0
Monday 22 Jun 2015 14:34

خیبر پختونخوا کی مخلوط حکومت ٹوٹنے کا خطرہ؟

خیبر پختونخوا کی مخلوط حکومت ٹوٹنے کا خطرہ؟
رپورٹ: ایس اے زیدی

خیبر پختونخوا میں مئی 2013ء کے جنرل الیکشن کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی سربراہی میں مخلوط حکومت قائم ہوئی، اس حکومت میں جماعت اسلامی اور قومی وطن پارٹی پی ٹی آئی کی اتحادی تھیں، تاہم کچھ عرصہ بعد قومی وطن پارٹی بعض اختلافات کی بنا پر تحریک انصاف کا ساتھ چھوڑ گئی، جس کے بعد جماعت اسلامی نے تحفظات اور شکایات کے باوجود پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کا ہر مشکل وقت میں مکمل ساتھ دیا، تاہم گذشتہ ماہ خیبر پختونخوا میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں مبینہ بے قاعدگیوں اور دھاندلی کی شکایات کے بعد جماعت اسلامی بھی پی ٹی آئی سے سخت نالاں نظر آئی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی کی قیادت نے اس حوالے سے پی ٹی آئی کے قائد کو باضابطہ طور پر آگاہ کر دیا ہے، جماعت اسلامی کے بعض رہنماوں نے صوبائی حکومت سے علیحدگی کے بھی مشورے دیئے ہیں۔

ایک اور باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے درمیان اختلافات آخری حد تک پہنچ چکے ہیں، جماعت اسلامی کسی بھی وقت تحریک انصاف کو چھوڑ کر مرکزی حکمران جماعت کے اتحاد کا حصہ بننے کیلئے تیاری کرچکی ہے، ذرائع کے مطابق مسلم لیگ نون جماعت اسلامی کو اپنا فطری اتحادی سمجھتی ہے اور اس وقت حکمران جماعت سراج الحق اور دیگر اہم رہنمائوں سے قریبی رابطے میں ہے۔ واضح رہے کہ جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کے درمیان گذشتہ برس بھی اختلافات شدید تر ہوگئے تھے اور اس وقت عمران خان اور سراج الحق کی ون ٹو ون ملاقات نے تمام غلط فہمیوں کو وقتی طور پر دفن کر دیا تھا۔ البتہ دونوں جماعتوں نے یہ واضح کر دیا تھا کہ ہر پارٹی اپنی اپنی پالیسی اور آزاد رائے رکھتی ہے۔

خیبر پختونخوا کے حالیہ بلدیاتی الیکشن نے جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کو ایک بار پھر ایسے موڑ پر لا کھڑا کیا ہے، جہاں جماعت اسلامی خیبر پختونخوا کا اقتدار چھوڑ کر وفاقی اقتدار میں شامل ہوسکتی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ نون کی مرکزی حکومت کی جانب سے ابتدائی طور پر جماعت اسلامی کو دو وزراتوں کی پیشکش کی جا چکی ہے اور مذاکرات کے بعد اس میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے۔ یاد رہے کہ مئی 2013ء کے انتخابات کے وقت بھی مسلم لیگ نون اور جماعت اسلامی اتحاد کیلئے مذاکرات کرتی رہی ہیں، مگر دونوں جماعتوں کی طرف سے چند نکات پر اتفاق رائے نہ ہونے کے باعث یہ اتحاد نہ بن سکا اور جماعت اسلامی تحریک انصاف کی جھولی میں جا گری اور دونوں نے خیبر پختونخوا میں مل کر حکومت بنائی۔

البتہ بلدیاتی الیکشن نے جماعت اسلامی کو مسلم لیگ نون کے قریب تر کر دیا ہے، سیاسی حلقے اس مجوزہ اتحاد کو بہت اہمیت دے رہے ہیں کیونکہ اس اتحاد سے عمران خان کیلئے مزید سیاسی مسائل پیدا ہونگے اور مسلم لیگ نون ایک بار پھر مولانا فضل الرحمان کے بعد جماعت اسلامی کو بھی اپنے پلیٹ فارم پر لے آئے گی۔ مولانا فضل الرحمان اور سراج الحق جب وفاقی حکومت کا حصہ ہونگے تو یقیناً یہ اتحاد کے پی کے حکومت کیلئے مشکلات پیدا کرے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جلد مرکزی حکومت کا جماعت اسلامی سے شریک اقتدار کا فارمولا طے پاسکتا ہے، یہ ایک حقیقت ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت نے صوبہ میں کئی اصلاحاتی پراجیکٹس شروع کئے اور عوام کو کافی حد تک ریلیف بھی پہنچایا، تاہم امن و امان اور پھر بلدیاتی الیکشن نے تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کی ساکھ کو شدید متاثر کیا۔

عام انتخابات کے دوران پاکستان تحریک انصاف نے عوام کو تبدیلی کا نعرہ دیا تھا، اگر اس نعرہ پر حقیقت میں عملدرآمد کرنا ہے تو عمران خان اینڈ ٹیم کو اپنی روش میں سب سے پہلے ’’تبدیلی‘‘ لانا ہوگی، گو کہ پی ٹی آئی کے پاس حکومت کرنے کا کوئی سانقہ تجربہ نہیں، تاہم پاکستان کے مروجہ سیاسی نظام کو صرف نعروں سے تبدیل نہیں کیا جاسکتا، کے پی کے، کے بلدیاتی الیکشن میں امن و امان کی صورتحال عوام کے سامنے رہی، صوبائی وزیر علی امین کا بیلٹ بکس اٹھا کر بھاگ جانے والا فلمی سین بھی سب کو یاد ہے۔ تاہم اگر پی ٹی آئی خیبر پختونخوا پر اپنی حکمرانی قائم رکھنا چاہتی ہے تو اسے گڈ گورننس سمیت دیگر اہم سیاسی فیصلہ کرنا ہوں گے، بصورت دیگر جماعت اسلامی کے ساتھ چھوڑ جانے کی وجہ سے خیبر پختونخوا حکومت کا وجود خطرہ میں پڑ سکتا ہے۔ کیونکہ مولانا فضل الرحمان اور اسفندیار ولی بھی صوبائی حکومت کیخلاف ایک ہوچکے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 468260
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش