4
0
Sunday 5 Jul 2015 23:19

علیؑ کا طرزِ زندگی۔۔۔

علیؑ کا طرزِ زندگی۔۔۔
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com


وہاں خاموشی تھی، سکوت تھا، رات کی تاریکی تھی، نہ کوئی دیکھنے والا تھا اور نہ کوئی گننے والا، نہ کسی پارٹی کا اسٹیکر تھا اور نہ مونوگرام، کسی یہودی کے باغ میں کام کرنے والا ایک شخص رات کے سنّاٹے میں آکر لوگوں کے دروازوں پر دستک دیتا تھا، یتیم دوڑ کر اس کے پاس آجاتے تھے، یتیم اس کی محبّت کی خوشبو کو سونگھتے تھے، وہ یتیموں، غریبوں اور فقیروں کے دکھوں کو لمس کرتا تھا۔ یہ سلسلہ کتنے ہی سالوں تک چلتا رہا، دنیا کی کوئی بھی طاقت اس پاک فطرت انسان کو یتیموں اور فقیروں سے دور نہیں کرسکی، حتّیٰ کہ خدا کی کرنی دیکھیں کہ غریبوں، یتیموں اور بیواوں کی مخفی مدد کرنے والا کچھ سالوں بعد حاکم وقت بن گیا، لوگوں نے دیکھا کہ وہ تختِ حکومت پر جلوہ افروز ہوگیا، لیکن اس کے باوجود اس کی حکومتی مصروفیات بھی اس کے اور یتیموں، بیواوں اور بے نواوں کے درمیان حائل نہ ہوئیں۔ وہ اپنی بیعت کے روز بیعت کے بعد بیلچہ اٹھا کر مزدوری کرنے چلا گیا، وہ اپنے معمول کے مطابق اپنے دورانِ حکومت میں بھی اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پالنے کی خاطر مزدوری کرتا تھا، بیت المال سے اس کی آمدنی اتنی نہ تھی کہ وہ فکرِ معاش سے آزاد ہوجاتا، وہ دن بھر مشقْت کرتا اور شب بھر اپنے زخمی ہاتھوں کے ساتھ محتاجوں اور فقیروں میں روٹیاں تقسیم کرتا۔۔۔

اسی طرح شب و روز گزرتے رہے، یہی رمضان المبارک کے ایّام تھے، انیس رمضان المبارک کو اس شخص نے اپنی زندگی کی آخری افطاری بھی نمک سے کی اور سحر کے قریب کسی شقی القلب نے مسجد میں اس پر قاتلانہ حملہ کر دیا، پھر کتنے ہی دنوں تک یتیم اور فقیر دروازوں پر نظریں لگائے بیٹھے رہ گئے۔ ان میں سے اکثر کو اس شخص کی شکل بھی یاد نہیں تھی چونکہ آنے والا ہمیشہ منہ چھپا کر آتا تھا اور اپنے اسٹیکر تقسیم کئے بغیر، اپنے آپ کو ظاہر کئے بغیر واپس چلا جاتا تھا، وہ جو خاموشی سے آتا اور خاموشی سے چلا جاتا، 21 رمضان المبارک کو ہمیشہ کے لئے اس دنیا سے چلا گیا۔ اس کے جانے سے ساری دنیا یتیم ہوگئی، لیکن بہت سارے یتیموں کو پتہ نہیں چلا کہ اب ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے والا کبھی بھی واپس نہیں آئے گا۔ وہ اسی طرح دروازے پر آس لگائے بیٹھے رہے۔

میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اگر بات صرف روٹی اور کپڑے کی ہوتی، دنیاوی ضرورتوں کی ہوتی تو یہ سائل اور یہ فقیر اٹھ کر کسی اور دروازے پر بیٹھ جاتے، لیکن اس شخص کی محبت ان لوگوں کے ساتھ اتنی زیادہ تھی کہ یہ لوگ اس کے بغیر رہ ہی نہیں سکتے تھے۔ آج چودہ سو سال کے بعد بھی جب کوئی فقیر "حضرت علی (ع)" کے نام پر مانگتا ہے تو مجھے لگتا ہے کہ کائنات کے فقیروں کے ہاتھ آج بھی علی (ع) کے سامنے پھیلے ہوئے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ دنیا میں بڑے بڑے بادشاہ گزرے ہیں، لیکن فقیر کسی بادشاہ کا نام نہیں لیتے بلکہ بادشاہ کے دروازے پر بھی جاکر علی (ع) کا نام لیتے ہیں۔ اگر ہم تھوڑی سی توجہ کریں تو سمجھ جائیں گے کہ فقیر ،"علی ؑ" کا نام لے کر لوگوں میں یہ منادی کر رہا ہوتا ہے کہ اے گھومتے پھرتے انسانو! اے ہمیں ٹکے ٹکے کی خیرات دینے والو! اے ہمیں فطرانے، چندے اور زکواتیں دینے والو! کیا تم میں سے کوئی ہے جو ہمیں حضرت امام علی ؑجیسی محبت بھی دے، جو ہم سے نفرت نہ کرے، جو ہمیں اپنے سر سے اتارنے کی کوشش نہ کرے، جو ہم سے اظہارِ یکجہتی کے لئے علامتی بھوک ہڑتال کے بجائے حقیقی طور پر ہمارے غم کی وجہ سے پیٹ بھر کر کھانا نہ کھائے۔

میرے اور آپ سمیت دنیا کا ہر فقیر اور ہر سائل چاہے سمجھے یا نہ سمجھے، وہ علی(ع) جیسی محبّت اور توجہ کا متلاشی ہے، وہ حضرت امام علی (ع) جیسے خلوص کا تشنہ ہے۔ یہاں تک کہ ممتاز مفتی کو بھی اس دنیا سے جاتے جاتے اپنی "تلاش" میں اس حقیقت کا اعتراف کرنا پڑا کہ انسان محبت اور توجہ کی تلاش میں ہے۔ وہ اس صدی کے ان ادیبوں میں سے ہیں، جنہوں نے شدّت کے ساتھ اس حقیقت کو لمس کیا ہے۔ اس "تلاش" کے دوران انہوں نے کئی مرتبہ، لطیف پیرائے میں "بڑوں" کو ٹوکا، وہ اسلام کو مذہب کے بجائے انسان کی فطرت سمجھتے تھے اور ان کی دانست میں مفتیوں کے فتوے انسان کو اس کی فطرت سے جدا نہیں کرسکتے۔ ان کے نزدیک اسلام، انسان کو خدا کے ساتھ ملانے کے لئے آیا تھا، ایک دوسرے سے کاٹ کر فرقوں میں تقسیم کرنے کے لئے نہیں، انہوں نے فروعات کی پٹاری میں ڈال کر اسلام تقسیم کرنے والوں کو اپنے رسا قلم کے ساتھ بہت سمجھانے کی کوشش کی اور اس کوشش میں وہ لال مسجد کے فتووں اور خطبوں کا آپریشن بھی کر گئے۔

وہ انسان اور خدا کے درمیان فاصلے کے قائل نہیں تھے، وہ "کالے کوٹھے" کی زیارت کے لئے گئے تو انہیں وہاں بھی محبت اور توجہ کی تلاش تھی، انہوں نے اپنی "تلاش" میں ببانگِ دہل اس بات کا اعتراف کیا کہ انہیں "مسلمان" سمجھ میں نہیں آرہا، وہ "لبّیک" کے بدلے میں ارْجِعي‏ إِلى‏ رَبِّكِ راضِيَةً مَرْضِيَّةً کی صدا سننا چاہتے تھے۔ انہیں وہ مسلمان نہیں مل رہا تھا، جس کی انہیں تلاش تھی، سچ تو یہ ہے کہ وہ مسلمان کسی کو بھی نہیں مل رہا، جس کی سب کو تلاش ہے، اور اس کے نہ ملنے کی وجہ یہ ہے کہ جو مسلمان، حضورِ اکرم حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی گود میں پال کر حضرت علی (ع) کی صورت میں بنی نوع انسان کو دیا تھا، وہ کچھ اور قسم کا تھا اور جو مسلمان آج ہم دیکھ رہے ہیں وہ کسی اور شکل کا ہے۔ ممتاز مفتی اور ان جیسے دانشمند جس صوفی اور جس مسلمان کی بات کرتے ہیں، وہ دنیائے معرفت کو سوائے حضرت امام علی(ع)کے کہیں اور نہیں ملتا۔ حضورِ اکرم حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد یہی وہ ہستی ہے، جو مخلوقِ خدا سے خالص محبت کرتی ہے اور مخلوقِ خدا بھی انہیں ٹوٹ کر چاہتی ہے۔
 
آیئے اس اضطراب، بے چینی اور تشنگی سے معاشرے کو نجات دلانے کے لئے ہم بنی نوعِ انسان کو یہ پیغام دیں کہ دینِ اسلام، نمازوں، افطاریوں اور تلاوتِ قرآن مجید کے ساتھ ساتھ  غریبوں اور ناداروں کے ساتھ "محبت اور توجہ" کا مہینہ ہے۔ اس مہینے میں اس شخص کے طرزِ زندگی کو اپنایئے جس کا طرزِ زندگی "عینِ صراطِ مستقیم" ہے۔ جس کے فضائل دوستوں نے خوف کے مارے چھپائے رکھے اور دشمنوں نے بغض کے مارے، لیکن اس کے باوجود اس کے فضائل سے کائنات پر ہے۔ آیئے اس ماہ مبارک رمضان میں ہم "علی(ع) کے طرزِ زندگی" کو بھی تلاش کریں۔ قرآن مجید کی تلاوت کے ساتھ ساتھ قرآن کے پیغام پر توجہ بھی دیں، فطرانہ دینے کے ساتھ ساتھ غریبوں سے محبت بھی کریں، نمازوں کے ساتھ ساتھ شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ سے توبہ بھی کریں۔ یوم القدس کے نعروں کے ساتھ ساتھ قدس کی آزادی کے لئے اپنی زندگیوں کو وقف بھی کریں۔  آیئے ہم علامتی مسلمان بننے کے بجائے امیرالمومنینؑ کی سیرت پر چل کر حقیقی مسلمان بننے کی کوشش کریں۔ حقیقی مسلمان یعنی ہر عمل محبت اور توجہ کے ساتھ ۔۔۔ اگر بات صرف روٹی اور کپڑے کی ہوتی، دنیاوی ضرورتوں کی ہوتی تو یہ سائل اور یہ فقیر، یہ ادیب اور دانشمند، حضرت علی(ع) کے دروازے سے اٹھ کر کسی اور دروازے پر بیٹھ جاتے، لیکن سب کچھ روٹی اور کپڑا ہی تو نہیں، محّبت اور خلوص بھی تو کوئی شئے ہے۔
خبر کا کوڈ : 471739
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

abbas
Iran, Islamic Republic of
آپ کا مضمون اچھا تھا اور اچھی فکر کے ساتھ لکھا گیا، لیکن کچھ چیزوں کا خیال رکھیں، جیسے کعبہ جو عزت مسلمین ہے، جو خدا کا گھر ہے، جو محل ولادت مولا امیر ہے، جس کا انبیا احترام کرتے تھے، فقط اردو ادبیات دکھانے کے لئے اس کالے کوٹھے سے تشبیہ دینا یہ کوئی اچھی چیزی نہیں ہے۔
Iran, Islamic Republic of
احسن
عمران خان
Pakistan
ماشااللہ
نذر حافی صاحب
مولا آپ کی زحمت قبول فرمائے۔ آمین
Pakistan
ماشاءاللہ آپ نے ممتاز مفتی صاحب کی اصطلاحات سے خوب کام لیا ہے اور روشن فکر طبقے تک بہت اچھے انداز میں اپنا پیغام پہنچایا ہے۔
اگلے چند دنوں میں میری عکسی مفتی صاحب سے ملاقات ہے آپ کی تحریر کا خصوصی طور پر ذکر کروں گا۔
نقوی
ہماری پیشکش