0
Monday 13 Jul 2015 14:59

عیدِ فطر۔۔۔ فطرت کی طرف واپسی

عیدِ فطر۔۔۔ فطرت کی طرف واپسی
تحریر: ثاقب اکبر

’’عید‘‘، عود کرنے اور واپسی کے معنی میں ہے اور ’’فطر‘‘ فطرت سے ہے۔ جب انسان رمضان شریف کے مہینے میں اطاعتِ الٰہی کے ذریعے اپنی روح کا تزکیہ کرلیتا ہے اور آئینہ دل کو پاک کر لیتا ہے تو پھر فطرت الٰہی کا رنگ ابھر آتا ہے۔ وہی فطرت الٰہی جس پر انسان کو پیدا کیا گیا ہے۔ چنانچہ ارشاد الٰہی ہے:
فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا
اللہ کی فطرت وہی ہے جس پر انسان کو پیدا کیا گیا ہے۔
گویا تخلیق انسانی کا اصل رنگ فطرتِ الٰہی کا ہی رنگ ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ کھانے پینے کی حاجت انسانی روح کو نہیں بلکہ انسانی بدن کو ہوتی ہے۔ روح کی غذا اللہ کی عبادت ہی ہے۔ جب انسان اپنی حقیقت کو دریافت کر لیتا ہے تو وہ اس روح کی آنکھوں سے دیگر بندگان خدا کو دیکھنے لگتا ہے، جس کے بارے میں فرمایا گیا ہے’’َنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوحِیْ‘‘ یعنی اس خاک کے پتلے میں ہم نے اپنی روح میں سے پھونکا ہے۔ اس کے نتیجے میں انسان اللہ کے بندوں کو عیال اللہ سمجھنے لگتا ہے۔ ان کے دکھ سکھ کو اپنا دکھ سکھ جاننے لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ متعدد احادیث میں فرمایا گیا ہے کہ روزے کا ایک مقصد یہ ہے کہ روزے دار کو محروموں، فقیروں اور مسکینوں کی مشکلات اور بھوک پیاس کا احساس ہو۔ جب انسان رضائے الٰہی کے لئے خود مسلسل ایک ماہ تک بھوک اور پیاس کی شدت کا مزہ چکھتا ہے تو اس کی فطرت بیدار ہوتی ہے اور دوسروں کی تکلیف کا احساس اسے بے چین کرنے لگتا ہے۔

انبیاء و رسل کی بعثت کا یہی مقصد امیر المومنین حضرت علیؑ نے اپنے ایک خطبے میں بیان کیا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں:
اللہ نے ان (انسانوں) میں اپنے رسول بھیجے اور انبیاء کو یکے بعد دیگرے مامور کیا، تاکہ انھیں ان کی فطرت کا عہد و میثاق یاد کروائیں۔
اس میثاقِ فطرت کی یاد آوری کے لئے انبیاء کرامؑ نے مختلف طریقے اختیار فرمائے، جن میں روزے رکھنے کا حکم بھی شامل ہے۔ قرآن حکیم کے مطابق تمام قوموں کی طرف آنے والے انبیاء و رسل نے اپنے ماننے والوں کو روزے رکھنے کا حکم دیا اور سب کے نزدیک روزوں کا مقصد و ہدف مشترک رہا۔ اگر ہم روزوں کی اس حکمت کو سامنے رکھیں تو ہمیں ’’عیدالفطر‘‘ کا معنی اور مقصد آسانی سے سمجھ میں آجائے گا۔ یہ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ جس دین نے رمضان شریف کے روزے رکھنے کا حکم دیا ہے، اُسی نے ’’عیدالفطر‘‘ کو معین کیا ہے، اُسی نے نماز عیدالفطر مقرر کی ہے اور اُسی نے فطرانے کی ادائیگی کا حکم دیا ہے۔ ان میں سے کسی امر کو دوسروں سے الگ کر دینے سے اس کی حکمت ہی سمجھ میں نہیں آئے گی بلکہ مقصد ہی کھو جائے گا۔

بیدار فطرت انسانوں کو فطرانے کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ وہی معاشرے کے محروم انسانوں کے دکھ درد کو صحیح طور پر محسوس کر سکتے ہیں، وہی اپنی خوشیوں میں انھیں شریک کرنے کا سوچ سکتے ہیں۔ وہی سمجھ سکتے ہیں کہ اللہ کے شکرانے کا ایک خوبصورت راستہ اس کے ان بندوں کو اپنے ساتھ شریک کرنا ہے، جو کسی وجہ سے پس ماندہ ہیں اور پیچھے رہ گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فطرانے کے احکام میں سے ایک یہ ہے کہ نماز عید کی ادائیگی سے پہلے اسے ادا کیا جائے، تاکہ محتاج اور ضرورت مند افراد بھی اپنی عید کا سامان کرسکیں۔
حکیم الامت علامہ اقبال نے کیا خوب فرمایا ہے:
غبار آلودۂ رنگ و نسب ہیں بال و پَر تیرے
تو اے مُرغ حرم اُڑنے سے پہلے پرفشاں ہو جا

رمضان شریف کا مہینہ فطرت کے رنگ کے اوپر پڑے غبار کو جھاڑنے میں مدد دیتا ہے، تاکہ مرغ حرم اطمینان اور سہولت سے حرم الٰہی کی طرف پرواز کرسکے۔ عید کی نماز کی ادائیگی کے لئے حرم الٰہی کی طرف رُخ کرنے سے پہلے پرفشاں ہو جانے والے طائر حرم ہی کی نماز۔۔۔حقیقی طور پر نماز عید ہے۔ جن کی رُوح کا رُخ حرم کی طرف نہ ہو، اُن کے بدن کا حرم کعبہ کی طرف ہونا بے معنی اور بے مقصد ہے۔ وہ نماز جو اجتماعیت کا عظیم مظہر ہے، اجتماعیت سے غافل ہو کر اس میں شرکت چہ معنی دارد؟ ’’نعبد‘‘ و ’’نستعین‘‘ کے کلمات سے شروع ہونے والی اور’’السلام علیکم و رحمۃ اللہ‘‘ پر ختم ہونے والی نماز ہر مرحلے میں اجتماعیت کا پیغام دے رہی ہوتی ہے۔ نماز عید تو اجتماعیت کے عظیم تر مظاہر میں سے ایک ہے۔  ہمارے ہاں ’’عید‘‘ نے جو رنگ ڈھنگ اختیار کر لئے ہیں، وہ ’’رمضان المبارک‘‘ کے بعد اور اس عظیم نعمت کے نتیجے میں میسر آنے والی عید نہیں لگتی۔ ’’عیدالفطر‘‘ وہی عید ہے جو ’’رمضان المبارک‘‘ کے نتیچے میں حاصل ہوتی ہے۔ شکرانے اور الٰہی فطرت کی بیداری کا مظہر بننے والی عید ہم سے کہیں کھو گئی ہے۔ عید لہو و لعب فحشاء و منکرات کا مظہر بن جائے تو اسے ’’عیدالفطر‘‘ سے کیا نسبت۔
ع چہ نسبت خاک را باعالم پاک

دوسری طرف مسلمان تاجروں کو بھی اس موقع پر اپنے آپ پر نظرڈالنا چاہیے اور اپنے آپ سے پوچھنا چاہیے کہ کیا واقعی اُن کی فطرت انسانی بھی بیدار ہوئی ہے؟ ہر چیز کی قیمت عام دنوں سے سوا ہوجانا یہ ظاہر کرنے کے لئے کافی ہے کہ تاجروں کی فطرت نہ فقط بیدار نہیں ہوئی بلکہ اس پر حرص و طمع کی دبیز لہریں کچھ اور بھی بڑھ گئی ہیں۔ پرِ پرواز سے گرد و غبار جھاڑا نہیں گیا بلکہ غبار حرص کی کچھ تہیں مزید چڑھ گئی ہیں۔ جوتوں اور کپڑوں کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ بے لباس انسانوں کو مزید برہنہ اور ننگے پاؤں غریبوں کو کچھ اور بھی پابرہنہ کئے دیتا ہے۔ ایسے میں عوام کی منتخب حکومت بے بس دکھائی دیتی ہے۔ گزرتے ہوئے رمضان شریف کی طرف حسرت بھری نگاہ ڈال کر کہنے کو جی چاہتا ہے:
الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
آخر اس بیماری دل نے اپنا کام تمام کیا
البتہ اس ہنگامۂ حرص و ہوس سے پرے اللہ کے ایسے بندے وہ بھی ہیں جن کے وجود سے امید کی شمع روشن ہے۔ یہ وہی بندگان خدا ہیں، جنھوں نے روزہ رکھا تو اس کا مقصد ’’لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ‘‘ ہمیشہ نگاہوں کے سامنے رکھا اور عید آئی تو ان کی بیدار فطرت نے انھیں اللہ کے محروم بندوں سے بے نیاز نہیں رکھا۔ اللہ ان بندوں ہی کی برکت سے ایک عالم گیر حرکت وجود میں لائے گا اور ایک روز استحصالی ہاتھ کٹ جائیں گے اور بشریت کے پرچم مستضعفین کے ہاتھوں میں لہرائیں گے۔
خبر کا کوڈ : 473500
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش