0
Tuesday 23 Jun 2015 23:09

روزے کی حکمت اور فلسفہ

روزے کی حکمت اور فلسفہ
تحریر: سید حسین موسوی

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں: 
المعدة بيت كل داء، و الحمئة راس كل دواء [بحارالانوار، جلد 14]۔
ترجمہ: معدہ ہر بیماری اور درد کا گھر ہے اور پرہیز ہر شفا بخش دوائی کی بنیاد و اساس ہے۔ 

نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک اور مختصر حدیث میں تین چیزوں کے فوائد یوں بیان کئے ہیں:
اغزوا تغنموا و صوموا تصحوا و سافروا تستغنوا 
ترجمہ: جہاد کرو تاکہ مستغنی اور بے نیاز ہو جاو (جنگی مال غنیمت کے ذریعے)، روزہ رکھو تاکہ اپنی صحت و سلامتی کو یقینی بنا سکو اور سفر کرو تاکہ مال دار ہو جاو۔ 

ایک شہر سے دوسرے شہر یا ایک ملک سے دوسرے ملک انجام پانے والے تجارتی سفر ایک طرف تو مختلف انسانی معاشروں کی ضروریات زندگی برطرف ہونے کا باعث بنتے ہیں اور دوسری طرف ان کے ذریعے مختلف ممالک کی ترقی کی راہیں بھی کھل جاتی ہیں۔ آنحضور (ص) نے ان تین مختصر سے جملوں میں ہمارے سامنے جہاد، انسانی صحت اور معیشت کے بارے میں علم کے تین بڑے دروازے کھول دیے ہیں۔ 
 
اگر ہم روزے کا فلسفہ اور اس کی حکمت سے آشنا ہونا چاہتے ہیں اور اس کے مختلف فوائد سے باخبر ہونے کے خواہش مند ہیں اور اعتراض کرنے والوں کا مناسب انداز میں جواب بھی دینا چاہتے ہیں تو ہمیں نہج البلاغہ میں موجود امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کے حکیمانہ فرامین کی طرف رجوع کرنا ہو گا۔ امام علی علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں:
"خدا سے ڈرو اور دنیا میں بے راہروی کے برے انجام سے ہوشیار رہو، خداوند نماز اور زکات کے ذریعے اپنے باایمان بندوں کی حفاظت کرتا ہے (اس کے بعد آپ علیہ السلام روزے کے بعض فوائد اور حکمتیں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں) واجب دنوں (ماہ مبارک رمضان) میں پابندی سے روزہ رکھنے کی کوشش کرو تاکہ تمہارے ہاتھ پاوں اور جسم کے دیگر اعضاء خدا کی معصیت اور نافرمانی سے محفوظ رہ سکیں، تمہاری آنکھیں (نامحرم پر پڑنے سے) بچ سکیں اور تمہاری جان میں انکساری پیدا ہو سکے، تمہارے قلوب میں خضوع پیدا ہو سکے اور تکبر اور خودپسندی تم سے دور ہو سکے۔ جیسا کہ نماز میں رخسار کو زمین پر لگانا (سجدے کے وقت) فروتنی کی علامت ہے اور سات اعضاء کا زمین پر لگانا خدا کے حضور تعظیم اور چھوٹے پن کو ظاہر کرنے کیلئے ہے۔ اسی طرح روزہ پیٹ کو کمر کے ساتھ ملانے اور انکساری اور خود کو خدا کے حضور ناچیز سمجھنے کیلئے ہے۔ روزہ، نماز اور زکات کا فلسفہ اور حکمت خودسازی، تزکیہ نفس اور خدا کے حضور خشوع و خضوع ہے۔ روزہ ایسی چیز ہے جو انسان کو شیطان کے پنجوں سے نجات دلا سکتی ہے اور اسے ظاہری اور باطنی بیماریوں سے بھی محفوظ کرتی ہے۔ روزہ انسان کو عملی طور پر مزاحمت اور مقابلے کا درس دیتا ہے۔ روزہ ایسی عبادت ہے جس کے ثواب کا علم صرف خداوند کو ہے"۔ [نہج البلاغہ، خطبہ ۲۳۴]۔
 
خداوند متعال نے لوگوں کے اخلاص کو آزمانے کیلئے روزہ واجب کیا ہے۔ عمل میں اخلاص پیدا کرنے کیلئے روزہ انتہائی موثر ہے۔ جو شخص روزہ رکھتا ہے اور پورا دن ہر قسم کے کھانے پینے کی چیزیں پاس ہونے کے باوجود کھانے پینے سے گریز کرتا ہے، اس کا یہ عمل درحقیقت خداوند متعال کے حضور خلوص نیت اور اخلاص کا اظہار ہے۔ امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
و صوم شهر رمضان فانه جنة من العقاب [نہج البلاغہ، خطبہ ۱۱۰]۔
ترجمہ: "ماہ مبارک رمضان کے روزے عذب الہی کے سامنے ڈھال کی مانند ہیں"۔ 

یعنی روزہ انسان کے گناہوں اور معصیتوں کی بخشش اور غفران الہی کا باعث بنتا ہے اور جہنم کی آگ اور عذاب الہی سے نجات کا سبب قرار پاتا ہے۔ 
 
انسان کے جسم اور روح کی صحت و سلامتی میں بھوک کا کردار بہت اہم ہے۔ صحیح ہے کہ انسان شدید بھوک برداشت نہیں کر سکتا اور دین مبین اسلام میں بھی انسان کو بہت زیادہ بھوک برداشت کرنے پر مجبور نہیں کیا گیا، جیسا کہ بعض روایات میں آیا ہے: اللھم اعوذ بك من الجوع، یعنی خدایا، میں بھوک سے تیری پناہ مانگتا ہوں، لیکن ساتھ ہی اس بات پر تاکید کی گئی ہے کہ ایک حد تک بھوک انسان کی صحت کیلئے ضروری بھی ہے اور اس کے انسانی صحت کیلئے بہت زیادہ فائدے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف پرخوری اور بہت زیادہ کھانا کئی بیماریوں کا باعث بنتا ہے۔ صحت کے اصولوں کے مطابق کھانا کم کھانا چاہئے اور روایات میں ذکر ہوا ہے کہ جب کھانا کھانے لگو تو ابھی تھوڑی بھوک باقی ہو تو کھانا چھوڑ دو۔ ایسے افراد کو کم کھاتے ہیں، پیٹ بھر کر کھانے والوں سے زیادہ صحت مند اور تندرست ہوتے ہیں۔ 
 
امام جعفر صادق علیہ السلام کے صحابی ہشام بن حکم آپ سے روزے کی حکمت اور فلسفے کے بارے میں سوال کرتے ہیں تو آپ فرماتے ہیں:
انما فرض الله الصيام ليستوى به الغنى و القير و ذلك ان الغنى لم يكن ليجد مس الجوع، فيرحم الفقير، لان الغنى كلما اراد شيئا قدر عليه، فاراد الله تعالى ان يسوى بين خلقه، و ان يذيق الغنى مس الجوع و الالم ليرق على الضعيف و يرحم الجائع [وسائل الشيعه، ج 7، ص 3؛ من لا يحضره الفقيه، ص 73، ج 2]۔
ترجمہ: "بالتحقیق خداوند متعال نے روزے واجب کئے تاکہ اس کے ذریعے امیروں اور غریبوں میں مساوات قائم کر سکے اور ان میں برابری لا سکے۔ امیر لوگ جنہوں نے ہر گز بھوک کا مزہ نہیں چکھا، روزے کے ذریعے بھوک کا احساس کرتے ہیں اور اس طرح ان کے دلوں میں غریبوں کیلئے رحم پیدا ہوتا ہے۔ کیونکہ امیر لوگ جب بھی کچھ کھانا چاہتے ہیں ان کیلئے مختلف قسم کے لذیذ کھانے اور مشروبات میسر ہوتے ہیں۔ لہذا خداوند متعال نے ان پر روزہ واجب کیا تاکہ امیر اور غریب میں برابری اور مساوات قائم ہو سکے اور پیسے والے مسلمان افراد بھوکے افراد کے دکھ درد کو سمجھ سکیں اور اس طرح ان کے دلوں میں کمزور افراد کیلئے ہمدردی اور بھوکے افراد کیلئے رحم پیدا ہو سکے"۔ 

 
روزے کے سات اثرات:
امیرالمومنین امام علی علیہ السلام پیغمبر اکرم ص کی زبانی فرماتے ہیں:
ما من مؤمن يصوم شهر رمضان احتسابا الا اوجب الله تبارك و تعالى له سبع خصال: اولها يذوب الحرام من جسده، و الثانية يقرب من رحمة الله عزوجل، و الثالثة قد كفر خطيئة ابيه آدم، و الرابعة يهون الله عليه سكرات الموت و الخامسة امان من الجوع و العطش يوم القيمة و السادسة يطعمه الله عزوجل من طيبات الجنة، و السابعة يعطيه الله عزوجل برائة من النار، قال: صدقت يا محمد [خصال شیخ صدوق، صفحہ 386]۔
ترجمہ: "جو مومن بھی صرف خدا کی خاطر ماہ مبارک رمضان کے روزے رکھتا ہے، خداوند متعال اس کیلئے سات چیزیں واجب کر دیتا ہے: ۱۔ اس کے بدن میں موجود حرام اجزاء پگھل کر ختم ہو جاتے ہیں، ۲۔ وہ خدا کی رحمت سے نزدیک ہو جاتا ہے، ۳۔ اپنے روزے کے ذریعے اپنے والد حضرت آدم علیہ السلام کی خطا کا ازالہ کرتا ہے، ۴۔ خداوند متعال موت کی گھڑی اس کیلئے آسان کر دیتا ہے، ۵۔ قیامت کے دن بھوک اور پیاس سے نجات پاتا ہے، ۶۔ خداوند متعال اسے لذیذ بہشتی کھانے عطا کرے گا، ۷۔ خدا اسے جہنم کی آگ سے نجات دے گا۔ (سوال کرنے والے یہودی عالم دین نے جواب میں) کہا: آپ نے سچ کہا اے محمد"۔ 
 
امام علی رضا علیہ السلام کی نظر میں روزے کا فلسفہ:
امام علی رضا علیہ السلام رمضان شریف کے واجب روزوں کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"بالتحقیق لوگوں پر روزے فرض کئے گئے ہیں تاکہ وہ بھوک اور پیاس کی تکلیف کو محسوس کر سکیں اور اس طرح آخرت میں درپیش بھوک، پیاس اور غربت کی شدت کا احساس پیدا کر سکیں۔ روزہ دار کو چاہئے کہ وہ خدا کے حضور خاشع، بچھا ہوا اور منکسر مزاج بندے کے طور پر رہے اور اپنے عمل پر خدا سے ثواب اور اجر کی امید رکھے۔ وہ جان لے کہ اس کے اعمال اور زحمتوں کا حساب رکھا جائے گا اور انہیں نظرانداز نہیں کیا جائے گا۔ اسے ہر حال میں انجام پانے والی عبادت کی معرفت ہونی چاہئے۔ بھوک اور پیاس پر صبر سے کام لے۔ وہ نفسانی خواہشات کی مخالفت کے ذریعے خدا کے حضور عظیم ثواب کا مستحق قرار پا سکتا ہے۔ خداوند روزہ دار کی عبادت کا اجر و ثواب اسے ضرور دے گا۔ یہ پسندیدہ صفات دنیا میں روزہ دار شخص کیلئے اچھی خوشخبری ہیں اور ان کے اثرات اس کے چہرے اور عمل پر اچھی طرح قابل مشاہدہ ہیں۔ روزہ دار افراد کو چاہئے کہ وہ فقیر اور بے سہارا افراد کی مشکلات کو اچھی طرح پہچانیں اور خداوند متعال کے دستور کے مطابق ان کے حقوق ادا کریں"۔ [وسائل الشیعہ، جلد 7، صفحہ 4]۔
 
امام علی رضا علیہ السلام روزے کے فلسفے کے بارے میں پوچھے گئے ایک اور سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:
علة الصوم لعرفان مس الجوع و العطش ليكون العبد ذليلا مستكينا ماجورا محتسبا صابرا فيكون ذلك دليلا على شدائد الآخرة، علت روزه از براى فهميدن الم و درد گرسنگى و تشنگى است، تا بنده ذليل و متضرع و ماجور و صابر باشد و بفهمد شدائد آخرت را، مع ما فيه من الانكسار له عن الشهوات و اعظاله فى العاجل دليلا على الآجل ليعلم مبلغ ذلك من اهل الفقر و المسكنة فى الدنيا و الآخرة [علل الشرائع، شیخ صدوق رحمہ اللہ علیہ]۔
ترجمہ: "روزہ واجب کئے جانے کا فلسفہ انسان کو بھوک اور پیاس کی شدت چکھا کر آخرت کی مشکلات اور سختیوں سے آشنا کروانا ہے تاکہ وہ انکساری اور خشوع و خضوع حاصل کر سکے۔ اس کے علاوہ روزہ نفسانی خواہشات کو کم کرتا ہے اور انسان کو آخرت کی جانب متوجہ کرتا ہے تاکہ وہ دنیا اور آخرت میں فقر و فاقہ کا شکار لوگوں کی حالت سے واقف ہو جائے"۔  
 
روزہ افضل ترین عبادت اور اطاعت ہے کیونکہ اس کے ذریعے حیوانی خواہشات دب جاتی ہیں اور تمام الہی شریعتوں اور احکام کا مقصد بھی انسان کے اندر نفسانی خواہشات کو معتدل حالت میں لانا ہے۔ روزہ انسان کو تزکیہ نفس، روحانی پاکیزگی اور رذائل اخلاقی سے پاک ہونے میں مدد دیتا ہے۔ روزے کا اصل مقصد انسان کو کھانے پینے کی چیزوں سے محروم کرنا نہیں بلکہ اس کا حقیقی مقصد انسان کا اپنے نفس پر کنٹرول حاصل کرنے اور نفسانی خواہشات کو لگام دینے میں مدد فراہم کرنا ہے۔ جیسا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: 
الصوم جنة فاذا صام احدكم فلا يرفث و لا يجهل و ان امرء جادله او شاتمه فليقل انى صائم
ترجمہ: "روزہ ڈھال ہے، پس جب ایک انسان روزہ رکھتا ہے تو اسے چاہئے کہ بری بات نہ کرے اور بیہودہ فعل انجام نہ دے اور اگر کوئی اس سے بیجا بحث و مباحثہ کرے یا اسے گالی دے تو اسے کہے کہ میں روزے کی حالت میں ہوں"۔ 
 
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اس حدیث میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ روزہ درحقیقت انسان کو مختلف قسم کے انحرافات اور لغزشوں سے بچاتا ہے اور اس طرح انسان کو اپنے اندرونی دشمن یعنی نفس کے شیطان سے نجات دلاتا ہے۔ روزہ نفس کو بیجا خواہشات سے روک کر شیطان کو اس سے دور بھگاتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک اور حدیث میں فرماتے ہیں:
ان الشيطان ليجرى من ابن آدم مجرى الدم فضيقوا مجاريه بالجوع‏
ترجمہ: شیطان انسان کے اندر خون کی مانند داخل ہو کر جاری و ساری ہو جاتا ہے، پس بھوک یعنی روزے کے ذریعے اپنے اندر شیطان کے راستے کو بند کر دو"۔ 
 
حقیقت بھی یہی ہے کہ اپنے نفس پر کنٹرول کے بغیر روزہ رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اگر ایک انسان روزہ بھی رکھے اور ساتھ ہی ساتھ مختلف قسم کے حرام کاموں جیسے تہمت، جھوٹ، غیبت، اپنی خواتین کو نامحرم افراد کے سامنے بے پردہ حالت میں لانے، نفسانی خواہشات کی پیروی اور دوسرے انسانوں پر ظلم و ستم کا مرتکب بھی ہوتا رہے، تو ایسے روزے کا کیا فائدہ ہے؟ اس قسم کا روزہ بے فائدہ اور بے اثر ہو گا۔ حقیقی روزہ وہ ہے جو انسان میں اصلاح نفس اور خودسازی کا باعث بنے۔ روزے میں یہ صلاحیت موجود ہے لیکن ہم نے اس کی قدروقیمت اور اہمیت کو درک نہیں کیا۔ ایسے بے فائدہ روزوں کا سوائے بھوک پیاس برداشت کرنے کے اور کوئی فائدہ نہیں۔ 
 
روزے کا براہ راست تعلق خلوص نیت سے ہے:
نتیجہ یہ کہ روزہ اس وقت روزہ ہے جب وہ خلوص نیت کے ہمراہ ہو۔ امیرالمومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں: 
والصیام ابتلاء لاخلاص الخلق [نہج البلاغہ، صفحہ 1197]۔
ترجمہ: "خداوند متعال نے روزے کو لوگوں میں خلوص نیت کو آزمانے کیلئے فرض کیا ہے"۔
جو بھی خداوند متعال کے حضور خلوص نیت کا مظاہرہ کرے وہ ان تمام خصوصیات کا مالک بن جائے گا جن کا ذکر روزے کی حکمت اور فلسفے میں ہوا ہے۔ روزے کا روزہ دار شخص کی خلوص نیت سے براہ راست تعلق ہے۔ 
 
خبر کا کوڈ : 468665
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش