QR CodeQR Code

یمن تنازعہ۔۔۔۔۔ نظرثانی کی ضرورت ہے

22 Jun 2015 23:19

اسلام ٹائمز: سعودی عرب کی بھی اسلامی اور اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ امت مسلمہ میں چراغ کی صورت زندگی بسر کرے، نہ کہ آتش کدے کی صورت۔ حرمین شریفین کی وجہ سے سعودی عرب جس مقام پر موجود ہے، اس کا تقاضا بنتا ہے کہ وہ امت مسلمہ کی روشن رہنمائی کرے اور امت میں متصادم گروہوں کے درمیان صلح و امن کا کام کرے، نہ کہ امت میں موجود اختلاف کو ہوا دینے کا، یا امت میں موجود فساد کو بڑھاوا دینے کا، یا امت میں قتل و غارت اور خودکش حملوں جیسی لعنتوں کو فروغ دینے کا۔ سب جانتے ہیں کہ چراغ ہر حال میں رہنمائی فراہم کرتا ہے اور آتش کدہ ہر حال میں جلانے کا کام کرتا ہے۔ کبھی کبھی نہیں بلکہ اکثر ایسے ہوتا ہے کہ آتش کدے اپنی ہی آگ میں جل جایا کرتے ہیں، جبکہ چراغ بجھ کر بھی دوبارہ رہنمائی دینے کے لئے موجود رہتے ہیں۔ لہذا اس سنگین مرحلے سے بچنا ہی دانشمندی ہے۔


تحریر: سید اظہار مہدی بخاری
izharbukhari5@hotmail.com


عالمی ذرائع ابلاغ کی خبروں کے مطابق سعودی عرب کے مفتی اعظم نے فتویٰ دیا ہے کہ یمن کے مسلمانوں کو قتل کرنے والے سعودی فوجی واجب روزہ بغیر کفارہ دیئے ترک کرسکتے ہیں۔ دوسری طرف یہ خبر بھی ہے کہ یمن میں داعش بہت تیزی سے فعال کر دی گئی ہے اور سعودی افواج کے ساتھ ہمکاری و ہم آہنگی کرتے ہوئے خودکش حملوں اور یمنی شہریوں کو ذبح کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ منصوبے کے تحت سعودی و اتحادی افواج فضائی حملوں کے ذریعے اپنے مخالفین سے انتقام لے رہے ہیں، جبکہ القاعدہ، داعش اور اس طرح کی دیگر تنظیموں کو زمینی کام دیا گیا ہے, تاکہ انصاراللہ کے نام پر یمنی عوام کا قتل عام کیا جائے اور یمنی معیشت اور اقتصاد پر اس قدر کاری ضربیں لگائی جائیں کہ آئندہ کئی دہائیوں تک یمن فقیری اور غربت کی زندگی گذارنے پر مجبور ہوجائے جس کا نتیجہ یقیناً غلامی ہے۔

سعودی مفتی کا فتویٰ بظاہر تو روٹین کا کام ہے کیونکہ اس قسم کے فرقہ وارانہ اور گروہی تعصب سے لبریز فتاویٰ جات صادر ہوتے رہتے ہیں، لیکن ان دنوں جبکہ یمن میں جنگی حالات موجود ہیں اور امت مسلمہ میں امن و یکجہتی کی ضرورت ہے، ان حالات میں اس قسم کا فتویٰ آنا پٹرول کو آگ دکھانے کے مترادف ہے، کیونکہ داعش اور القاعدہ جیسی تنظیمیں تو پہلے ہی اس قسم کی ذہنیت کے ساتھ اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں، لیکن سرکاری افواج کو فتویٰ کے ذریعے اس قسم کی شہہ اور کھلی اجازت دینا داعش سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ اگر ہر مسلم ملک کے مفتیان اس طرح دوسرے مسلم ممالک کے عوام یا تنظیموں کے خلاف دین کو استعمال کرتے ہوئے قتل کے فتادیٰ جاری کرنا شروع کر دیں تو اس کا انجام و نتیجہ کیا ہوگا، یہ سوچ سے بھی آگے ہے۔

یمن کے تنازعہ کے آغاز میں بہت شد و مد سے واویلا کیا گیا کہ حرمین شریفین کو شدید خطرات لاحق ہیں اور یمنی باغی حرمین پر قبضہ کرکے پوری دنیا یا عالم عرب پر اپنی حکمرانی قائم کرنا چاہتے ہیں، ہم نے ان دنوں بھی اس اطلاع کی تردید کی تھی، اب بھی حالات نے وقت گذرنے کے ساتھ خود بتا دیا ہے کہ یمنی عوام اور انصاراللہ کا ہدف کوئی دوسرا ملک، کوئی دوسری قوم یا کوئی دوسرا مذہب و مسلک نہیں بلکہ اپنا ہی ملک، اپنی ہی قوم اور اپنا سیاسی ہدف ہے۔ وہ اپنے مقدر سنوارنے کے لئے اور غیر ملکی تسلط سے قائم حکومت ختم کرکے اپنی آزاد و خود مختار حکومت قائم کرکے عوامی خواہشات اور ملکی ضروریات کے مطابق نظام مملکت مرتب دینا چاہتے ہیں، تاکہ ملک کے اکثریتی عوام اپنا حق حاصل کرکے ملک کی خدمت میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔

آج یمنی تنازعہ میں عالمی اداروں نے اپنا کردار ادا کرنا شروع کر دیا ہے، مذاکرات کا سلسلہ اقوام متحدہ تک پہنچ چکا ہے، لیکن وہی روایتی سست روی آڑے ہے، جو فلسطین کے معاملے میں موجود ہے۔ ایک طرف من پسند مذاکرات کے ادوار جاری ہیں تو دوسری طرف بمباری اور خودکش حملوں کا طوفان بھی پوری شدت سے جاری ہے۔ اقوام متحدہ سمیت متعدد عالمی ادارے اس بات کا اعتراف کرچکے ہیں کہ یمن کے عوام ان دنوں کسم پرسی کی زندگی گذار رہے ہیں، ضروریات زندگی میسر نہیں ہیں۔ چاروں اطراف سے پابندیوں کی وجہ سے یمنی عوام تک اشیائے خورد و نوش اور دوائیاں پہنچانے کا اہتمام نہیں۔ ایک طرف اس طرح کی مشکلات پیدا کی جاچکی ہیں تو دوسری طرف ہسپتالوں میں خودکش دھماکے اور بازاروں میں بمباری اور شہری علاقوں میں جنگی حملوں سے قتل و غارت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس تجاوز اور ظلم سے یمنی عوام میں بھی فطری طور پر غم و غصے اور نفرت کی شدت بڑھتی جا رہی ہے، جس کا نتیجہ کسی صورت امن یا محبت نہیں ہوگا۔

یمن میں حالات خراب ہونے کے بعد سعودی عرب کے بعض علاقوں میں مساجد اور بازاروں میں خودکش حملے کرائے گئے، جس کے نتیجے میں سینکڑوں عوام مارے جاچکے ہیں، مقصد یہ تھا کہ سعودی عرب کے حالات خراب ظاہر کئے جائیں اور کہا جائے کہ فرقہ وارانہ تنظیمیں یہاں داخل ہوکر ملکی سلامتی کے درپے ہوچکی ہیں اور حالات کی اس خرابی کے پس پردہ فلاں فلاں ملک یا تنظیم کا ہاتھ ہے۔ لہذا عالمی اداروں اور عالمی طاقتوں سے گذارش ہے کہ سعودی عرب کے تحفظ کے لئے زیادہ سے زیادہ محفوظ اور سخت اقدامات کئے جائیں۔ اسی تسلسل میں اطلاع یہ بھی ہے کہ پاکستان سے ایک اعلٰی سطح کا وفد بھی سعودی عرب کو بچانے کے لئے پہنچ چکا ہے، جس میں ملکی سلامتی کے شعبے میں مہارت رکھنے والے درجنوں ماہرین شامل ہیں۔ خودکش حملوں کے بعد ماہرین کا وہاں جانا کیا رنگ لائے گا، اس کا اندازہ صاحبانِ فکر و نظر بخوبی لگا سکتے ہیں۔

لیکن ہم بطور پاکستانی اور بلحاظ دردمند مسلمان اپنے پیارے حکمرانوں اور ان پر سایہ فگن قوتوں کی خدمت میں یہی عرض کریں گے کہ اب وقت گذرنے کے ساتھ بہت سارے مناظر واضح ہوچکے ہیں۔ بہت سارے دعوے ریت کی دیوار ثابت ہوچکے ہیں، بہت ساری پالیسیوں اور خطرات کی حقیقت واضح ہوچکی ہے اور بہت ساری ضروریات پوری ہوچکی ہیں۔ لہذا اب خدارا اپنی پالیسیوں اور اقدامات پر نظرثانی فرمائیں، تاکہ پاکستان امت مسلمہ میں اتحاد و وحدت ایجاد کرنے کی ذمہ داری پوری کرسکے۔ اسی طرح سعودی عرب کی بھی اسلامی اور اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ امت مسلمہ میں چراغ کی صورت زندگی بسر کرے، نہ کہ آتش کدے کی صورت۔ حرمین شریفین کی وجہ سے سعودی عرب جس مقام پر موجود ہے، اس کا تقاضا بنتا ہے کہ وہ امت مسلمہ کی روشن رہنمائی کرے اور امت میں متصادم گروہوں کے درمیان صلح و امن کا کام کرے، نہ کہ امت میں موجود اختلاف کو ہوا دینے کا، یا امت میں موجود فساد کو بڑھاوا دینے کا، یا امت میں قتل و غارت اور خودکش حملوں جیسی لعنتوں کو فروغ دینے کا۔ سب جانتے ہیں کہ چراغ ہر حال میں رہنمائی فراہم کرتا ہے اور آتش کدہ ہر حال میں جلانے کا کام کرتا ہے۔ کبھی کبھی نہیں بلکہ اکثر ایسے ہوتا ہے کہ آتش کدے اپنی ہی آگ میں جل جایا کرتے ہیں، جبکہ چراغ بجھ کر بھی دوبارہ رہنمائی دینے کے لئے موجود رہتے ہیں۔ لہذا اس سنگین مرحلے سے بچنا ہی دانشمندی ہے۔


خبر کا کوڈ: 468404

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/468404/یمن-تنازعہ-نظرثانی-کی-ضرورت-ہے

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org