1
0
Tuesday 7 Jul 2015 22:46

انیس رمضان المبارک، یوم شہدائے پاراچنار

انیس رمضان المبارک، یوم شہدائے پاراچنار
رپورٹ: شریف حسین سیلاب
(M.Sc فزکس)


آج 19 رمضان المبارک ہے۔ انیسویں کی رات شب ضربت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے ساتھ ساتھ ایک روایت کے مطابق شب قدر بھی ہے، جس کی اہمیت ایک ہزار مہینوں سے بھی بڑھ کر ہے۔ کرم ایجنسی میں 1982ء یا غالباً 83ء سے علامہ سید عارف حسین الحسینی اور انکے چند باوفا ساتھیوں (سابق پیش امام شیخ علی مدد مرحوم، علامہ سید عابد حسین الحسینی، علامہ سید محمد جواد ہادی، ڈاکٹر عابد علی شاہ، مرحوم سیکریٹری انجمن حسینیہ حاجی سید طاہر حسین وغیرہ) کی تجویز پر یہ دن یوم شہدائے کرم کے نام سے منایا جاتا رہا ہے۔ اس دن مرکزی جامع مسجد پاراچنار میں 1961ء سے لیکر آج تک کے شہداء کی تصاویر کی نمائش کرائی جاتی ہے۔ شہداء کے خانوادوں سمیت کرم ایجنسی کے ہر طبقے کے لوگ اس نمائش کو دیکھنے دور دور سے پاراچنار کا رخ کرتے ہیں۔
شروع میں تو یہ روایت تھی کہ متمول گھرانے رمضان المبارک کے ابتدائی ایام سے ہی شہداء کے بچوں کے لئے کپڑوں، سلائی مشینوں، پنکھوں اور گھر کی دوسری بنیادی ضروریات پر مشتمل مختلف قسم کے تحفے تحائف خریدنے کے علاوہ نقد رقومات کے ذریعے، انہیں عید کی خوشیوں میں اپنے ساتھ شریک کیا کرتے تھے۔ یہ تحفے مرکزی جامع مسجد میں 19 رمضان المبارک کے دن کو تقسیم کئے جاتے تھے۔

گویا 19 رمضان المبارک اگر ایک طرف عام مومنین کے لئے یتیمی اور غم کا دن ہے، تو دوسری طرف کرم ایجنسی میں یہ دن شہداء کے خانوادوں کے لئے امید کے دن کے طور پر متعارف کرایا جاچکا ہے۔ کرم ایجنسی میں اس وقت کل شہداء کی تعداد 3000 سے کچھ بڑھ کر ہے، جن میں سے ایک اور سرفہرست قائد شہید اور شہید ملت اسلامیہ علامہ سید عارف حسین الحسینی بھی ہیں۔ جنہوں نے پوری پاکستانی قوم خصوصاً اہلیان کرم کو اتفاق و اتحاد میں رکھتے ہوئے شہادت کا صحیح درس سکھایا تھا۔ جسے قومی سطح پر شیعوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے ہی کے جرم میں ضیاء اور اسکے آلہ کاروں نے 5 اگست 1988ء کو اپنے جد امجد امام علی علیہ السلام ہی کی طرح صبح صادق اور نماز فجر کے وقت ایک مذھبی مقام و عبادت گاہ یعنی مدرسہ میں شہید کردیا تھا۔ جو آج تک اہلیان کرم کے لئے ایک فخر ہے، اہلیان کرم پاکستان کے علاوہ دنیا میں جہاں کہیں بھی جائیں، اپنے قائد پر اس بنا پر کچھ زیادہ فخر کرتے ہیں کہ قائد شہید ہم میں سے تھے۔

چنانچہ اپنی اہمیت کے باعث 1988ء کے بعد شہید عارف الحسینی کی تصاویر کو ایک مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ جسے دیگر تصاویر کے درمیان نمایاں طریقے سے لگایا جاتا تھا۔ تاہم ایسا بھی نہیں کہ دیگر شہداء کی قربانیوں کو پس پشت ڈال کر اس دن کو مکمل طور پر شہید عارف کے نام کرایا جاتا۔ بلکہ شہداء کی اپنی اہمیت کو برقرار رکھتے ہوئے شہید کی ایک دو بڑی تصاویر نصب کی جاتیں۔ لیکن کرم ایجنسی میں 1991ء کے اختلافات، جسکی شروعات شہید ملت علامہ عارف حسین الحسینی کی شہادت سے کچھ ہی عرصہ قبل ایک سیکریٹری کے تعین پر ہوچکی تھیں، اور رفتہ رفتہ اس نہج پر آج پہنچ چکی ہیں کہ اہلیان کرم آج اپنے متفقہ دشمنوں کو بھول کر اپنوں میں ہی لگے ہوئے ہیں۔ جس کے باعث بہت سے قومی مسائل کی طرح یہ دن بھی وہ دن نہیں رہا۔ شہداء کے لئے مختص یہ دن بھی آج اختلافات کی بھینٹ چڑھ چکا ہے۔ چنانچہ اس سال یہ دن دو الگ الگ مقامات پر منایا جارہا ہے۔ ایک اسی پرانی جگہ پر، یہ دن یوم شہید نواز عرفانی کے نام سے منایا جارہا ہے۔ جبکہ مدرسہ آیۃ اللہ خامنہ ای میں بھی پہلی مرتبہ یہ دن یوم شہدائے کرم کے نام سے منایا جارہا ہے۔ دونوں مقامات پر اگرچہ شہدائے کرم کی تصاویر نصب کی جاچکی ہیں۔ تاہم مرکزی جامع مسجد میں جیسے اسکے نام سے ظاہر ہے، کہ دوسری تصاویر کی نسبت علامہ شہید نواز عرفانی کی تصاویر ہی سے پوری فضا سجائی جاچکی ہے۔ اور اس دن کو قومی دن کے بجائے انفرادی دن کے طور پر منایا جارہا ہے۔ اس کا ثبوت آج ایک اہم واقعے سے پیش کیا جارہا ہے۔ کہ آج تصاویر کی فوٹو گرافی کرکے نیٹ پر شائع کرنے کے لئے جب ایک شخص تصاویر اتارنے لگا تو اسکا کیمرہ چھین کر اسے توڑ دیا گیا۔ اور اسے کمرے میں بند کردیا گیا۔ بعد میں سیکریٹری انجمن حسینیہ کی مداخلت پر اسے چھوڑ دیا گیا۔ اور اسے متنبہ کیا گیا کہ یہ پروگرام ہم کسی کے لئے نہیں کررہے بلکہ اسے شہید نواز عرفانی ہی کے لئے کررہے ہیں۔ ہمیں کسی عکس بندی کی ضرورت نہیں۔

یقیناً یہ ایسا کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔ تاہم مسئلہ یہ ہے کہ شہید نواز عرفانی کو ایک طرف ایک قومی شہید قرار دیا جاتا ہے، اور بعض عاقبت نا اندیش انکے قتل سے اپنا ذاتی فائدہ حاصل کرتے ہوئے قتل کا الزام اپنے بہت سارے دشمنوں کے بجائے اپنے ہی مومنین کے سر تھونپ رہے ہیں۔ جس سے مختلف قسم کے منفی نتائج برآمد ہورہے ہیں۔ وہ یہ کہ شہید نواز عرفانی کی شہادت کی اہمیت کو گھٹا کر اسکے قتل کو ایک ذاتی دشمنی پر حمل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ چنانچہ اگر ایسا ہے تو اسکی قومی حیثیت ہی نہ رہی۔ اور اس سے ایک طبقے کے دل میں انکا مقام بھی مشکوک بنایا جارہا ہے۔ اور کل کو جب ایک زمانہ گزر چکا ہوگا، لوگ یہ سوچیں گے کہ اپنوں نے اسے کیوں قتل کیا، اگر قتل کیا، تو اسکی وجہ کیا تھی۔ کیا اس نے کسی کو قتل کیا تھا؟ اور یہ کہ اگر اپنوں نے قتل کیا ہے تو اسے قومی شہید کیوں قرار دیا جارہا ہے؟ اور پھر یہی چیز ہوگی، کہ آنے والے زمانے میں دو گروہوں میں مخاصمت کم ہونے کی بجائے بڑھتی ہی جائے گی۔ جس کا تمام ترکریڈٹ آج کے انہی ہی مفاد پرست لوگوں کو جائے گا۔

دوسری جانب مدرسہ آیۃ اللہ خامنہ ای میں تحریک حسینی کے زیر اھتمام بڑے بڑے پینافلیکس پر شہداء کی تصاویر چھاپ کر سجایا گیا ہے۔ دو یا تین علاقوں کے شہداء کی تصاویر کو جمع کرکے ایک ایک پینافلیکس پر ترتیب دیا جاچکا ہے۔ صبح سے ناظرین کی ایک بڑی تعداد جمع ہے، جو شہداء کی زیارت کرتے ہوئے آگے بڑھ کر نکل جاتے ہیں۔ خیال رہے کہ 2007ء کی لڑائی کے دوران بڑے پیمانے پر اہلیان کرم کے قتل عام کے بعد کرم ایجنسی کے تمام شہداء کی تصاویر کو اکٹھا کرکے تحریک حسینی نے بڑے بڑے پینافلیکس پر چھاپا۔ اور پھر مختلف ایام میں مختلف مقامات پر یوم شہداء مناکر وہاں اسکی نمائش کی۔ اور آج پہلی بار مرکزی سطح پر پاراچنار میں اسے سجایا جاچکا ہے۔
آخر میں اس دعا کے ساتھ کہ یا اللہ بحق محمد وآل محمد علیھم السلام ہمیں صحیح معنوں میں پیروکاران علی علیہ السلام میں شمار فرمائے۔ اور ہمیں آپس کے اختلافات کو بھلا کر اپنے مسائل کے لئے اٹھ کھڑے ہونے کی توفیق عنایت فرمائے۔
آمین یا رب العالمین
خبر کا کوڈ : 472043
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

abid
Oman
good
ہماری پیشکش