0
Saturday 27 Jun 2015 05:00

کوٹلی امام حسین (ع) کی اراضی پہ ناجائز قابضین

کوٹلی امام حسین (ع) کی اراضی پہ ناجائز قابضین
اسلام ٹائمز۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں پولیس نے بلڈوزر کے ذریعے آپریشن کرتے ہوئے کوٹلی امام حسین (ع) کی اراضی کو واگزار کرا لیا ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں کوٹلی امام حسین (ع) واحد اراضی ہے، جو وقف نام امام حسین (ع) ہے، اور ڈی آئی خان میں اہل تشیع کا واحد قبرستان ہے۔ شہر کے مرکز اور سرکلر روڈ کے لب پر واقع ہونے کے باعث اراضی کی قیمت کروڑوں میں ہے۔ طویل عرصے سے قبضہ مافیا اس قیمتی اراضی پر قبضے کیلئے سرگرم ہے۔ مدرسہ جامعۃ النجف، عید گاہ، جنازہ گاہ، امامیہ مسجد، امام بارگاہ، گنج شہداء، قبرستان اسی اراضی پہ واقع ہیں۔ ڈی آئی خان سٹی سے تعلق رکھنے والے اہل تشیع نماز جمعہ، عیدین، نماز جنازہ یا محرم، چہلم اور مجالس عزا کے موقع پر یہاں آتے ہیں۔ پوری اراضی پہ اہل تشیع کی اکلوتی نمائندگی مدرسہ جامعۃ النجف کی صورت میں ہمہ وقت موجود ہے۔ مدرسہ کی صورت میں چوبیس گھنٹے اراضی پر موجودگی کے باوجود قبضہ گروپ کی جانب سے چاردیواری کی تعمیر کئی سوالات کو جنم دیتی ہے۔ ماضی قریب میں بھی اسی اراضی پر قبضہ مافیا نے پہلے کچے گھر بنائے تھے، جو کہ آج پختہ ہو چکے ہیں۔ یہاں تک کہ کوٹلی کی اراضی پر اہلسنت والجماعت کی ایک مسجد بھی تعمیر ہوچکی ہے، اور اس قبضہ مافیا کے خلاف کوئی کاروائی عمل میں نہیں آئی۔

گزشتہ ہفتے مدرسے کی عقبی طرف قبضہ مافیا کے گنڈہ پور گروپ کی جانب سے آہستہ آہستہ ایک کنال سے زائد حصے پر بھرائی کا کام شروع ہوا۔ مسلسل ایک ہفتہ بھرائی کے کام کے باوجود کوٹلی امام حسین (ع) کے اندر یا باہر اہل تشیع کی کسی تنظیم یا قیادت کو یہ خیال نہیں آیا کہ وہاں کس سلسلے میں تعمیراتی کام شروع ہے۔ مسلسل ایک ہفتے بھرائی کے بعد قبضہ گروپ نے راتوں رات وہاں چار دیواری کی تعمیر کرلی۔ چار دیواری کی تعمیر کے بعد بھی شہر میں ملت کی نمائندگی کی دعویدار کسی مذہبی تنظیم کو اس بارے نوٹس لینے کا تب بھی خیال نہیں آیا۔ کوٹلی امام حسین (ع) سے ملحقہ علاقے میں مقیم ایک شیعہ نوجوان نے چار دیواری کے قریب گنڈہ پور گروپ کے ایک ایسے مشتبہ شخص کو دیکھا جو کہ کالعدم سپاہ صحابہ کا کارندہ ہے۔ اس نوجوان نے اس بارے میں نہ صرف مدرسے کی انتظامیہ کو آگاہ کیا، بلکہ شہر میں موجود ملی تنظیموں سے وابستہ ذمہ دار افراد کو بھی اس بات کی اطلاع دی۔ اس اطلاع کی کھوج میں جب موقع کا جائزہ لیا گیا تو انکشاف ہوا کہ کالعدم سپاہ صحابہ کی پشت پناہی لیکر قبضہ گروپ نے نہ صرف مدرسے کے نام پر اپنے دفتر کے قیام کے لیے کوٹلی امام حسین (ع) کی اراضی پر قبضہ کرلیا ہے، بلکہ چار دیواری کی تعمیر بھی کر چکا ہے۔ بظاہر قبضہ گروپ کی یہ واردات مستقبل کے حوالے سے کئی خطرات و خدشات کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے تھی۔

کوٹلی کی زمین پر اس ناجائز قبضے کے خلاف اہل تشیع اکابرین کا ایک تین رکنی وفد اور ایک پانچ رکنی وفد یکے بعد دیگر ڈی پی او ڈیرہ صادق حسین بلوچ، کمشنر و ڈپٹی کمشنر سے ملا اور اس ناجائز قبضے کے خلاف فی الفور کاروائی کی درخواست کی۔ وفود کی ملاقاتوں اور درخواستوں کے باوجود پولیس اور انتظامیہ نے اس مسئلہ کے حل میں کوئی خاص دلچسپی نہیں لی۔ جس کے بعد مختلف ملی تنظیموں کے ذمہ دران کے مشترکہ اجلاس کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ اگر تین روز کے اندر انتظامیہ نے یہ ناجائز قبضہ ختم نہیں کرایا تو آئندہ نماز جمعہ کے بعد ڈی آئی خان کے اہل تشیع خود اس قبضے کے خلاف کاروائی کریں گے، اور اسے گرادیں گے، اور اگر اس دوران کوئی جانی و مالی نقصان یا تصادم ہوا تو اس کی ذمہ دار انتظامیہ ہوگی۔ شیعہ جماعتوں کی جانب سے یہ دباؤ کارگر ثابت ہوا۔ جس کے بعد ڈپٹی کمشنر ڈیرہ نثار احمد مہمند نے ڈی پی او صادق حسین بلوچ کو ایک لیٹر لکھا، جس میں ہدایت کی گئی کہ کوٹلی کی اراضی پر موجود ناجائز تعمیر کو فوری طور پر گرایا جائے۔ جس کے بعد ڈی پی او کی ہدایت پر تھانہ کینٹ کے ایس ایچ او منہاج سکندر بلوچ پولیس کی بھاری نفری کے ہمراہ نماز جمعہ سے قبل اس ناجائز تعمیر کو گرانے کیلئے پہنچے۔ 

بلڈوزر کے ساتھ آنے والی کینٹ پولیس کے ہمراہ محکمہ اوقاف کا عملہ بھی موجود تھا۔ پولیس نے چاردیواری کو گرانے کی کوشش کی تو ناجائز قابضین نے مزاحمت کی۔ جس پر پولیس نے موقع پر موجود مجید، ریاض، سہیل حسین، عبدالرحمن اور رفیق کو گرفتار کرلیا، جبکہ ایک شخص موقع سے فرار ہوگیا۔ بلڈوزر کی مدد سے ناجائز تعمیر کو گرا کر اراضی کو واگزار کرا لیا گیا۔ پولیس نے قابضین کے خلاف تھانہ کینٹ میں مقدمہ بھی درج کرلیا ہے۔ جس کے بعد نماز جمعہ کے خطبے میں شیعہ علماء کونسل کے صوبائی صدر علامہ محمد رمضان توقیر نے انتظامیہ کا شکریہ اداکیا۔ دوسری جانب شہر کی قدیمی جامعہ مسجد یاعلی (ع) المعروف مسجد لاٹو فقیر کے خطیب علامہ سید غضنفر عباس نقوی نے ناجائز قابضین اور مدرسہ جامعۃ النجف کی انتظامیہ پر شدید تنقید کی۔ سید غضنفر عباس نقوی کی تقریر گرچہ برخلاف موضوع اور انتہائی سطحی قسم کی تھی، تاہم انہوں نے اپنی تقریر میں یہ سوال ضرور اٹھایا کہ مدرسہ کی انتظامیہ مدرسہ کی چاردیواری کے اندر تو ذمہ داریوں کی ادائیگی کے حوالے سے چوکس ہے، جبکہ کوٹلی امام حسین (ع) کی دیگر اراضی سے غفلت برت رہی ہے۔ کیسے ممکن ہے کہ قریب ہی ناجائز تعمیر وجود میں آجائے اور انتظامیہ کو خبر نہ ہو۔ انہوں نے اپنی تقریر میں کوٹلی امام حسین (ع) کی چند دستاویزات بھی عوام کودیکھائی، کہ کل اراضی کتنی ہے اور قبضہ گروپ کتنی اراضی ہڑپ کر چکا ہے۔ واضح رہے کہ کوٹلی امام حسین (ع ) کی اراضی پر ایک پوری بستی وجود میں آچکی ہے۔ سید غضنفر عباس نقوی نے یہ پیش کش بھی کی کہ اگر عوام میرا ساتھ دیں، تو میں ناجائز قابضین سے اراضی واگزار کرانے کی قانونی جنگ لڑنے کو تیار ہوں۔ سید غضنفر عباس نقوی کے چند جملوں (جو علمائے کرام کی شان میں گستاخی کے مترادف تھے) پر نمازی مشتعل ہوگئے اور انہوں نے کھڑے ہوکر احتجاجاً کہا کہ خدارا جس مسجد کے آپ خطیب ہیں، اسی کی چھت ہی مرمت کرالیں تو کافی ہے۔ (واضح رہے کہ شہر کی اس قدیم اور مرکزی جامع مسجد کی عمارت انتہائی بوسیدہ ہے اور گرنے کے خطرے سے دوچار ہے۔)

کوٹلی امام حسین (ع) کی زمین پر کالعدم سپاہ صحابہ کی پشت پناہی سے متحرک قبضہ گروپ ان افراد پر مشتمل ہے، جو شہر میں ملت تشیع کی ٹارگٹ کلنگ میں براہ راست ملوث ہے۔ کوٹلی امام حسین (ع) سے ملحقہ آبادی سے تعلق رکھنے والے پولیس اہلکار نواز حسین کو بھی اسی گروپ کے دہشتگردوں نے قریشی موڑ کے نزدیک فائرنگ کرکے شہید کیا تھا۔ کوٹلی امام حسین (ع) ڈی آئی خان میں ملت تشیع کا وہ واحد مرکز ہے، جہاں دس محرم الحرام کے دن پورے شہر سے آنے والے تعزیے اور عزاداری کے جلوس اختتام پذیر ہوتے ہیں۔ ڈی آئی خان جو کہ طویل عرصہ تک اہل تشیع کی مقتل گاہ بنا رہا ہے اور آج بھی یہاں اہل تشیع عدم تحفظ کا شکار ہیں، ان کے لیے کالعدم دہشتگرد گروہ کے کارندوں کی کوٹلی امام حسین (ع) جیسی مرکزی جگہ پر قبضے کی یہ جسارت انتہائی تشویش کا باعث ہے۔ شہر کے حالات اور کوٹلی امام حسین (ع) کی اہمیت کے پیش نظر یہاں کالعدم تنظیم کے گٹھ جوڑ سے ناجائز تعمیر مستقبل میں بڑے خطرے کا سگنل ہے۔ اس ناجائز قبضے کے پس پردہ دہشتگردوں کے کیا عزائم ہو سکتے ہیں، ان کا ادراک کوٹلی امام حسین (ع) کے اندر اور باہر موجود شیعہ نمائندگی کی دعویدار تنظیموں کو بہرطور کرنا ہوگا، وگرنہ جو دشمن جنازوں کے اجتماعات کو، جلوس عزا، مجالس کو دن دیہاڑے خودکش حملوں، پلانٹڈ و دستی بموں اور ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنا سکتے ہیں اور ان مذموم کاروائیوں کے باوجود بھی تاحال ناکام و نامراد ہیں، تو کیا وہ مستقبل میں شہر میں ملت تشیع کے اس مرکزی اجتماع کو نشانہ بنانے کی کوئی منصوبہ بندی نہیں کر سکتے۔؟ جو شیعہ رہنماء اس خطرے کو خارج از امکان قرار دینے پر مصر ہیں، کوئی شک نہیں کہ وہ خواب غفلت کا شکار ہیں، اسی غفلت کا کہ جس کے سبب شہر میں سینکڑوں جوان، بچے، بوڑھے اندھی دہشتگردی کی بھینٹ چڑھ گئے، اور ان کے خانوادے آج بھی یہ سوال کرتے ہیں کہ ہمارے بچوں کا کیا قصور تھا، ماسوائے اس کے کہ وہ سب کے سب لبیک یاحسین (ع) کا ورد رکھتے تھے۔
خبر کا کوڈ : 469467
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش