آواز بن کر ابھری۔ اس حق پرستی کے لئے ملت ایران کو یقیناً بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، بے پناہ قربانیاں دینی پڑیں، لیکن آج یہ حق کی آواز جماران کے ایک چھوٹے سے حسینیہ سے نکل کر دنیا کے طول و عرض میں پھیل چکی ہے۔ لبنان، عراق، شام، فلسطین، بحرین، قطیف، یمن، افغانستان، مصر، لیبیا، تیونس، الجزائر، نائجیریا اور کشمیر نیز دنیا کے گوش و کنار میں پھیلے ہوئے باضمیر انسانوں کی عالمی استعمار اور استبداد نیز اس کے گماشتوں کے خلاف صدائے احتجاج خمینی بت شکن کے دیئے ہوئے شعار ہی کا تسلسل ہے۔ امام خمینی رضوان اللہ علیہ عالم اسلام کی شخصیات کے اس قبیلے سے ہیں، جن کی افکار ان کے عمل سے ظاہر و آشکار ہیں۔ امام نے امت کے مسائل بالخصوص انتہا پسندی و عدم برداشت کے حقیقی اسباب پر توجہ مبذول کروائی اور ان کے خلاف اقدام پر مسلم مفکرین اور علماء نیز عوام کو متوجہ کیا۔

جیسا کہ قبل ازیں ذکر کیا گیا کہ عالم اسلام میں انتہا پسندی اور عدم برداشت کی قبیح صورت کا ایک اہم سبب اور سہولت کار عالمی استعمار ہے۔ عالم اسلام میں موجود یہ دونوں رویئے اور ان رویوں کے حامل گروہ چاہے ان کا تعلق کسی بھی مکتب فکر سے ہو، عالمی استعمار کے مفادات کے ضامن ہیں۔ اسلامی ممالک کا اندرونی خلفشار اور بدامنی جو ان غیر معتدل رویوں کی وجہ سے سے پیدا ہوتا ہے، عالمی استعمار کا ایک خواب ہے۔ امام خمینی رضوان اللہ علیہ نے امت مسلمہ کے عوام کو تشویق دلائی کہ اگر آپ واقعی اپنے ان مسائل سے چھٹکارا چاہتے ہیں تو آپ کو پہلے اس کے پشتی بان اور ان رویوں پر تیل چھڑکنے والی قوت کو شناخت کرکے اس سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا۔ امام خمینی نے اپنے دیس میں عملی طور پر ایسا کرکے دکھایا۔ سید روح اللہ خمینی اس بات سے بخوبی آگاہ تھے کہ امت میں فرقہ وارانہ، علاقائی اور لسانی عصبیتوں کو فروغ دے کر اس کی قوت کو کمزور کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ انہوں نے شیعہ سنی کی تفریق، علاقائی و لسانی عصبیتوں پر بھی کاری ضربیں لگائیں۔ امام اتحاد بین المسلمین اور اتحاد بین المستضعفین کے عظیم داعی تھے۔

نبی رحمت ختم المرسلین صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا روز ولادت جو مسلمانوں کے مابین اختلافی تھا، اس کو آپ نے ایک فرمان کے ذریعے روز وحدت اور اتحاد بنا دیا۔ یہ امام خمینی کی الہی بصیرت کا ہی نتیجہ ہے کہ آج پورے عالم اسلام میں بارہ ربیع الاول سے سترہ ربیع الاول تک ہفتہ وحدت منایا جاتا ہے۔ امام راحل وحدت امت کو طاقت کا سبب اور افتراق کو امت کی کمزوری کا محرک جانتے تھے۔ وہ راہ حق میں اعتصام بحبل اللہ کے قائل تھے اور فرماتے تھے کہ وحدت حقیقی اللہ کی رسی سے متمسک ہوئے بغیر ممکن نہیں ہے۔ امام اس بات کے قائل تھے کہ امت میں وحدت قرآن کریم کے احکامات پر عمل، اسلامی حکومت اور امت کے قیام، جذبہ اخوت، اختلافی امور سے اجتناب اور ائمہ اہل بیت علیہ السلام کی پیروی کے بغیر ممکن نہیں۔ امام خمینی اس بات کے قائل تھے کہ وہ شخص جو امت مسلمہ میں تقسیم کو گہرا کرنے والے مسائل کو اٹھاتا ہے اس کو دین اسلام کا ذرا بھی درد نہیں ہے۔(5)
امام خمینی فرماتے تھے:
ما مامور بہ وظیفہ ہستیم مامور بہ نتیجہ نیستیم
آئیں آج پیر جماران کے یوم وفات کے روز ان کی روح سے عہد کریں کہ ہم اپنے وظیفہ کو شناخت کریں گے اور اس کی انجام دہی کے لئے اقدام کریں گے، خداوند کریم ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

حوالہ جات
1۔ البقرۃ: 256
2۔ (الجاثیۃ: 14)
3۔ (آل عمران: 134)
4۔ (آل عمران: 64)
5۔ ایرانی، 1388ش، ص72
خبر کا کوڈ : 464907
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش