0
Monday 22 Jun 2015 22:54

روزے کی حقیقت

روزے کی حقیقت
تحریر: سید توکل حسین شمسی

ابو عبداللہ محمد بن خفیف شیرازی جو کہ شیخ کبیر کے نام سے بھی معروف ہیں، چوتھی صدی ہجری میں ایک معروف شخصیّت تھے، ان سے منسوب سخن آج بھی عرفاء میں ایک خاص اہمیّت کے حامل ہیں۔ شیخ صاحب کے دو مرید تھے، دونوں کا نام احمد تھا، ایک کو احمد کبیر اور دوسرے کو احمد صغیر کہا جاتا تھا، شیخ صاحب کی عنایت اور توجہ احمد صغیر جو کہ عمر میں چھوٹے تھے، بہت زیادہ تھی حتٰی کہ دوسرے مرید بھی شیخ صاحب کی اس عنایت و نوازش سے باخبر تھے۔ ایک دن کچھ مریدوں نے سوال کیا، سرکار کیا وجہ ہے کہ احمد صغیر آپ کی خصوصی توجہ اور عنایت کا مرکز ہیں جبکہ احمد کبیر بھی آپ کے لائق مرید ہیں۔ شیخ صاحب نے کہا دونوں کو بلایا جائے، ان سے امتحان لیتے ہیں خود ہی معلوم ہو جائے گا کہ ہم احمد صغیر پر زیادہ مہربان کیوں ہیں؟

احمد کبیر کو بلایا گیا شیخ صاحب نے انکو کہا احمد بیٹا تمہارے سامنے جو اؤنٹ بندھا ہوا ہے اس کو اٹھا کر ہمارے گھر کی چھت پر لے جاؤ، احمد نے ایک مرتبہ اؤنٹ کو دیکھا پھر استاد کیطرف دیکھا اور عرض کی یہ کیسے ممکن ہے، یہ میری بساط سے باہر ہے، شیخ صاحب نے کہا ٹھیک ہے۔ پھر احمد صغیر کو بلایا گیا اور پھر اس سے بھی وہی مطالبہ کیا گیا، اس نے اپنی آستین اوپر کی اور اؤنٹ کو اٹھانے کیلۓ اس کے نیچے جا کھڑا ہوا، لیکن کچھ سعی کرنے کے بعد اؤنٹ کو اپنی جگہ سے ہلا بھی نہ سکا، سب مرید اس پر ہنسنے لگے، شیخ صاحب نے احمد صغیر کو اپنے پاس بلایا اور پھر مریدوں سے کہا ان دونوں میں یہی فرق ہے، جس کی وجہ سے ہم احمد صغیر کو زیادہ چاہتے ہیں، ہم نے دونوں کو ہی ایک غیر ممکن کام کہا، لیکن احمد کبیر فوراً اپنی طاقت کو دیکھنے لگا جبکہ احمد صغیر نے یہ دیکھا کہ حکم دینے والا کون ہے۔

ہم بھی کچھ احمد کبیر والا ہی کام کرتے ہیں اور فوراً کہنے لگتے ہیں کہ آج کل کی گرمی میں روزہ ہم سے نہیں رکھا جاتا، نماز ہم سے نہیں پڑھی جاتی، زکواۃ ہم سے نہیں جاتی، لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ حکم دینے والا کون ہے، وہ اللہ ہے جو ہمارا خالق ہے، وہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں، جو مدینۃ العلم ہیں، شریعت اسلامی میں کوئی ایسا حکم نہیں جو انسان کی وسعت سے باہر ہو۔ خدا نے انسان پر وہی احکام قرار دیئے ہیں، جو اس کی وسعت و اختیار میں ہیں، جو احکام اس کے اختیار کے دائرہ کار سے باہر ہیں، اسکا اس سے سوال نہیں کیا جائے گا۔

روزے کے متعلق سورہ بقرہ میں کچھ اس طرح بیان ہوا ہے۔
يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيامُ كَما كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (183) أَيَّاماً مَعْدُوداتٍ فَمَنْ كانَ مِنْكُمْ مَرِيضاً أَوْ عَلى‏ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ وَ عَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعامُ مِسْكِينٍ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ وَ أَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ (184)
ان آیات سے چند نکات سامنے آتے ہیں۔
1۔ روزہ صاحبان ایمان پر واجب ہے۔
2۔ تم سے پہلے گذشتہ امتوں پر بھی واجب تھے۔ (شاید تمہارے اذھان میں آئے کہ یہ اللہ کی طرف سے تم پر کوئی مشقت ہے بلکہ یہ خدا کی خصوصی عنایت ہے، جس سے اللہ نے تم کو بھی محروم نہیں رکھا)
3۔ روزہ پرہیزی گاری کیلئے ہے۔
4۔ روزوں کے ایام محدود ہیں۔ رسول خدا فرماتے ہیں: اگر بندےکو معلوم ہوجائے کہ رمضان میں کیا (فیوض و برکات) ہیں، تو وہ پسند کرے گا کہ سارا سال ہی رمضان ہو،(بحارالانوار، جلد 93، صفحہ346)
5۔ کچھ لوگ کیلئے روزہ رمضان میں معاف ہے۔ مسافر، مریض اور ناتوان۔ وہ اور دنوں میں روزہ رکھیں گے، جن میں ان کے لئے امکان ہوگا۔
6۔ اگر سمجھو تو روزہ سب کے لئے بہتر ہے۔ اس سمجھ سمجھ میں بھی بڑا فرق ہوتا ہے، ہم جیسے روزے کو باعث کمزوری و ضعف سمجھتے ہیں، لیکن رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں؛ روزہ رکھو تاکہ تم کو صحت و سلامتی نصیب ہو۔( الکافی، کتاب الصوم، جلد4، ص63)

روزے کے متعلق کچھ احادیث:
1۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں؛
ان للجنۃ بابا یدعی الریحان لایدخل منہ الا الصائمون۔
جنت کا ایک دروازہ ہے، جس کو الریحان کہا جاتا ہے، اس سے صرف روزے دار داخل ہوں گے۔
(وسائل الشیعہ، جلد7، ص295، حدیث 31۔ معانی الاخبار، ص116)
2۔ امیرالمؤمنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں؛
صوم القلب خیر من صیام اللسان و صوم اللسان خیر من صیام البطن
دل کا روزہ زبان کے روزے سے اور زبان کا روزہ شکم کے روزے سے افضل ہے۔
(غررالحکم، جلد1، ص 417، حدیث)
3۔ سیدۃ النساء حضرت فاطمۃ سلام اللہ علیہا فرماتی ہیں؛
ما یصنع الصائم بصیامہ اذا لم یصن لسانہ و سمعہ و بصرہ و جوارحہ
مجھے نہیں معلوم ایسا روزے دار اپنے روزے کا کیا کرے گا، جس میں وہ نہ تو اپنی زبان، نہ اپنی سماعت، نہ اپنی آنکھوں اور نہ ہی اپنے اعضاء کی حفاظت کرتا ہے۔
(بحار الانوار۔جلد 93، ص 295)

4۔ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں؛
من صام للہ عزوجل یوما فی شدۃ الحر فاصابہ ظمآ وکّل اللہ بہ الف ملک یمسحون وجھہ ویبشرونہ حتی اذا افطر
جب کوئی انسان سخت گرمی میں اللہ کی رضا کے لئے روزہ رکھتا ہے اور پیاس برداشت کرتا ہے تو اللہ عزوجل ایک ہزار ملک کو وکیل قرار دیتا ہے کہ وہ اس روزہ دار کے چہرے کو مس کریں اور اس کو بشارت دیں، یہ سلسلہ افطار تک چلتا ہے
۔ (الکافی، جلد4، ص64، حدیث 8 و بحار، جلد 93، ص247)
5۔ ایک اور مقام پر امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں؛
من افطر یوما من شھر رمضان خرج روح الایمان منہ
اگر کوئی ماہ مبارک رمضان کا ایک روزہ توڑ دیتا ہے (بغیر عذر شرعی) تو روح ایمان اس سے خارج ہو جاتی ہے۔
(وسائل الشیعہ، جلد7، ص181، حدیث 4 و من لایحضرالفقیہ، جلد2، ص73، حدیث9)
6۔ ایک اور مقام پر امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں؛
نوم الصائم عبادۃ و صمتہ تسبیح و عملہ متقبل و دعاؤہ مستجاب
روزے دار کی نیند عبادت، خاموشی تسبیح، عمل مقبول اور دعا مستجاب ہے۔
(من لایحضرالفقیہ، جلد2، ص76، حدیث 1783)
خبر کا کوڈ : 468399
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش