QR CodeQR Code

جی بی الیکشن میں ایم ڈبلیو ایم کی ناکامی کی وجوہات

5 Jul 2015 16:05

اسلام ٹائمز: ایم ڈبلیو ایم کی ناکامی کی ایک وجہ گلگت بلتستان کی حساسیت بھی ہے۔ گلگت بلتستان کی اسٹبلشمنٹ اور حساس ادارے اس بات کے قائل نظر نہیں آتے کہ اس خطے میں کوئی شیعہ یا پرو شیعہ جماعت حکومت کرے۔ اس کی اصل وجہ ان اداروں میں موجود متعصب افراد اور مخصوص مائنڈ سیٹ کے حامل افراد کے نظریات اور خواہش کے علاوہ پاک چین اقتصادی راہداری ہے۔ ماضی کے تجربات کی روشنی میں حکومت پاکستان بالخصوص آرمی متحمل نہیں ہے کہ گلگت بلتستان میں اور شاہراہ قراقرم پر پھر خونی کھیل کھیلا جائے اور دہشتگردی کے واقعات رونما ہوں، جس سے یہ اقتصادی راہداری متاثر ہو۔ اس عمل کے لئے دیامر، کوہستان اور ان تمام حساس علاقوں میں جہاں دہشتگردوں کے حوالے سے نرم گوشہ رکھنے والے موجود ہیں، شاہراہ نے وہیں سے گزرنا ہے، لہذا ایسی حکومت کو سامنے لانے کو بہتر سمجھا گیا، جو ان عناصر کے لئے کسی حد تک قابل قبول ہو۔


رپورٹ: مظاہر موسوی

گلگت بلتستان انتخابات 2015ء کے نتائج نے ہر خاص و عام کو ورطہء حیرت میں ڈال دیا ہے اور نتائج کے اعلان کے بعد وفاقی حکومت اور اسلامی تحریک کے علاوہ تمام سیاسی پارٹیاں تاحال دھاندلی کا ڈھنڈورا پیٹنے میں مصروف ہیں جبکہ دوسری جانب مسلم لیگ نون سادہ اکثریت کیساتھ حکومت سازی کے مراحل مکمل کرنے میں مصروف ہے اور مسلم لیگ نون نے جہاں نتائج اپ سیٹ کیا ہے، وہاں اسکے لئے چیلنجز بھی سخت نظر آتے ہیں۔ گلگت بلتستان کے انتخابات میں تقریباً ساری جماعتوں کو شدید دھچکا لگا، تاہم سب سے بڑا دھچکا پاکستان پیپلز پارٹی کو لگا جو کہ سابقہ پانچ سال حکومت کرنے کے باوجود صرف ایک سیٹ لینے میں کامیاب ہوسکی۔ انکے علاوہ ملکی سیاسی افق پر طلوع ہونے والی جماعت مجلس وحدت مسلمین پاکستان کو بھی گلگت بلتستان کے انتخابات نے بھی دھچکا دیا اور انکی توقعات کے برخلاف جی بی انتخابات میں صرف دو سیٹیں لینے میں کامیاب ہوئی جبکہ ریاستی اداروں، عوامی رائے عامہ اور صحافتی نکتہ نگاہ سے ایم ڈبلیو ایم کو کم ازکم چھ سیٹیں ملنے کے امکانات واضح تھے لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ اس کے باوجود انکے لئے بہت اہم بات یہ ہے کہ ایم ڈبلیو نے بارہ حلقوں میں امیدوار کھڑے کئے اور انتخابات لڑا۔ ایم ڈبلیو ایم صرف دو سیٹیں جیتنے کے باوجود گلگت بلتستان میں مسلم لیگ نون کے بعد سب سے زیادہ ووٹ لینے والی جماعت بن کر ابھری ہے۔

تفصیلات کے مطابق جی بی الیکشن میں پاکستان مسلم لیگ نون نے کل 109200، ایم ڈبلیو ایم نے 38619، پی ٹی آئی نے 29319، پی پی پی نے 23202، اسلامی تحریک نے 15756، جے یو آئی نے 10208 ووٹ حاصل کئے۔ ایم ڈبلیو ایم بھی دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح جی بی میں قبل از انتخابات، دوران انتخابات اور بعد از انتخابات ہونے والی دھاندلی اور نواز لیگ کی جانب سے ریاستی طاقت کے استعمال کو اپنی ناکامی کی وجہ گردانتی ہے۔ انکا کہنا ہے کہ نگران حکومت، نگران وزیراعلٰی، گورنر اور انتظامی سطح پر لیگی افراد کا تقرر کیا گیا اور اپنے ہی سابق چیف آرگنائزر کو چیف الیکشن کمشنر کے طور پر تعینات کرنا، وزیراعظم پاکستان کے گلگت بلتستان کے دورہ جات اور اربوں روپے کے اعلانات نے عوامی رائے عامہ کو تبدیل کر دیا۔ انکا یہ بھی کہنا ہے نتائج مرتب کرتے وقت مختلف مقامات پر دھاندلی کی گئی۔ ان الزمات میں کس حد تک جان ہے، وہ تو عدالتی فیصلے کے بعد واضح ہو جائے گا، جن حلقوں میں ایم ڈبلیو ایم نے کیس دائر کئے ہیں۔ تاہم تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی، ایم ڈبلیو ایم کی بھی چند کمزرویاں انکی ناکامی کی وجہ بنی ہیں، جن پر تفصیل سے گفتگو کرنے کی ضرورت ہے۔

دشمن تراشی:

ایم ڈبلیو ایم نے گلگت بلتستان میں تمام سیاسی جماعتوں سے معاندانہ رویہ روا رکھا۔ پاکستان مسلم لیگ نون کو دہشتگردوں کی پشت پناہ قرار دیا جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کو بھی جی بی میں ہونے والی بدعنوانیوں کا ذمہ دار قرار دیا۔ اسی طرح پاکستان تحریک انصاف سے بھی خاطر خواہ اتحاد نہیں بن سکا۔ اگرچہ ان کا یہ عمل اصولی تھا، لیکن سیاسی میدان میں اسے ہوشیاری نہیں سمجھا جاتا۔ جیسا کہ اسلامی تحریک نے پاکستان مسلم لیگ نون کے کئی امیدواروں کو جتوانے میں براہ راست کردار ادا کیا، بعض جگہوں پر بلواسطہ جتوایا اور ایک دو حلقوں میں پیپلز پارٹی کی حمایت کی۔ انہوں نے اسکردو حلقہ تین میں مسلم لیگ کے حق میں شیخ شمس الدین کو، حلقہ پانچ میں مسلم لیگ نون کے اقبال حسن کے حق میں علامہ سید اکبر شاہ جبکہ اسکردو حلقہ چھ میں پیپلز پارٹی کے امیدوار عمران ندیم کے حق میں اپنے امیدواروں کو دستبردار کرایا اور انکی قیادتوں نے انکے حق میں کمپین بھی چلائی، جس کے نتیجے میں انہیں کم از کم مخالفین کا سامنا ہوا۔ اسکے برعکس ایم ڈبلیو ایم نے زمین اور آسمان دونوں کو دشمن بنالیا۔

اسی طرح ایم ڈبلیو ایم کو گلگت بلتستان کی انتظامیہ، حساس ادارے اور آرمی تک تھریٹ سمجھتی ہے اور اس کی وجہ کسی بھی موضوع پر سڑکوں پر آکر ایجی ٹیشن کرنا اور اپنے مطالبات منوانے کے لئے سخت اقدامات اٹھانے کی عادی جماعت بن گئی ہے جبکہ بیک ڈور ان اداروں سے دوستانہ مراسم کی بھی قائل نظر نہیں آتی۔ یہ عمل ایم ڈبلیو ایم کی سیاسی کمزوری ہے۔ ریاستی اداروں کو کسی بھی طرح محسوس نہیں ہونا چاہیے کہ انکی راہ میں یہ جماعت رکاوٹ ہے، کیونکہ گلگت بلتستان جیسے حساس خطے میں اگر کوئی چیز اہم ہے تو حکومتی رٹ ہے۔ عوام کو حقوق نہ ملیں، آئینی تشخص نہ ملے، نوکریاں فروخت ہوں، لاشوں کے تخفے ملیں، لوگ بنیادی سہولتوں سے محروم ہوں، ہسپتال قبرستان کا منظر پیش کریں، تعلیمی ادارے بدعنوانیوں کا گڑھ بن جائیں، منشیات فروشی کا دھندا عروج پر ہو، دیگر اخلاقی و انسانی جرائم میں جتنا بھی اضافہ ہو، کسی کو اس سے غرض نہیں ہوتی۔ انہیں امن و امان چاہیے اور ایسی جماعت کی حکمرانی چاہیے جس کیلئے خطے کے عوام سے زیادہ اسٹبلشمنٹ کی رضا زیادہ اہم ہو۔ لہٰذا ایم ڈبلیو ایم کا ہمیشہ ایجیٹیشن کرنا اور ہاٹ لائن پر ریاستی اداروں کی کارکردگی کو زیر سوال لانا، انکی سیاسی دانشمندی کے برخلاف تھا۔ یہی عمل انکے گلے کی ہڈی بن گیا ہے۔

غیر معروف امیدوار:

مجلس وحدت مسلمین دیگر جماعتوں کے برخلاف ایسے پڑھے لکھے، اہل، اعلٰی تعلیم یافتہ، بے داغ ماضی کے حامل افراد کو سامنے لائی جو کہ نہایت غیر معروف تھے۔ یہ بڑی حقیقت ہے کہ انہوں نے جس سطح کے امیدواروں کو متعارف کرایا، کوئی اور جماعت ایسا نہیں کرسکی اور گلگت بلتستان کی سیاسی تاریخ کا یہ نیا موڑ ہے۔ لیکن اس کے باوجود گلگت بلتستان کے عوام نے انگوٹھا چھاپ، میٹرک پاس امیدواروں کو ووٹ تو دیئے لیکن پی ایچ ڈی اسکالر کو مسترد کر دیا۔ اس کی اصل وجہ عوام کا باشعور نہ ہونا ہے۔ اگر مجلس وحدت مسلمین ان الیکٹیبلز کو لے آتی جو ذاتی طور پر کچھ ووٹ بینکس رکھتے تھے اور جنہوں نے ماضی میں حکومت کے دوران لوگوں میں صحیح غلط طریقے سے نوکریاں بانٹی ہوتیں تو ایسی صورت میں انکی پوزیشن بہتر ہوسکتی تھی اور انکے پاس بڑی بڑی مچھلیاں آنے کے لیے آمادہ نظر آتی تھی، لیکن انکے اصولی موقف اور معیار سے سمجھوتہ نہ کرنے کیے سبب انہیں نقصان اٹھانا پڑا۔ گلگت بلتستان میں اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ لوگ اب بھی اتنے باشعور نہیں ہوئے کہ کارکردگی اور اہلیت دیکھ کر ووٹ دیں، بلکہ ذاتی تعلقات، لسانی تعلقات، علاقائی تعصبات اور سابقہ وابستگیوں کو یکسر فراموش نہیں کرسکتے۔ ایسے میں مجلس وحدت مسلمین کو اتنا بڑا ووٹ بنک ملنا کوئی معمولی کارنامہ نہیں ہے۔

شیعہ جماعتیں:
اسلامی تحریک پاکستان اور ایم ڈبلیو ایم دونوں شیعہ جماعتیں انتخابات میں حصہ لینے کے بعد کسی ایک جگہ پر بھی اتحاد کرنے کے لئے تیار نہیں تھی، اسلامی تحریک مسلم لیگ نون کے ساتھ سیاسی مخاصمت کو غیر دانشمندی سمجھتے ہوئے مختلف حلقوں میں انکے امیدواروں کے حق میں دستبردار ہوئی اور نمائندہ ولی فقیہ کی جانب سے لیگی امیدواروں کی حمایت اور عوام کو انکی معاونت کے لئے حکم دینے کا سب سے زیادہ نقصان ایم ڈبلیو ایم کو ہوا۔ بعض مقامات پر اسلامی تحریک کے امیدواروں کو جن لیگی اور پیپلز پارٹی کے امیدواروں کے حق میں دستردار کرایا گیا، انکو نمائندہ ولی فقیہ کو ہی جتنوانے کے مترادف قرار دیا گیا جسکے شواہد موجود ہیں۔ عام کارکنوں سے ہٹ کر انکے رہنماوں بالخصوص علامہ عارف حسین واحدی نے اپنے ایک خطاب میں کہا کہ جن امیدواروں کو بصیرت کے تحت بٹھایا گیا ہے اور دیگر امیدواروں کی حمایت کی گئی ہے، انکو ووٹ دینا نمائندہ ولی فقیہ کو ووٹ دینے کے مترادف ہے۔ اسکے برعکس اگر دونوں جماعتیں ایک میکانزم کیساتھ میدان میں اترتیں تو دونوں جماعتیں خاطر خواہ نتائج بھی حاصل کر سکتیں، باہمی نفرتیں بھی کم ہوتیں اور مسلم لیگ نون کو بھی اتنی کامیابی نہیں ملتی، جتنی اب ملی ہے۔ مختصر یہ کہ ایم ڈبلیو ایم کی ناکامی میں اسلامی تحریک کو مکمل طور پر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

مخالفین کو جگانا:

مجلس وحدت مسلمین نے جس منظّم انداز سے کمپین کا آغاز کیا، اس کے بعد مخالف جماعتیں جاگ گئیں، بالخصوص مسلم لیگ نون کی ہوائیاں اڑنے لگیں۔ انہوں نے مضبوط اور ٹھوس بنیادوں پر کام کرنا شروع کیا اور ہر طرح کے حربوں کا استعمال کیا گیا۔ ریاستی طاقت، پروپیگنڈے اور پیسوں کا بھی بے دریغ استعمال کیا گیا۔ گذشتہ دنوں چھپنے والی ایک مقامی اخبار کی رپورٹ کے مطابق مسلم لیگ نون کے ایک حلقے کے امیدوار انتخابات سے تین روز قبل کمپین پر جا رہے تھے، وہ گاڑی سے اتر کر دوبارہ گاڑی میں سوار ہوگئے اور ایک مقام پر پندرہ لاکھ روپے گرنے کا انہیں علم تک نہیں ہوا۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ وہ رقم مخالف جماعت کے فرد کے ہتھے چڑھ گئی اور انہوں نے مزے سے اڑا لی۔ مخالفین نے مختلف مقامات پر باقاعدہ ووٹ کی بولیاں لگا دی اور بھرپور ووٹ خریدے گئے جبکہ مجلس وحدت اصول، حقوق، ترقی، ایمانداری کی تقاریر جھاڑتی رہی دوسرے لوگ ووٹ کنفرم کرتے گئے۔

تھرڈ ایمپائر:
گلگت بلتستان انتخابات میں تھرڈ ایمپائر کا کافی عمل دخل دیکھا گیا۔ مسلم لیگ نون کو جتنی کامیابی ملی، وہ خود مسلم لیگ نون کے لئے غیر متوقع تھی، جسکا اظہار مسلم لیگ نون اسکردو کے صدر وزیر اخلاق نے اپنے ایک بیان میں کیا۔ ذرائع کے مطابق مسلم لیگ نون کی طرف سے ماروی میمن اسکردو دورہ پر آئی اور واپس جا کر اپنی رپورٹ جمع کرا دی۔ انہوں نے گلگت بلتستان میں الیکشن کے نتائج کو انتہائی مایوس کن قرار دیا، انکے مطابق مسلم لیگ نون اکثریت کے ساتھ فتح حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھی۔ نہایت اہم ذرائع کے مطابق تھرڈ ایمپائر نے جس تکنیکی انداز میں سیٹوں کو تقسیم کیا وہ بھی دلچسپ ہے اور مسلم لیگ نون کو ایک خاص نظریئے کے تحت زیادہ مقامات پر جتوانے میں رول پلے کیا ہے۔ اس بات کا برملا اظہار گلگت بلتستان یونائیٹڈ موومنٹ کی جانب سے انتخابات کے حوالے سے جاری وائٹ پیپر میں کر دیا ہے۔ چند حقائق وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ منظر عام پر آسکتے ہیں۔ انتخابات کے پانچویں روز ایک جماعت کے رہنماء نے دھاندلی زدہ انتخابات کے خلاف احتجاج کرنے کا اعلان کیا اور اس نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کیا تو جمہوری عمل کو مکمل کرنے کے لئے پاک آرمی 62 بریگیڈ کے کمانڈر نے اس جماعت کے سربراہ کو بلایا اور کہا گیا کہ اگر آپ لوگوں کو سڑکوں پر لائے تو عوام کا واسطہ پولیس سے نہیں فوج سے ہوگا، لہذا آسمان سے گر کر کجھور میں اٹکنے سے بہتر یہی سمجھا گیا کہ خاموش رہا جائے۔ اسکردو حلقہ ایک میں چار بار گنتی بھی تھرڈ ایمپائر کی موجودگی میں ہی ہوئی تھی۔

وسائل کی کمیابی:
دیگر جماعتوں کی نسبت مجلس وحدت کے پاس وسائل بھی کم تھے۔ ایم ڈبلیو ایم کا پاکستان مسلم لیگ نون سے موازنہ ممکن ہی نہیں، کیونکہ وہ تمام تر وسائل کو استعمال میں لائے۔ دیگر جماعتوں کا ذکر کریں تو عمران خان نے اسکردو دورہ کے موقع پر ہیلی کاپٹر کا استعمال کیا۔ اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی کے افراد نے بھی گلگت بلتستان انتخابات میں دو دو ہیلی کاپٹرز تک کا استعمال کیا۔ اسکے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی کے لئے ایک مثبت چیز یہ تھی اس کی جانب سے کہ گذشتہ پانچ سالوں میں عوام کی ایک بڑی تعداد کو نوکریاں بانٹی گئی تھیں اور انکے ووٹرز تھے۔ جبکہ مجلس وحدت کے پاس ایسے کوئی وسائل نہیں تھے۔

گلگت بلتستان کی حساسیت:

ایم ڈبلیو ایم کی ناکامی کی ایک وجہ گلگت بلتستان کی حساسیت بھی ہے۔ گلگت بلتستان کی اسٹبلشمنٹ اور حساس ادارے اس بات کے قائل نظر نہیں آتے کہ اس خطے میں کوئی شیعہ یا پرو شیعہ جماعت حکومت کرے۔ اس کی اصل وجہ ان اداروں میں موجود متعصب افراد اور مخصوص مائنڈ سیٹ کے حامل افراد کے نظریات اور خواہش کے علاوہ پاک چین اقتصادی راہداری ہے۔ ماضی کے تجربات کی روشنی میں حکومت پاکستان بالخصوص آرمی متحمل نہیں ہے کہ گلگت بلتستان میں اور شاہراہ قراقرم پر پھر خونی کھیل کھیلا جائے اور دہشتگردی کے واقعات رونما ہوں، جس سے یہ اقتصادی راہداری متاثر ہو۔ اس عمل کے لئے دیامر، کوہستان اور ان تمام حساس علاقوں میں جہاں دہشتگردوں کے حوالے سے نرم گوشہ رکھنے والے موجود ہیں، شاہراہ نے وہیں سے گزرنا ہے، لہذا ایسی حکومت کو سامنے لانے کو بہتر سمجھا گیا جو ان عناصر کے لئے کسی حد تک قابل قبول ہو۔ نواز حکومت چونکہ دہشتگرد جماعتوں کے حوالے سے بہت زیادہ سخت موقف کے قائل نہیں، اس عمل سے اقتصادی راہداری متاثر ہونے سے بچا جاسکتا ہے۔ دوسری طرف شیعہ یا اسماعیلی مکتب فکر کو اس عمل سے تکلیف پہنچی ہے، وہ یقیناً خطے کے لئے خطرناک ہے اور یہ پالیسی بھی گلگت بلتستان میں لاوا پکانے کا عمل ہوسکتی ہے۔ چنانچہ ان حقائق کی روشنی کسی بھی مذہبی اور طالبان مخالف جماعت کے لئے حکومت بنانا گلگت بلتستان میں کار دشوار تھا۔

اندرونی خیانتیں:

ہر جماعت کی طرح مجلس وحدت مسلمین کی ناکامی کی ایک وجہ اندرونی خیانیتیں ہیں، بعض مقامات پر رشتہ داریوں اور تعلقات کے سبب بڑی بڑی شخصیات شرعی جواز کا سہارا لے کر مجلس کی کمپین میں حصہ لینے سے انکار کرتی رہیں، بعض بااثر شخصیات نے تو بلتستان کی طرف رخ ہی نہیں کیا۔ بلتستان میں موجود مصلحتوں کی شکار یہ شخصیات سیاسی کمپین میں لیت و لعل سے کام لیتے رہے۔ ذرائع کے مطابق بعض رہنماء بھی اپنے ہی خاندان اور اپنے محلے کے افراد کو مجلس وحدت کو ووٹ دلانے کے لئے قائل کرنے میں نہ صرف کامیاب نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے ایسی کوئی زحمت بھی گوارا نہیں کی۔ ذرائع کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ انکی اپنی فیملی دوسری جماعتوں کے پرچم بلند کرتی رہی۔

سیاسی ناتجربہ کاری:
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سیاسی منظر نامے میں ایم ڈبلیو ایم ایک نوزائیدہ سیاسی جماعت ہے۔ انہیں سیاسی داو پیچ کا پوری طرح علم نہیں۔ انکے دھرنوں، مظاہروں اور جلسے جلوسوں کا وسیع تجربہ الیکشن میں کارآمد ثابت نہیں ہوسکا۔ وہ بڑی بڑی مذہبی جماعتوں کی مذہبی مخالفتوں اور عشروں پر محیط سیاسی تجربے کی حامل سیاسی جماعتون کی سیاسی چالوں کا خاطر خواہ مقابلہ نہیں کرسکے۔ سیاست میں انکے پہلے تجربے کو سامنے رکھا جائے تو اسے سیاسی ناکامی کا نام نہیں دیا جاسکتا، کیونکہ بہت سارے حلقوں میں ان کے امیدوار دوسری پوزیشن پر موجود ہیں اور نون لیگ کے بعد گلگت بلتستان میں سب سے زیادہ ووٹ بنک رکھنے کا عملی ثبوت بھی فراہم کر چکے ہیں۔


خبر کا کوڈ: 471632

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/471632/جی-بی-الیکشن-میں-ایم-ڈبلیو-کی-ناکامی-وجوہات

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org