0
Tuesday 30 Jun 2015 12:10

آلِ سعود کی عالمِ اسلام کیخلاف ریشہ دوانیاں!(1)

آلِ سعود کی عالمِ اسلام کیخلاف ریشہ دوانیاں!(1)
تحریر: طاہر یاسین طاہر

یہ امر واقعی ہے کہ آلِ سعود نے نجدی ’’اسلام‘‘ کی اشاعت کے لئے محمدی (ص) اسلام اور اس کے آثار کو بے طرح مجروح کیا۔ سعود اور عبد الوہاب نجدی کا گٹھ جوڑ اور انھیں انگریزوں کی حمایت ایک تاریخی حقیقت ہے۔ حجازِ مقدس کا نام تبدیل کرنا، مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ پر چڑھائی اور اہلبیت رسول (ص) اور اصحابِ رسول کے مزارات مقدسہ کی بے حرمتی کرنا آلِ سعود اور اہلِ نجد کا ایسا نا مسعود فعل ہے جس نے اہلِ ایمان کو بہت دکھ دیا۔ خیال رہے کہ 1924ء میں مکے اور 1925ء میں مدینہ و جدہ پر قبضہ جمانے کے بعد نجدی قبیلے کے سردار نے 1926ء میں نجد و حجاز کی بادشاہت کا اعلان کر دیا تھا۔ یہاں سے سعودیوں کے دور کا آغاز ہوتا ہے اور یہ نا مسعود دور ابھی تک جاری ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ رسول (ص) کے وقتوں میں جس قبیلے نے سب سے آخر میں اسلام قبول کیا اور پھر آپ (ص) کے وصال کے بعد فوراً بعد ہی جو قبیلہ اسلام سے منحرف ہوگیا تھا، وہ یہی سعودیوں کا قبیلہ تھا۔(1) حجاز مقدس پر قبضہ کرنے کے بعد سعودیوں نے پہلا کام یہ کیا کہ حجاز مقدس کے طول و عرض سے رسول پاک (ص) کے نام کو محو کرنا شروع کر دیا، مسجدِ نبوی، خانہ کعبہ کی مسجد اور اس کے علاوہ جہاں جہاں اور جس جس عمارت اور مسجد پر محمد (ص) کا نام نہایت ہی فن اور محبت سے کندہ تھا اس کو نہایت بھونڈے پی سے مٹا دیا گیا۔(2)

سعود کے ہاتھوں مزارات کا انہدام:
1207 ہجری میں محمد بن سعود کا بیٹا سعود احساء پر حملہ آور ہوا اور وہاں خونریزی اور ہلاکت کا بدترین مظاہرہ کیا۔ عثمان بن بشر نجدی لکھتے ہیں کہ ’’جب اہلِ احساء پر مظالم کی انتہا ہوگئی تو ان کے دلوں میں سعود کی فوجوں کا خوف بیٹھ گیا۔ سعود نے احساء کے پانی کے ذخیرہ پر مقامِ طف پر قبضہ کر لیا, یہاں تک کہ اہلِ احساء کے سردار مجبور ہو کر سعود کے پاس آئے اور (ناچار) اہلِ احساء کی طرف سے بیعت کی پیش کش کی۔ سعود شہر کے باہر ایک چشمہ کے پاس بیٹھ گیا اور لوگوں نے اس کے ہاتھ پر بیعت کی۔ پھر نجدی افواج نے احساء کا رخ کیا اور وہاں جس قدر مزارات پر گنبد بنے ہوئے تھے, ان سب کو گرا دیا اور تمام آثار مٹا ڈالے۔ اسی سال سعود نے حضرت امام حسنؑ، حضرت طلحہ اور دیگر صحابہ کے مزارات کو بھی منہدم کر دیا اور اس سلسلہ میں بے شمار مسلمانوں کا بے دریغ قتل عام کیا۔ عثمان بن بشر نجدی لکھتے ہیں کہ ’’پھر سعود جامعہ زبیر پر حملہ آور ہوا اور جامع مسجد کے قرب و جوار میں جس قدر مزارات اور گنبد تھے وہ سب منہدم کرا دیئے۔ حتیٰ کہ امام حسن ؑ اور حضرت طلحہ کے مزارات کے گنبد بھی گرا دیئے۔ سقوط درعیہ کے بعد حضرت امام حسن ؑ اور حضرت طلحہ کے مزارات پر پھر گنبد بنا دیئے گئے۔ سعود نے دوبارہ نجدی فوجوں کو حکم دیا، انھوں نے دوبارہ تمام قبور کو منہدم کر دیا اور سینکڑوں مسلمانوں کو قتل کر دیا۔(3)

کربلا پر حملہ:
عثمان بن بشر نجدی لکھتے ہیں کہ1216ہجری میں سعود اپنی طاقتور فوجوں کے ساتھ سرزمینِ کربلا پر حملہ آور ہوا اور ذیقعدہ میں نجدیوں نے بلاد حسین ؑ کا محاصرہ کر لیا اور تمام گلیاں اور بازار اہالیانِ شہر کی لاشوں سے پٹے پڑے تھے۔ قتلِ عام سے فارغ ہونے کے بعد امام حسین ؑ کی قبر مبارک کا قبہ منہدم کر دیا۔ روضہ مبارک کے اوپر جو زمرد، ہیرے، جواہرات اور یاقوت کے نقش و نگار تھے وہ سب لوٹ لئے۔ اس کے علاوہ شہر میں لوگوں کے گھروں میں جو مال و متاع، اسلحہ، کپڑے حتیٰ کہ چارپائیوں سے بستر تک اتار لئے۔ یہ سب مال و متاع لوٹ کر اور تقریباً 2 ہزار مسلمانوں کا قتل کرکے سعود کا لشکر واپس نجد کو لوٹ آیا۔(4)

مسلمانوں کی تکفیر:
شیخ نجدی اپنے مسلک کے پیروکاروں کے سوا تمام مسلمانوں کو کافر قرار دیتا تھا اور ان کے قتل اور مال لوٹنے کو جائز قرار دیتا تھا۔ مسلمانوں کی تکفیر اور ان کے قتل عام کے جواز میں شیخ نجدی خود لکھتا ہے کہ ’’اور تم کو معلوم ہوچکا ہے کہ ان لوگوں (مسلمانوں) کا توحید کو مان لینا انھیں اسلام میں داخل نہیں کرتا اور ان لوگوں کا نبیوں اور فرشتوں سے شفاعت طلب کرنا اور ان کی تعظیم سے اللہ تعالٰی کا قرب چاہنا وہ سبب ہے جس نے ان کے قتل اور اموال کے لوٹنے کو جائز کر دیا ہے۔(5) یہ وہی شیخ نجدی ہے جس نے اپنے حواریوں کے ہمراہ  1205 ہجری میں حرمین کریمین پر حملہ کر دیا تھا، یہاں تک کہ حرمین کریمین پر نجدیوں کا قبضہ ہو گیا تھا۔(6) شیخ نجدی کہا کرتا تھا کہ ’’کسی فاحشہ عورت کے کوٹھے پر ستار بجانے میں اس قدر گناہ نہیں، جس قدر گناہ مسجد کے میناروں میں حضور (ص) پر درود پاک پڑھنے میں ہے، اس نے ایک خوش الحان نابینا مؤذن کو اس لئے قتل کرا دیا کہ وہ بلند آواز میں درود شریف پڑھا کرتا تھا۔(7)

حرم مکہ و مدینہ منورہ کی بے حرمتی:
اپریل 1803ء میں سعود اپنی فوجوں کے ہمراہ مکہ میں داخل ہوگیا، زیارت گاہوں کی بے حرمتی کی گئی، حرم کعبہ کے غلاف پھاڑ دیئے گئے، مکہ مکرمہ کی فتح یابی کے بارے میں نجدی عالم نواب صدیق حسن خان لکھتے ہیں کہ ’’سعود بن عبدالعزیز نے مکہ کے سرداروں اور شریفوں کو قتل کیا، کعبہ کو برہنہ کر دیا گیا اور وہابیت قبول کرنے کے لئے اہلِ مکہ پر جبر کیا گیا۔ 1803ء کے اواخر میں مدینہ منورہ بھی سعود بن عبدالعزیز کے قبضہ میں آگیا۔ مدینہ منورہ میں اس نے دیگر مقبروں کے ساتھ خود نبی اکرم (ص) کے مزار مقدس کو بھی سلامت نہ چھوڑا۔ آپ (ص) کے مزار کی جواہر نگار چھت کو برباد کر دیا اور اس چادر کو اٹھا دیا جو آپ (ص) کے مزار اقدس پر پڑی رہتی تھی۔ اہلِ مدینہ کو جذیہ دینے پر بھی مجبور کیا گیا اور ان پر بے پناہ ظلم کیا گیا۔(8)
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 470327
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش