0
Tuesday 16 Jun 2015 01:00

اوہ آئی سی!

اوہ آئی سی!
تحریر: سید اسد عباس تقوی

عالم اسلام کے وزرائے خارجہ کا اکتالیسواں اجلاس 16 اور 17 جولائی 2015ء کو سعودیہ کے شہر جدہ میں منعقد ہو رہا ہے۔ اگرچہ وزرائے خارجہ کا یہ اجلاس ہر سال منعقد ہوتا ہے، تاہم اس دفعہ اس کی اہمیت کچھ اس لئے بھی زیادہ ہے کہ اس اجلاس میں میزبانی ملوک سعودیہ خود فرما رہے ہیں، جبکہ بنیادی طور پر اس اجلاس کے بلانے کا مقصد یمن کی صورتحال پر بحث تھا۔ عالم اسلام کے وزرائے خارجہ کے دو روزہ اجلاس کے تبدیل شدہ ایجنڈا میں اب امت مسلمہ کو درپیش مسائل بالخصوص یمن کی صورتحال، عراق کی صورتحال، فلسطین میں ہونے والی سیاسی پیش رفت اور برما کا مسئلہ بھی شامل بحث ہے۔ اس اجلاس میں مسلم امہ کے 56 ممالک کے وزرائے خارجہ شریک ہوں گے، 57ویں ملک شام کی رکنیت معطل ہے۔ اطلاعات کے مطابق قبل ازیں عراق میٹنگ کے ایجنڈا میں شامل نہیں تھا، تاہم اب اسے سرفہرست رکھا گیا ہے۔

او آئی سی کا نام، اوہ آئی سی کیسے ہوا، یہ کہانی وضاحت کی محتاج نہیں ہے۔ اس تنظیم کے ذیلی اداروں نے اگرچہ امت مسلمہ کی مختلف شعبہ ہائے زندگی میں عملی مشارکت، مشترکہ کرنسی، تعلیم، معیشت، سیاسی وحدت کے حوالے سے متعدد منصوبے تشکیل دیئے ہیں، تاہم یہ سب کے سب منصوبے تقریباً داخل دفتر ہیں، جن میں سے کسی ایک پر بھی اس کی حقیقی روح کے مطابق عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ نہ ہی ادارے کے سربراہی فورمز نے امت مسلمہ کو درپیش بڑے مسائل منجملہ فلسطین، کشمیر کے حل کے لئے کبھی بھی کوئی ایسا اقدام اٹھایا جسے ایک ٹھوس آواز کا نام دیا جاسکے۔ اس کے باوجود یہ مسلم امہ کا واحد اتحاد ہے جو دنیا کے تمام مسلمانوں کی مشترکہ آواز ہے۔

اس ادارے کی ناکامیوں کی وجوہات کا جائزہ لیا جائے تو یقیناً ممبر ریاستوں کی عدم دلچسپی اور انفرادی مفادات کو سرفہرست رکھا جاسکتا ہے۔ یہ اتحاد 1969ء میں معرض وجود میں آیا، تاہم کوئی خاطر خواہ کام سرانجام نہ دے سکا، جبکہ اس کے بعد بننے والے کئی اتحاد، نیٹو، یورپی یونین وغیرہ موثر طریقے سے فعالیت سرانجام دے رہے ہیں۔ حالیہ اجلاس سے بھی اگرچہ زیادہ توقعات وابستہ نہیں کی جاسکتیں، تاہم مایوسی اور ناامیدی کفر ہے۔ مشرق وسطٰی بالخصوص جزیرۃ العرب میں پیدا ہونے والی صورتحال کے تناظر میں یہ اجلاس کافی اہم ہے۔ اس اجلاس کے ذریعے ممبر ممالک کو مشرق وسطٰی کے اندر لگی آگ کے حوالے سے بہتر طور پر آگاہ ہونے نیز اس کے متوقع حل پر بحث کرنے کے بہتر مواقع میسر آسکتے ہیں۔

پاکستان کا ایک وفد بھی مشیر خارجہ جناب سرتاج عزیز کی سربراہی میں اس اجلاس میں شریک ہے۔ یہ ایک بہترین موقع ہے کہ پاکستان ایک قائدانہ اور مصالحانہ موقف اختیار کرتے ہوئے مشرق وسطٰی کے تازہ ترین مسائل منجملہ شام میں جاری مسلح جارحیت، عراق میں داعش کی حکومت، یمن پر سعودی حملوں، فلسطین پر اسرائیل کے غاصبانہ قبضے نیز برما کے مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور بالاخص پیغمبر خاتم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شان کے خلاف ہونے والی نازیبا حرکات کے حوالے سے ٹھوس اور قابل عمل لائحہ عمل پیش کرے۔

پاکستان جو کہ ایک ایٹمی اور نظریاتی ریاست ہے، کے پاس بہترین موقع ہے کہ وہ مشرق وسطٰی کے حوالے سے مسلم ممالک کے مابین پائی جانے والی کشیدگی کو کم کرنے اور ان مسائل کا منصفانہ حل تلاش کرنے کے لئے اپنی سر توڑ کوشش کرے۔ اس اتحاد کے فیصلوں کی اہمیت اور طاقت نیز دشمن قوتوں کی ریشہ دوانیوں کے مدنظر اگرچہ یہ کام بہت مشکل اور کٹھن ہے لیکن ناممکن نہیں ہے۔ یہ مشکل پاکستانی وفدکے لئے ایک اہم موقع بھی ہے، جس میں وہ اپنی توانائیاں صرف کرکے نہ صرف امت مسلمہ میں اپنے قائدانہ کردار کو راسخ کرسکتا ہے بلکہ اپنی مذہبی ذمہ داری سے عہدہ برا ہونے کا ایک بہترین موقع بھی بروئے کار لاسکتا ہے۔ پاکستانی عوام بجا طور پر توقع رکھتے ہیں کہ ان کا یہ وفد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے عوام کی امنگوں کی بھرپور ترجمانی کرتے ہوئے اپنا مثبت کردار ادا کرے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم مسلم امہ کی توجہ امت کو درپیش حقیقی مسائل کی جانب دلوائیں اور ان کو باور کروائیں کہ ان مسائل کا حل باہمی افتراق میں نہیں بلکہ اتحاد و وحدت نیز مصالحت و میانہ روی میں ہے۔

پاکستانی وفد کو چاہیے کہ وہ، او آئی سی کی تنظیم کو فعال کرنے اور اس کے فیصلوں کے نفاذ کے حوالے سے بھی اپنے رسوخ اور اعلٰی سفارتی صلاحیات کو بروئے کار لائے۔ ایسا نہ ہو کہ ہم اس کانفرنس میں کسی ایک موقف کی جانب صرف اس لئے جھکاؤ کا مظاہرہ کریں کہ اس موقف کی حامل قوتیں صاحب ثروت ہیں بلکہ ہمیں اپنے وقار اور عزت کو برقرار رکھتے ہوئے اور امت مسلمہ میں اپنی حیثیت کا تحفظ کرتے ہوئے حکم قرآن کے مطابق مصالحت کی راہ اپنانی چاہیے۔ ہمارا زور اس بات پر رہنا چاہیے کہ امت کے مسائل کو گفت و شنید کے ذریعے حل کیا جائے۔ وہ مسلم ممالک جو عالمی قوانین اور اسلامی اقدار کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دوسرے برادر اسلامی ممالک میں دخل اندازی کے مرتکب ہو رہے ہیں، کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ اس قسم کے اقدامات امت مسلمہ اور خطے کے مفاد میں نہیں ہیں۔

پاکستانی وفد کو کوشش کرنی چاہیئے کہ تمام متحارب گروہوں کو مذاکرہ کی میز پر بٹھائے اور ان کو امت کے وسیع تر مفاد میں مصالحانہ رویہ اختیار کرنے کی تلقین کرے۔ یہی ایک ایٹمی طاقت اور ایک مسلمان نظریاتی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ہمارا کوئی بھی عمل ایسا نہیں ہونا چاہیے جس میں کسی ایک جانب جھول کا شائبہ ہو۔ جھول کی صورت میں یہ اجلاس بے نتیجہ ختم ہونے کے زیادہ امکانات ہیں۔ اگر پاکستان اس موقع پر کوئی حقیقی کردار ادا کرے تو توقع کی جاسکتی ہے کہ امت مسلمہ اس اہم اجلاس سے کچھ فوائد حاصل کرلے۔ اگر پاکستان ایک منصفانہ موقف اختیار کرے تو اسے یقیناً امت مسلمہ کے اندر سے ایسی آوازوں کا ساتھ میسر آسکتا ہے جو امت کے درد میں کڑھتی ہیں، لیکن کوئی حقیقی کردار ادا نہیں کرسکتیں۔ اس اہم اجلاس کے موقع پر کسی ایک جانب جھکاؤ کی صورت میں وہ آوازیں بھی دب جائیں گی اور کسی ایک سمت جھکاؤ پر مجبور ہو جائیں گی، جس کے نتیجہ میں امت مصالحت اور اصلاح کا ایک موقع ضائع کر دے گی۔

امید کی جاتی ہے کہ حکومت پاکستان اور اس کا نمائندہ وفد، عوام پاکستان کے دلوں کی آواز بن کر اس اہم فورم پر اپنا حقیقی کردار ادا کرے گا اور ملت اسلامیہ کو ماہ رمضان کی آمد کے موقع پر امن و سکون کی دولت سے بہرہ ور کرنے میں اپنا کردار ادا کرے گا۔ خداوند کریم ہم سب کو امت کے مفاد کے لئے اقدامات کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اس امت مظلوم کے مسائل کو جلد از جلد حل کرے اور انہیں ایک قوت کی صورت اختیار کرکے حقیقی طور پر امت وسط کی ذمہ داریاں انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
خبر کا کوڈ : 466858
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش