0
Tuesday 14 Jul 2015 20:00

ابتدا سے جنیوا مذاکرات تک ۔۔۔۔۔۔۔۔ ایرانی ایٹمی پروگرام کے نشیب و فراز

ابتدا سے جنیوا مذاکرات تک ۔۔۔۔۔۔۔۔ ایرانی ایٹمی پروگرام کے نشیب و فراز
تحریر: محمّد عبّاس ہاشمی

1953ء سے 1961ء تک امریکہ کی کرسی صدارت پر براجمان رہنے والے آئزن ہاور (Eisenhower) نے 1957ء میں ایران کیساتھ "ایٹم برائے صلح" کے عنوان سے غیر فوجی ایٹمی مقاصد کیلیے باہمی تعاون کی ایک قرارداد پر دستخط کئے کہ جس کے تحت ایران تحقیقاتی مقاصد کیلیے چند کلوگرام افزودہ یورینیم امریکہ سے دریافت کرتا رہا اور یوں ایران کے ایٹمی سفر کا باقاعدہ آغاز ہوگیا۔ صرف چار سال کے بعد جوائنٹ چیفس آف اسٹاف امریکہ نے ایران میں ایٹمی ہتھیار نصب کرنے کی تجویز پیش کی کہ جو امریکی وزارت خارجہ نے مسترد کر دی۔ 1968ء میں ایران نے ایٹمی عدم پھیلاؤ کے سمجھوتے این پیٹی پر دستخط کر دیئے۔ 1974ء میں ایران کے شہنشاہ نے ایرانی ایٹمی توانائی ایجنسی کے قیام کا اعلان کر دیا اور اسی سال جرمن اور فرانسیسی کمپنیوں کیساتھ بوشہر اور بندر عباس میں دو ایٹمی بجلی گھروں کی تنصیب کے معاہدے پر بھی دستخط ہوگئے۔

1979ء میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے ردعمل میں امریکہ نے ایران کو افزودہ یورینیم کی فراہمی روک دی کہ جس کے بعد ایران میں ایٹمی بجلی گھروں کی تعمیر کے منصوبے نامکمل رہ گئے، لیکن ایران نے یورینیم کشف کرنے کا پروگرام جاری رکھا۔ دوسری جانب روس میں پوٹن کے برسر اقتدار آنے کے بعد ایران و روس تعلقات کا نیا دور شروع ہوا اور صدر پوٹن نے بوشہر کے نیمہ تمام ایٹمی بجلی گھر کی تعمیر کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے معاہدے پر دستخط کر دیئے کہ جس کے بعد ایران روس ایٹمی تعاون کا باقاعدہ آغاز ہوگیا۔

امریکہ اور اسرائیل ایران کے ایٹمی پروگرام سے بہت زیادہ ناخوش اور خائف تھے۔ چنانچہ انہوں نے ایران کے ایٹمی پروگرام کو مکمل طور پر تباہ کرنے کیلئے وسیع پیمانے پر پراپیگنڈہ مہم کیساتھ ایران کے گرد گھیرا تنگ کرنا شروع کر دیا اور مختلف قسم کی ظالمانہ اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں۔ ایرانی مذاکراتی ٹیم نے موجودہ صدر ڈاکٹر حسن روحانی کی قیادت میں اعتماد کی فضا قائم کرنے اور اس زہریلے پروپیگنڈے کو بے اثر کرنے کی غرض سے 23 فروری 2004ء میں بروکسل کے مقام پر ایک مفاہمتی یاد داشت پر دستخط کئے کہ جس کی رو سے ایران نے مختصر عرصے کیلئے یورینیم افزودہ کرنے والے سینٹری فیوجز کی ساخت اور آزمائش کو روک دیا۔ امریکہ و یورپ نے اپنا دباؤ برقرار رکھتے ہوئے 14 نومبر 2004ء کو پیرس میں ایران کیساتھ ایک اور مفاہمتی یاد داشت پر دستخط کئے کہ جس کے تحت ایران نے مختصر مدت کیلئے رضاکارانہ طور پر یورینیم کی افزودگی سے مربوط تمام فعالیتیں متوقف کر دیں کہ جس کے عوض یورپین مذاکرات کنندگان نے ایران کو پرامن مقاصد کے لئے افزودہ یورینیم فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی اور اسی طرح ایران کی عالمی تجارت پر عائد پابندیاں ہٹانے کا بھی وعدہ کیا لیکن یہ وعدے کبھی وفا نہ ہوسکے۔

ڈاکٹر احمدی نژاد کی حکومت کے پہلے برس میں ایران نے اعلان کیا کہ پیرس معاہدے کے تحت رضاکارانہ طور پر یورینیم کی افزودگی معلق کرنے کی مدت مکمل ہوچکی ہے کہ جس کے دوران ایران نے معاہدے پر مکمل عمل درآمد کیا ہے، لیکن یورپ و امریکہ نے اپنے وعدوں کی پاسداری نہ کرتے ہوئے طبی اور تحقیقاتی مقاصد کیلئے درکار افزودہ یورینیم فراہم نہیں کیا، اس لئے جنوری 2006ء میں ایرانی سپریم لیڈر کی ہدایت پر حکومت نے بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی کے معائنہ کاروں کی موجودگی میں UCF اصفہان کی فعالیت کا ایک مرتبہ پھر آغاز کر دیا، لیکن اقوام متحدہ نے اسی سال مارچ میں ایران سے ایک ماہ کے اندر تمام ایٹمی سرگرمیاں معلق کرنے کا مطالبہ کر دیا۔

ایران اپنے ایٹمی سفر کا تسلسل جاری رکھتے ہوئے اپریل 2006ء میں جوہری ایندھن کی سائیکلنگ آزمائشی بنیادوں پر کرنے میں کامیاب ہوگیا کہ جس کے بعد جون 2006ء میں سلامتی کونسل نے ایران کے خلاف مذمتی قرارداد 1696 منظور کی کہ جس میں ایران سے یورینیم کی افزودگی معلق کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اسی سال دسمبر میں اقوام متحدہ نے قرارداد نمبر 1737 منظور کی کہ جس میں ایران کی متعدد تجارتی، مالیاتی، صنعتی اور ایٹمی سرگرمیوں کو نشانہ بنایا گیا تھا اور باقاعدہ طور پر ایران کی ایٹمی فعالیتوں کو خطے کے لئے ایک سنگین خطرہ قرار دیا گیا، جبکہ تہران این پی ٹی کی شق نمبر چار کے تحت ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیتا رہا اور ایٹمی فعالیت کے حوالے سے تبعیض آمیز رویے کو تنقید کا نشانہ بناتا رہا۔

8 اپریل 2007ء کے سورج نے ایران کے افق پر ہمت، ثابت قدمی اور عزم راسخ کی ایک تاریخ رقم کر دی کہ جب سابق صدر محمود احمدی نژاد نے نہایت فخر کے ساتھ یہ اعلان کیا کہ آج سے ہمارا پیارا وطن جوہری کلب میں شامل ہوگیا ہے اور ہم صنعتی پیمانے پر یورینیم افزودہ کرسکتے ہیں کہ جس سے امریکہ میں کھلبلی مچ گئی، اسرائیل کے صیہونی لرزہ براندام ہوگئے اور دنیا کی سپر طاقتوں کو ایک قوم کے عزم و ارادے نے شکست فاش سے دوچار کر دیا۔ ایران جوہری ٹیکنالوجی کا استعمال صرف توانائی کے شعبہ ہی میں نہیں کر رہا بلکہ ایرانی ماہرین اسے طبی اور تحقیقاتی امور میں بھی بروئے کار لا رہے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل تک ایران تیس سے زائد ریڈیو دواؤں کی پیداوار کرنے کے ساتھ جوہری اور طبی تحقیقاتی مراکز میں خاص بیماروں کیلئے 90 سے 95 فیصد تک دوائیں بنانے میں کامیاب ہوچکا ہے اور یہ امر قابل ذکر ہے کہ مندرجہ بالا مقاصد کیلئے 20 فیصد افزودہ یورینیم درکار ہوتا ہے، لیکن اس کی فراہمی کے حوالے سے امریکہ و یورپ نے اپنا وعدہ پورا نہ کیا کہ جس کے ردعمل میں ایران نے بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی کی زیر نگرانی قم کے فردو ایٹمی ری ایکٹر میں جوہری ایندھن کی ری سائیکلنگ کے منصوبے کا آغاز کیا اور یورینیم کی 20 فیصد افزودگی کے عمل میں بھی کامیابی حاصل کی۔ اس وقت ایران صنعتی پیمانے پر یورینیم افزودہ کر رہا ہے اور اس کے پاس بیس ہزار کے لگ بھگ سینٹری فیوجز ہیں۔

ایران میں نئی اعتدال پسند حکومت قائم ہونے کے بعد امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے پھر یہ امید باندھ لی کہ سابق صدر خاتمی کے دور کی مانند دوبارہ ایران کے ایٹمی پروگرام کو کچھ عرصہ معلق کرنے کی سازش میں کامیاب ہوجائیں گے، لیکن ولی فقیہ نے ایک مرتبہ پھر تجلی دکھائی اور پرامن ایٹمی فعالیت کو ریڈ لائن قرار دے کر اندرونی اور بیرونی دشمنوں کو مایوس کر دیا۔ اب یہ شیطانی طاقتیں ناامید ہو کر ایک ایسے محفوظ راستے کی تلاش میں سر جوڑ کر بیٹھ گئیں، جس کے ذریعے وہ اس غیر ضروری ایجاد کردہ بحران سے خود کو نکال کر اپنے تاجروں، صنعتکاروں اور عوام کو بھی ریلیف دیں جو ایران پر پابندیوں کے باعث بالواسطہ متاثر ہو رہے تھے اور اس کے علاوہ متعدد ملٹی نیشنل کمپنیاں تجارت پر پابندیوں کے باعث بے تحاشا نقصان اٹھا رہی تھیں کہ فرانسیسی موٹر کار کمپنی "پژو" (Peugeot) کی دیوالیہ ہو کر بندش اس کی ایک مثال ہے، جبکہ دوسری طرف ایرانی حکام ان پابندیوں کو فرصت کے بہترین لمحات قرار دے کر اپنی معیشت کے بیرونی تجارت اور تیل پر انحصار کو کم سے کم کرنے کی سرتوڑ کوششوں میں مصروف تھے۔ چند ماہ قبل مشرق وسطٰی مطالعاتی مرکز واشنگٹن نے بھی اعتراف کیا کہ بین الاقوامی پابندیوں میں شدت کے بعد ایران نے گذشتہ ایک برس میں جس برق رفتاری سے معیشت میں تیل کے نعم البدل تلاش کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے، اس قدر پچھلی ایک دہائی میں بھی ممکن نہ ہوسکا تھا اور اگر یہی رفتار جاری رہی تو ایرانی تیل کی بین الاقوامی فروخت پر پابندی بالکل بے اثر ہوجائے گی اور کچھ یہی حال دیگر پابندیوں کا تھا۔

اس قدر درست ہے کہ آج کے گلوبل ویلیج یا ہٹ میں ایک دوسرے سے کٹ کر نہیں رہا جاسکتا، لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ استعمار کی غلامی کو تسلیم کر لیا جائے، چونکہ حضرت علی علیہ السّلام کا یہ فرمان ہے کہ اگر آپ دوسرے کے حق کو تسلیم کر لیں، لیکن دوسرا آپ کا حق تسلیم نہ کرے تو یہ غلامی ہے۔ دوسرے کا حق بھی تسلیم کرو اور اپنا حق بھی ضائع مت کرو، یہ عزت کی زندگی کا سنہرا اسلامی اصول ہے اور اسلامی جمہوریہ ایران کی دس سالہ اٹامک ڈپلومیسی کا خلاصہ اسی میں ہوتا ہے کہ ایران نے ایٹمی اسلحے کے عدم پھیلاؤ کے جائز بین الاقوامی معاہدے کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ شرعی ادلہ کے ذریعے اس کی توثیق بھی کی جبکہ دوسری طرف عالمی طاقتوں کے زبردست دباؤ اور اقتصادی بائیکاٹ کے باوجود اپنا حق منوا کر ہی دم لیا۔

جنیوا مذاکرات کا پہلا دور شروع ہوتے ہی ساری دنیا کے میڈیا کی توجہ کا مرکز بن گیا، لیکن کئی نشستوں کے بعد جب مفاہمت بالکل نزدیک تھی تو فرانسیسی وزیر خارجہ نے اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا اور میڈیا کے سامنے آکر برملا کہا کہ ہمارا ایجنڈا ایران کے ایٹمی پروگرام کو رول بیک کرنا ہے نہ کہ اسے یورینیم افزودگی کی اجازت دینا ۔۔۔ اور اس طرح مذاکرات آخری لمحوں میں تعطل کا شکار ہوگئے، لیکن غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ فرانسیسی وزیر خارجہ نے یہ اعتراف کر لیا کہ ہم گذشتہ دس برس سے ایران کا ایٹمی پروگرام رول بیک کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں اور ہمیں اس مشن پر قائم رہنا چاہئے۔ اگر ہم ایران کی یورینیم افزودگی کا حق تسلیم کر لیں تو دنیا کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔ البتہ ماہرین کے نزدیک فرانس کے بائیکاٹ کی وجہ اسرائیل کی چاپلوسی اور سعودیہ کی جانب سے اسلحے کی بلین ڈالرز ڈیل کا لالچ تھا۔

بہرحال جنیوا مذاکرات کے پہلے دور میں فرانس کی عہد شکنی کے باعث مذاکرات بے نتیجہ رہے، لیکن تمام رہنماؤں نے بات چیت کا سلسلہ جاری رکھنے پر اتفاق کیا اور کچھ ہی دنوں کے بعد اسی جنیوا میں ہی ایک مرتبہ پھر مذاکراتی عمل شروع ہوگیا۔ اب ایران نے کھل کر اپنی تشویش کا اظہار کیا کہ ہمیں P5+1 پر بالکل اعتماد نہیں ہے۔ اگر عالمی طاقتوں نے یہ موقع ضائع کر دیا تو پھر انہیں بہت پچھتاوا ہوگا۔ ان مذاکرات کی خاص بات یہ ہے کہ دونوں مرتبہ جب ایرانی وفد جنیوا مذاکرات میں مشغول تھا تو عین اسی وقت ایران کے سپریم لیڈر اور امت مسلمہ کے روحانی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای مدظلہ العالٰی نے بے مثال امریکہ مخالف تقریریں کیں، جن میں مذاکراتی ٹیم اور تمام اہل دنیا پر واضح کیا کہ امریکہ ایک مکار لومڑی ہے اور ہرگز قابل اعتماد نہیں ہے، جبکہ اسرائیل امریکہ کی ناجائز اولاد اور باؤلا کتا ہے۔ گویا رہبر معظم مذاکرات کے بعد کی سازش کو دیکھ رہے تھے کہ انقلاب دشمن گروہ اسے ایران و امریکہ کی صلح کا عنوان دے کر عالم اسلام میں مایوسی کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کرے گا، لہٰذا انہوں نے اس غلط فہمی کا بڑی فراست سے سدّباب کر دیا۔

