1
0
Tuesday 7 Jul 2015 21:56

سیاست علوی ﴿ع﴾

سیاست علوی ﴿ع﴾
تحریر : سجاد حسین آہیر

وہ مختصر مدت جس میں اسلامی ریاست کی زمامِ اقتدار امام علی ع کے ہاتھ میں تھی، اس میں جو بات سب سے زیادہ عیاں تھی وہ یہ کہ آپ نے پہلے دن سے لے کر اپنی شہادت کے وقت تک، کسی بھی وقت، کسی بھی مرحلے پر اور کسی بھی انداز میں باطل سے کوئی مصلحت پسندا نہ پالیسی نہیں اپنائی اس” عدم مصالحت “ کی پالیسی کے خلاف کچھ لوگوں، جیسےمغیرہ بن شعبہ نے آپ کو مشورہ دیا تھا کہ : ” آپ امیر شام کو کچھ دنوں تک شام کا گورنر رہنے دیں۔“ اس کی دلیل یہ تھی کہ: ” اگر آپ اسے کچھ دنوں تک گورنر رہنے دیں گے تو ہو سکتا ہے کہ وہ آپ کی اطاعت قبول کرے اور بعد میں جب آپ کے قدم جم جائیں اور پورے ا سلامی ممالک میں آپ کی حکومت مستحکم ہو جائے تو آپ اسے ہٹا کر کسی اور شخص کو اس صوبہ کا گورنر بنا سکیں گے۔ لہٰذا اس جیسے گورنروں کو آپ فی الحال خرید لیجیے۔ اور اگرچہ یہ اسلامی خزانے کے چور ہیں لیکن کچھ دنوں تک چوری کا مال ان ہی کی جیب میں پڑا رہے بعد میں ان سے واپس لے لیجیے گا۔“ لیکن امیرالمؤمنین علیہ السلام نے اس کی منطِق تسلیم کرنے سے صاف انکار کر دیا اور اس قسم کی کسی مصالحت یا معاملت کو قبول کرنا آپ نے اپنی روش کے خلاف سمجھا۔ جس کی وجہ سے آپ کے بعض معاصرین اور بعدمیں آنے والے بعض ایسے تجزیہ نگاروں نے جو معاملات کوصرف ڈپلومیسی کی نگاہ سے دیکھنا جانتے تھے، نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ: ” اگر علی علیہ السلام باطل سے مصالحت کی راہ اپناتے اور ڈپلومیسی سے کام لیتے تو سیاسی میدان میں ان کو سب سے زیادہ کامیابی نصیب ہو سکتی تھی ۔“ 

لیکن سب سے پہلے یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ امیرالمؤمنین علیہ السلام عالمِ اسلام پر ۲۵ سال کی غیر مشروع حکومت کے بعد اسلامی سلطنت کی ایک بار پھر نئے سرے سے بنیاد رکھ رہے تھے اور لوگ ایمانی جذبات و احساسات کے اعتبار سے تو یقینًا آپ کے ساتھ تھے لیکن ابھی ان کاشعور پختگی کی منزل پر فائز نہیں تھا اور نہ وہ لوگ صحیح طور سے آپ کے موقف سے باخبر تھے۔ اس لئے یہ بات نہایت ضروری تھی کہ امیرالمؤمنین علیہ السلام اس قوم کی اس طرح تربیت کریں کہ یہ آپ کے پیغام اور عالمِ اسلام کی محافظ بنے ۔اور ظاہر ہے کہ اگر آپ شروع ہی سے باطل کے ساتھ ” مصالحت کی پالیسی “ کو اپنا لیتے تو اس قوم کی صحیح تربیت کس طرح ممکن تھی؟ حتٰی کہ اگر وہ پالیسی ذاتی طور پر جائز بھی ہوتی تو یہاں اسے اپنانا مناسب نہ ہوتا۔ کیونکہ جہاں اس قسم کا مزاج بن جائے وہاں سلمان و ابوذر و عمار جیسی شخصیات پروان نہیں چڑھ سکتیں اور نہ یہ جذبہ بیدار ہو سکتا ہے کہ ہماری جدوجہد کسی خاص شخصیت کیلئے نہیں ہے بلکہ دین و شریعت کے لئے ہے۔ 

اگر وہ پالیسی فقہی اعتبار سے جائز ہوتی تو بھی اس جگہ اسے اپنانے کا ہر گز مقام نہیں تھا۔ کیونکہ اسے اپنانا امیرالمؤمنین علیہ السلام کے مقصد کے بالکل برعکس ثابت ہوتا۔ کیونکہ آپ کے پیش نظر اہم ترین مقصد، اسلامی ریاست کو ایسے اعلیٰ و ارفع قوانین پر استوار کرنا تھا، جہاں شریعت کا پیغام ہی دور رس اہمیت کا حامل ہو۔ چونکہ امیرالمؤمنین علیہ السلام ایک فکر و نظر کی بنیاد رکھ رہے تھے۔ اس لئے آپ کے لیے ضروری تھا کہ نیک اور پاکیزہ سے پاکیزہ اشخاص کو اپنائیں اور مالک اَشتر جیسے کامل الایمان اور مخلص حضرات کو تقویت دیں۔ اور ظاہر ہے کہ ایسے افراد مذکورہ بالاپالیسی کے ماحول میں حقیقی روحانی، فکری، ایمانی تربیت نہیں پا سکتے کیونکہ وہ پالیسی تو قوت ایمان کے بجائے قوتِ نفاق کو تقویت پہنچائے گی۔ لہٰذا ایک فکری گروہ پیدا کرنے اور جناب مالک اَشتر جیسے ہزاروں مخلص اور کامل ایمان افراد کی تربیت کے لئے یہ بات ناگزیر تھی کہ ان کا قائد ایک ایسا شخص ہو جو کسی دباؤ کے آگے جھکنے والا نہ ہو اور کسی بھی اعلیٰ یا ادنیٰ مفاد کے لئے باطل سے مصالحت کرنے پر کسی بھی صورت میں آمادہ نہ ہو۔اس لئے ایک مربی اور نمونہ کامل کے لحاظ سے بھی امیرالمؤمنین علیہ السلام کے لیے ضروری تھا کہ وہ مذکورہ بالا پالیسی سے ہٹ کر چلیں تاکہ ایمانی، فکری اور روحانی طور سے وہ ماحول پیدا ہو سکے۔ 

اس کے ساتھ یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہنی چاہیے کہ امیرالمؤمنین علیہ السلام نے پُر امن ماحول میں حکومت نہیں سنبھالی تھی بلکہ ایک ایسے وقت میں زمامِ اقتدار سنبھالی تھی جب پوری قوم ایک ہیجانی کیفیت سے گزر رہی تھی اور سابق خلیفہ کو قتل کیا جاچکا تھا اور قتل کرنے والوں نے یہ کہہ کر قتل کیا تھا کہ : یہ حاکم قرآن و سنت کے راستہ سے منحرف ہو چکا ہے۔ ایسی حالت میں قوم کی قیادت سنبھالنا کوئی آسان کام نہیں ہے اور ایسی صورت میں اگر امیرالمؤمنین علیہ السلام باطل سے مصالحت کی روش اپناتے اور پرانے ظالم گورنروں کو برداشت کرتے تو اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے اور بعد میں کسی بھی قسم کی اصلاح اور تبدیلی کی گنجائش باقی نہ رہتی ۔ گویا امیرالمؤمنین علیہ السلام نے اس وقت زمامِ اقتدار سنبھالی ، جب پوری قوم ایک انقلابی کیفیت سے گزر چکی تھی اور ظاہر ہے کہ ایسی حالت میں کہیں قوم کے جذبات واحساسات یکسر مختلف ہوتے ہیں۔لہٰذا اسلام کے وسیع تر مفاد کا تقاضا یہ تھا کہ اس وقت جو بھی قدم اٹھایا جائے وہ اسلامی تعلیمات کے بالکل مطابق ہو۔ اس میں کسی ڈپلومیسی کا شائبہ نہ ہو۔ 

امیرالمؤمنین علیہ السلام پوری شدت سے چاہتے تھے کہ امیر شام سے ان کی مخالفت کو دواشخاص، دوخاندانوں، دوقبیلوں یادو حکام کی باہمی رنجش نہ سمجھا جائے بلکہ اسے حق و باطل کی معرکہ آرائی کے نقطہِ نظر سے دیکھا جائے۔ اب اگر ایسی صورت میں آپ ان گورنروں کو ان کے منصب پر تھوڑے دنوں کے لئے بھی باقی رہنے دیتے جن کا طرزِ عمل اسلامی تعلیمات کے یکسر خلاف تھا تو پوری امت کے اذہان میں یہ شبہ راسخ ہو جاتا کہ اختلافات کی نوعیت دینی ومذہبی نہیں بلکہ دنیاوی و سیاسی ہے۔ اور یہ شک وشبہ اس طرح ذہنوں میں بیٹھتا کہ پھر کبھی بھی جُدانہ ہوتا۔ امیرالمؤمنین علیہ السلام کا ہاتھ قوم کی نبض پر تھا اور وہ قوم کی تربیت کرنا چاہتے تھے ۔ اگر آپ باطل سے معاملت کی پالیسی اپنا کر ابوسفیان کے بیٹے کی گورنری قبول کر لیتے تو قوم کے اندر اس شعور کو کیونکر ایجاد کرنے میں کا کامیاب ہوتے کہ ہمیں باطل کے آگے نہیں جھکنا چاہیے اور بادشاہوں اور حاکموں کی رضا کی بجائے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے کام کرنا چاہیے جو خلافت الہٰیہ کا اصل مقصد ہے۔ 

امیرالمؤمنین علیہ السلام کے اقدامات محض اس مختصر مدت کے لئے نہیں تھے جس میں آپ حکومت کے تخت پر متمکن تھے بلکہ وہ بلند تر مقاصد کے لئے قدم اٹھاتے تھے۔ آپ یہ محسوس کر رہے تھے کہ مجھے رہتی دنیا تک ایک دینی بنیادوں پر بننے والی حکومت کے خدوخال کو فراہم کرنا ہے جو صرف اسی صورت میں ممکن تھا کہ کسی بھی باطل سے مصالحت نہ کی جائے ۔ اسلام میں قیصرو کسریٰ کا کردار رکھنے والوں کو جو عہدہ و مقام ملا اُس کی بنیاد سقیفہ کی کاروائی نے ڈالی اور ایسے کردار کے حامل شخص کو مولا اپنے گورنر کی حیثیت سے قبول کر لیتے تو اس کا واضح مطلب یہ ہوتا کہ آپ اسلام میں قیصریت اور کسریت کی تائید فرما رہے ہیں جو آپ کے لئے ممکن نہیں تھا اس لئے آپ نے وقت کے تقاضے کے مطابق فتنہ کو کچلنے کے لئے سخت سے سخت موقف بھی اپنایا تاکہ قیصریت اور کسریت کی تائید نہ ہو اور اسلام کے درخشندہ چہرے کا اصل نکھار برقرار رہے۔ 

ان نکات کے علاوہ قارئین کرام کی توجہ ایک خصوصی نکتہ کی طرف بھی مبذول کرانا چاہوں گا۔ اور وہ یہ کہ اگرامیرالمؤمنین علیہ السلام وقتی طور پر امیر شام کو گورنری کے عہدہ پر باقی رہنے دیتے تو پھر اسے معزول کرنا آپ کے لئے ناممکن ہوجاتا اور دوسری طرف ہم جانتے ہیں کہ معاشرہ کی اصلاح کے لئے جن عناصر کا قلع قمع ضروری ہے اگر اُن ہی کو معاون اور شریکِ کار بنا لیا جائے تو حالات کی اصلاح کیسے ہو گی؟ اور اگر وقتی طور پر انھیں شریک کار بنا لیا جائے تو یہ برائیاں نہ صرف برقرار رہیں گی بلکہ اور پروان چڑھیں گی اور اگر بعد میں ان عناصر کو دور ہٹانے کی کوشش بھی کی جائے تو وہ ہرگز جُدانہیں ہوں گے۔ بلکہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھیں گے کہ ” اگر ہم بُرے تھے تو آپ نے ہمیں اپنا شریکِ کار کیوں بنایا اور اگر ہم کل آپ کے شریکِ کاربن سکتے تھے تو آج کیوں نہیں بن سکتے؟ 

اسی کے ساتھ اس بات کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے کہ جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ امیرالمؤمنین علیہ السلام امیر شام کو شام کی گورنری پر باقی رہنے دیتے تو آپ کی حکومت مضبوط ہو جاتی۔ ایسے لوگوں کو سوچنا چاہیے کہ اس طرح گورنرِ شام کو بھی مزید طاقت مل جاتی۔ اور چونکہ امیرالمؤمنین علیہ السلام کی ذاتِ اقدس صفاتِ اسلام کی تمام تعلیمات اور اقدار کے لئے نمونہِ کامل کی حیثیت رکھتی تھی۔ اس لئے آپ کی طرف سے امیر شام کی وقتی حمایت بھی اُس کے ماضی کے تمام اقدامات کو جائز بنا دیتی۔ جس کے نتیجے میں امیر شام کو ایسی ٹھوس دلیل مل جاتی کہ جسے کوئی بھی شخص چیلنج نہیں کر سکتا تھا۔ امیر شام کے طرزِ عمل سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ اس کی گورنری کو باقی رکھنے کا نتیجہ یہ ہر گز نہ ہوتا کہ وہ امیرالمؤمنین علیہ السلام کی صدقِ دل سے بیعت کرکے شام کے علاقے میں بھی مرکزی حکومت کو مضبوط کرنے کی کوشش کرتا اور وہاں سے آپ کو مدد پہنچاتا۔ بلکہ آپ کی تائید کے بعد وہ اپنی ذاتی پوزیشن کو مضبوط کرتا اور گذشتہ پچیس برس سے اُسے اس علاقے میں جو اثر و رسوخ حاصل تھا جس کی ایک خاص تاریخی حیثیت تھی، جس کی پہلی خلافت میں بنیاد رکھی گئی ،دوسری خلافت میں اسے مزید تقویت ملی اور تیسری خلافت میں اسے ایسی طاقت حاصل ہو گئی کہ شام پر مدینہ کے اختیارات ہی ختم ہوگئے اور امیر شام ہر قسم کے سیاہ و سفید کا مالک بن گیا۔ اگرچہ یہ صوبہ دستوری لحاظ سے مدینہ کا تابع تھا لیکن امیر شام اپنے تمام فیصلوں میں اپنی مرضی کرتا تھا۔ اب ایسی صورت میں امیرالمؤمنین علیہ السلام وہاں کے گورنروں کو کچھ دنوں تک ان کے عہدے پر باقی رکھ کر بھی معزول کرنے کی کوشش کرتے تو زیادہ مشکلات کاسامنا کرنا پڑتا اور وہ اسلامی علاقوں میں شور مچاتا کہ اب مجھ سے کون سا ایسا قصور سرزد ہوا ہے کہ معزول کیا جارہا ہوں۔ اگر میں بُرا تھا تو پہلے میری تائید کیوں کی اور اب میرے اندر کیا خرابی پیدا ہو گئی؟جب امیرالمؤمنین علیہ السلام نے اقتدارسنبھالنے کے بعد مجھے گورنر بنایا تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ انھوں نے مجھے ایک انصاف پسند اور صالح حکمران تسلیم کیا لہٰذا اب مجھے معزول کرنے کی کیا وجہ ہے؟ یہ ایک ایسی بات تھی جو پورے عالمِ اسلام کی رائے عامہ کو اس کا ہمنوا بنا دیتی اور امیرالمؤمنین علیہ السلام کے لئے ہر ایک کو مطمئن کرنا مشکل ہو جاتا۔ لیکن جب آپ نے حکومت سنبھالی تو فورًا اسے معزول کیا تو اس کا واضح مطلب یہ تھا کہ آپ اسے کسی بھی لحاظ سے اس قابل نہیں سمجھتے تھے۔
 
امیرالمؤمنین علیہ السلام کی سیاسی زندگی کا خلاصہ یہ ہے کہ جب معصوم علیہ السلام نے اسلام کی بقاء کو خاموشی میں دیکھا تو خاموش رہ کر اسلام کا دفاع کیا اور جب دین کا دفاع قاطعیت میں دیکھا توسخت ترین مشکلات کے باوجود ڈٹ کر اسلام کے مدافع بنے۔ یعنی امیر المومنین علیہ السلام کی سیاست کا محور دین تھا نہ کہ دین کا محور سیاست۔ اب ان کی راہ پر چلنے والوں کی سیاست کا محور بھی دین ہونا چاہیے اور ہر صورت میں دین کو مقدم ہونا چاہیے تا کہ وطن عزیز میں رائج سیاست امیر شام کا خاتمہ کیا جاسکے اور سیاست علوی علیہ السلام کو رائج کیا جا سکے۔
خبر کا کوڈ : 472181
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
جناب کیوں وقت ضائع کرتے ہیں اپنا بھی اور دوسروں کا بھی۔ وہی علما سے سنی ہوئی پرانی باتوں کی لسّی بنا کر پیش کر دیتے ہیں۔اگر آپ تھوڑا بہت مطالعہ کرلیا کریں تو کافی بہتری آجائے گی۔ میرا برادرانہ مشورہ ہے کہ آپ جب بغیر مطالعے کے اتنا لکھ سکتے ہیں، اگر کچھ وقت مطالعے کے لئے نکالیں تو بہت اچھا لکھ پائیں گے۔ ماشاءاللہ سٹمنا بہت ہے آپ میں۔
علی
ہماری پیشکش