QR CodeQR Code

داعش، اسرائیل اور یوم القدس

(22 رمضان 10 جولائی جمعہ یوم القدس کی مناسبت سے خصوصی تحریر)

8 Jul 2015 11:00

اسلام ٹائمز: ایک طرف اسرائیل نے داعش کا طوفان برپا کرکے عالم اسلام کو خون میں غلطاں کرنے کا سلسلہ شروع کیا تو دوسری قبلہ اول پر قبضے کو مستحکم کر رہا ہے اور فلسطینی عوام پر مظالم میں شدت لا رہا ہے اور مختلف پابندیاں لگا کر بالخصوص غزہ کا محاصرہ کرکے انہیں مجبور کر رہا ہے کہ وہ اپنے حقوق کی تحریک چلانا ترک کردیں اور آزاد فلسطینی ریاست کے خواب دیکھنا چھوڑ دیں۔ عالم اسلام داعش جیسے طوفانوں میں الجھا ہوا ہے اور اسے اس بات کا ہوش نہیں کہ قبلہ اول کی آزادی اور فلسطینی ریاست کے قیام کے حوالے سے اپنا ذمہ دارانہ اور مجاہدانہ کردار ادا کر سکے۔ عالم اسلام کی غفلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسرائیل اور امریکہ مل کر اقوام متحدہ سمیت دیگر اداروں میں فلسطینی ریاست کے قیام کے خلاف تانے بانے بن رہے ہیں اور ناجائز ویٹو پاور کو جانبدارانہ انداز میں استعمال کرکے عدل و انصاف کو پامال کر رہے ہیں۔


تحریر: سید اظہار مہدی بخاری
izharbukhari5@hotmail.com


اسرائیل اس لحاظ سے کامیاب رہا ہے کہ اس نے داعش جیسا سفاک اور مضبوط گروہ تشکیل دے کر مسلم ممالک بالخصوص عرب ممالک کو ایسے گرداب میں پھنسا دیا ہے کہ اب عربوں کو اپنی جان کے لالے پڑے ہیں۔ داعش کی تشکیل کے صیہونی مقاصد میں سے ایک یہ بھی ہے کہ عرب ممالک کی بچی کھچی طاقت کو ختم کیا جائے اور انتہا پسندانہ نظریات کے حامل گروہوں کو تقویت دے کر موجودہ عرب حکمرانوں کو سبق سکھا کر گھر روانہ کیا جاسکے۔ ساتھ ساتھ دوسرا مقصد یہ بھی ہے کہ انہی عرب ممالک میں اُٹھنے والی اسلامی بیداری کی لہر کو فرقہ وارانہ تشدد میں تبدیلی کیا جائے اور مسلک کے نام پر تفریق پیدا کرکے عربوں میں پیدا ہونے والے انقلابات کا راستہ روکا جاسکے یا پھر ان انقلابات کو مشکوک بنا دیا جائے۔ تاحال یہ کامیابی اسرائیل کے حصے میں آرہی ہے اور امریکی منصوبہ سازوں کے تعاون سے اسرائیل کے لئے میدان ہموار ہو رہا ہے۔

داعش کی تشکیل کے دوسرے مقاصد نچلی سطح کے اور ثانوی نوعیت کے ہیں، لیکن سب سے آخری اور بڑا مقصد عربوں اور عالم اسلام کو قبلہ اول سے دور رکھنا اور فلسطینی ریاست کے مستقل قیام کا مستقل راستہ روکنا ہے۔ دیکھا جاسکتا ہے کہ داعش کے ارادوں میں کعبۃ اللہ پر قبضہ تو موجود ہے لیکن قبلہ اول کا ذکر کہیں موجود نہیں۔ نہ داعش نے کبھی صیہونیت سے لڑنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے اور نہ ہی اسرائیل کے خلاف مورچہ زن ہونے کا اعلان کیا ہے، بلکہ داعش کے عمل سے واضح ہو رہا ہے کہ وہ اسرائیل اور امریکہ کے ہر دشمن سے نبردآزما ہونے کے لئے تیار ہے اور گذشتہ عرصے سے داعش کا ہدف ہر وہ انسان، گروہ، مسلک اور ملک ہے جو امریکہ یا اسرائیل کا دشمن یا مخالف ہے۔ وہ چاہے لبنان ہو یا شام ۔ پاکستان ہو یا افغانستان۔ ایران ہو یا عراق۔

ایک طرف اسرائیل نے داعش کا طوفان برپا کرکے عالم اسلام کو خون میں غلطاں کرنے کا سلسلہ شروع کیا تو دوسری قبلہ اول پر قبضے کو مستحکم کر رہا ہے اور فلسطینی عوام پر مظالم میں شدت لا رہا ہے اور مختلف پابندیاں لگا کر بالخصوص غزہ کا محاصرہ کرکے انہیں مجبور کر رہا ہے کہ وہ اپنے حقوق کی تحریک چلانا ترک کردیں اور آزاد فلسطینی ریاست کے خواب دیکھنا چھوڑ دیں۔ عالم اسلام داعش جیسے طوفانوں میں الجھا ہوا ہے اور اسے اس بات کا ہوش نہیں کہ قبلہ اول کی آزادی اور فلسطینی ریاست کے قیام کے حوالے سے اپنا ذمہ دارانہ اور مجاہدانہ کردار ادا کر سکے۔ عالم اسلام کی غفلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسرائیل اور امریکہ مل کر اقوام متحدہ سمیت دیگر اداروں میں فلسطینی ریاست کے قیام کے خلاف تانے بانے بن رہے ہیں اور ناجائز ویٹو پاور کو جانبدارانہ انداز میں استعمال کرکے عدل و انصاف کو پامال کر رہے ہیں۔

گذشتہ سالوں سے غزہ کی صورتحال فقط عالم اسلام کو نہیں بلکہ عالم انسانیت کو جھنجھوڑ رہی تھی، جس میں بلاتفریق مذہب و ملک تمام انسان غزہ پر اسرائیلی محاصرے کے خلاف ہم آواز تھے لیکن اسرائیل نے عالم اسلام میں فرقہ وارانہ خونریزی کا بازار گرم کرکے دنیا کی توجہ غزہ سے ہٹا دی اور اب اسرائیل ماضی قریب میں ہونے والے انسانی اور باہمی احترام کے معاہدوں کو پامال کر رہا ہے، لیکن اس کے خلاف کسی قسم کی موثر آواز اٹھانے والا کوئی نہیں۔ سعودی عرب نے یمن میں نئی جنگ چھیڑ کر درپردہ طور پر اسرائیلی ایجنڈے کی تکمیل کی ہے، جس کے بعد اب داعش کے دائرے کو وسعت مل رہی ہے۔ حرمین شریفین کے تحفظ کے منفی پروپیگنڈے نے اور کچھ دیا ہو یا نہیں، لیکن کم از داعش کے لئے ہزاروں کارندے اور خودکش بمبار ضرور مہیا ہوچکے ہیں۔ یمن کی صورت حال کو اپنے اقتدار کی بھینٹ چڑھانے کے بعد اب حالت یہ ہے کہ جن عرب مجاہدین نے قبلہ اول کو آزاد کرانا تھا، وہ داعش اور اس طرح کے دیگر گروہوں میں تقسیم ہو کر عرب ممالک میں فرقہ وارانہ خونی کھیل کھیل رہے ہیں، جس کا تازہ مظاہرہ کویت، تیونس اور خود سعودی عرب کے بعض علاقے ہیں۔

دنیا بھر میں انسانی حقوق کی ہزاروں تنظیمیں ہر سال بلکہ ہر ماہ اسرائیلی خلاف ورزیوں کے حقائق منظر عام پر لاتی ہیں اور اقوام متحدہ سمیت تمام ذمہ دار عالمی اداروں کو متوجہ کرتی ہیں کہ وہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف اپنا فیصلہ کن کردار ادا کریں، لیکن ان حقائق کا کچھ اثر نہیں ہوتا اور اسرائیل آئے روز اپنے ظلم و بربریت کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ غزہ کا محاصرہ معاہدے کے باوجود جاری ہے۔ انسانی ضرورت کی اشیاء کی سپلائی اب بھی اسّی فیصد بند ہے۔ اب بھی نہتے فلسطینی عوام پر ظلم و جبر کا سلسلہ جاری ہے۔ اب بھی اسرائیلی ٹینک جب چاہیں فلسطینیوں کو اور ان کے گھروں کو روندتے چلے جاتے ہیں۔ اب بھی قبلہ اول پر صیہونی تسلط بہت سختی سے قائم ہے اور مسلم فلسطینیوں کے علاوہ مسیحیوں کے لئے بھی قبلہ اول سے استفادہ ممنوع ہے۔ فلسطینی عوام پر اسرائیلی جارحیت اور قبلہ اول بیت المقدس پر ناجائز صیہونی تسلط کے خلاف گذشتہ تین دہائیوں سے عالمی سطح پر صدائے احتجاج بلند کرنے کے لئے یوم القدس منایا جاتا ہے، جس کی بنیاد رہبر انقلاب حضرت امام خمینی نے رکھی۔ اس سال بھی رہبر معظم سید علی خامنہ ای اور پاکستان میں قائد ملت جعفریہ و سینئر نائب صدر ملی یکجہتی کونسل علامہ سید ساجد علی نقوی کی اپیل پر 22 رمضان المبارک 10 جولائی جمعۃ المبارک کو یوم القدس کے طور پر منایا جا رہا ہے، جس کے لئے ملک بھر مختلف احتجاجی پروگرام منعقد ہوں گے۔

ان دنوں ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان جوہری معاہدے کے حوالے سے مذاکرات اپنے نکتہ آخر کی طرف گامزن ہیں، بعض اطراف سے چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں کہ ان مذاکرات کے اثرات یوم القدس پر اس لئے پڑیں گے کیونکہ یوم القدس کے پروگراموں میں امریکہ و اسرائیل کو ہدف بنایا جاتا ہے۔ ہمیں ثابت کرنا ہوگا کہ بیت المقدس کے مسئلہ اپنی جداگانہ اور انفرادی حیثیت رکھتا ہے، جسے کسی دوسرے مسئلے کے ساتھ منسلک یا مشروط نہیں کیا جاسکتا۔ نیز حالیہ یوم القدس میں ہمیں داعش اور اس جیسے دیگر گروہوں کی تشکیل کے اسرائیلی ایجنڈے کو طشت از بام کرکے ناکام بنانا ہوگا اور اسرائیل کو پیغام دینا ہوگا کہ وہ داعش جیسی جتنی مکروہ چالیں چل لے، لیکن عالم اسلام بالخصوص پاکستانی عوام کسی بھی صورت میں بیت المقدس کی آزادی کی تحریک اور فلسطینی ریاست کے قیام کی جدوجہد کو فراموش یا سست نہیں کریں گے، کیونکہ بانی پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناح نے عدل و انصاف کے اعلٰی معیار کے تحت اسرائیل کو غاصب و جارح ملک قرار دے کر اس سے تعلقات منقطع کرنے کی ریاستی پالیسی تشکیل فرمائی، جو آج تک نافذ ہے۔


خبر کا کوڈ: 472284

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/472284/داعش-اسرائیل-اور-یوم-القدس

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org