آخر کار جنیوا مذاکرات کا اعلامیہ جاری ہوا، جس کے بعد پورے ایران میں جشن و سرور کی لہر دوڑ گئی اور ایک دوسرے کو مبارکبادوں کا سلسلہ شروع ہوگیا جبکہ اسرائیلی وزیراعظم کا چہرہ سیاہ تھا، اس کی بدحواسی عیاں تھی اور وہ بڑی مایوسی سے اعتراف کر رہا تھا کہ ہمیں شکست دے کر ایران اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ وطن عزیز پاکستان کے عوام و حکومت نے بھی اس تاریخی معاہدے کا پرجوش خیر مقدم کیا اور فوری طور پر پاکستانی وزیر پٹرولیم نے گیس پائپ لائن منصوبے کیلئے ایران کا دورہ کیا، تاکہ اس عظیم اسٹریٹیجک منصوبے پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جاسکے۔

حالات حاضرہ پر نظر رکھنے والے لوگوں سے مخفی نہیں ہے کہ ایٹمی پروگرام کی اس سربلند و سرفراز منزل کا ایک انتہائی اہم زینہ سابق ایرانی صدر کا آٹھ سالہ دور حکومت ہے، جسے ایران کی ایٹمی تاریخ کا سنہرا دور کہنا بے جا نہ ہوگا ۔۔۔۔ جبکہ دوسری طرف اس حکومت کے دور میں جتنی پابندیاں عائد ہوئیں اور مہنگائی کا طوفان برپا ہوا، وہ بھی بے سابقہ ہیں، لیکن جنیوا مذاکرات کے بعد امریکی وزیر خارجہ نے بھی یہ اعتراف کیا کہ پابندیوں سے ہمیں بالکل کامیابی نہیں ہوئی، چونکہ جب پابندیاں شروع ہوئیں تو ایران کے پاس دو سو سینٹری فیوجز تھے، لیکن آج دس سال گزرنے کے بعد ان کی تعداد ہزاروں میں ہے اور اگر ہم اپنی پالیسی تبدیل نہ کرتے تو پھر ایٹمی پروگرام ہمارے ہاتھ سے نکل جاتا۔ اسی طرح اوباما نے بھی واضح اعتراف کیا کہ پابندیوں سے ایٹمی پروگرام کو تقویت ہی ملی ہے اور اس معاہدے کے سوا ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔

ہمارے لئے سوچنے کی بات یہی ہے کہ آیا پچھلی ایک دہائی سے دنیا کو "ایٹم بم آف خمینی" سے ہراساں کرکے ایران فوبیا کو رواج دینے کی وجہ عالمی طاقتوں کی ایرانی ایٹمی پروگرام کے پرامن ہونے کے حوالے سے تشویش و خدشات تھے، جو اب معاہدے کے بعد دور ہوگئے ہیں؟ کیا ایران پر گذشتہ دس برس میں عائد کی جانے والی کمر توڑ، اقتصاد شکن اور مسلمہ عالمی قوانین کی مخالف ظالمانہ پابندیاں صرف ایرانی نیوکلئیر اسلحے کا راستہ روکنے کے لئے تھیں؟! کیا ایرانی ظالم شہنشاہ کے ہاتھوں ایٹمی پروگرام کی ابتدا اس لئے تھی کہ ایرانی ایک بہت ذمہ دار اور قابل اعتماد قوم ہیں، جبکہ انقلاب کے بعد اپنے لگائے ہوئے پودے کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے دس سالہ سفارتی و اقتصادی چڑھائی اس لئے کی گئی کہ اب ایرانیوں کا قبلہ بدل گیا ہے اور وہ امن کی راہ سے منحرف ہوگئے ہیں؟! نہیں! ہرگز ایسا نہیں ہے، چونکہ انقلاب سے پہلے بھی ایران کا محل وقوع یہی تھا اور اس وقت بھی ایران اسی خطہ ارضی پر ہے۔

انقلاب سے پہلے بھی ایران این پی ٹی کا رکن تھا اور اب بھی ہے، انقلاب سے پہلے بھی ایران کو پرامن ایٹمی فعالیت کا حق تھا اور اب بھی ہے، چونکہ یہ ایران سمیت این پی ٹی کے دیگر رکن ممالک کا ذاتی حق ہے، جو کسی کے تسلیم نہ کرنے سے ساقط نہیں ہوسکتا اور کسی کے تسلیم کر لینے سے قابل اثبات بھی نہیں ہے۔ صرف اس قدر معلوم ہوگا کہ تسلیم کرنے والے نے انصاف پسندی کا مظاہرہ کیا ہے، جو اس کو بہت پہلے کر لینا چاہئیے تھا بلکہ الٹا اس پر سوال ہوگا کہ جب یہ حق مسلمہ بین الاقوامی اصولوں کے تحت 1968ء سے ہی ایران کا تھا تو تم نے اسے تسلیم کرنے میں اس قدر تساہل اور ٹال مٹول کیوں کی اور اس مدت میں ایرانی قوم و ملت کیساتھ دیگر ہمسایہ ممالک کو بھی کھربوں ڈالر کا نقصان پہنچانے کا تمہارے پاس کیا جواز تھا؟ اور تم کس منہ سے ایٹمی عدم پھیلاؤ کے پرچمدار ہو، جبکہ اسرائیل سمیت دیگر استعمار پسند اور آمرانہ طرز حکومت کے حامل ممالک کی جانب سے ایٹمی اور کیمیائی ہتھیاروں کی ساخت و استعمال پر خاموش تماشائی بنے رہتے ہو، لیکن اسلامی جمہوریہ ایران کی پرامن ایٹمی ٹیکنالوجی پر واویلا مچا رہے ہو ؟؟؟!!

دراصل اس دوہرے رویے کی وجہ صرف اسلام ہے، چونکہ انقلاب سے پہلے ایران میں اسلام نافذ نہیں تھا، جو انقلاب کے بعد اصلی ترین شکل میں نافذ ہوا۔ بس یہ اسلام کا عادلانہ نظام ہی ہے، جو روز اول سے فرعونوں، نمرودوں، ابو جہلوں، امویوں، عباسیوں اور آج کے سرمایہ داروں کو کھٹکتا ہے۔ علاوہ ازیں ایران کے اسلامی نظام کو زبردست عوامی حمایت اور عالمی مقبولیت حاصل ہے، جس سے خطّے کی عرب بادشاہتیں اور مغرب کی نام نہاد جمہوریتیں محروم ہیں۔ یہ بادشاہتیں اور جعلی جمہوریتیں اسلامی جمہوریہ ایران کی ترقی و پیشرفت کا سن کر صرف اس لئے سیخ پا ہوجاتی ہیں کہ اگر یہ نظام اکیسویں صدی میں اسی طرح سرعت سے ترقی و ٹیکنالوجی کی منازل طے کرتا رہا تو کہیں ہماری عوام کے لئے بھی مایہ امید نہ قرار پائے اور وہ اس طرح کے عادلانہ اور ضدّ سرمایہ داری نظام کو اپنے ملکوں میں نافذ کرنے کی جدوجہد شروع نہ کر دیں۔ بس اب ان کا سارا ھمّ و غم ہی یہ ہے کہ اس نظام کو بین الاقوامی پٹڑی سے اتار دیا جائے، اس کی راہ میں طرح طرح کی رکاوٹیں کھڑی کر دی جائیں، اس نظام کا سیاسی، فکری اور اقتصادی محاصرہ کرکے اسے تنہا کر دیا جائے اور اس کے خلاف اس قدر پروپیگنڈہ کیا جائے کہ رائے عامہ منحرف ہو جائے۔

بس یہیں سے آپ اندازہ لگا لیں کہ کچھ ممالک میں عرب و عجم کی چپقلش کا پرچم بلند کیا گیا ہے، مغرب میں اسے آزادی مخالف نظام کہہ کر لوگوں کو متنفر کیا جاتا ہے، کافروں میں اسے خطرناک ترین اسلامی ایٹمی بم کا نام دیا جاتا ہے اور مسلمانوں میں اسے شیعہ انقلاب کہہ کر محدود کیا جاتا ہے کہ وطن عزیر پاکستان میں تکفیری ٹولے کا نطفہ انقلاب سے اہلسنت بھائیوں کا رشتہ و ناطہ ختم کرنے کیلئے عرب حکومتوں کی براہ راست نگرانی میں منعقد کیا گیا، جس کے ہاتھ سے نہ شیعہ محفوظ ہیں اور نہ ہی اہلسنت، نہ پولیس محفوظ ہے اور نہ تاجر۔ یہی گذشتہ برس کے سانحہ راولپنڈی کا جائزہ لیں کہ کس طرح تربیت یافتہ دہشت گردوں کو پٹرول، آتش گیر مادے اور اسلحے کیساتھ جلوس کے داخلی روٹ میں مورچہ زن کیا گیا اور پھر آتش فتنہ بھڑکانے کی غرض سے شر انگیز تقریر کرکے جلوس پر فائرنگ اور پتھراؤ شروع کیا اور پھر خود مسجد و مارکیٹ کو بھی جلا ڈالا اور اس کی آڑ میں سوچی سمجھی سازش کے تحت چھ امامبارگاہیں اور مسجدیں نذر آتش کیں، جس کے نتیجے میں سینکڑوں قرآن مجید بھی شہید ہوگئے۔ یہ کسی مسلمان کا کام نہیں ہوسکتا، یہ دین فروش اور عالمی خفیہ ایجنسیوں کے تربیت یافتہ دہشت گردوں کی کارروائی ہے، جو پورے ملک میں آتش فتنہ بھڑکانا چاہتے تھے، جس کا ایک مظاہرہ ملتان اور دیگر کچھ علاقوں میں تکفیری ٹولے کی سفاکیت اور درندگی کی شکل میں سامنے آیا، لیکن شیعہ و اہلسنت رہنماؤں نے باہمی وحدت و اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے دہشت گرد ٹولے سے اپنی لاتعلقی کا اظہار کرکے حکومت سے تکفیری وحشیوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا اور اس حوالے سے میڈیا نے بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرکے اس دہشت گردانہ کارروائی کو شام عاشور تک نشر نہیں کیا۔

بہرحال دشمن یہ جان لے کہ اس طرح کی مذموم کارروائیوں کے ذریعے شیعہ و سنی کے درمیان فاصلہ ایجاد نہیں کرسکے گا اور ہم سب مل کر اس اسلامی انقلاب و نظام کی حمایت جاری رکھیں گے، جس نے نے آٹھ سالہ خون آشام جنگ سے لے کر دس سالہ طویل ڈپلومیٹک مذاکرات تک ہر میدان میں حیدری شجاعت اور فاطمی منطق کے سائے میں فتح حاصل کی ہے، دشمن کے دانت ہمیشہ کھٹے کئے ہیں اور آئندہ بھی اسے منہ کی کھانی پڑے گی۔ دعا ہے کہ خداوند عالم امت مسلمہ کو اس عالمگیر اسلامی انقلاب کی شکل میں عطا کردہ اپنی بہترین نعمت کا قدردان بننے کی توفیق عطا فرمائے اور اس انقلاب کے ذریعے دنیا کے کمزوروں کو طاقت کے نشے میں ڈوبے بدمستوں پر غلبہ عطا فرمائے۔ 
خبر کا کوڈ : 473823
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش