QR CodeQR Code

یوم القدس، مستضعفین کی آزادی کے دفاع کا دن

9 Jul 2015 17:58

اسلام ٹائمز: عالمی یوم القدس منانے کی یہ حکمت عملی کامیاب ہوئی یا ناکام؟ اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے، تاکہ موجودہ نوجوان نسل کو معلوم ہو کہ یوم القدس منانے سے پہلے فلسطین اور فلسطینیوں کو حاصل عالمی حمایت کس نوعیت کی تھی اور اس کے کیا اثرات تھے اور یوم القدس منانے کے بعد اس میں کیا تبدیلی وقوع پذیر ہوئی۔ امام خمینی نے 6 اگست 1980ء کو ایک خطاب میں اپیل کی تھی کہ تمام اسلامی ممالک میں ماہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم القدس کے موقع پر مظاہرے کریں، مجالس اور محافل کا انعقاد کریں، مساجد میں صدا بلند کریں، جب اتنی بڑی آبادی آواز اٹھائے گی تو پھر اسرائیل کچھ نہیں کرسکتا، ان کے نعروں سے ڈر جائے گا، اگر سب کے سب مسلمان یوم القدس کو گھروں سے باہر نکلیں اور مردہ باد امریکا، مردہ باد اسرائیل،،،، کے نعرے لگائیں تو یہی نعرے ان طاقتوں کے لئے موت کا پیغام ہیں۔ اسی بیان کی روشنی میں دیکھیں کہ کیا یوم القدس منانے کے بعد جعلی ریاست اسرائیل اور اس کا سرپرست امریکا اور دیگر بڑی طاقتیں دنیا بھر میں ذلیل و روسوا نہیں ہوئے؟ کیا انہیں موت کا پیغام نہیں ملا؟


تحریر: عرفان علی

ماننا پڑے گا کہ فلسطین اور فلسطینیوں کی حمایت میں عالمی سطح پر جو ایک اہم ترین دن مخصوص ہوچکا، وہ یوم القدس ہے۔ فلسطین کے حق میں یہ اہم ترین کارنامہ ریاستی و حکومتی سطح پر انجام دیا امام خمینی ؒ اور ایرانی حکومت نے۔ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد امام خمینی کی پالیسی کے مطابق اسرائیلی سفارتخانہ بند کرکے ناجائز و غاصب صہیونی ریاست سے روابط منقطع کر دیئے گئے اور تنظیم آزادی فلسطین کو فلسطینیوں کا نمائندہ تسلیم کرکے سفارتخانہ ان کے لئے مخصوص کر دیا گیا۔ 1979ء میں انقلاب اسلامی کے بعد جب رمضان کا بابرکت مہینہ آیا تو امام خمینی نے جمعۃ الوداع کو یوم القدس منانے کی اپیل کی۔ پوری دنیا کے مسلمانوں کو دعوت دی کہ وہ اس دن مسلمانوں کے قانونی حقوق کی حمایت میں عالمی سطح پر یکجہتی کا اظہار کریں۔ یوم القدس کے بارے میں امام خمینی کا کہنا تھا کہ یہ ایسا دن نہیں کہ جو فقط قدس کے ساتھ مخصوص ہو، بلکہ مستکبرین کے ساتھ مستضعفین کے مقابلے کا دن ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ منافقین اور وہ لوگ جن کی پس پردہ بڑی طاقتوں کے ساتھ آشنائی اور اسرائیل کے ساتھ دوستی ہے، وہ یوم القدس سے لاتعلق رہتے ہیں یا قوموں کو مظاہرہ نہیں کرتے دیتے۔

دنیائے اسلام کو آج بھی امام خمینی کا یہ پیغام یاد رکھنا چاہیے کہ مسلمانوں کو آواز بلند کرنا چاہیے، یہ خیال نہ کریں کہ فریاد اور نعروں کا کوئی فائدہ نہیں،،،، نہیں نہیں،،،، نعرے مفید ہیں، لیکن شرط یہ ہے کہ سب ایسا کریں، اکیلے، ایک شہر اور محلے کی فریاد کچھ بھی نہیں، شرط یہ ہے کہ سب فریاد بلند کریں۔ امام خمینی کا فرمانا تھا کہ ماہ رمضان کے آخری دس دنوں میں شب قدر ہے، یہ ایسی رات ہے جسے زندہ رکھنا الٰہی سنت ہے اور اس کی قدر و منزلت منافقین کے ہزار مہینوں سے بہتر ہے، چونکہ مخلوقات کے مقدر کا اسی رات کو فیصلہ ہوتا ہے، یوم القدس جو شب قدر کے جوار میں ہے، مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ اسے زندہ رکھیں اور اس دن سے ان میں بیداری اور ہوشیاری کا آغاز ہونا چاہیے۔ دنیا کے مسلمانوں کو چاہیے کہ بڑے شیاطین اور بڑی طاقتوں کی غلامی اور اسیری سے رہا ہوکر خدا کی لایزال طاقت سے متصل ہوجائیں، تاریخ کے بڑے ظالموں کے ہاتھ، مستضعفوں کے ممالک سے کاٹ دیں اور ان کے حرص و ہوس کی امیدوں پر پانی پھیر دیں۔

امام خمینی کی پالیسی برائے یوم القدس ان کی اپنی تشریح کے مطابق دنیا کے سارے ستم رسیدہ انسانوں کے حق کے دفاع پر مبنی ہے۔ ظلم خواہ فلسطین و لبنان و شام پر صہیونی قبضے کی شکل میں ہو یا کشمیر اور برما میں مسلمانوں پر ظلم و ستم کی صورت میں۔ ظلم یمن کے نہتے عرب مسلمانوں پر بمباری و دہشت گردی کرکے کیا جائے یا لیبیا اور شام میں مسلمانوں کو خانہ جنگی میں مبتلا کرکے کیا جائے، یوم القدس ان سارے مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کا دن ہے۔ یہ دن ہمت کا دن ہے کہ عالم اسلام ہمت کرے، قیام کرے، تاکہ بیت المقدس آزاد ہو، پورا فلسطین آزاد ہو اور اسرائیل اور اسرائیل صفت دیگر غاصب حکومتوں کی نابودی ہو۔ یہ مشرق و مغرب کی بڑی طاقتوں کو الٹی میٹم دینے کا دن بھی ہے۔ ان بڑی طاقتوں کو یہ پیغام جانا چاہیے کہ اب ان کا سامراج نہیں چلے گا، ان کے آلہ کار حاکموں کو برطرف ہونا پڑے گا، یعنی یوم القدس اسلام کی حیات کا دن ہے۔

عالمی یوم القدس منانے کی یہ حکمت عملی کامیاب ہوئی یا ناکام؟ اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے، تاکہ موجودہ نوجوان نسل کو معلوم ہو کہ یوم القدس منانے سے پہلے فلسطین اور فلسطینیوں کو حاصل عالمی حمایت کس نوعیت کی تھی اور اس کے کیا اثرات تھے اور یوم القدس منانے کے بعد اس میں کیا تبدیلی وقوع پذیر ہوئی۔ امام خمینی نے 6 اگست 1980ء کو ایک خطاب میں اپیل کی تھی کہ تمام اسلامی ممالک میں ماہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم القدس کے موقع پر مظاہرے کریں، مجالس اور محافل کا انعقاد کریں، مساجد میں صدا بلند کریں، جب اتنی بڑی آبادی آواز اٹھائے گی تو پھر اسرائیل کچھ نہیں کرسکتا، ان کے نعروں سے ڈر جائے گا، اگر سب کے سب مسلمان یوم القدس کو گھروں سے باہر نکلیں اور مردہ باد امریکا، مردہ باد اسرائیل،،،، کے نعرے لگائیں تو یہی نعرے ان طاقتوں کے لئے موت کا پیغام ہیں۔ اسی بیان کی روشنی میں دیکھیں کہ کیا یوم القدس منانے کے بعد جعلی ریاست اسرائیل اور اس کا سرپرست امریکا اور دیگر بڑی طاقتیں دنیا بھر میں ذلیل و روسوا نہیں ہوئے؟ کیا انہیں موت کا پیغام نہیں ملا؟

یوم القدس سے پہلے جتنی بھی جنگیں ہوئیں، ان کے بعد فلسطین کا فلسطینی کنٹرول والا علاقہ سکڑتا گیا اور نسل پرست سیاسی نظریہ صہیونیت کے کنٹرول میں جعلی ریاست اسرائیل کا حدود اربعہ وسیع ہوتا چلا گیا۔ لیکن 1979ء کے بعد کے ماہ و سال کا جائزہ لیں کہ لبنان میں حزب اللہ قائم ہوئی اور لبنان کے جنوب سے صہیونی افواج کو نکال باہر کر دیا اور جب بھی صہیونیوں نے جنگیں مسلط کیں تو کوئی شرمناک سرینڈر نہیں ہوا، کوئی نیا علاقہ صہیونیوں کے قبضے میں نہیں آسکا۔ فلسطین کا جائزہ لیں کہ یوم القدس منانے کے اثرات وہاں بھی پہنچے اور انتفاضہ کی تحریک شروع ہوئی، جب یاسر عرفات کی تنظیم نے جعلی ریاست کو تسلیم کرلیا تو فلسطینیوں نے حزب جہاد اسلامی، پاپولر فرنٹ فار دی لبریشن آف فلسطین کی طرف دیکھنا شروع کیا اور بالآخر ایک نئی تحریک حماس معرض وجود میں آگئی۔ یہ تنظیمیں آج بھی مقاومت کے میدان میں موجود ہیں اور غزہ پر جب بھی صہیونی جنگیں مسلط کی گئیں، انہوں نے مقابلہ کیا۔ غزہ سے ایریل شیرون جیسے بدنام زمانہ دہشت گرد نے پسپائی اختیار کی اور اس کے بعد اب صہیونی غزہ پر قبضے سے گریز کرتے ہیں، کیونکہ وہ وہاں خود کو محفوظ تصور نہیں کرتے۔ اب جنگوں کے ذریعے فلسطینیوں کو جھکایا نہیں جاسکتا۔

اس سال بھی یوم القدس کی آمد آمد ہے اور افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ پہلے صرف ایک اسرائیل تھا لیکن اب بھارت، برما سمیت مختلف حکومتیں مسلمانوں کو فلسطینیوں کی طرح بے یار و مددگار کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ مسئلہ فلسطین کو دفن کرنے کے لئے نئے نئے مسائل ایجاد کر دیئے گئے ہیں۔ بحرین میں فلسطینیوں کے حامی شیخ علی سلمان جیل میں قید ہیں۔ کہیں فلسطین کی حامی بشار الاسد کی حکومت کے خلاف دہشت گردوں کی سرپرستی کی جا رہی ہے تو کہیں آیت اللہ باقر النمر جیسے علمائے کرام یوم القدس کے فلسفہ پر عمل کرنے کے جرم میں سزا بھگت رہے ہیں۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان ممالک میں حکمران طبقہ امریکا اور اسرائیل کی غلامی کو چھوڑ کر اسلام و مسلمین کے دفاع پر مبنی پالیسی پر عمل پیرا ہوں، ورنہ یوم القدس پر بلند ہونے والی فریاد انہیں خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائے گی۔

شب قدر میں اولیائے خدا کے ہاتھ جب دعا کے لئے اٹھیں گے تو عالم اسلام پر مسلط اسرائیل صفت حاکم اور امراء بھی قہر خداوندی سے بچ نہیں سکیں گے۔ یوم القدس منانے والوں کو یقین ہے کہ یہی راستہ فلسطین کی آزادی تک لے کر جائے گا اور ہم سب قدس شریف میں نماز ادا کریں گے۔ یہ نماز وحدت جس کی امید عالمی سیاست کے بت شکن روح اللہ امام خمینی ؒ کو تھی، یہ نماز ضرور پڑھی جائے گی۔ اس کائنات پر حکمران عدالت و آزادی کے خدا کی سنت میں تبدیلی و تحول کا کاوئی امکان نہیں اور آزادی فلسطین سمیت دنیا کے مستضعفین کا وہ حق ہے جس کا قرآن میں وعدہ کیا گیا ہے۔ انشاءاللہ ہمیں اللہ تبارک و تعالٰی سے حسن ظن ہے کہ امام خامنہ کے دور ولایت فقیہ میں اس محاذ پر مزید اہم کامیابیاں حزب مستضعفین کی منتظر ہیں۔

آخر میں ایک اہم بات جس سے نظر نہیں چرائی جاسکتی، وہ یہ کہ امام خمینی نے جمعۃ الوداع کو یوم القدس منانے کی اپیل کی اور دنیا بھر میں رمضان المبارک کا آخری جمعہ ایک ہی دن ہونا ممکن نہیں ہے، کیونکہ کہیں رمضان کا چاند پہلے نظر آجاتا ہے اور کہیں ایک یا دو دن بعد۔ ایران میں اس مرتبہ 10جولائی کو 23 رمضان المبارک ہے، اس لئے وہاں کے بارے میں کہا نہیں جاسکتا تھا کہ 30واں روزہ ہوگا یا اگلے جمعہ کو عید ہوجائے گی۔ لہٰذا وہاں 23رمضان کو ہی یوم القدس منانے کا اعلان کر دیا گیا۔ لیکن پاکستان، عراق اور دیگر ممالک جہاں 10 جولائی کو 22 رمضان ہے اور جہاں جمعۃ الوداع 29 رمضان کو ہوگا، کیا یہاں یوم القدس اسی دن منانا ضروری ہے کہ جس دن ایران میں منایا جا رہا ہو۔ ان نوجوان دوستوں کو یہ بھی یاد رہنا چاہئے تھا کہ اس مرتبہ پوسٹر یا پمفلٹ میں عالمی یوم القدس جمعۃ الوداع نہیں لکھنا چاہیے تھا۔ اس موضوع پر امام خامنہ کی خدمت میں سوال بھیجا جاسکتا ہے اور نمائندہ ولی فقیہ آیت اللہ سید ابوالفضل بہاء الدینی سے بھی رابطہ کرکے اس موضوع پر رائے لی جانی چاہیے، تاکہ اس حوالے سے کنفیوژن سے بچا جاسکے۔


خبر کا کوڈ: 472673

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/472673/یوم-القدس-مستضعفین-کی-آزادی-کے-دفاع-کا-دن

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org