0
Thursday 25 Jun 2015 21:00

امیرالمومنین علی ابن ابیطالب (ع) کے سنہری اقوال(6)

امیرالمومنین علی ابن ابیطالب (ع) کے سنہری اقوال(6)
تحریر: حسین ناصر

* عہد و پیمان کی ذمہ داریوں کو ان سے وابستہ کرو جو میخوں جیسے (مضبوط) ہوں۔
* تم پر ان کی اطاعت لازم ہے جن سے ناواقف رہنے کی بھی تمہیں معافی نہیں۔
خداوند عالم نے اپنے عدل و رحمت سے جس طرح دین کی طرف رہبری و رہنمائی کرنے کے لئے انبیاء کا سلسلہ جاری کیا، اسی طرح سلسلہ نبوت کے ختم ہونے کے بعد دین کو تبدیل و تحریف سے محفوظ رکھنے کے لئے امامت کا سلسلہ شروع کیا، تاکہ ہر امام علیہ السّلام اپنے اپنے دور میں تعلیمات الہیہ کو خواہش پرستی کی زد سے بچا کر اسلام کے صحیح احکام کی رہنمائی کرتا رہے اور جس طرح شریعت کے مبلغ کی معرفت واجب ہے، اسی طرح شریعت کے محافظ کی بھی معرفت ضروری ہے اور جاہل کو اس میں معذور نہیں قرار دیا جاسکتا، کیونکہ منصب امامت پر صد ہا ایسے دلائل و شواہد موجود ہیں، جن سے کسی بابصیرت کے لئے انکار کی گنجائش نہیں ہوسکتی چنانچہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ
"جو شخص اپنے زمانے  کے امام کو نہ پہچانے اور دنیا سے چلا جائے، اس کی موت کفر و ضلالت کی موت ہے۔"

ابن ابی الحدید نے بھی امام کی اطاعت کا اعتراف اور منکر امامت کے غیر ناجی ہونے کا اقرار کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ
جو شخص حضرت علی علیہ السلام کی امامت سے جاہل اور اس کی صحت و لزوم کا منکر ہو، وہ ہمارے اصحاب کے نزدیک ہمیشہ کے لئے جہنمی ہے، نہ اسے نماز فائدہ دے سکتی ہے نہ روزہ، کیونکہ معرفت امامت ان بنیادی اصولوں میں شمار ہوتی ہے جو دین کے مسلمہ ارکان ہیں۔ البتہ ہم آپ کی امامت کے منکر کو کافر کے نام سے نہیں پکارتے بلکہ اسے فاسق، خارجی اور بے دین وغیرہ کے ناموں سے یاد کرتے ہیں اور شیعہ ایسے شخص کو کافر سے تعبیر کرتے ہیں اور یہی ہمارے اصحاب اور ان میں فرق ہے،مگر صرف لفظی فرق ہے کوئی واقعی اور معنوی فرق نہیں ہے۔

* اگر تم دیکھو تو تمہیں دکھایا جاچکا ہے اور اگر تم ہدایت حاصل کرو تو تمہیں ہدایت کی جاچکی ہے اور اگر سننا چاہو تو تمہیں سنایا جاچکا ہے۔
* اپنے بھائی کو احسان کے ذریعے سرزنش کرو اور لطف و کرم کے ذریعہ سے اس کے شر سے بچو۔
اگر برائی کا جواب برائی سے اور گالی کا جواب گالی سے دیا جائے، تو اس سے دشمنی کا دروازہ کھل جاتا ہے اور اگر برائی سے پیش آنے والے کے ساتھ نرمی و ملائمت کا رویہ اختیار کیا جائے تو وہ بھی اپنا رویہ بدلنے پر مجبور ہوجائے گا۔ چنانچہ ایک دفعہ امام حسن علیہ السلام بازار مدینہ میں سے گزر رہے تھے کہ ایک شامی نے آپ کی جاذب نظر شخصیت سے متاثر ہوکر لوگوں سے دریافت کیا کہ یہ کون ہیں؟ اسے بتایا گیا کہ یہ حسن ابن علی علیہماالسلام ہیں، یہ سن کر اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی اور اس نے آپ کے قریب آکر انہیں برا بھلا کہنا شروع کیا، مگر آپ خاموشی سے سنتے رہے، جب وہ چپ ہوا تو آپ علیہ السّلام نے فرمایا کہ معلوم ہوتا ہے کہ تم یہاں اجنبی ہو؟ اس نے کہا کہ ہاں ایسا ہی ہے، فرمایا کہ پھر تم میرے ساتھ چلو، میرے گھر میں ٹھہرو، اگر تمہیں کوئی حاجت ہوگی تو میں اسے پورا کروں گا اور مالی امداد کی ضرورت ہوگی تو مالی امداد بھی دوں گا۔ جب اس نے اپنی سخت باتوں کے جواب میں یہ نرم روی و خوش اخلاقی دیکھی تو شرم سے پانی پانی ہوگیا اور اپنے گناہ کا اعتراف کرتے ہوئے عفو کا طالب ہوا اور جب آپ سے رخصت ہوا تو روئے زمین پر ان زیادہ کسی کی قدر و منزلت اس کی نگاہ میں نہ تھی۔

* جو شخص اپنے آپ کو بدنامی کی جگہوں پر لے جائے تو پھر کیسے ممکن ہے کہ جو اس سے بدظن ہو اسے برا نہ کہے۔
* جسے اقتدار  مل جائے وہ جانبدار ی کرنے ہی لگتا ہے۔
* جو  اپنی ذاتی رائے سے کام لے گا، وہ تباہ و برباد ہوگا اور جو دوسروں سے مشورہ لے گا، وہ ان کی عقلوں میں شریک ہوجائے گا۔
* جو اپنے راز کو چھپائے رہے گا، اسے پورا قابو رہے گا۔
* سب سے بڑی موت فقیری اور غربت ہے۔
* جو ایسے شخص کا حق ادا کرے کہ جو اس کا حق ادا نہ کرتا ہو، تو وہ اس کی پرستش کرتا ہے۔
* خالق کی معصیت میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں ہے۔
* اگر کوئی شخص اپنا حق حاصل کرنے میں دیر کرے تو یہ کوئی عیب نہیں ہے، عیب کی بات یہ ہے کہ انسان دوسرے کے حق پر چھاپا مارے۔
* خود پسندی ترقی سے مانع ہوتی ہے۔

جو شخص کمال کا متلاشی ہوتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ ابھی وہ کمال سے دور ہے، اس سے منزل کمال پر فائز ہونے کی توقع کی جاسکتی ہے، لیکن جو شخص اس غلط فہمی میں مبتلا ہو کہ وہ تمام و کمال ترقی کے مدارج طے کرچکا ہے، وہ حصول کمال کے لئے سعی و طلب کی ضرورت محسوس نہیں کرتا، کیونکہ وہ خیال کرتا ہے کہ خود کمال کی تمام منزلیں ختم کرچکا ہے، اب اسے کوئی منزل نظر ہی نہیں آتی کہ اس کے لئے تگ و دو کرے۔ لہذا یہ خود پسند، برخود غلط انسان ہمیشہ کمال سے محروم رہتا ہے اور یہ خود پسندی اس کے لئے ترقی کی تمام راہیں بند کر دیتی ہے۔

* آخرت کا مرحلہ قریب اور (دنیا میں) باہمی رفاقت کی مدت زیادہ ہے۔
* آنکھ والے کے لئے صبح روشن ہوچکی ہے۔
* ترک گناہ کی منزل بعد میں مدد مانگنے سے آسان ہے۔
پہلی مرتبہ گناہ سے باز رہنا اتنا مشکل نہیں ہوتا، جتنا گناہ سے مانوس اور اس کی لذت سے آشنا ہونے کے بعد، کیونکہ انسان جس چیز کا دھنی ہوجاتا ہے، اس کے بجا لانے میں طبیعت پر بار محسوس نہیں کرتا، لیکن اسے چھوڑنے میں بہت دقت اور تنگی محسوس کرتا ہے اور جوں جوں عادت پختہ ہوتی جاتی ہے، ضمیر کی آواز کمزور پڑجاتی ہے اور توبہ میں دشواریاں حائل ہوجاتی ہیں۔ لہٰذا یہ کہہ کر دل کو ڈھارس دیتے رہتا ہے کہ
«پھر توبہ کر لیں گے» اور ایسا اکثر بے نتیجہ ثابت ہوتا ہے، کیونکہ جب ابتداء میں گناہ سے دستبردار ہونے میں دشواری محسوس ہو رہی ہے تو گناہ کی مدت بڑھ جانے کے بعد توبہ دشوار تر ہوجائے گی۔
خبر کا کوڈ : 469265
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش