0
Thursday 16 Jul 2015 14:50

داعش دہشتگردوں نے نمازِ عید پر پابندی عائد کردی!

داعش دہشتگردوں نے نمازِ عید پر پابندی عائد کردی!
تحریر: طاہر یاسین طاہر

المیہ یہ نہیں کہ ہم القاعدہ، النصرہ، الشباب، طالبان کی چھوٹی بڑی شاخوں اور بوکو حرام کی’’حرام کاریوں‘‘ کا شکار ہیں۔ بلکہ المیہ یہ ہے کہ استعماری طاقتوں کے ایجنٹ جو دین میں بدعت کے نام پر قتال کرنے کو واجب سمجھتے تھے، اب خود دینِ مبین کے الہٰی احکامات کو ہی تبدیل کر رہے ہیں۔ طالبان کی افغانی شکل ہو یا پاکستانی چہرہ، بوکو حرام والے ہوں یا الشباب والے، یہ سب اپنے اپنے متشدد رویوں کو ہی عین اسلام سمجھنے لگے ہیں۔ اقبال کو یاد کئے بغیر چارہ نہیں ’’خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں۔‘‘ داعش کے مظالم اور اسلام دشمنی کی ایسی ایسی داستانیں ہیں کہ کئی دفتر لکھے جاسکتے ہیں۔ کس طرح انھوں نے عورتوں، بچوں، بوڑھوں، جوانوں اور کمزور افراد کو اپنی بربریت اور ہوس ناکی کا نشانہ بنایا۔ اب یہ بات آشکارا ہے کہ داعش کی تخلیق میں اسرائیل، ترکی، قطر اور آلِ سعود برابر کے شریک ہیں۔

اخباری دانش انسان کو کسی کام کا نہیں چھوڑتی۔ ہمارے ہاں ساری عالمی خبریں بالخصوص مشرقِ وسطٰی کے حوالے سے آنے والی خبریں بین الاقوامی میڈیا کے ذریعے ہم تک پہنچتی ہیں، ہم جانتے ہیں کہ بین الاقوامی میڈیا کے ذریعے سے آنے والی خبریں ایک خاص زاویہ رکھتی ہیں۔ مشرقِ وسطٰی کی ہیئت تبدیل ہو رہی ہے، اگر کوئی اسے تسلیم نہیں کرتا تو وہ ’’داعش کی جنت‘‘ میں رہتا ہے۔ بہت کچھ لکھنا چاہ رہا ہوں۔ مگر دل گرفتہ بھی ہوں۔ دوست احباب کہتے ہیں کہ داعش کے مظالم آشکار کرنا چھوڑ دو، مگر میں کیسے ظالم کے ظلم پہ خاموش رہ سکتا ہوں؟ قتیل کو کون نہیں جانتا؟ طرح دار شاعر کہہ گیا ہے کہ
دنیا میں قتیل اس سا منافق نہیں کوئی
جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا


کئی ایک بار داعش کے سہولت کاروں کی جانب سے فون پر دھمکیاں بھی ملیں۔ face book پہ تو کسی نے وہ ’’جہادی ترانے‘‘ سنائے کہ رہے نام اللہ کا۔ غالباً 27 مئی کو ’’پنجاب کے مدارس سے مشکوک افراد کی گرفتاری‘‘ کے عنوان سے ایک کالم لکھا جو کہ ایک معتبر قومی روزنامے میں شائع ہوا۔ کالم شائع ہوتے ہی ایک کالعدم جماعت جو نئے نام سے کام کر رہی ہے، اس کے کسی ’’ذمہ دار‘‘ نے فون کرکے کہا کہ باز آجاؤ ورنہ ہم اپنی ’’ذمہ داری‘‘ ادا کرنا جانتے ہیں۔ دھمکی اور کسے کہتے ہیں؟ مگر یہ جانتے نہیں کہ ’’اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی۔‘‘ ہفتہ عشرہ ادھر کی بات ہے۔ مختلف اخبارات پڑھ رہا تھا کہ عالمی دہشت گرد تنظیم جو اسامہ بن لادن و النصرہ کی سگی اولاد ہے، ان کا ایک فتویٰ نظر سے گذرا۔ حیرت کدے میں ڈوب گیا۔ سوال آیا کہ کہاں ہیں وہ ’’شمشیر زن‘‘ جن کے دلوں میں برمی مسلمانوں کے لئے ہول اٹھتے ہیں؟ کہاں ہیں وہ علمائے اسلام جو ’’باندی‘‘ سے بغیر نکاح کے جنسی تعلق کو مباح قرار دیتے ہیں اور وہ بھی ٹیلی ویژن کے لائیو پروگرام میں۔ فتوے کے لفظ دھراؤں کیسے؟ کلیجہ منہ کو آتا ہے، مگر اخبار نویس پہ لازم ہے کہ وہ اس فتنے کو آشکار کرے۔ جس میڈیا گروپ سے یہ خبر لی کم و کاست اسے اسی طرح رقم کر رہا ہو۔

’’عراق، شام اور دیگر عرب ممالک میں سرگرم وہابی دہشت گرد تنظیم داعش نے عراقی شہر موصل اور اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں عیدالفطر کی نماز پڑھنے پر پابندی عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ عید کی نماز غیر شرعی اور غیر اسلامی فعل ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق عراق اور شام میں سرگرم وہابی دہشت گرد تنظیم داعش نے عراقی شہر موصل میں اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں عید کی نماز پڑھنے پر پابندی عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ عید کی نماز غیر شرعی اور غیر اسلامی فعل ہے اور جو کوئی بھی نماز عید کی ادائیگی کرے گا، اس کا سر قلم کر دیا جائے گا۔ میڈیا اطلاعات کے مطابق داعش نے عید کی نماز کو غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے موصل میں اس کی ادائیگی پر پابندی عائد کر دی ہے۔

یہ بات ہر باخبر صحافی جانتا ہے کہ داعش دہشت گرد تنظیم اسرائیلی نقشِ قدم پر گامزن ہے۔ اس تنظیم کو اسرائیل، امریکہ، سعودی عرب اور ترکی و قطر کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ مذکورہ ممالک امریکی و اسرائیلی اتحاد کا حصہ ہیں، جو اسلام اور مسلمانوں کو داعش کے ذریعے بدنام کرنے کی ناپاک کوشش کر رہے ہیں۔‘‘ اس فتویٰ کے بعد لکھنے کو کیا رہ جاتا ہے؟ داعش کا عقیدہ یہ ہے کہ وہ تمام احکامات قرآنِ مجید سے لیتے ہیں۔ جیسے خوارج کا عقیدہ تھا۔ لہٰذا ان (داعش والوں) کی دانست میں نمازِ عید کا واضح ذکر قرآنِ مجید میں نہیں ہے۔ اس لئے یہ عمل غیر شرعی اور غیر اسلامی ہے۔ یہ بات ریکارڈ کا حصہ ہے کہ داعش کا امیر خانہ کعبہ کو شرک کا سب سے بڑا مرکز قرار دے چکا ہے اور اس نے دھمکی دی ہوئی ہے کہ وہ خانہ کعبہ پر حملہ کرے گا۔ اس امر میں کلام نہیں کہ داعش کی جانب سے یہ دینِ مبین کا نیا برانڈ ہے۔ داعش کا سرپرستِ اعلٰی اسرائیل خود قبلہ اول میں اجتماعی عبادات کا اہتمام کرتا ہے۔ دنیا کے تمام الہٰی ادیان میں اجتماعی عبادات کا تصور موجود ہے۔ مثلاً کرسمس کا تہوار، ہندو دھرم کی ہولی کا تہوار، بدھ مت کے اجتماعی عبادات کے تہوار اور کئی ایک مثالیں۔

قوی امکان ہے کہ داعش والوں نے سمجھا ہو کہ عید الفطر کا واضح حکم قرآن میں موجود نہیں، اس لئے یہ ایک غیر شرعی اور خلافِ دین فعل ہے۔
میرا سوال مگر یہ ہے کہ ’’جہاد النکاح‘‘ کا حکم قرآن کی کس سورہ میں آیا ہے؟
یہ کہاں آیا ہے کہ عورتوں کو زبردستی کنیز بنا کر ان سے اپنی جنسی تسکین پوری کرو؟
کلمہ گو مسلمانوں کی جان و مال اور ان کی عزت و آبرو کو لوٹنا کون سا قرآنی حکم ہے؟
کیا مسلمانوں کی تکفیر کرنا اسلامی احکامات میں سے ہے؟
کیا جس حجۃ الوداع کے موقع پر نبی اکرم (ص) نے خطبہ دیا اور اس خطبے کے فوراً بعد یہ آیت نازل ہوئی، جس کا مفہوم یہ ہے کہ ’’آج کے دن ہم نے تمھارے دین کو مکمل کر لیا ہے۔‘‘ جس دین کی تکمیل کا حکم آگیا تھا تو کیا اس وقت مسلمان نمازِ عید ادا نہیں کرتے تھے؟

بلکہ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی تو مسلمان نمازِ عید ہی ادا کرکے آ رہے تھے۔ اس کے بعد بھی صدیوں مسلمان بڑے جوش و خروش اور خشوع و خصوع کے ساتھ عیدین کی نمازیں ادا کرتے چلے آرہے ہیں۔ اگر خدانخواستہ عید کی نماز غیر شرعی اور حرام ہے تو پھر اس کی آڑ میں لیا جانے والا ’’فطرانہ‘‘ کیسے جائز ہوگیا؟ آخری تجزیے میں داعش سے القاعدہ اور النصرہ سے الشباب و بوکو حرام اور طالبان کی کج فہمی نے اسلام کا معتدل چہرہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ کہاں ہیں ان کی حمایت میں جلوس نکالنے والے علمائے اسلام؟ وہ آگے بڑھ کر داعش کے اس فتوے کی مذمت کیوں نہیں کرتے؟ قبل اس کے کہ داعش والے نعوذ باللہ کلمہ کو ہی ’’شرک‘‘ قرار دے دیں، عالمِ اسلام کے مجاہدینِ حق کو آگے بڑھ کر دینِ مبین کی نصرت کرنی چاہیے۔
خبر کا کوڈ : 474251
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش