1
0
Friday 5 Jun 2015 13:16

گلگت بلتستان کی تاریخ کا اہم ترین الیکشن

گلگت بلتستان کی تاریخ کا اہم ترین الیکشن
 تحریر: ابو مہدی

انتخابات جوں جوں قریب آتے جا رہے ہیں، سیاسی جوڑ توڑ، عوامی جوش و جذبہ اور سیاسی پنڈتوں کے دوروں میں برق رفتاری کیساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ بڑی سیاسی جماعتیں انتخابی حکمت عملی کو آخری شکل دینے میں مصروف ہیں تو امیدواران اپنے اپنے حلقوں میں ووٹرز کی ہمدردیاں اور سپورٹ حاصل کرنے کی بھرپور کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ سابقہ انتخابات کے برعکس اس بار بڑی سیاسی جماعتیں اس انتخابات میں گہری دلچسپی لے رہی ہیں۔ ان کی یہ دلچسپیاں گلگت بلتستان کے عوام کے ساتھ اخلاص کا نتیجہ نہیں اور نہ ہی یہ پارٹیاں اس علاقے کی تقدیر بدلنے کا ارادہ رکھتی ہیں، بلکہ سالانہ بجٹ سے ملنے والی معمولی رقم پر قبضہ جمانا، وفاق میں گلگت بلتستان کے لئے مختص چند ایک سیٹوں پر من پسند لوگوں کو منتخب کرانا، بین الاقوامی این جی اوز، عالمی برادری سے گلگت بلتستان کی پسماندگی کے نام پر امداد حاصل کرنا اور اسے ہتھیا لینا، پارٹی مفادات اور نفسیاتی سطح پر دیگر مخالف جماعتوں پر سبقت لینا وغیرہ بڑی جماعتوں کے بڑے مقاصد میں شامل ہیں۔ تاکہ قومی سطح پر اپنی سیاسی تقریروں، پریس کانفرنسز اور میڈیا ٹاک شوز میں مخالفین اور باقی صوبوں کے عوام کو یہ باور کرا سکیں کہ گلگت بلتستان میں بھی ہماری حکومت ہے اور یہ ہماری کارکردگی پر عوام کے اعتماد کا مظہر ہے۔

دوسری بڑی وجہ چائنہ کا زیادہ سے زیادہ اعتماد حاصل کرنا بھی ان سیاسی جماعتوں کے اغراض میں شامل ہے۔ اگر واقعی یہ پارٹیاں مخلص ہوتیں تو شائد چائنہ کے صدر کے دورے سے لے کر اقتصادی راہداری پر بلائی جانے والی اے پی سی تک کے سفر میں گلگت بلتستان کو بھی اتنی ہی اہمیت ملتی، جتنی باقی صوبوں کو دی گئی۔ تمام سیاسی جماعتوں خاص طور پر وزیراعظم کی طرف سے کئے جانے والے اعلانات بھی مشروط ہی ہوں گے۔ اگر گلگت بلتستان اور عوام کے ساتھ مخلص ہوتے تو سرزمین بے آئین کو اب تک آئینی حق مل چکا ہوتا۔ تین بار حکومت کرنے والی جماعتوں کو اب تک کس چیز سے فرصت نہیں ملی۔ موجودہ حکومت کی طرف سے ایک ماہ پہلے کئے گئے اعلانات بھی اسی نوعیت کے ہیں۔ اگر انتخابات کے نتیجے میں گلگت بلتستان میں نون لیگ کی حکومت نہیں بنتی تو پہلے کی طرح سڑکوں پر گلگت بلتستان کے عوام اعلان شدہ ضلعوں کے علامتی جنازے اٹھائے پھر احتجاج کرتے پھریں گے۔

بڑی سیاسی جماعتیں اس بار عوام سے زیادہ پارٹی مفادات کے لئے ان انتخابات میں بھرپور حصہ لے رہی ہیں۔ اب تک جو پارٹیاں انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں، ان میں نووارد جماعت ایم ڈبلیو ایم ایک طرف پرانی سیاسی جماعتوں کے لئے درد سر بنی ہوئی ہے تو دوسری طرف عوام کا رجحان بھی ان کی طرف زیادہ نظر آتا ہے۔ اس معاملے میں دلچسپ بات یہ ہے کہ بڑی سیاسی جماعتوں کا مقابلہ اس بار ایم ڈبلیو ایم سے ہے۔ ایم ڈبلیو ایم کی مقبولیت کے کئی اسباب ہیں۔ ایک تو یہ کہ ایم ڈبلیو ایم نئی جماعت ہونے کے باوجود گلگت بلتستان کے مسائل کو قومی سطح پر اجاگر کرنے اور علاقائی مشکلات کو حل کرنے میں ہمیشہ پیش پیش نظر آتی ہے۔ عوام کے اعتماد کی سب سے بڑی وجہ سابقہ دور حکومت میں گندم پر اٹھائی جانے والی سبسڈی کے خلاف جس طرح کی موثر آواز بلند کی اور جس نوعیت کی کامیاب تحریک چلائی، اس سے نہ صرف اس جماعت کی مقبولیت میں اضافہ ہوا بلکہ پہلی بار عوام کو اپنی طاقت کا بھی انداز ہوا۔ اگرچہ اس تحریک میں دیگر جماعتیں بھی شامل تھیں، لیکن سب کو اکٹھا کرنے اور منظم طریقے سے اس تحریک کو کامیاب بنانے میں ایم ڈبلیو ایم کا مثبت کردار سب سے نمایاں رہا۔ اس کے علاوہ سانحہ لولوسر اور سانحہ چلاس پر جس طرح کے ردعمل کا اظہار کیا گیا، اس سے عوام کے ساتھ ایک پائیدار تعلق قائم ہوا، جس کا عملی مظاہرہ گلگت بلتستان کے حالیہ سیاسی منظر نامے میں واضح دکھائی دے رہا ہے۔

مذہبی جماعت ہونے کے باوجود ایم ڈبلیو ایم نے روایتی، مسلکی اور شخصی سیاست کے مقابلے میں نظریاتی سیاسی حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے تینوں مسالک سے تعلق رکھنے والے امیدواروں کو انتخابی میدان میں اتار کر مذہبی ہم آہنگی اور وحدت کو پروان چڑھانے کی کامیاب کوشش کی۔ اس سے عوام کے اعتماد میں مزید اضافہ ہوا۔ جہاں تک دیگر جماعتوں کا تعلق ہے تو پیپلز پارٹی پانچ سال حکومت کرنے کے باوجود گلگت بلتستان میں بھی اس کی سیاسی صورتحال وہی ہے جو 2013ء کے عام انتخابات میں تھی۔ حد تو یہ ہے کہ بہت سے حلقوں میں پیپلز پارٹی کا ٹکٹ لینے والا کوئی نہیں تھا اور تو اور پانچ سال وزارت کے مزے لینے والے سینیئر وزیر جعفر جیسا جیالا نہ صرف پارٹی بنیاد پر الیکشن میں حصہ نہیں لے رہا بلکہ اس نے انتخابات سے دستبردار ہونے کو زیادہ ترجیح دی۔ ورنہ سابقہ حکومت کی ناکامی میں مہدی شاہ کے ساتھ وہ بھی برابر کے شریک تھا۔ عدم اعتماد کی دوسری بڑی وجہ سابقہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے وہ جھوٹے اعلانات تھے، جس کے دھوکے میں آکر عوام نے پیپلز پارٹی کو بھاری اکثریت کے ساتھ اسمبلی میں پہنچایا تھا۔ لیکن پانچ سالوں میں رونما ہونے والے دہشت گردی کے واقعات، شاہانہ طرز حکمرانی، سرکاری نوکریوں میں میرٹ کا قتل عام، رشوت ستانی اور کرپشن کے ان گنت واقعات نے اس سیاسی عقیدت کو بھی ٹھیس پہنچائی، جو ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ مخصوص تھی۔ اب لوگ بھٹو اور موجودہ پیپلز پارٹی کو دو مختلف زاویوں سے دیکھتے ہیں۔

نون لیگ کے بارے میں گلگت بلتستان کے عوام کی رائے وہی ہے جو پنجاب کے وزیر قانون اور شہباز شریف کا دائیں بازو رانا ثناءاللہ کے بارے میں ہے۔ نون لیگ کو آج بھی گلگت بلتستان کے عوام 1988ء کے فسادات کے اصل ذمہ دار ضیاءالحق کی باقیات میں شمار کرتے ہیں۔ دوسری اہم بات یہ کہ 1999ء کی کارگل جنگ میں گلگت بلتستان کے عوام اور این ایل آئی کی طرف سے پاکستان کے لئے دی جانے والی لازوال اور بے مثال قربانی کو جس طرح سے رائیگاں جانے دیا، اس کا ذمہ دار بھی نواز شریف کو قرار دیتے ہیں۔ انھوں نے واشنگٹن جا کر یہ بیان دیا تھا کہ "اس جنگ میں پاکستان آرمی نہیں بلکہ مجاہدین حصہ لے رہے تھے" یوں عالمی سطح پر جس انداز میں گلگت بلتستان کے عوام اور پاک آرمی کی قربانی کو پیش کیا گیا اور عوام کی جانی و مالی قربانیوں کی جس طرح تضحیک کی گئی، اسے لوگ آج بھی نہیں بھولے۔ اس کے علاوہ جیو کے خلاف ایپلیٹ کورٹ گلگت بلتستان نے جو فیصلہ دیا تھا، پرویز رشید کا یہ ردعمل کہ "گلگت بلتستان پاکستان کا حصہ ہی نہیں۔"، یہ بھی گلگت بلتستان کے بارے میں نواز لیگ کی اصل پالیسی کی عکاسی کرتا ہے۔ گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت سے متعلق اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر درخواست پر عدالتی احکامات کے باوجود آج تک وفاقی حکومت اپنا نقطہ نظر بیان کرنے سے کترا رہی ہے، تاکہ گلگت بلتستان کے انتخابات میں ناکامی کی صورت میں وہی بیان دے سکے جو پرویز رشید ایک دفعہ دے چکے ہیں۔

غرض یہ کہ اب عوام باشعور ہوچکے ہیں، نہ دھوکے میں آنے کے لئے تیار ہیں اور نہ علاقائی مفادات پر سمجھوتہ کرنے کے لئے تیار ہیں۔ اب کے انتخابات سابقہ انتخابات کے مقابلے میں زیادہ اہمیت کے حامل ہیں، چونکہ آئندہ پانچ سالوں میں دیامر بھاشا ڈیم اور پاک چین اقتصادی راہداری سے گلگت بلتستان کی تقدیر بدلنے کا موقع میسر آیا ہے، اگر اس بار ایسے لوگوں کو اسمبلیوں تک پہنچایا گیا جو عوام کے حقوق کے لئے لڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، اگر اس بار آزمودہ سیاسی شخصیات اور سیاسی جماعتوں کو دوبارہ آزمانے کی خطا کی گئی تو شائد گلگت بلتستان کے عوام کی بہت بڑی سیاسی غلطی ہوگی۔ اس لئے سیاسی شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے مخلص، دیانتدار اور علاقائی مفادات کو سمجھنے اور عوام کے حقوق کے لئے لڑنے کی صلاحیت رکھنے والے سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کو منتخب کرنا ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 465010
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
درست ہے
ہماری پیشکش