1
Tuesday 23 Jun 2015 18:20

خلیجی تعاون کاؤنسل کی کارکردگی پر ایک نظر

خلیجی تعاون کاؤنسل کی کارکردگی پر ایک نظر
تحریر: عرفان علی

خلیجی تعاون کاؤنسل (Gulf Cooperation Council) یا جی سی سی GCC کا قیام 1980ء میں عمل میں آیا تھا۔ یہ علاقائی تنظیم مجھے اس لئے یاد آئی کہ دو روز قبل ریڈیو تہران نے اس تنظیم کے بارے میں انٹرویو لیا۔ میزبان کسی اور زاویہ نظر پر توجہ مرکوز کئے ہوئے تھے۔ انہوں نے پوچھا کہ خلیجی ممالک کے باہمی اختلافات کے باعث یہ تنظیم اپنے اہداف حاصل نہیں کر پائی؟ راقم الحروف نے عرض کیا کہ یہ تنظیم درحقیقت جن اہداف کے حصول کے لئے بنائی گئی، اس پر کامیابی سے عمل پیرا ہے، جبکہ اختلافات محض سرحدی تنازعات پر ہیں، جو اس تنظیم کے قیام سے قبل بھی موجود تھے۔ سب سے پہلے یہ حقیقت فراموش نہ کریں کہ یہ تنظیم جس علاقے ’’خلیج ‘‘ کی نمائندگی کی دعویدار ہے، اس علاقے کا مکمل نام خلیج فارس ہے، لیکن نہ تو اس تنظیم میں خطہ فارس یعنی ایران کو رکنیت دی گئی اور نہ ہی اس علاقے کے تاریخی نام خلیج فارس کو تنظیم نے قبول کیا، یعنی جزیرہ نما عربستان کے چھوٹے چھوٹے ممالک نے یہاں خود کو کٹر عرب قوم پرست ظاہر کرنے اور عجمی ملک ایران کو تنہا کرنے کی ناکام کوشش کی۔

عربوں کی ایک تنظیم عرب لیگ اور مسلمان ممالک کی تنظیم او آئی سی کی موجودگی میں جی سی سی کا بنایا جانا خود ایک مشکوک حرکت تھی۔ دوسرا اس کی ٹائمنگ یعنی انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد مذکورہ بالا حقائق سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ انقلاب اسلامی ایران کے خلاف ایک دانستہ سازش تھی۔ چونکہ یہ چھوٹے چھوٹے مصنوعی عرب جزیرہ نما ممالک امریکی سامراج اور تاج برطانیہ کے لے پالک تھے، اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ اصل سازش امریکی سامراج اور تاج برطانیہ کی تھی۔ بحرین میں 5th نیول فلیٹ یا بحری ہیڈ کوارٹر تھا۔ سعودی عرب میں اس وقت امریکی فوجی اڈوں کی بڑی تعداد تھی، جس کا ہیڈ کوارٹر بعد ازاں قطر منتقل کر دیا گیا۔ کویت اور متحدہ عرب امارات میں بھی امریکی فوجی اڈے موجود تھے اور ہیں۔ انہی ممالک کی شہہ پر صدام حکومت نے ایران پر جنگ مسلط کی تھی، تو خلیج فارس میں امریکی فوجی ایران پر حملے کیا کرتے تھے اور دوسرے ملکوں کے آئل ٹینکرز پر امریکی جھنڈے لگا دیئے گئے تھے، تاکہ امریکا کو ایران پر حملوں کا کھوکھلا جواز مل سکے۔ یہ داستان کسی حد تک پرنس بندر بن سلطان کی سوانح دی پرنس میں بھی تحریر کی گئی ہے۔

خلیجی تعاون کاؤنسل کے رکن ممالک میں خاندانی و موروثی بادشاہت مسلط ہے۔ ان شیوخ و شاہ کا جمہوریت سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ بنیادی انسانی حقوق کے لئے یہ ممالک نو گو ایریا تصور کئے جاتے ہیں۔ اقلیتی گروہوں کے حق تو بہت دور کی بات، اکثریتی آبادی کی رائے بھی قبول نہیں کی جاتی۔ بحرین کو دیکھیں، یہ مسلمان عرب ملکوں میں جعلی ریاست اسرائیل کا عملی نمونہ بنا دیا گیا ہے۔ یہاں کی اکثریت شیعہ عرب بحرینی آبادی پرامن جمہوری جدوجہد میں ہم وطن سنی عربوں کے ساتھ متحد ہے، لیکن آل خلیفہ نامی آمر شاہی خاندان نے یہاں غیر ملکیوں کو لا کر ملکی شہریت سے نواز دیا ہے، لیکن بحرین کے اپنے شہری، شہریت کے حق سے محروم کئے جا رہے ہیں۔ پرامن جمہوری تحریک کے روح رواں شیخ علی سلمان کو بلا جواز پابند سلاسل کر دیا گیا ہے۔ یہاں کے معروف اور قابل احترام عالم دین آیت اللہ شیخ عیسٰی قاسم کے گھر پر بھی شاہی فوج نے حملے کئے۔ عزاداری و میلاد کے اجتماعات پر پابندی لگا دی گئی۔ عزاداروں پر بھی حملے جاتے ہیں۔ انسانی حقوق کا دفاع کرنے والی تنظیموں کے رہنما بھی قید و بند کی صعوبتیں سہہ رہے ہیں اور کئی تو ایسے ہیں کہ جو خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔

بحرین کی طرح دیگر خلیجی ممالک میں بھی سیاسی حقوق نہ ہونے کے برابر ہیں۔ سعودی عرب کو ہی دیکھ لیں۔ اب وہاں وہابی تکفیری دہشت گرد شیعہ مساجد میں نماز جمعہ کے اجتماعات میں خودکش اور بم حملے کر رہے ہیں۔ ان خلیجی ممالک کی سرپرستی میں پلنے والے وہابی تکفیری دہشت گردوں نے عراق اور شام میں مقامات مقدسہ اور زائرین پر حملے کئے۔ ان خلیجی ملکوں کے شیوخ و شاہ امریکا کے اتحادی تھے اور ہیں اور امریکا فلسطین کی غاصب نسل پرست جعلی ریاست اسرائیل کا سرپرست ہے۔ ان ملکوں نے صہیونی ریاست سے بھی اسلحہ خریدا ہے اور ہیلری کلنٹن کے ذریعے امریکا سے سبسڈی پر اسلحہ اور دیگر شعبوں میں خریداریاں بھی کی ہیں۔ ایران کے خلاف صدام کی جنگ ہو، صدام کے بعد عراق کی حکومت اور عوام کے خلاف اور شام کی فلسطین دوست بشار الاسد حکومت کے خلاف تکفیریوں کی جنگ ہو، یہ سبھی جگہوں پر امریکا اور اسرائیل کے ایجنڈا میں رنگ بھرتے نظر آئے اور اس سال یمن کے مظلوم و بے بس عوام پر ان خلیجی ممالک نے بمباری شروع کی ہے اور رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں بھی یمن کے عرب مسلمانوں پر خلیجی عرب ممالک سعودی عرب کی قیادت میں بمباری میں مصروف ہیں۔

یہ انتہائی اختصار کے ساتھ خلیجی تعاون کاؤنسل کی کارکردگی کا ایک جائزہ ہے، جس سے ہم باآسانی یہ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ تنظیم ایک خائن اور خبیث تنظیم کے طور پر قائم کی گئی تھی، اور ان اہداف کو آج تک کامیابی سے حاصل کر رہی ہے۔ قطر اور سعودی اختلافات کی خبریں بھی آتی رہی ہیں، لیکن شام کی حکومت کے خلاف سازش ہو یا یمن کے خلاف جنگ، یہ ہر محاذ پر سعودی بادشاہت کے شانہ بشانہ کھڑا ہوا ہے۔ یہی حال متحدہ عرب امارات کا بھی ہے۔ بحرین کی پرامن جمہوری تحریک کو کچلنے کے لئے بھی سعودی اور اماراتی فوجی ٹینک بحرین پہنچے۔ امریکا کے ساتھ بھی ان خلیجی ممالک کے اختلافات کی جھوٹی خبریں پھیلائی جاتی ہیں اور ان ممالک کے سعودیہ کے ساتھ سرحدی تنازعات بھی بہت پرانے ہیں، لیکن امریکا کی سرپرستی میں یہ سب ان اختلافات کو بھلا کر اسلام و مسلمین سے خیانت کی راہ پر گامزن ہیں۔ انہی وجوہات کی بنیاد پر بندہ ریڈیو تہران سمیت ہر فورم پر یہ حقیقت برملا بیان کرتا آیا ہے کہ ان خائن عرب حکمرانوں کے آپس میں اور ان سب کے امریکا کے ساتھ اختلافات کی خبریں دانستہ طور پر پھیلائی جاتی ہیں، تاکہ مسلم اور عرب رائے عامہ کو منقسم رکھا جاسکے۔
خبر کا کوڈ : 468631
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش