0
Thursday 25 Jun 2015 14:00

تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟

تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟
تحریر: سید اسد عباس تقوی

پاک پروردگار کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے کہ اس نے ہم کو ایک مرتبہ پھر رمضان المبارک کی صورت میں اپنی بے انتہا برکتوں، خوشبختیوں، نعمتوں، مغفرتوں اور رحمتوں کے بے پناہ مواقع سے ہمکنار کیا۔ وہ ذات لائق حمد و ثناء ہے، جس نے اپنے بندوں کی ہدایت کا سامان کیا اور ان کو اپنے قرب کی راہیں سجھائیں۔ یہ اس کا فضل و کرم ہے کہ وہ ہمیں ایسی رعائتیں اور مواقع مہیا کرتا ہے، جس سے ہم اپنی سابقہ روش پر نظرثانی کریں اور اپنے اصلاح احوال کی کوشش کریں۔ پورے معاشرے کا یک لخت اصلاح کے سفر پر گامزن ہو جانا ایک بہت بڑی تحریک ہے اور مسلسل تیس روز اس سفر کا جاری رہنا ایک بہت بڑا اصلاحی انقلاب ہے۔ رمضان المبارک میں عبادت و ریاضت، یاد الہی اور فکر اخروی کے بارے میں پیدا ہونے والے جذبات انسانوں کے لئے ایک مہمیز کا کام کرتے ہیں۔ بچے، بوڑھے اور جوان ایک دوسرے سے بڑھ کر اس ماہ کی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں۔ لوگ اس ماہ کے صیام سے جو اثرات حاصل کرنے کی توقع لگاتے ہیں وہ تو ایک جانب، کچھ اثرات ایسے ہیں جو روزہ، سحر، افطار، نماز کی پابندی، تلاوت قرآن، انفرادی و اجتماعی عبادات کے ذریعے خودکار طریقے سے انسانوں اور معاشروں پر مرتب ہوتے ہیں۔

یہ وہ ماہ عظیم ہے، جس میں اللہ کی بہت سی مخلوق کے سابقہ گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔ اس عظیم ماہ کی برکات کے سبب بہت سے لوگ ایک نئی الہی زندگی کا آغاز کرتے ہیں۔ دبخت ہیں وہ لوگ جو خدا کی اس عظیم نعمت کو اپنے مابین پائیں اور اس کا انکار کریں، یا اس ماہ کو ایک روایت کے طور پر گزار کر ماہ شوال میں اپنی سابقہ روش کی جانب لوٹ جائیں۔ اس ماہ کی عظیم برکات میں سے ایک برکت نزول قرآن کی مناسبت ہے۔ رمضان المبارک کو بجا طور پر ’’بہار قرآن‘‘ قرار دیا جاتا ہے۔ تلاوت قرآن کریم کے زمزمے اور اس پیغام الہی کی جانب توجہ جو سارا سال سننے اور دیکھنے کو نہیں ملتی، اس ماہ اپنے عروج پر ہوتی ہے۔ ضروری نہیں کہ یہ توجہ اور تلاوت کا انتظام پورے معاشرے پر ایک ہی طرح سے اثرات مرتب کرے، تاہم اس کتاب معجز نما کی جانب رجوع یقیناً بہت سے قلوب کو منور کرتا ہے۔ اگر ہم اپنے معاشرے میں مانوسیت قرآن کا جائزہ لیں تو جتنے لوگ اس ماہ میں کلام الہی کی جانب متوجہ ہو کر اس سے متصل ہوتے ہیں، ان کی تعداد شاید سارا سال بلکہ کئی برسوں کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ ہو۔ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ اس ماہ میں کلام الہی کے طفیل کتنے لوگ دنیاوی عنایات اور اخروی سعادتوں سے بہرہ ور ہوتے ہیں۔

اس ماہ مبارک میں غرباء و مساکین کے دکھوں کا احساس اور ان کی مدد کا شدید جذبہ بھی ایک نعمت الہی ہے، جو انسان کو حقیقی معنوں میں انسان بنانے کے لئے ازحد ضروری ہے۔ ممکن ہے چند لوگ دیکھا دیکھی یا کسی اور غرض کے تحت غرباء و مساکین پر اپنا مال صرف کرتے ہوں، تاہم معاشرے کا ایک بڑا حصہ اس سرگرمی میں مشغول ہوتا ہے، جس کے سبب ایک الہی معاشرے کے خدوخال ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ ہم اس ماہ میں اپنے اردگرد چند خرابیوں کو بھی پروان چڑھتے دیکھتے ہیں، جن میں گراں فروشی سر فہرست ہے۔ ہمارے معاشرے میں یہ روایت ہے کہ جیسے ہی اللہ کا یہ عظیم احسان یعنی ماہ صیام قریب آتا ہے، اشیاء ضرورت کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں۔ پھل، سبزی، دالیں، تیل، آٹا ہر وہ چیز جو ماہ رمضان المبارک میں روزہ داروں کے استعمال میں آسکتی ہے، اس کی قیمت تقریباً دوگنی ہوجاتی ہے۔ یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ کاروباری حضرات اس ماہ کے آنے سے پہلے ہی اپنے منافع کو بڑھانے کے لئے کچھ ذخیرہ اندوزی شروع کر دیتے ہیں، تاکہ سستی چیزیں خرید کر انہیں مہنگے داموں فروخت کیا جاسکے۔ اس سے بڑی بدبختی کوئی نہیں ہے کہ پورا معاشرہ روحانیت کی جانب گامزن ہے اور معاشرے کا ایک طبقہ اس روحانی ماحول میں بھی دنیا پرستی میں مرا جاتا ہے۔

افطار کے موقع پر عالی شان دعوتیں اور بے تحاشہ کھانے نیز پرتعیش محافل بھی روح رمضان کے نہ صرف خلاف ہیں بلکہ اس پورے روحانی نظام کو جس کا مقصد نفس کی ہوس کو کم کرکے انسان کی توجہ آخرت کی جانب مبذول کروانا ہے، کو تباہ کرنے کا باعث بنتی ہیں۔ بہر حال انسانوں کا ایک طبقہ اپنے تئیں نعمتوں کو برباد کرنے کی بھرپور کوشش کرتا رہتا ہے اور رحیم کریم پروردگار اسے نعمات سے نوازتا رہتا ہے کہ شاید ان میں سے کچھ لوگ اپنی راہ روش کی اصلاح کرلیں۔ خداوند کریم ہمیں اس ماہ مبارک کی حقیقی سعادتوں، خوشبختیوں اور رحمتوں سے نوازے اور ہمیں ایسا بندہ بنا دے جیسا وہ ہمیں دیکھنا چاہتا ہے۔ ضروری ہے کہ اس ماہ ہم یہ بات ذہن نشین رکھیں کہ ہماری بھوک اور پیاس خدا پر کوئی احسان نہیں ہے بلکہ اس کا یہ احسان ہے کہ اس نے ہمیں اپنی دنیا اور آخرت کو سنوارنے کا ایک سنہری موقع عنایت کیا اور یہ اس کا فضل ہے کہ وہ اس مشق کے نتیجے میں ہمارے گناہوں کو معاف فرما دے۔ یہ بھی اس کا فضل ہے کہ وہ ہمارے معاشرے کو ایک تحریک کے ذریعے اصلاح کی جانب گامزن کر دے۔
تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے
خبر کا کوڈ : 469160
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش