1
0
Sunday 28 Jun 2015 22:30

محسنہ رسالتؐ علیھا السلام

محسنہ رسالتؐ علیھا السلام
تحریر: سیدہ سدرہ نقوی
مرکزی آرگنائزر  جے ایس او طالبات پاکستان


لوگ اپنے ہاتھوں کے بنائے ہوئے خداؤں کی پوجا میں مشغول و مگن اور معاشرہ گوناں گوں خرافات کا شکار ہے، ایسے میں ایک خاتون خداوند سبحان کی پرستش کرتی ہے اور اپنے گھر میں مذہبی نشستیں منعقد کرتی ہے۔ اہل دانش و حکماء کو دعوت دی جاتی ہے اور پند و نصائح کو بغور سننے والی ہستی پیغمبر آخرالزمان ؐ کے اوصاف کو پہچان جاتی ہے اور منتظر ہے کہ سرزمین حجاز پر یہ چاند کب نمودار ہوتا ہے۔ یہ ہستی کوئی عام ہستی نہیں بلکہ عرب کی مشہور صاحبہ ثروت، حکیمہ و عفیفہ، دور اندیش، صبر و شیکبائی کے اوصاف کی مالک خاتون خدیجہ بنت خویلد ہیں۔ جو شجرہ کے اعتبار سے نبی آخرالزماں ؐ کی رشتہ دار ہیں۔ ان کے والد خویلد کے جد عبدالعزی اور پیغمبر اسلام ؐ کے جد عبد مناف آپس میں بھائی تھے، جو کہ قصی بن کلاب کے بیٹے تھے۔ ایام جاہلیت میں جب بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیا جاتا، اس محترم ہستی کو "طاہرہ" اور "سیدہ قریش" کے لقب سے جانا جاتا۔ وہ زمانہ جب بت پرستی کا رواج عام تھا، یہ جناب خدیجۃ الکبریٰ معنوی و اخلاقی امور سے غافل نہ تھیں۔ آپ ؑ آسمانی کتب پر اعتقاد رکھتی تھیں اور جزیرۃ العرب کے مشہور عالم و دانشور اپنے چچیرے بھائی ورقہ بن نوفل سے رہنمائی لیتی۔

طواف کعبہ جناب خدیجہ ؑ کے معمولات میں سے تھا، اپنے معمول کے مطابق ایک تاریک رات جب کعبہ کے طواف اور اپنے پروردگار سے راز و نیاز کے بعد نصف شب گھر تشریف لائیں کہ آپ پر نیند طاری ہوگئی اور عالم خواب میں آپ نے دیکھا کہ سورج انسان کی شکل میں مکہ کے آسمان سے طلوع ہو کر رفتہ رفتہ انکے گھر کی جانب آرہا ہے، جب سورج ان کے گھر پہنچا تو وہاں رک کر اس نے تمام دنیا میں نور پھیلا دیا اور لوگ جوق در جوق اس سورج کو دیکھنے انکے گھر آرہے تھے۔ خدیجۃ الکبریٰ اس نیند سے بیدار ہوئیں تو اپنے خواب پر بہت متحیر ہوئیں اور سمجھ گئیں کہ یہ کوئی معمولی خواب نہیں اور اسکا تذکرہ اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل سے کیا۔ خواب سن کر ورقہ بن نوفل کے چہرے پر خوبصورت مسکراہٹ نمودار ہوئی اور وہ جناب خدیجۃ الکبریٰ سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں: "مبارک ہو اے چچا زاد بہن؛ اگر تمھارا خواب صادق ہوا تو نور نبوت ؐ تمھارے گھر آئے گا اور تمھارے گھر کا نور تمام عالم کو منور کر دے گا۔"

ایک مدت جناب خدیجہ طاہرہ اس تعبیر کی منتظر رہی، اس دوران جو بھی ان کی خواستگاری کے لئے آیا، آپ احترام کے ساتھ انکار کر دیتی تھیں، شائد خدیجہ آنے والے شخص میں اس نورانی خواب کی شباہت تلاش کرتی تھیں۔ اہل تشیع روایات کے مطابق آپ عقد رسول خدا سے قبل باکرہ تھیں۔ جناب خدیجہ ؑ کے نورانی خواب کی تعبیر کا وقت آیا، صفات جناب محمد ؐ نے خدیجہ طاہرہ ؑ کو آپ کی جانب متوجہ کیا اور آپ نے رسول خاتمؐ سے عقد کی پیشکش کی۔ جناب خدیجۃالکبریٰ علیھا السلام نے نہ صرف خود کو رسالت مآب ؐ کی خدمت میں پیش کیا بلکہ اپنا تمام مال و زر، خدام و کنیزائیں دین الٰہی کے لئے پیش کی۔ یہ واقعہ آج کی نسل کے لئے بہترین سبق ہے، جو محبت کے نام پر مذہب و اخلاقیات کی تمام حدود توڑنے کو تیار نظر آتی ہے۔ خدیجۃ الکبریٰ محسنہ رسالتؐ کی حیات طیبہ تمام خواتین بالخصوص عصر حاضر کی خواتین کے لئے مشعل راہ ہے۔

وہ زمانہ کہ جب بیٹیاں گالی تصور کی جاتیں تھیں، خدیجہ سلام اللہ "سیدہ قریش " اور "طاہرہ" جیسے القابات سے نوازی جاتیں، وہ زمانہ کہ جب عورت فرسودہ رسومات میں قید کر دی جا رہی تھی، خدیجۃ الکبریٰ ایک عظیم تاجرہ کی حیثیت سے شہرت پاتی ہیں۔ جس زمانے میں عورت ایک بے مول کنیز سمجھی جاتی، وہاں خدیجۃ الکبریٰ اپنی شادی کا پیغام بھیج کر ایک نئی رسم قائم کر رہی ہیں، لیکن اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ عرب میں خدیجہ کو بطور خاتون احترام و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، انکی عزت و توقیر میں کوئی فرق نہیں آتا۔ یہ کردار خدیجۃ الکبریٰ ہے جو دشمن کو بھی انکی تعظیم پہ مجبور کر دیتا ہے، معرفت خدا رکھنے والی اور تفکر و تدبر کرنے والی خاتون کی سیرت ہمیں اسی بات کا درس دیتی ہے کہ معرفت الٰہی و تقویٰ کو اپناتے ہوئے خواہشات نفسانی کی پیروری ترک کرنی ہوگی۔ آج ملت کو اسوہ خدیجۃ الکبریٰ پر چلنے والی بیٹیوں کی ضرورت ہے۔
خبر کا کوڈ : 469928
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Ruqia bibi snjwal cantt
Pakistan
Informative .
ہماری پیشکش