حسین علیہ السلام وارث حق
16 Dec 2010 14:00
اسلام ٹائمز: انسانی نجات کی کشتی کو کسی سمندر کی ضرورت نہیں، وہ امام حسین علیہ السلام کی یاد میں بہائے گئے آنسووں کے قطروں پر حرکت کرے گی، وہ اشک جو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے نکلتے ہیں وہ دل و جان کو پاک کر کے خداوند عالم کے حضور پہنچ جاتے ہیں۔
تحریر: آر اے سید
اسلام ٹائمز- انسانی تاریخ میں ایسے واقعات کی تعداد شاید انگلیوں پر گنی جا سکے جسکے بارے میں ہر مکتب، مسلک، مذھب اور دین کے دانشوروں نے اپنے اپنے انداز فکر کے مطابق لکھا ہو، ان گنے چنے واقعات میں کربلا اور قیام امام حسین علیہ السلام ایک ایسی حقیقت ہے جس پر سب سے زیادہ لکھا گیا ہے۔
قیام امام حسین علیہ السلام کے اھداف سے لے کر انسانیت کی ذمہ داری تک کے موضوعات پر اہل فکر و نظر نے اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس عظِم واقعہ میں شریک امام حسین علیہ السلام اور انکے ساتھیوں کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ واقعہ کربلا کو سمجھنے اور اسکے حقیقی اھداف تک رسائی کیلئے کچھ مقدمات اور ذہنی آمادگی ضروری ہے۔ کربلا کے واقعات کیسے ہوئے اس پر بہت لکھا اور پڑھا گیا لیکن یہ سانحہ کیوں ہوا، اسکے بارے میں جو آگہی، آمادگی، دینی غیرت و حمیت اور دین شناسی چاہئے اسکا فقدان اس عظیم کام کے راہ میں حائل ہوتا رہا۔
واقعہ کربلا میں امام حسین علیہ السلام کی لازوال قربانی نے انسانی زندگی کے مفاہیم کو نئے معانی بلکہ اگر یوں کہا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا کہ حقیقی مفہوم عطا کر دیا۔ امام حسین علیہ السلام نے زندگی و حیات، موت و شہادت، دنیا و آخرت، عزت و شرافت، ذلت و عظمت، آزادی و اسیری، شکست و فتح، طاقت و قدرت، سعادت و سیادت اور حق و باطل کے مفاہیم کو حقیقی معانی عطا کئے اور اپنے عمل و کردار سے ان کو تاریخ میں ہمیشہ کیلئے ثبت کر دیا۔ تاریخ میں انسانیت کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ مذکورہ مفاہیم کو سطحی اور بعض اوقات بالعکس سمجھنا ہے۔
زندگی و حیات کیا ہے؟، امام حسین علیہ السلام نے سخت ترین حالات میں بھی یہ کہ کر سوئے ہوئے ضمیروں کو جگانے کی کوشش کی ہے اور کہا ہے کہ ظلم اور ظالموں کے ساتھ زندگی ننگ و عار ہے۔ یعنی زندگی کا حقیقی مفہوم عزت و شرافت کے ساتھ آزاد رہنا ہے۔ امام حسین علیہ السلام اس ظاہری زندگی کو موت سے تعبیر کرتے ہیں جو ظلم کی حمایت اور ظالموں کے خلاف قیام سے عاری ہو۔ امام حسین علیہ السلام عزت و منزلت کو ظاہری اقتدار اور دنیوی طاقت میں محدود نہیں سمجھتے بلکہ وہ تلوار پر خون کی کامیابی اور آزادی و حریت کو عزت و منزلت سمجھتے ہیں۔
آپ کے ہاں شکست و فتح کا تصور بھی یکسر مختلف ہے۔ آپ انسانوں کے لشکروں اور فوجی ساز و سامان کے ذریعے دشمن کے بدن کو ختم کر کے فتح حاصل کرنے کو کامیابی نہیں سمجھتے بلکہ آپ قلب و ذہن کو شکست دے کر اور ان میں موجود باطل نظریات کو ختم کر کے ضمیر اور وجدان کی بیداری کو فتح اور کامیابی سمجھتے ہیں۔
آپ کے ہاں آزادی اور اسیری کا مطلب انسانی بدن کی آزادی یا اسکا قید و بند میں ہونا نہیں ہے بلکہ آپ قلب و نظر کی آزادی اور حریت فکر کو حقیقی آزادی قرار دیتے ہیں جبکہ ظاہری طور پر آزاد ہونے کے باوجود فکری اور نظریاتی طور پر خودمختار نہ ہونے کو آزادی نہیں بلکہ اسیری سے تعبیر کرتے ہیں۔ آپ نے کربلا کے میدان میں فتح و شکست اور عزت و شرافت کے جو معیار مقرر کئے ہیں اور اسکے جو حقیقی مظاہر سامنے لائے ہیں اس سے باآسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے کربلا میں یزید اور یزیدیت کو ایسی شکست فاش دی کہ سینکڑوں سال گزرنے کے باوجود آج بھی کوئی اس ظاہری فاتح لشکر کے ساتھ شامل ہونے کو تیار نہیں جبکہ دوسری جانب آج بھی ہر باضمیر انسان "یا لیتنا کنا معکم فنفوز فوزاً عظیماً" کا نعرہ بلند کر رہا ہے اور اس ظاہری شکست خوردہ لشکر میں شامل ہو کر عظیم کامیابی پر فائز ہونے کیلئے بے چین ہے۔
کربلا کے لق و دق صحرا میں حسینی لشکر کے تمام افراد کی شہادت اور اہل خانہ کی اسیری آج بھی کیوں نمونہ عمل بنی ہوئی ہے؟، وہ کونسا عنصر ہے جو اس واقعہ کو ہمیشہ کیلئے ایک آئیڈیل اور مثالی بنا گیا ہے؟، اس سانحے میں ایسے کونسے عوامل تھے جو اسے ہر آنے والے زمانے میں روشن سے روشن تر کر رہے ہیں؟۔
تاریخ میں ایسی ہزاروں بلکہ لاکھوں جنگیں ہوں گی جس میں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں افراد لقمہ اجل بن گئے جبکہ کربلا میں صرف 72 افراد کی شہادت ہوئی۔ ان 72 افراد کی شہادت میں ایسا کونسا عامل پوشیدہ ہے کہ تاریخ کا ہر باضمیر انسان ان افراد کے ساتھ شامل ہونے کو اپنے لئے باعث فضیلت سمجھتا ہے اور ببانگ دہل یہ کہتا نظر آتا ہے:
خبر کا کوڈ: 47039