QR CodeQR Code

گلگت بلتستان الیکشن۔۔۔۔ خدشات اور حقائق

12 Jun 2015 03:01

اسلام ٹائمز: میر نواز خان مروت نے الیکشن کے بعد پریس کانفرنس میں مسلم لیگ نون پر یہ الزام بھی عائد کیا کہ تبلیغی جماعتوں کے اراکین کو مختلف علاقوں میں بھیجا گیا، تاکہ مسلم لیگ نون کے لئے ووٹ طلب کریں۔ یہ ساری حقیقتیں الیکشن میں دھاندلی کو واضح کرتی ہیں۔ گلگت بلتستان کی کچھ سیاسی جماعتوں نے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے الیکشن ٹریبونل کا بھی مطالبہ کر دیا ہے۔ دھاندلی سے برسراقتدار آنے والی جماعت کو یہ بات دماغ میں بیٹھا لینی چاہیے اقتدار وہ تر نوالہ نہیں ہے جسے آسانی سے ہضم کیا جاسکے۔


تحریر: ڈاکٹر قیصر شاہ

گلگت بلتستان کے الیکشن غیر متوقع نتائج کے ساتھ بالآخر اختتام پذیر ہوئے۔ مسلم لیگ نون، مجلس وحدت مسلمین، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف سمیت مختلف سیاسی جماعتیں اپنے مرکزی قائدین کے ہمراہ اس اعصاب شکن معرکے کو فتح کرنے کی دعویدار رہیں۔ لیکن اقتدار کی ہما "جس کی لاٹھی اسی کی بھینس" کے مصداق مسلم لیگ نون کے سر پر جا بیٹھی۔ انتخابی نتائج کے حوالے سے ماضی میں جن خدشات کا ذکر کیا جاتا رہا تھا، ان میں بیشتر سو فیصد درست ثابت ہوئے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے مہدی شاہ نے اپنے دور اقتدار میں جس رعونت سے یہاں کے عوام کو نظرانداز کیا، اسی انداز میں یہاں کے لوگوں نے مہدی شاہ کو یکسر مسترد کرکے یہ ثابت کر دیا کہ فتح یابی عوامی طاقت کی ہی مرہون منت ہے۔ گلگت بلتستان میں پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے دور اقتدار میں وہی کردار ادا کیا جو وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت کا رہا۔ مخصوص خوشامدی مفاد پرست ٹولا مہدی شاہ کے اقتدار کی گنگا میں دل کھول کر غوطے لگاتا اور بے شمار فوائد حاصل کرتا رہا، جبکہ عوام کی بنیادی ضروریات پر توجہ دینے کی ضرورت کو محسوس تک نہ کیا گیا۔ پیپلز پارٹی کی اس ناقص کارکردگی نے اس کی عوامی مقبولیت کا پول الیکش میں کھول دیا۔ اب اپنی شکست کی خفت کو چھپانے کے لئے اس پارٹی نے دوسری پارٹیوں پر مضحکہ خیز الزامات لگانے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔

گذشتہ روز شہلا رضا اور پیپلز پارٹی کے دیگر قائدین کی پریس کانفرنس نے ان کی رہی سہی سیاسی بصیرت کو بھی آشکار کر دیا۔ پریس کانفرنس میں پیپلز پارٹی کی شکست کا ذمہ دار ایم ڈبلیو ایم کو ٹھراتے ہوئے یہ کہا گیا کہ شہباز شریف نے پیپلز پارٹی کو ہرانے کے لئے ایم ڈبلیو ایم کو استعمال کیا۔ کم از کم سیاسی شعور رکھنے والا بھی اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ ملک بھر میں مسلم لیگ نون جس سیاسی و مذہبی تنظیم کو اپنا سب سے بڑا سیاسی حریف سمجھتی ہے تو وہ ایم ڈبلیو ایم ہے۔ مجلس وحدت مسلمین نے ہر پلیٹ فارم پر مسلم لیگ نون کی ہمیشہ مخالفت کی اور اس مخالفت کا بنیادی سبب نون لیگ کی حکومت کے کالعدم مذہبی تنظیموں کے سرپرستوں سے دوستانہ روابط ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو طالبان اور ان کالعدم جماعتوں کے حامی ہیں جو کھل کر افواج پاکستان اور ملکی سلامتی کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ اس اعتبار سے مجلس وحدت مسلمین کا موقف اصولی ہی نہیں بلکہ حُب الوطنی کا عملی اظہار بھی ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے مجلس وحدت مسلمین پر ایسا بے بنیاد الزام یہ ظاہر کرتا ہے کہ انتخابی نتائج نے ان کے دماغ پر بھی گہرا اثر ڈالا اور اب ان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحتیں بھی مفلوج ہوچکی ہیں۔ شکست کی خجالت پر پردہ ڈالنے کے لئے الزام تراشیوں کا یہ سلسلہ اس پارٹی کا وطیرہ رہا ہے۔ یہاں اس حقیقت کا اظہار بھی ضروری ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں پاکستان میں جتنی شیعہ کُشی کی گئی، اتنی پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوئی۔ اقتدار کے تمام اہم ستون خود کو شیعہ کہنے والے افراد کے پاس تھے۔ صدر زرداری، سپیکر فہمیدہ مرزا، چیئرمین سینٹ نیئر بخاری کے علاوہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی بھی خود کو عقیدت مند کہتے تھے، لیکن شیعہ کشی کے خلاف آواز بلند کرنے کی بجائے پورے پانچ سال پارٹی منشور کی دھن پر بھنگڑے ڈالنے میں مصروف رہے اور شیعہ شہید ہوتے رہے۔ گلگت، چلاس، بابوسر کے سانحات پر پیپلز پارٹی کی سرد مہری نے عوام اور پارٹی کے درمیان نہ ختم ہونے والے فاصلے کھڑے کر دیئے ہیں، جن کا اظہار انتخابات میں بالآخر ہوگیا۔

گلگت بلتستان الیکش 2015ء کو اس اعتبار سے تاریخی اہمیت کا حامل بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس دوران جی بی میں بہت ساری بڑی تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں۔ عوام کا سیاسی شعور ابھر کر سامنے آیا۔ اس الیکشن میں اکثریت نے خاموش ووٹر کی حیثیت سے حق رائے دہی استعمال کرنے کی بجائے متحرک اور پرجوش کارکن کی حیثیت سے انتخابی عمل کا حصہ بننے کو ترجیح دی۔ اس مثبت اور خوشنما تبدیلی کا سہرا بلامبالغہ مجلس وحدت مسلمین کو جاتا ہے، جس نے اس سیاسی شعور کی بیداری کے لئے بہت پہلے سے عوامی رابطہ شروع کر رکھا تھا۔ اس سے قبل یہاں بسنے والے ووٹ کے لئے اہلیت و کردار کی بجائے تعلقات کو مدنظر رکھتے رہے، لیکن اب انہوں نے سیاسی وابستگیوں کا کھل کر اظہار کرنا شروع کر دیا ہے۔ دوسری واضح اور بڑی تبدیلی ایم ڈبلیو ایم کا گلگت بلتستان کی دوسری بڑی سیاسی پارٹی کے طور پر سامنے آنا ہے۔ جس نے پہلے نمبر پر آنے والی جماعت مسلم لیگ نون کے بعد سب سے زیادہ ووٹ حاصل کئے۔ ایم ڈبلیو ایم کے قائدین نے یہ الزام لگاتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ جی بی کے الیکشن میں مسلم لیگ نون نے وسیع پیمانے پر دھاندلی کی ہے، جس کے شواہد ہمارے پاس موجود ہیں۔

جی بی الیکشن مہم کے دوران ہی مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کی جانب سے منظم دھاندلی کے خدشات کا اظہار کیا جاتا رہا، اب دیگر جماعتیں بھی الیکشن نتائج کو دھاندلی قراد دے رہی ہیں۔ انتخابی عمل کا بغور جائزہ لینے پر یہ الزامات مصدقہ دکھائی دیتے ہیں اور اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ ملک کے دیگر حصوں میں گذشتہ انتخابات کے دوران دھاندلی کے جو گُر دکھائے گئے، انہی کا اطلاق گلگت بلتستان کے الیکشن میں بھی کیا گیا۔ اسکردو 3 اور روندو 4 میں الیکشن کے نتائج کے اعلان میں دانستہ تاخیر کی گئی۔ گنتی کے عمل کو روک کر اگلے دن پر موخر کیا گیا۔ آخر کیوں؟ اسی طرح بہت سارے دیگر حلقوں میں نواز شریف حکومت کی طرف سے کچھ امیدواروں کو خطیر رقم کے چیک بھی دیئے گئے، تاکہ وہ لالچ دے کر ووٹ خریدیں۔ مالی فوائد دے کر الیکشن پر اثر انداز ہونا مسلم لیگ نون کی الیکشن پالیسی کا ہمیشہ حصہ رہا ہے۔

اسی طرح اسلامی تحریک پاکستان کو کالعدم ہونے کے باوجود الیکشن لڑنے کی اجازت دی گئی، تاکہ شیعہ ووٹ کو تقسیم کرکے مجلس وحدت مسلمین کے مضبوط امیدواروں کو شکست دی جا سکے۔ میر نواز خان مروت نے الیکشن کے بعد پریس کانفرنس میں مسلم لیگ نون پر یہ الزام بھی عائد کیا کہ تبلیغی جماعتوں کے اراکین کو مختلف علاقوں میں بھیجا گیا، تاکہ مسلم لیگ نون کے لئے ووٹ طلب کریں۔ یہ ساری حقیقتیں الیکشن میں دھاندلی کو واضح کرتی ہیں۔ گلگت بلتستان کی کچھ سیاسی جماعتوں نے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے الیکشن ٹریبونل کا بھی مطالبہ کر دیا ہے۔ دھاندلی سے برسراقتدار آنے والی جماعت کو یہ بات دماغ میں بیٹھا لینی چاہیے اقتدار وہ تر نوالہ نہیں ہے جسے آسانی سے ہضم کیا جاسکے۔


خبر کا کوڈ: 466187

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/466187/گلگت-بلتستان-الیکشن-خدشات-اور-حقائق

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org